تمکین اور تلوین کا بیان مکتوب نمبر 18دفتر اول

تمکین (سالک کا مطلوب حقیقی سے واصل ہونا)کے بیان میں جوتلوین(ایک حال یا صفت سے دوسرے حال یا صفت میں تبدیل ہوتے رہنا) کے بعد حاصل ہوتی ہے اور ولایت کے تین قسم کے مراتب کے بیان اور اس بیان میں کہ الله تعالی کاوجوداس کی ذات وغیرہ پر زائد ہے۔ اپنے پیر بزرگوار کی خدمت میں لکھا ہے:۔

بندہ کمترین پرتقصیر احمد بن عبدالاحد کی گزارش ہے کہ جب تک حالات و واردات ظاہر ہونے تھے ۔ ان کے عرض کرنے میں گستاخی اور جرأت کرتا تھا لیکن جب حق تعالی نے حضور کی بزرگ توجہ کی برکت سے احوال کی غلامی سے آزاد کر دیا اور تکوین سےتمکین کے ساتھ مشرف فرمایا تو حیرت و پریشانی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا اوروصل سے جدائی اور قرب سے بعد کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا اور معرفت سے نادانی اور علم سے جہل کے سوا کچھ زیادہ نہ ہوا۔ اس واسطے نیاز ناموں میں توقف واقع ہوا اور صرف روزمر ہ خبروں کا عرض کرنا مناسب نہ جانا ۔ اس کے علاده دل ایسا سرد ہوگیا کہ کسی امر میں سرگرمی نہیں کرتا اور بیکاروں کی طرح کسی کام میں مشغول نہیں

من ہیچم و کم زہیچ  بسیارے و ازہیچ و کم ازہیچ نیائد کارے

ترجمہ میں ہیچ  ہوں  ہیچ  سے بھی کم ہوں ہیچ و کم سے کام کیا کچھ ہو سکے

اب ہم اصل سخن کو بیان کرتے ہیں۔

تعجب یہ ہے کہ اب اس حق الیقین سے مشرف فرمایا ہے کہ جس جگہ علم وعین ایک دوسرے کے حجاب نہیں ہیں اور فنا و بقا وہاں جمع ہیں ۔ عین حیرت و بے نشانی میں علم و شعور ہے اور نفس غیبت میں حضور میں باوجوعلم ومعرفت کے جہل و نادانی کی زیادتی کے سوا اور کچھ نہیں ۔ع

عجب انیست که من واصل و سرگردانم

ترجمہ تعجب ہے کہ واصل اور پریشان بھی ہوں

 الله تعالی نے محض اپنی بے حد عنایت سے کمالات کے درجوں میں ترقیات کی ہیں۔

مقام ولایت سے او پرمقام شہادت ہے اور ولایت کو شہادت سے وہی نسبت ہے جوتجلی صوری کوتجلی ذاتی سے ہے بلکہ ولایت و شہادت کا درمیانی بعد ان دونوں تجلیوں کے درمیانی بعد سے کئی درجے زیادہ ہے اور مقام شہادت سے اوپر مقام صدیقیت ہے اور وہ فرق جوان دونوں مقاموں کے درمیان ہے وہ نہ تو کسی عبارت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اشارہ سے بیان کیا جاسکتا ہے اور اس مقام سے اوپر سوائے مقام نبوت کے (على صاحبها الصلوة و تسلیمات اور کوئی مقام نہیں ہے اور ممکن نہیں کہ مقام صدیقیت اور نبوت کے درمیان کوئی اور مقام ہوا ہو بلکہ محال ہے اور اس کے محال ہونے کا یہ حکم صریح اورصحیح کشف سے معلوم ہوا ہے اور یہ جو بعض اہل اللہ نے ان دونوں مقاموں کے درمیان واسطہ ثابت کیا ہے اور اس کا نام قربت رکھا ہے اس سے بھی مشرف فرمایا اور اس مقام کی حقیقت پر اطلاع بخشی۔

: بہت سی توجہ اور بے شمار عاجزی کے بعد اول اسی طرح جیسا کہ بزرگوں نے فرمایا ہے ظاہر ہوا لیکن آخر کار اصل حقیقت معلوم ہوگی ۔ ہاں عروج  کے وقت مقام صدیقیت کے حاصل ہونے کے بعد وہ مقام حاصل ہوتا ہے لیکن واسطہ ہونا مقام تامل ہے۔ ظاہری ملاقات کے بعد انشاء اللہ اس کی حقیقت کومفصل عرض کیا جائے گا۔ وہ مقام بہت ہی بلند ہے اور عروج    کی  منزلوں میں اس مقام سے اوپر اور کوئی مقام معلوم نہیں ہوتا اور الله تعالی کی ذات پر وجود کا زائد ہونا اسی مقام میں ظاہر ہوتا ہے جیسا کے علمائے اہل حق کے نزدیک مقرر اور ثابت ہے۔شکرالله تعالى سعیھم الله تعالی ان کو اس کوشش کی جزائے خیر دیوے) اور یہاں وجودبھی راستے میں رہ جاتا ہے اور ان سے اوپر عروج واقع ہوتا ہے۔

ابوالمکارم رکن الدین شیخ علاء الدولہ  علیہ الرحمۃ  نے اپنی بعض تصنیفات میں فرماتے ہیں کہ ۔ فوق عالم الوجود عالم الملك الودود(عالم وجود کے اوپر مالک ودو کا عالم ہے)

اور مقام صدیقیت ایک مقام بقا سے ہے جو عالم کی طرف توجہ رکھتا ہے اور اس مقام سے نیچے مقام نبوت ہے جوحقیقت میں بالاتر ہے اور اس میں کمال صحو اور بقا ہے۔ مقام قربت ان دونوں مقاموں کے درمیان برزخ اور واسطہ ہونے کی لیاقت نہیں رکھتا۔ کیونکہ اس کی توجہ صرف تنزیہ کی طرف ہے اور عروج    کا انتہا ہے۔ ان دونوں کے درمیان بڑافرق ہے

 در پس آئینہ طوطی صفتم داشته ام ہر چه استاد ازل گفت بگو میگویم

ترجمه مثل طوطی آئینے کے پیچھے رکھا ہے مجھے کہتاہوں میں وہ جو استاد ازل مجھ کو کہے

 شرعی نظری استدلال علم کو ضروری کشفی بنا دیتا ہے اور علمائے شریعت کے اصول سے سرمومخالف نہیں ہے بلکہ انہی اجمالی علوم کو تفصیلی کر دیا ہے اور نظریت سے ضرورت کی طرف لائے ہیں۔

کسی  شخص نے حضرت خواجہ بزرگ قدس سر ہ سے پوچھا کہ سلوک سے مقصود کیا ہے فرمایا تا کہ اجمالی معرفت تفصیلی اور استدلالی(دلیل سے حاصل ہو) کشفی ہوجائے اور فرمایا کہ اس کے سوا کچھ اور علوم حاصل ہوتے ہیں۔ ہاں رستے میں بہت سے علوم و معارف ظاہر ہوتے ہیں جن سے گزرنا پڑتا ہے اور جب  تک سالک نہایت کے در جے  تک جو صدیقیت کا مقام ہے نہ پہنچے  ۔ ان علوم سے حصہ حاصل نہیں کرسکتافیاليت شعرى إن من أھل اللہ لقائلين للحصول هذا المقام الشريف وليس لهم بمناسبۃ  بعلوم هذا المقام و معارفه فما وجه؛ وفوق كل ذي علم عليم (کاش میں جانتا کہ بعض اہل اللہ جو اس مقام شریف کے حصول کے قائل ہیں حالانکہ ان کو اس مقام کے علوم اور مصارف کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں اس کی کیا وجہ ہے اور ہر علم والے سے بڑھ کرعلم والا ہے۔) اور مسلہ قضا و قدر کے راز پر اطلاع بخشی اور اس کو اس طرح جتلایا کی شریعت حنفیہ کے ظاہر اصول سے کسی طرح مخالف نہیں اور ایجاب کے نقص اور جبر کی آمیزش سے پاک وصاف ہے اور ظہور میں چودھویں رات کے چاند کی طرح ہے۔

تعجب کی بات ہے کہ جب یہ مسئلہ اصول شریعت  کے مخالف نہیں ہے تو اس کو کیوں پوشیدہ رکھا ہے۔ ہاں اگر اس میں مخالفت ہوتی تو اس کا چھپانا اور پوشیدہ رکھنا مناسب تھا۔ لا يسئل عما يفعل (جو کچھ وہ کرتا ہے اس سے کوئی پوچھ نہیں سکتا) .

 کر از ہرہ  آنکه از بیم تو کشاید زباں جز بہ تسلیم تو .

 ترجمہ کس کو طاقت کہ مارےڈر کے تیرے غير تسلیم کے زباں کھولے

علوم و معارف ابر  بہاری کی طرح اس طرح برس رہے ہیں کہ قوت مدرکہ ان کے

برداشت کرنے سے عاجز ہے۔ قوت مدر کہ جو مجرتعبیر ہے۔ ولا يحمل عطايا الملك إلا مطاياه (ورنہ بادشاہ کے عطیوں کو اسی کی سواریاں اٹھاسکتی ہیں۔)

اول اول یہ شوق تھا کہ ان عجیب علوم کولکھا جائے۔ مگر اس امر کی توفیق نہ پاتا تھا اور اسی وجہ نے بے قرار رہتا تھا۔ آخر کا تسلی فرمائی کہ ان علوم کے فیضان سے ملکہ کا حاصل کرنا مقصود ہے نہ کہ علوم کا یاد کرنا جیسا کہ طالب علم اس داسطے علم حاصل کرتے ہیں کہ مولویت کا ملکہ حاصل کریں۔ نہ اس لئے کہ صرف و نحووغیرہ کے اصول حفظ کر لیں ان میں سے بعض علوم عرض کرتا ہے۔

اللہ تعالی فرماتا ہے۔ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (نہیں ماننداس کے کوئی چیز اوروہی سنتا اور دیکھتا ہے ) کلام کا اول حصہ  تنزیہ محض کا اثبات ہے جیسا کہ خود ظاہر ہے اور الله تعالی کا قول وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ اس تنزیہ کو تمام وکامل کرنے والا ہے۔

اس کا بیان یہ ہے کہ چونکہ عالم کیلئے سمع وبصر کے ثابت ہونے میں باہم مشابہت کے ثبوت کا وہم گزرتا ہے اگر چہ فرضی ہو اس لئے اللہ تعالی نے اس وہم کے دور کرنے کے لئے عالم سے سمع وبصر کی نفی کر دی۔ یعنی سمیع وبصیر وہی  اللہ جل شانہ ہی ہے اور سمع وبصر جومخلوقات میں پیدا ہے۔ دیکھنے اور سننے میں کچھ دخل نہیں رکھتی جس طرح کہ اللہ تعالی  سمع وبصر کو پیدا کرتا  ہے۔ اسی طرح ان دو صفتوں کے پیدا کرنے کے بعد بطریق عادت سماع ورؤیت یعنی دیکھنے اور سننے کو پیدا کرتا ہے۔ بغیر اس امر کے کہ ان صفات کی تاثیر ہو اور اگر ہم تاثیر کے قائل ہوں تو ان میں تاثیر بھی اس کی پیدا کی ہوئی ہے۔ پس جس طرح ان کے اصل جماد محض ہیں اس طرح ان کے صفات بھی جماد محض  ہیں جس طرح اللہ تعالی محض اپنی قدرت سے پتھر میں کلام پیدا کر دے تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ حقیقت میں پتھر کلام کرنے والا ہے۔ پس جس طرح پتھر  جمادمحض ہے اس میں یہ صفت بھی اگر بالفرض موجود ہو تو جمادمحض ہے۔ اس سے حرف و آواز کے ظاہر ہونے میں اس کا کوئی دخل نہیں ۔ تمام صفات اس طرح پر ہیں۔

غرض جب یہ دو صفتیں زیادہ ظاہرتھیں ان دونوں کونفی کے لئے اللہ تعالی نے خاص کیا اور ان دونوں کی نفی سے باقی صفات کی نفی بطریق اولی لازم آئے گی۔

حق تعالی نے اول علم کی صفت کو پیدا کیا۔ بعد ازاں معلوم کی طرف اس کی توجہ پیدا کی۔ بعدازاں سننا بعدازاں مسموع کا ادراک پیدا کیا۔ اسی طرح اول بصر کو پیدا کیا۔ بعدازاں آنکھ کی پتلی اور اشیاء کی طرف توجہ بعد ازاں رؤیت یعنی دیکھنا۔ بعدازاں دیکھی ہوئی چیز کا ادراک پیدا کیا۔ علی هذ القياس۔

پس سمیع و بصیر وہی ہوسکتا ہے کہ یہ دوصفتیں اس کے سماو رؤیت کا مبدا ہوں اور جب ایسا نہیں ہے تو سوائے خدا تعالی کے کوئی سمیع و بصیر نہیں ہے۔ پس ثابت ہوا کہ ان کی صفات ان کے اصل کی طرح جمادمحض ہیں۔ پس آخر کلام سے یہ مقصود ہے کہ ان سے تمام صفات کی کلی طور پر نفی ہو جائے نہ یہ کہ ان کے لئے صفات ثابت ہوں اور یہ صفتیں اللہ تعالی کے لئے ہی ثابت ہیں کیونکہ اس سے تنزیہ اورتشبیہ کا باہم جمع ہونا لازم آتا ہے بلکہ تمام آیت کریمہ میں تنزیہ کا اثبات اورکلی طور پرتشبیہ کی نفی ہے۔

علم اول یعنی ان کی صفات کو خاص خدائے تعالی کے لئے ثابت کرنا اور ان کے اصلوں کرمحض جمادجاننا اور پرنالے اور کوزے کی طرح معلوم کرنا کہ پانی وہاں سے ظاہر ہے مقام ولایت کے مناسب علوم سے ہے اور علم ثانی یعنی ان کی صفات کو بھی جماد کی طرح معلوم کرنا اور تمام کو میت جاننا کہ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ (تو بھی مردہ ہے اور یہ بھی مردہ ہیں مقام شہادت کے مناسب علوم سے ہے۔) 

اس بیان سے بھی دونوں مقامات کا درمیانی فرق مفہوم ہوجاتا ہے۔ والقليل يدل على الكثیر والجرعة تنبي عن البحر الغدير (تھوڑا بہت پر دلالت کرتا ہے اور قطره بڑے سمندر کی خبر دیتا ہے۔)

سالے کے نکوست از بہارش پیداست

ترجمه: ظاہر ہے سال اچھا ہے اپنی بہارہی سے

اور ایسے ہی اس عالی مقام والے لوگ مخلوقات کے افعال کو بھی مردہ اور جماد کی طرح پاتے ہیں۔ نہ یہ کہ ان افعال کو حق تعالی کی طرف منسوب کریں اور ان فعلوں کا فاعل اللہ تعالی کو جانیں تعالى الله ذلک علواکبيرا (اللہ تعالی کی ذات اس نسبت سے بلند ہے ) مثلا کوئی شخص پتھر کو ہلاتا ہے اور حرکت دیتا ہے تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ شخص متحرک ہے بلکہ پتھر میں حرکت کا ایجاد کرنے والا ہے اور پتھر متحرک ہے۔ باوجود اس کے جس طرح کہ پتھر جمادمحض ہے۔ اسی طرح اس کی حرکت بھی جمادمحض ہے اور اگر بالفرض اس حرکت سے کوئی شخص ہلاک ہو گیا تو نہیں کہتے کہ پتھر نے مارا بلکہ یہ کہیں گے کہ اس شخص نے مارا اور علمائے شریعت شكرالله تعالی سعیهم کا قول اس علم کے موافق ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ مخلوقات سے افعال کے صادر ہونے میں کچھ دخل نہیں ۔ ان کے افعال چند حکمتیں ہیں۔ بغیر اس امر کے کہ ان کے لئے معمول بنانے میں کچھ دخل نہیں۔ ان کے افعال چند حرکتیں ہیں۔ بغیر اس امر کے کہ ان کے لئے معمول بنانے میں کچھ تا ثیر ہو۔ اگر کہے کہ اس تقدیر پر افعال کو ثواب و عذاب کا مدار بنانا بے فائدہ ہےجیسا کہ پتھر کسی امر کے لئے مکلفین کریں اور اس کے فعل پر مدح و ذم مترتب کریں تو اس کا جواب یہ ہے کہ سنگ اور مکلفین کے درمیان فرق ہے کیونکہ تکلیف قدرت اور ارادت پر وابستہ ہے اور سنگ میں ارادت نہیں لیکن جب ان کی ارادت بھی حق تعالی کی مخلوق ہے بغیر اس بات کے کہ مراد کے حصول میں اس کی تاثیر ہو۔ وہ ارادت بھی مرده کی طرح ہے۔

اس بناء پر کہ مراد اس کی ثابت ہونے کے بعد بطریق عادت پیدا ہوتی ہے اگر بالفرض مخلوق کی قدرت کو موثر کہا بھی جائے جیسا کہ علمائے ماوراء النہر (خدا ان کی کوشش کی جزادے دے) نے کہا ہے تو وہ تاثیر بھی اس میں خدا کی پیدا کی ہوئی ہے۔ جیسا کہ قدرت اسی کی پیدا کی ہوئی ہے۔ پس اس کی تاثیر بھی جماد کی مانند ہوگئی ۔ مثلا ایک شخص نے ایک پتھر کو  دیکھا کہ کسی ہلانے والے کی حرکت سے اوپر سے نیچےگرا اور ایک جاندار کو مار دیا۔ وہ شخص جس طرح پتھر کو جماد جانتا ہے۔ اس کے فعل کو بھی جو حرکت ہے جماد جانتا ہے اور اس فعل کے اثر کو بھی جو ہلاک یعنی مارنا ہے۔ جمادجانتا ہے۔ پس ذات و صفات و افعال سب کے سب محض جمادات اور مردہ ہیں۔ هو الحى القيوم وهو السمیع البصیر وهو العليم الخبير وهو قال ما يريد. قُلْ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا (پس وہی زندہ اور قائم و دائم ہے اور وہی سننے والا دیکھنے والا ہے اور وہی جانے والا اور خبر والا ہے اور وہی کرنے والا ہے جو چاہتا ہے کہ اگر سمندر اللہ تعالی کے کلمات لکھنے کے لئے سیاہی بن جائیں تو سمندر ختم ہو جائیں مگر اللہ تعالی کی باتیں ختم نہ ہوں۔ اگر چہ اتنے اور دریا و سمندر مدد کے طور پر لائیں۔)

گستاخی بہت ہوگی اور جرأت بے حد واقع ہوئی ۔سخن کے جمال نے جو جمیل مطلق کی طرف سے ہے۔ اس بات پر برا نگیختہ کیا کہ جس قدرسخن دراز ہوزیبا ہے اور جو کچھ اس کی طرف سے بیان کیا جاۓ اچھا معلوم ہوتا ہے۔ حالانکہ اپنے آپ میں کوئی مناسبت نہیں پاتا کے اس بارگاہ کی نسبت گفتگوکرے یا اس کا نام پاک زبان پر لا ئے

ہزار بار بشویم دہن بمشک و گلاب ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی است

ترجمہ: گلاب ومشک سے کتنا ہی منہ کو صاف کروں ادب سے دور ہے پھر بھی جو نام تیرا لوں

بند باید که حد خود داند

 حضور کی توجہ اور عنایت کا امیدوار ہے۔ اپنی خرابی کی نسبت کیا عرض کرے اور جو کچھ اپنے آپ میں پاتا ہے حضور کی توجہ عالی کی عنایت ہے ورنہ

 من ہما احمد پارینہ کہ ہستم ہستم             ترجمہ: میں ہوں احمد وہی پرانا غلام

میاں شاہ حسین توحید و جودی(ایک ذات کو موجود جاننا) کا طریق رکھتا ہے اور اس میں محفوظ ہے دل میں آتا ہے کہ وہاں سے اس کو نکالا جائے تا کہ حیرت تک جواصلی مقصود ہے پہنچ جائے۔

محمد صادق (مجدد پاک کے بڑے صاحبزادے)بچپن ہی سے اپنے آپ کو ضبط نہیں کرسکتا۔ اگر سفر میں ہمراہ جاتا ہے بہت ترقی کرتا ہے دامن کوہ کی سیر میں ہمراہ تھا۔ بڑی ترقی کی اور مقام حیرت(یہ طریقت کا انتہائی مقام ہے جس کا مطلب انکشافِ حقیقت پر حیران ہوجانا ہے)  میں غرق ہے۔ حیرت  میں فقیر کے ساتھ بڑی مناسبت رکھتا ہے اور شیخ نور بھی اس مقام میں ہے اس نے بھی بہت ترقی کی ہے اور اس فقیر کے خویشوں میں سے ایک جوان ہے اس کا حال بہت بلند ہے تجلیات برقی کے نزدیک ہے اور مستعد ہے۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ79 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی

مزید تشریح کیلئے دیکھیں

تمکین اور تلوین کی اصطلاح


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں