تیری تمنا سےاللہ کا فیصلہ بہتر

حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :

سلوک کی ابتداء یہ ہے کہ انسان معہود(قول و قرار کے موافق) و معتاد(مقررہ)اور طبیعت کو چھوڑ کر مشروع کو اپنائے پھر مشروع سے مقدور کی طرف آئے۔ پھر حدود کی حفاظت کرتے ہوئے معہود کی طرف لوٹے۔ اس طرح تومعہود یعنی کھانے، پینے، نکاح کرنے، آرام و آسائش، طبع و عادت کے چنگل سے نکل کر مشروع کے امر و نہی کی طرف آجائے گا اور کتاب و سنت رسولﷺ کی اطاعت کرنے لگے گا جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے

 وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا اور رسول کریمﷺ جو تمہیں عطا فرما دیں وہ لے لو اور جس سے تمہیں روکیں تورک جا ۔

قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ ۔ اے محبوب!) آپ فرمایئے انہیں کہ اگر تم واقعی محبت کرتے ہو اللہ سے تو میری پیروی کرو تب محبت فرمانے لگے گا تم سے اللہ“ 

شریعت مطہرہ کی پابندی کر کے توہوا وہوس اور نفس اور اس کی رعونت سے ظاہری اور باطنی ہر دو لحاظ سے فنا ہو جائے گا اور تیرے باطن میں سوائے توحید کچھ نہ ہو گا۔ اور تیرے ظاہر پر اللہ تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری اور امرونہی کی مطابقت ، اس کی عبادت کے رنگ کے علاوہ اور کوئی رنگ نہیں ہو گا۔ پھر اللہ تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری تیری عادت و شعار بن جائے گی۔ تیری حرکات و سکنات سے اتباع خداوندی کا رنگ جھلکے گا۔ سفروحضر ، شدت و رخوت، صحت و بیماری ہر حالت میں تو اللہ تعالی کی بندگی میں جتارہے گا۔ 

اس کے بعد تجھے تقدیر کی وادی کی سیر کرائی جائے گی۔ تجھ میں تقدیر کا تصرف ہو گا۔ اور تو محنت و کوشش، قوت و طاقت سے فانی ہو جائے گا۔ پھر تجھے اللہ تعالی اپنی نعمتوں سے نوازے گا جو تیرے مقدر میں لکھی جا چکی ہیں اور اللہ کریم کے علم میں ہیں۔ توان نعمتوں سے لطف اندوز ہو گا۔ اللہ تعالی کی حفاظت میں رہے گا یعنی حدود شرع کی خلاف ورزی سےتجھے محفوظ رکھا جائے گا۔ تیر اہر کام اللہ تعالی کے کام کے موافق بن جائے گا اور شریعت کے کسی اصول کی خلاف ورزی کا تجھ سے ارتکاب نہیں ہو گا۔ نہ تجھ سے کفر و الحاد کا صدور ہو گا۔ نہ حرام کو حلال سمجھنے کی غلطی ہو گی اور نہ ہی حکم خداوندی کی حقیقت کو سمجھنے میں کوتاہی ہو گی۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ بیشک ہم ہی نے اتارا ہے اس ذکر (قرآن مجيد) کو اور یقینا ہم ہی اس کے محافظ ہیں“ 

كَذَلِكَ ‌لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ

یوں ہوا تا کہ ہم دور کر دیں یوسف سے برائی اور بے حیائی کو بیشک وہ ہمارے ان بندوں میں سے تھاجو چن لیے گئے ہیں ۔

وصال خداوندی تک تو اللہ کریم کی رحمت سے اس کی حفظ و امان میں رہے گا۔ یہ نعمتیں تیرا مقدر ہیں۔ یہ صرف تیرے لیے تیار کی گئی ہیں جب تک تو طبیعت کے صحراء ، ہو او ہوس اور معہود کے جنگلوں میں سرگرداں تھا۔ یہ نعمتیں تجھ سے روک دی گئیں کیونکہ معہودات طبع ایک بھاری بوجھ ہیں جن کو ساتھ لیکر راہ سلوک کی منازل طے نہیں ہو سکتیں۔ اس بوجھ کو تجھ سے دور کرنے کی وجہ یہ ہے کہ توہلکا ہو کر منزل کی طرف رواں ہو اور اس وجہ سے درماندگی کا شکار نہ ہو۔ کہ کہیں منزل مقصود اور مطلوب تک پہنچنے سے قاصر رہے۔ اور اس بوجھ کو اس وقت تک دور رکھنا ضروری ہے جب تک تو فنا کی چوکھٹ تک نہیں پہنچ جاتا۔ اور فنا کی دہلیز تقرب حق اور معرفت الہی سے عبارت ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کو اسرار و علوم لدنیہ سے خصوصی طور پر نوازا جاتا ہے۔ انوار کے سمندوں میں تیر تا ہے۔ یہاں نہ طبیعت کی علامتیں نقصان دے سکتی ہیں۔ اور نہ ہی یہ انوار کمزور پڑتے ہیں۔ ہاں نعمت دنیا کی ضرورت اس وقت تک رہتی ہے جب تک طبیعت باقی ہے اور جب تک جسم و روح کا تعلق باقی ہے طبیعت باقی ہے۔ کیونکہ طبیعت زائل ہو جائے تو انسان فرشتہ بن جائے نظام ہستی درہم برہم ہو جائے اور تخلیق انسانیت کا مقصد فوت ہو جائے۔ پس تیرے اندر طبع انسانی باقی رہتی ہے ،تاکہ تو لذات و حظوظ کو پورا پورا حاصل کر سکے۔ مقصود طبع انسانی کی بقا نہیں بلکہ وظائف بندگی بجالانے کے ذرائع کو باقی رکھنا مقصود ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ 

حُبِّبَ ‌إِلَيَّ مِنْ ‌دُنْيَاكُمُ النِّسَاءُ، وَالطِّيبُ، وَجُعِلَ ‌قُرَّةُ ‌عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ

تمہاری دنیا سے تین چیزیں میرے لیے پسندیدہ بنائی گئی ہیں۔ خوشبو، عورتیں اور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے“ 

جب حضور انور دنیا سے فانی ہو گئے تو ان مقدور نعمتوں کو آپ کی طرف لوٹا دیا گیا جو پہلے محبوس تھیں۔ کیونکہ آپ اللہ تعالی کی قربتوں کے سفر میں تھے۔ پس تسلیم و رضا اور اطاعت و انقیاد کی وجہ سے سب نعمتیں آپ کو عطا کر دی گئیں۔ اللہ کریم کے اسماء پاک ہیں۔ اس کی رحمت عام ہے۔ اور اس کا فضل و کرم اپنے اولیاء و انبیاء کو شامل ہے۔ 

پس اس طرح اللہ تعالی کا دوست فنا کے بعد حظوظ ولذائذ سے لطف اندوز ہوتا ہے جو در حقیقت اس کے مقدر میں لکھی جا چکی ہوتی ہیں۔ اور اس منزل پر نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے باوجو وہ حدود شریعت کی حفاظت کرتا ہے۔ اور یہی رجوع ہے انتہاء سے ابتداء کی طرف۔

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 163 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں