تصوف میں “مشرب” کا مفہوم
تصوف میں “مشرب” کا معنی
مشرب کے معنی مسلک مذہب ،عقیدہ اور دین کے ہیں
“مشرب کی اقسام “
۱۔ لغوی معنی
-
اصلِ کلمہ “مشرب” شَرِب (پینا) سے مشتق ہے۔
-
لغتِ عرب میں:
-
مَشْرَب وہ مقام یا ذریعہ ہے جہاں سے کوئی چیز پیتی ہے۔
-
مثلاً: چشمۂ آب کو بھی مشرب کہتے ہیں (“مَشْرَبُ المَاء”)۔
-
-
عمومی اردو میں “مشرب” = ماخذ، چشمہ، منبع یا پینے کا ذریعہ۔
۲۔ اصطلاحی معنی (تصوف میں)
تصوف میں “مشرب” سے مراد وہ روحانی راستہ، طریقہ مزاج یا فکری و عملی رجحان ہے جس پر کوئی صوفی حَرکت پذیر ہو:
-
روحانی ذوق و مزاج
-
ہر ولیِّصلٰیٰ یا مرید کا ایک مخصوص “طریقۂ دل” ہوتا ہے: مثلاً کچھ مرید “شوقِ دیدار” کو مقدم جانتے ہیں اور کچھ “مراقبہ و شہودِ ذوق” کو۔ یہی ان کا مشرب ہے۔
-
-
طریقۂ عمل
-
اذکار، خفیہ مراقبے، ولایتِ قلب، سیر و سلوک کے مخصوص منازل وغیرہ۔ یہ تمام طریقۂ کار مل کر ایک “مشربِ تصوف” تشکیل دیتے ہیں۔
-
-
مکتبۂ فکری رجحان
-
مثلاً بعض صوفی مکتبۂ عقلی پر زور دیتے ہیں، اور بعض “شعوری مستی” کے برعکس “جذب و وجد” کو اولین مقام دیتے ہیں۔ یہ بھی مشرب ہے۔
-
-
فرد اور سلسلہ
-
کبھی “مشرب” سے کسی سلسلہ (جیسے نقشبندیہ، چشتیہ) کے اندر ایک ذیلی فکری رویّہ یا انفرادیت مراد لی جاتی ہے۔
-
مثالیں
-
سلسلہ نقشبندیہ کے اندر بھی کئی “مشرب” پائے جاتے ہیں:
-
بعض اقطاب “وصالِ جمال” پر زور دیتے ہیں،
-
کچھ “مراقبہ و ذکر خفی” کو،
-
اور بعض “اصلاحِ نفس” کی عملی مشق کو۔
-
خلاصہ
-
لغوی: پینے کا ماخذ/چشمہ
-
اصطلاحی (تصوف): روحانی مزاج، فکری و عملی رجحان یا طریقۂ سلوکِ صوفی
اس طرح “مشرب” نہ صرف ایک اصطلاحی “ہدایت کا راستہ” بتاتا ہے بلکہ ہر صوفی کے دل و دماغ پر طاری انفرادی روش کو بھی معنی و مفہوم عطا کرتا ہے۔