تصدیق اور ایمان کی فکر (پچیسواں باب)

تصدیق اور ایمان کی فکر کے عنوان سے پچیسویں باب میں  حکمت نمبر 264 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے ابتدا اور انتہا کی فکر کو بیان کیا۔ چنانچہ فرمایا:-

264) الفِكْرَةُ فِكْرَتَانِ : فِكْرَةُ تَصْدِيقٍ وَإيمَانٍ  وَفِكْرَةُ شُهُودٍ وَعِيَانٍ ،

فکریں دو قسم کی ہے ۔ ایک قسم :- تصدیق اور ایمان کی فکر ہے۔ اور دوسری :۔ شہو دو عیان کی فکر ہے۔

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں: اہل تصدیق و ایمان کی فکر :- وہ اغیار کے میدانوں میں قلب کا سیر کرنا ہے۔ لہذا وہ لوگ مصنوعات و مخلوقات میں فکر کرتے ہیں۔ تا کہ وہ صانع حقیقی اور اس کی قدرت اور علم اور حیات اور ان کے علاوہ دوسری صفات کی معرفت تک پہنچیں ۔ اور یہی وہ لوگ ہیں ، جن کےبارے میں اللہ تعالیٰ  نے فرمایا ہے :

يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وہ لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں۔

اور اہل شہود وعیاں کی فکر : ۔ وہ انوار کے میدانوں میں روح کا سیر کرتا ہے۔ اور ان کے حق میں اغیار، انوار اور دلائل ، مدلولات ہو گئے ۔ اور غیب ، شہادت بن گیا۔ اور یہی وہ لوگ ہیں ۔ جن کواللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول کے راز سے آگاہ فرمایا۔ قُلِ انْظُرُوا مَاذَا فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ آپ فرمادیجئے :۔ تم لوگ اس میں غور کرو جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔

پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے دونوں فریق کا حال بیان فرمایا:-

فَالأُولَى لأَرْبَابِ الاعتبار،

پہلی فکر اہل اعتبار کے لئے ہے۔   میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں : پہلی فکر یعنی تصدیق و ایمان کی فکر ، اہل اعتبار کے لئے ہے۔ اور وہ اہل استدلال ہیں، جو صنعت سے صانع کی طرف رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔

اور وہی لوگ انوار توجہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ  کی طرف سیر کرنے والے ہیں۔ وَالثَّانِيَةُ لأَرْبَابِ الشُّهُودِ وَالاستِبْصار .اور دوسری فکر اہل شہود واہل بصیرت کے لئے ہے۔

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ دوسری فکر یعنی شہود و میان کی فکر ، اہل شہود اور اہل بصیرت کے لئے ہے ۔ کیونکہ وہ لوگ دلیل سے ترقی کر کے مدلول نمک اور تفلوق سے ترقی کر کے خالق تک اور اغیار سے ترقی کر کے انوار کے شہود تک اور فرق سے ترقی کر کے جمع تک اور ملک سے ترقی کر کے ملکوت تک و  پہنچ گئے ہیں۔ لہذا وہ ملکوت کے انوار کو جبروت کے سمندروں سے اچھل کر آتے ہوئے مشاہد و کرتے ہیں۔ لہذا وہ انوار کے سمندروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اور مخلوقات کا وجود ان سے گم ہے۔ پھر اگر وہ خلوقات کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔ تو وہ ان کو اللہ تعالیٰ  کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ  کی طرف قائم دیکھتے ہیں۔ لہذا ان کی قدرو منزلت اللہ تعالیٰ  کے پاس کتنی بڑی ہے اور وہ لوگ کتنے عظیم الشان ہیں۔

اور ایسے ہی حضرات کی شان میں ایک عارف شاعر نے فرمایا ہے :-

هُمُ الرِّجَالُ وَ غُبْن أَنْ يُقَالَ لِمَنْ           لَمْ يَتَّصِفُ بِمَعَانِي وَصْفِهِمْ رَجُلٌ

وہی لوگ اہل اللہ ہیں اور جو شخص ان کے وصف کی حقیقوں سے موصوف نہ ہو ، اس کو اہل اللہ کہنا یا سمجھنا خیانت ہے۔

اللہ تعالیٰ  ہم کو اس حقیقت تک پہنچائے ، جس حقیقت تک ان کو پہنچایا ہے۔ آمين یہاں پچیسواں باب ختم ہوا۔ اور اس پر اس کتاب کے ابواب ختم ہو گئے ۔ اور اب صرف مراسلات اور مناجات باقی ہیں


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں