اہل قرب کے حقائق(مناجات 23)

یہ تیسویں دعا ہے کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ کی جوتالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

تیسویں مناجات

  اِلٰهِىْ حَقِّقْنِي بِحَقَائِقِ أَهْلِ الْقُرْبِ ، وَاسْلُكْ بِي مَسَالِكَ أَهْلِ الْجَذْبِ
اے میرے اللہ! تو مجھ کو اہل قرب کے حقائق میں ثابت قدمی سے قائم کر ، اور مجھے کو اہل جذب کے راستوں پر چلا
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ حقائق: حقیقت کی جمع ہے۔ اور حقیقت ۔ اشیاء اپنی اصلیت کے اعتبار سے جس حالت پر ہیں۔ ان کی معرفت حاصل کرنا ہے۔
اور اہل قرب کے حقائق :۔ ان کے علوم اور معارف اور اذواق ( ذوق کی جمع ) اور کشوفات (کشف کی جمع ) ہیں۔ اور اہل قرب مقربین ہیں۔ خواہ وہ اہل مراقبہ کا ملہ میں سے ہوں۔ یا اہل مشاہدہ میں سے ، یا اہل مکالمہ میں ہے ۔ اور قرب: سیر اور صفائی کے فرق کے ساتھ متفرق یعنی جدا جدا ہوتا ہے۔ لہذا پہلے مراقبہ، پھر شہود اور وصول، پھر محو اور فنا ، پھر بقاء اور نزول ہوتا ہے۔ اور یہ مجاہدہ اور مکا بدہ کے ذریعے ہوتا ہے۔
اور یہ محبین میں سے اہل سلوک کا مقام ہے۔ اور جذب و عنایت سے ہوتا ہے۔ اور یہ محبوبین میں سے اہل جذب کا مقام ہے۔ اور کبھی پہلے مجاہدہ ہوتا ہے اور بعد میں جذب وعنایت ۔ اور یہ مرتبہ کے لحاظ سے بہت بڑا، اور فائدہ کے لحاظ سے زیادہ عام ، اور تربیت کے لحاظ سے زیادہ نفع بخش ہے۔ اوریہی ہے جس کا ارادہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے کیا ہے اس لئے کہ انہوں نے پہلے اہل قرب کے حقائق میں ثابت ہونے کو طلب کیا ہے۔ اور اہل قرب:۔ وہ اہل تقرب ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے محبوب بنالیا ہے۔ پھر دوبارہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اہل جذب کا سلوک طلب کیا ہے۔ اور اہل جذب وہ محبوبین ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بارگاہ کے لئے منتخب کیا ہے۔ اور ان کی ارواح کو اغیار کے شہود سے انوار کے شہود کی طرف کھینچ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔ (اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ) اللہ تعالیٰ اپنے لئے جس کو چاہتا ہے منتخب کرتا ہے۔
اور یہی لوگ محبوبین ہیں۔ اور دوسری جگہ فرمایا۔ (وَيَهْدِى إِلَيْهِ مَنْ یُنیْبُ) اور اللہ تعالیٰ اپنی طرف اس کو ہدایت کرتا ہے جو اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے ۔ اور یہ لوگ محبین ہیں ۔
لہذا مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے یہ ارادہ کیا ہے کہ وہ سلوک اور جذب کے درمیان جامع ہوں ۔ اور یہ دوسرے درجوں سے زیادہ اعلیٰ اور بزرگ ہے۔ اور بعض عارفین نے فرمایا ہے اہل قرب : وہ اہل بارگاہ ہیں جو شہود میں مستغرق ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے لئے نہ قرب ہے نہ بعد ۔ یہ در حقیقت صرف بندے کے لئے ہے۔ لہذا جس شخص کے قلب کی آنکھ سے حجاب اٹھ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے انوار کا فیضان اس پر ہوتا ہے تو اس کو مراقبہ مشاہدے کے لئے ، اور مشاہدہ مکاشفے کے لئے ، اور مکاشفہ معائنہ کے لئے ۔ اور معائنہ مسامرہ اور توجہ طلب اور مکالمہ کے لئے آگے بڑھاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ کے لئے اس کا ہم نشین اور غمخوار اور مانوس ہو جاتا ہے۔ اور یہی دوری اور حجابات کے چاک ہونے کے بعد بندے کو قریب کرتا ہے۔ اور یہی وہ مقام ہے جس کو حضرت شیخ ابوالحسن رضی اللہ عنہ نے اپنے اس قول میں طلب کیا ہے:
اے میرے اللہ تو اپنی قدرت کے ساتھ مجھ سے ایسا قریب ہو کہ اس قرب کے ذریےتو مجھ سے کل حجابات کو اس طرح دور کر دے جس طرح تو نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام سے دور فرمایا۔ حضرت شیخ ابو العباس مرسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے اہل محبت و شوق کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک قسم وہ لوگ ہیں، جن کے قلوب غائب ہونے کے مشتاق ہوئے لہذا ان کو ملاقات کے سوا کسی حال میں سکون نہیں ہوتا ہے۔ دوسری قسم وہ لوگ ہیں جن کی ارواح حضور و معائنہ شہود کی مشتاق ہوئیں ۔ لہذ اان کواسرار کے سمندر میں غوطہ لگانے ، اور ان کے قلوب پر حقائق کے نازل ہونے کے سوا کسی حال میں سکون نہیں ہوتا ہے۔
حضرت ابو یزید رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے خاص بندے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ ان کو جنت میں اپنے دیدار سے محجوب کر دے تو وہ جنت سے اسی طرح فریاد کریں گے کہ جس طرح اہل دوزخ دوزخ سے فریاد کریں گے ۔ لیکن وہ لوگ تخت پر بیٹھے ہوئے جمال الہٰی کا نظارہ کر رہے ہوں گے۔ حضرت سمنون نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ کے محبت کرنے والوں نے دنیا و آخرت کی بزرگی کو ترک کر دیا۔ کیونکہ وہ ہمیشہ اس کے ساتھ ہیں اور حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے۔
الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ (انسان اس کے ساتھ ہے اور رہے گا جس سے اپنے محبت کی )
مشائخ کی ایک جماعت نے حضرت جنید رضی اللہ عنہ سے محبت کے بارے میں دریافت کیا ؟ حضرت جنید نے رو کر جواب دیا میں ایسے بندے کی تعریف کس طرح بیان کروں جو اپنے نفس سے گم ہو گیا ہو اور اپنے رب کے ذکر سے متصل اور اس کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ قائم ہو۔ اس کی طرف اپنے قلب کی آنکھ سے دیکھ رہا ہو۔ اس کے قلب کو اللہ تعالیٰ کی بیبت کی آگ نے جلا دیا ہو ۔ اور اس کا پینا اس کے ورد کے پیالے سے صاف ہو چکا ہو۔ اور اللہ جبار اپنے غیب کے پردوں سے اس کے سامنے ظاہر ہو گیا ہو؟ پھر اگر وہ بات کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ، اور اگر بولتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے، اور اگر وہ حرکت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور اگر وہ سکون میں ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے لہذاوہ اللہ تعالیٰ سے اور اللہ تعالیٰ کیلئے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ پھر ان لوگوں نے کہا: اے تاج العارفین! اس سے زیادہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور یہ وصف اہل سلوک وجذبہ کیلئے صادق ہوتا ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ
اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جو شخص اس مقام میں پہنچ جاتا ہے اور محبت اور معرفت اس کے قلب میں مکمل طریقے پر مضبوط ہو جاتی ہے اس کے لئے اپنے محبوب کے ساتھ کوئی تدبیرو اختیار ، اور شوق و انتظار باقی نہیں رہتا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں