حد ادب کا خوف (باب  نہم)

حد ادب کا خوف کے عنوان سے  باب  نہم میں  حکمت نمبر 81 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اس بناء پر عارفین قبض سے زیاد بسط سے ڈرتے ہیں۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اس پرتنبیہ فرمائی ہے:
81) الْعَارِفُونَ إِذَا بُسِطُوا أَخْوَفُ مِنْهُمْ إِذَا قُبِضُوا ،
عارفين جب بسط کی حالت میں ہوتے ہیں۔ تو قبض کی حالت سے زیادہ خائف ہوتے ہیں۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: ہر وہ شخص جس پر حقیقتوں کے مشاہدے کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ وہ عارف ہے۔ پس اگر وہ حقیقت کے مشاہدے میں ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ تو وہو اصل متمکن ہے۔ ورنہ وہ سائر ہے۔ اور عارف، جب بسط کی حالت میں ہوتا ہے تو قبض کی حالت سے زیادہ خائف ہوتا ہے۔ اس لئے کہ قبض کی شان یہ ہے کہ نفس کو اس کے فائدوں سے روک دیتا ہے۔ نیز اس کی شان سکون ہے اور سکون مکمل ادب ہے۔ اور بسط کی شان یہ ہے کہ نفس کو آزاد اور خوش کرتا ہے۔ تونفس اکثر اوقات بسط میں اپنا فائدہ حاصل کرتا ہے۔ توبسط کے آداب کی کمی کی وجہ سے قدم ثابت ہونے کے بعد پھسل جاتا ہے۔ اسی لئے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا:
وَلاَ يَقِفُ عَلَى حُدُودِ الأَدَبِ فِى الْبَسْطِ إِلاَّ قَلِيلٌ.
بسط کی حالت میں ادب کے حدود پر کم لوگ ٹھہرتے ہیں۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: وہ کم لوگ : اطمینان اور تمکین والے ہیں۔ کیونکہ وہ لوگ مضبوط پہاڑوں کی طرح ہیں۔ نہ ان کو قبض حرکت دیتا ہے۔ نہ بسط ۔ وہ احوال کے مالک ہیں۔ ان کو قبض اور بسط اعتدال کی حالت سے باہر نہیں کرتی ہے۔ بخلاف سائرین کے اگر چہ وہ عارفین ہوں۔ کیونکہ ہے شک احوال، اکثر اوقات سائرین میں اثر کرتے ہیں۔ توسط کا حال ان پر وارد ہوتا ہے۔ اور ان کو ادب کی حد سے باہر کر دیتا ہے۔
بیان کیا گیا ہے۔ فرش پر ٹھہر و ۔ اور بسط سے بچو۔ ایک شخص نے حضرت ابومحمد حریری سے کہا: میں محبت کے فرش پر تھا لیکن میرے او پربسط کی راہ کھول دی گئی تو میں پھسل گیا اور اپنے مقام سےحجاب میں ہو گیا تو اب اس مقام تک پہنچانے کا طریقہ کیا ہے؟ جس مقام پر میں تھا۔ اس مقام تک پہنچنے میں آپ میری رہنمائی فرمائیے ۔ تو حضرت ابو محمد نے رو کر فرمایا: اے میرے بھائی! اس سرزمین کے قہر میں سب لوگ مبتلا ہیں۔ میں تمہیں ان لوگوں میں سے بعض کے اشعار سناتا ہوں۔ اور وہ اشعار پڑھنے گئے۔
قِفْ بِالدِيَّارِ فَهَذِهِ اثَارُهُم تبكى الاحِبَّةُ حَسْرَةً وَتَشوقا
ان مقامات میں ٹھہرو ۔ کیونکہ یہی ان کے نشانات ہیں۔ حسرت وشوق سے احباب روتےہیں۔
كُمْ قَدْ وَقَفْتُ بِر بعها مُسْتَخْبرًا عَنْ أَهْلِهَا أَوْ سَائِلاً أَوْ مَشْفِقاً
اور میں بار بار ان نشانات کے مقام میں ان کے اہل کی خبر معلوم کرتے ہوئے ، یا ان کو پوچھتے ہوئے یا ان کی آرزو کرتے ہوئے ٹھہراہوں ۔
فَأَجَابَنِي دَاعِيَ الْهَوَى فِي رَسْمِهَا فَارَقْتَ مَنْ تَهْوَى فَعَزَّ الْمُلْتَقَى
پس مجھے محبت کی دعوت دینے والے نے اپنے نشان میں جواب دیا تو میں نے اپنے محبوب کو جدا کر دیا اور تو اس سے جدا ہو گیا پس دونوں کا ملنا دشوار ہو گیا ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں