اطاعت کا نفع اورنافرمانی کا نقصان (بائیسواں باب)

اطاعت کا نفع اورنافرمانی کا نقصان کے عنوان سےبائیسویں باب میں  حکمت نمبر 211 اور 212ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

جیسا کہ حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے:۔

211) لا تَنْفَعُهُ طَاعَتُكَ وَلا تَضُرُّهُ مَعْصِيَتُكَ ، وَإِنَّمَا أَمَرَكَ بِهَذَه وَنَهَاكَ عَنْ هَذَه لِمَا يَعُودُ إِلَيْكَ.

212) لا يَزِيدُ فِي عِزِّهِ إِقْبَالُ مَنْ أَقْبَلَ عَلَيْهِ ، وَلا يَنْقُصُ مِنْ عِزِّهِ إِدْبَارُ مَنْ أَدْبَرَ عَنْهُ.

تمہاری اطاعت اللہ تعالیٰ  کو فائدہ نہیں پہنچاتی ہے۔ اور تمہاری نافرمانی اس کو نقصان نہیں پہنچاتی ہے۔ اور اس نے تم کو جو اطاعت کا حکم دیا، اور نا فرمانی سے منع کیا ہے۔ وہ اس لئے کہ اطاعت کا نفع اور نافرمانی کا نقصان تمہاری    ہی طرف لوٹتا ہے۔ اللہ تعالیٰ  کی طرف متوجہ ہو کر اس کی طرف بڑھنے والے کا بڑھنا، اس کی عزت میں کچھ اضافہ نہیں کرتا ہے۔ اور اس کی طرف سے منہ پھیر کر پیچھے ہٹنے والے کا پیچھےہٹنا، اس کے مرتبہ اور شان کو کچھ کم نہیں کرتا ہے۔

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں : اللہ سبحانہ تعالیٰ ہر شے سے بے نیاز ہے۔ اور ہر شے اس کی محتاج ہے اطاعت کرنے والوں کی اطاعت سے اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ہے۔ اور معصیت کر نے والوں کی معصیت سے اس کا کچھ نقصان نہیں ہوتا۔

مناجات کے سلسلے میں یہ بیان ہے ۔اے میرے معبود تیری رضا مندی اس سے پاک ہے کہ اس کے لئے تیری طرف سے اس کے لئے کوئی سبب ہو۔ تو پھر میری طرف سے اس کے لئے کوئی سبب کیسے ہو سکتا ہے؟ تو اپنی ذات میں اس سے بے نیاز ہے کہ تجھ کو تیری طرف سے کوئی فائدہ پہنچے ۔ پھر میری طرف سے تو کیوں بے نیاز نہ ہوگا ۔ ؟

لہذا اے بندو یا انسانو ! تمہاری    اطاعت اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی ہے کہ وہ اس کا محتاج ہو۔ اللہ تعالیٰ  اس سے پاک ہے۔ اور تمہاری    معصیت سے اس کا کچھ نقصان نہیں ہوتا ہے کہ وہ اس سے عاجز ہو۔

وَ هُوَ الْقَاهِرُ فَوقَ عِبَادِهِ وہ اپنے بندوں پر غالب ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس نے تم کو اطاعت کا حکم صرف اس لئے دیا ہے تا کہ وہ تم کو اپنی طرف قریب کرے:۔

إِنَّ رَحْمَةَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِيْنَ   بے شک اللہ تعالیٰ کی رحمت احسان والوں سے قریب ہے۔

اور اس نے معصیتوں سے تم کو اس لئے منع کیا ہے کہ اس نے معصیت کو اپنی بارگاہ سے دوری کی علامت مقرر کی ہے۔

لہذا اللہ تعالیٰ  سے تم کو جس شے کا حکم دیا ہے اس میں قرب اور حضوری کے آداب ہیں اورجس شے سے تم کو منع کیا ہے۔ اس میں نقصان اور بارگاہ سے دوری ہے۔ کیونکہ اس میں بے ادبی ہے

اور تحقیق یہ ہے:۔ کہ لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ وہ جو کچھ کرتا ہے اس کے متعلق سوال نہیں کیا جا سکتا ہے۔ (یعنی وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہے اور ان لوگوں سے سوال کیا جائے گا۔ (یعنی سب لوگ اس کے سامنے جواب دہ ہیں ۔ )

اس کی طرف متوجہ ہو کر بڑھنے والوں کا بڑھنا اس کی عزت اور مرتبہ میں کچھ اضافہ نہیں کرتا ہے۔ اس لئے کہ اس کی عزت اور مرتبہ از لی قدیم ہے اور اس سے منہ پھیر کر پیچھے ہٹنے والے کا پیچھے ہٹنا اس کی شان میں کچھ کمی نہیں کرتا ہے۔ اس لئے کہ وہ کل عالم سے بے نیاز ہے ۔ حدیث قدسی میں ہے :-

لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ، وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ، كَانُوا عَلَى أَتْقَى قَلْبِ عَبْدٍ مِنْكُمْ، لَمْ يَزِدْ ذَلِكَ ‌فِي ‌مُلْكِي ‌شَيْئًا، وَلَوْ كَانُوا عَلَى أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ، لَمْ يَنْقُصْ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِي شَيْئًا

اگر تمہارے  اگلے اور پچھلے اور انسان اور جن سب کے سب صرف ایک سب سے زیادہ پر ہیز گار شخص کے قلب پر جمع ہو جا ئیں تو ان کے جمع ہونے سے میرے ملک میں کچھ زیادتی نہیں ہوگی اور اگر تمہارے  اگلے اور پچھلے اور انسان اور جن سب کے سب صرف ایک سب سے زیادہ بدکارشخص کے قلب پر جمع ہو جائیں۔ تو اس سے میری ملک میں کچھ کمی نہیں ہوگی۔ اس حدیث کو حضرت امام مسلم نے مسلم شریف میں بیان کیا ہے۔   اور اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام قدوس ہے اس کے معنی ہے ۔ پاک۔

بعض عارفین نے فرمایا ہے :۔ قدوس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہر ایسے کمال سے پاک ہے۔جو اس کی ذات کے لائق نہیں ہے اور اس طرح نہیں کہا جا سکتا ہے۔ کہ وہ ہر نقائص سے پاک ہے۔ کیونکہ اس کی طرف نقائص کی نسبت درست ہی نہیں ہے۔ پھر اس سے اس کو پاک سمجھنا کیسا ۔ اس لئے کہ کسی شے سے نفی اس کی کی جاتی ہے۔ جس کا ثابت کرنا اس کے لئے درست ہو ۔ لہذا اگر تم اس شے کی نفی کرو گے۔ جس کا اثبات ہی درست نہیں ہے۔ تو اکثر اوقات یہ نقص ہو جائے گا۔ جیسا کہ کہا جائے کہ بادشاہ قصاب نہیں ہے۔ تو اس طرح کہنے سے اس کی ذات میں نقص پیدا ہو جائے گا۔ اور جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ  کو نقائص سے پاک سمجھنے کی اجازت دی ہے۔ اس سے ان کی مراد کمال تقدیس و تنزیہ ( کامل پاکیزگی ) ہے۔ اور بعض عارفین نے فرمایا ہے:۔

اگر خالق کی پاکیزگی مخلوق اپنی عاجز زبان سے بیان کرنا چاہے تو وہ نہیں کر سکتی ہے۔ اس لئے حضرت نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے۔

لَا أَحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا اثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ میں تیری ثنا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ہوں ۔ تو اسی طرح ہے جس طرح تو نے اپنی تعریف کی ہے۔

پھر بعض عارفین نے اس کو اس طرح فرمایا ہے : ۔ اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کے اسمائے حسنے سب کے سب کل ہیں۔ اور مخلوق جزو ہے۔ اور جزو کل کو نہیں گھیر سکتا ہے نہ اس کی حقیقت کو پا سکتا ہے۔ لہذا ایسی تاویلوں سے پر ہیز کرنا چاہئے ۔ جو اللہ تعالیٰ  کی مقدس شان کے لائق معنی سے خارج کر دینے والی ہیں۔ یہ تسلیم کرنا چاہئے ۔ کہ اللہ تعالیٰ  کو اللہ تعالیٰ  کے سوا کوئی نہیں پہچان سکتا ہے۔

اس حقیقت کے متعلق ایک عارف کا شعر ہے:۔

لَا يَعْلَمُ اللَّهُ إِلَّا اللَّهَ فَاتَّئِدُوا                               وَالَّدِيْنُ دِينَانِ إِيْمَانِ وَإِشْرَاكٌ

اللہ تعالیٰ  کواللہ تعالیٰ  کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے۔ لہذا تم لوگ اس کے جاننے سے عاجز بن جاؤ۔ اور دین دو ہیں ۔ ایمان اور شرک

وَلِلْعُقُولِ حُدُودٌ لَاتُجَاوِزُھَا                           وَالْعِجْزُ عَنْ دَرُكِ الْإِدْرَاكِ إِدْرَاکٌ

اور عقلوں کے لئے حدیں مقرر ہیں۔ وہ اپنی حدوں سے آگے نہیں جاسکتی ہیں ۔ اور ادراک کے پانے سے عاجز رہنے ہی کا نام ادر اک ہے۔ یعنی سمجھنے سے عاجز ہونے کا نام سمجھتا ہے۔

اور یہ معرفت کی ابتداہے

اور معرفت کا وسط ( درمیان ) :- حقیقت کے سمندر سے چلو بھر پانی پینا اور طریقت کے اسرار سے آگاہ ہونا ہے۔ اور عوام کی کل عقلیں اس کو نہیں سمجھ سکتی ہیں۔ اس میں صرف خواص ہی غوطہ لگاتے ہیں۔ لہذا جو کچھ بیان کیا گیا ہے۔ اس میں نام سے ذات پر دلیل بیان کی گئی ہے اور یہ  ایسا مقام ہے، جہاں نام اور ذات اور صفت اور موصوف کے درمیان فرق ختم ہو جاتا ہے۔

پھر فرمایا:۔ اسی بنا پر صوفیائے کرام نے فرمایا ہے :-

جمع :۔ فرق کا ختم ہو جانا ہے۔ اس کے بعد صرف جمع الجمع باقی رہتا ہے ۔ اور یہی معرفت کی انتہا اور اصل مقصد ہے۔ لہذا معرفت کی ابتدا – صنعت سے صانع پر دلیل کرنا ہے اور معرفت کا وسط :- صانع ہےصنعت پر دلیل کرنا ہے۔ اور معرفت کی انتہا: اللہ تعالیٰ  کے سوا ہرشے کا فنا ہو جاتا ہے۔

كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانْ وَّ يَبْقَىٰ وَجُهُ رَبِّكَ ذُوا الْجَلَالِ وَالْإِ كَرامِ جو کچھ زمین پر ہے ، سب فنا ہو جانے والا ہے۔ اور صرف تمہارے  بزرگ و برتر رب اللہ تعالیٰ  کی ذات اقدس باقی رہے گی ۔

یہ حضرت شطیبی رضی اللہ عنہ نے مختصر طور پر بیان فرمایا ہے۔

یہاں بائیسواں باب ختم ہوا۔

باب کا حاصل

کدورتوں سے پاک ہو کر انوار کے حاصل کرنے کی رغبت دلانا ہے۔ تو جب تم اپنے قلب کو اغیار کی کدورتوں سے پاک کر لو۔ پھر بھی تمہارے  لئے معرفت کا دروازہ نہ کھلے، تو تم اللہ تعالیٰ  کی بخشش کو دور نہ سمجھو۔ بلکہ تم اس کی طرف اپنے متوجہ ہونے میں کوتاہی سمجھو۔ اور اپنے رب کی طرف بندے کی توجہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی ہے، جب تک کہ وہ ہمہ اوقات اس کی طلب میں مستغرق نہ رہے۔ لہذاعمر کے ہر وقت کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ اور وقت کی حفاظت بندے کے لئے اس وقت تک ناممکن ہے، جب تک کہ وہ کائنات کی غلامی سے آزاد نہ ہو جائے ۔ اور جب وہ ما سوای کی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے تو وہ اپنے مولائے حقیقی کا حقیقی بندہ  ہو جاتا ہے۔ اس وقت اللہ سبحانہ تعالیٰ  اپنی بارگاہ کی حضوری کے لئے اس کو منتخب کرتا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ  کا نہ کوئی فائدہ ہے، نہ نقصان۔ اور در حقیقت اس کا فائدہ اس کی طرف اور اس کا نقصان اس کے اوپر لوٹتا ہے۔ اس لئے کہ توجہ کرنے والے کی توجہ سے اللہ تعالیٰ  کی عزت میں کچھ زیادتی نہیں ہوتی ہے۔ اور منہ پھیر کر پیچھے ہٹنے والے کے پیچھےہٹنے سے اس کی عزت میں کچھ کمی نہیں ہوتی ہے۔ اور جو شخص بھی اس کے قریب پہنچا ہے، وہ صرف اس کے فضل سے پہنچا ہے۔ اور جو شخص اس سے دور ہوا ہے ، وہ اس کے انصاف سے دور ہوا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں