بارش کے بادل کے مثال (تیئسواں باب)

بارش کے بادل کے مثال کے عنوان سےتیئسویں باب میں  حکمت نمبر 221 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
پس حال – بارش کے بادل کے مثل ہے۔ جس طرح بادل سے مقصد بارش نہیں ہے۔ بلکہ وہ پھل ہیں، جو اس سے پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا تم حال کے قائم رہنے کی خواہش نہ کرو۔ کیونکہ کبھی اس کا قائم رہنا تمہارے لئے مضر ثابت ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہمیشہ بارش ہونے سے اس کا فائدہ نقصان سے بدل جاتا ہے۔ حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے:۔
221) لا تَطْلُبَنَّ بَقَاءَ الوَارِداتِ بَعْدَ أَنْ بَسَطَتْ أَنْوَارَهَا وَأَوْدَعَتْ أَسْرَارَهَا , فَلَكَ فِي اللهِ غِنىً عَنْ كُلِّ شَيْءٍ , وَلَيْسَ يُغْنِيكَ عَنْهُ شَيْءٌ .
جب واردات اپنے انوار کو تمہارے قلب میں پھیلا چکے ہوں اور اپنے اسرار سپرد کر چکے ہوں ، تو ان کے باقی رہنے کی خواہش نہ کرو۔ کیونکہ جب تم نے اللہ تعالیٰ کو پالیا، تو تم ہرشے سے بے نیاز ہو گئے ۔ اور تم کو کوئی شے اللہ تعالیٰ سے بے نیاز نہیں کر سکتی ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ کسی شے کو چاہنا ، اس کی محبت کی دلیل ہے۔ اور کسی شے کی محبت اس کی عبودیت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ تم اس کے غیر کے بندے بنو۔ لہذا تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ نہ کسی حال کی خواہش کرو، نہ کسی مقام کی ۔ تو اگر تمہارے اوپر احوال یعنی واردات الہٰیہ وارد ہوں ۔ پھر وہ علیحدہ ہوں اور وہ لوٹ جائیں تو اب اس کے بعد کے وہ تمہارے قلب سے اغیار کی ظلمتوں اور مخلوق کی صورتوں کو مٹا کر اپنے انوار پھیلا چکے ہوں ، اور اپنے اسرار یعنی یقین اور عیاں شہود سپرد کر چکے ہوں ۔ تو تم ان واردات کے باقی رہنے کی خواہش نہ کرو۔ یا تم اس طرح کہو ۔ تم واردت کے باقی رہنے کی خواہش نہ کرو۔ جبکہ وہ اپنے انوار تمہارے قلب میں پھیلا چکے ہوں۔ اور تمہارے نفس کی عادات کو ختم کر چکے ہوں ۔ اور تم جو جسمانی خواہشات اور نفسانی عادات کی غلامی سے آزاد ہو گئے ہو۔ اور برے اوصاف سے پاک و بہترین اور پاکیزہ اوصاف سے آراستہ ہو چکے ہو۔ کیونکہ یہی واردات الہٰیہ کے انوار کی علامات ہیں ۔ اور جبکہ وہ اپنے اسرار یعنی یقین و اطمینان اور معرفت ، یا زہد اور رضا و تسلیم ، یا خشوع و تواضع اور عاجزی و انکساری تمہارے قلب کو سپرد کر چکے ہوں ۔ کیونکہ واردالہٰی کی سچائی اور اس کا پھل حاصل ہونے کی علامات یہی ہیں۔ لہذا جب پھل حاصل ہو گیا۔ تو حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے نزدیک کسی شے کی حاجت باقی نہیں رہی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے پالینے کے بعد اب تم ہرشے سے بے نیاز ہو گئے۔ اور اب تم کسی شے کے محتاج نہیں رہ گئے۔ لیکن تم کواللہ تعالیٰ سے کوئی شے بے نیاز نہیں کر سکتی ہے۔
اور عنقریب مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کا یہ قول آئے گا ۔ تمہارے اللہ تعالیٰ کو پانے کے بعد تم سے کیاشے کم ہوئی ؟ اور تم سے اللہ تعالیٰ کے کھو جانے کے بعد تم کیا شے ملی؟
ایک عارف شاعر نے فرمایا ہے:۔
لِكُلِّ شَيْئ ذَا فَارَقْتُهُ عِوَضُ وَلَيْسَ للہ اِنْ فَارَقْتَ مِنْ عِوَضٍ
ہرشے کا بدلہ ہے، اگر تم نے اس کو چھوڑ دیا ہے۔ لیکن اگر تم نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ دیا ہے تو اس کا کوئی بدلہ نہیں ہے ۔
اور اشارہ میں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ تم ہرگز میرے سوا کسی شے پر بھروسہ نہ کرو۔ کیونکہ یہ تمہارے لئے عذاب اور باعث ہلاکت ہے۔ اس لئے کہ اگر تم علم پر بھروسہ کرو گے تو ہم اس کو تمہارے پیچھے لگادیں گے ۔ اور اگر تم عمل کی پناہ لو گے تو ہم اس کو تمہاری طرف لو ٹا دیں گے۔ اور اگر تم حال پر اعتماد کرو گے۔ تو ہم تم کو اسی کے ساتھ روک دیں گے ۔ اور اگر تم وجد سے محبت کرو گے۔ تو ہم تم کو اس کے قریب رکھیں گے۔ اور اگر تم مخلوق کا لحاظ کرو گے۔ تو ہم تم کو انہیں کے سپر دکر دیں گے۔ اور اگر تم معرفت سے دھوکا کھاؤ گے۔ تو ہم اس کو تمہارے لئے جہالت بنادیں گے۔ پھر تمہارے پاس کون سی تدبیر ہے؟ اور تمہارے ساتھ کون سی طاقت ہے لہذاگرتم ہم کو رضامندی کے ساتھ اپنا رب بنالو۔ تا کہ ہم تم کو رضا مندی کے ساتھ اپنا بند ہ بنا لیں۔ حضرت ابو سلیمان دارانی سے دریافت کیا گیا ۔ ان چیزوں میں سب سے افضل کون ہی چیز ہے، جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا ان چیزوں میں جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے، سب سے افضل اور قریب یہ ہے۔ بندہ اپنے قلب سے خبردار ہو۔ اور وہ دنیا اور آخرت سے اللہ تعالیٰ کے سوا کچھ نہ چاہے۔ اس کے متعلق ایک عارف کے یہ اشعار میں :-
مَنْ عَرَفَ اللَّه فَلَمْ تُغْنِه مَعْرِفَةُ اللَّهِ فَذَاكَ الشَّقِى
جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کی ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی معرفت نے اس کو بے نیاز نہیں کیا ۔ تو وہ بد بخت ہے۔
مَا يَصْنَعُ الْعَبْدُ بِعِزِ الْغِنى وَالْعِزَّ كُلُّ الْعِزِ لِلْمُتَّقِي
بندہ دولت کی عزت لے کر کیا کرے گا۔ اور کل عزت متقی کے لئے ہے۔
لہذا جب تم کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ غنا حاصل ہو جائے گا، تو تم کل ماسوی سے بے نیاز جاؤگے۔
اس لئے تم بادشاہ علام اللہ تعالیٰ کے سوا کسی حال اور وارد اور مقام کی طرف توجہ نہ کرو۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں