حرص و ہوا نہ رکھ نقصان سےبچا رہ

حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :

ایک طرف اللہ عزوجل ہے، دوسری طرف تیرا نفس اور تو در میان میں مخاطب و مکلف ہے۔ نفس اللہ تعالی کا مخالف اور دشمن ہے۔ اس کے علاوہ دنیاکی ہر چیز الله تعالی کی فرمانبردار ہے۔نفس بھی اللہ عزوجل کی مخلوق اور اس کی ملکیت ہے۔ لیکن اس میں ادعاء ، خواہش، شہوت و لذت کاداعیہ بھی ہے۔جب تو مخالفت و عدوات نفس میں حق تعالی کی موافقت کر لے گا تو نفس کے خلاف اللہ تعالی کی مدد کرنے والا ٹھہرے گا۔ جیسا کہ رب قدوس نے اپنے نبی حضرت داؤد علیہ السلام سے فرمایا۔ 

ا ے داؤد ! عبودیت یہ ہے کہ نفس کے مقابلے میں تو میرا مدد گاربن جا مخالفت نفس کے ذریعے ہی تجھے اللہ تعالی کی سنگت نصیب ہوگی اور عبودیت معتبر ہو گی۔ جب تو اس کی بندگی اور سنگت اختیار کر لے گا تو پھر دنیا کی نعمتیں خودبخود تیری طرف کھچی چلی آئیں گی اور تو عزیز و مکرم ٹھہرے گا۔ مخلوق تیری خادم ہو گی۔ دنیا تیری عزت و توقیر کرے گی کیونکہ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے تابع فرمان ہے۔ مخلوق کا ہر فرداس کے موافق ہے کیونکہ وہ ہر چیز کا خالق ہے۔ اور ہر چیز اللہ کی عبودیت کا اقرار کرنے والی ہے۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا

اوراس کائنات میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں مگر وہ اس کی پاکی بیان کرتی ہے اس کی حمد کرتے ہوئے۔ لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے۔ بیشک وہ بہت بر دبار ، بہت بخشنے والا ہے 

یعنی ہر چیز اللہ تعالی کاذ کر کرتی ہے اور بندگی بجا تی ہے۔ فرمایا۔

فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا ‌طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ  پس فرمایا آسمان کو اور زمین کو کہ آجاؤ تعمیل حکم اور لوائے فرائض کیلئے خوشی سے یا مجبور اًدونوں نے عرض کی ہم خوشی خوشی دست بستہ حاضر ہیں ۔

عبادت ہے ہی یہ کہ تو اپنے نفس اور خواہش کی مخالفت کر۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ اور نہ پیروی کیا کرو ہوائے نفس کی۔ وہ بہکادے گی تمہیں راہ خدا سے“ 

رب قدوس نے حضرت داؤد علیہ السلام سے فرمایا : حرص و ہوا کو چھوڑ دے کہ اس کے علاوہ کوئی نہیں جو میری مملکت میں مجھ سے جھگڑے۔ 

حضرت بایزید بسطامی رضی اللہ عنہ کے متعلق مشہور ہے کہ جب آپ نے خواب میں رب العزت کی زیارت کی تو بارگاہ خداوندی میں عرض کی۔ 

بار الہ! تیری قربت کا راستہ کونسا ہے ؟ رب قدوس نے فرمایا نفس کا ساتھ چھوڑ دے اور چلا آ، حضرت ابو یزید رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نفس سے یوں دور ہوا جیسے سانپ اپنی کینچلی سے الگ ہوتا ہے ۔

اس گفتگو سے ثابت ہوا کہ ساری بھلائی ہر حال میں مخالفت نفس میں ہے۔ اگر تو حالت تقوی میں ہے تو اس کی مخالفت یوں کر کہ حرام و مشکوک اور خلق کے عطیات کو ترک کر دے۔ اور ان پر کسی طرح بھروسہ نہ کر۔ نہ تیرے دل میں مخلوق کا خوف ہو اور نہ ہی اس سے کسی قسم کی امید اور طمع دنیا کے اس ایندھن کو ان کے ہاتھوں سے قبول نہ کر۔ نہ تحفہ کی صورت میں اور نہ زکوة و صدقہ کی صورت میں نہ کفارہ کی صورت میں اور نہ ہی نیاز کی صورت میں۔ مخلوق سے ہر قسم کی توقعات منقطع کر دے حتی کہ تیرے دل میں کسی آدمی کی موت کا خیال اس وجہ سے نہ آئے کہ تجھے اس کی وراثت سے کچھ حصہ ملنے والا ہے۔ 

خلق سے تعلق توڑ دے اور انہیں ایسا دروازہ یقین کر جو بند کیا جاتا ہے اور کھولا جاتا ہے اور ایسادر خت خیال کر جس کا پھل کبھی تو ہاتھ لگ جاتا ہے اور کبھی اس کا حصول محال بن جاتا ہے۔ ہر کام ایک ذات کے فعل اور ایک مدبر کی تدبیر سے واقع ہو رہا ہے۔ اور وہ فاعل اور مدبر اللہ عزوجل ہے۔ اگر یہ بات تیرے دل میں بیٹھ گئی تو تو اللہ رب العزت کو ایک یقین کرنے والا ہے۔ 

لیکن اس کے ساتھ ساتھ کسب انسانی کو مت بھول۔ تا کہ مذہب جبریہ سے نجات پائے۔ اعتقاد رکھ کہ افعال محض انسان کےکسب سے صادر نہیں ہوتے بلکہ ان کے صدور میں مشیت ایزدی کار فرما ہوتی ہے۔ ورنہ اللہ تعالی کو بھول کر انسانوں کو معبود سمجھ بیٹھے گا۔ اور کبھی نہ کہہ فلاں کام انسانوں کا فعل ہے اور اس میں اللہ تعالی کی مشیت کو دخل نہیں۔ ایساکہنا کفر ہے اور یہ قدریہ کا عقیده ہے بلکہ یوں کہہ کہ تمام افعال کا خالق اللہ ہے۔ ان کا صدور انسانی کسب سے ہوتا ہے۔ جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے۔ اسی لیے نیکی و بدی پر ثواب یا عقاب مرتب ہوتا ہے۔ 

خلق سے تعلقات کے سلسلے میں اوامر خداوندی کی پیروی کر اور انسانوں سے اللہ تعالی کے عطیہ کو لیتے وقت بھی اس کے حکم کو ملحوظ خاطر رکھ اور کسی لمحے حد سے تجاوز نہ کر۔ تیرے اور دوسرے انسانوں کے بارے حکم اللہ تعالی کابر پا ہو گا۔ اس لیے خود حاکم نہ بن بیٹھ۔ مخلوق کے بارے علم اللہ تعالی کا ہی برپا ہو گا۔ اس لیے خود حاکم نہ بن بیٹھ ۔ مخلوق کے بارے تیرا یہ اعتقاد رکھنا کہ افعال انہیں کی قدرت سے صادر ہوتے ہیں وجہ شرک ہے۔ پس اس ظلمت میں چراغ کے بغیر مت داخل ہو۔ اور چراغ اللہ تعالی کا علم، کتاب و سنت ہے۔ کتاب و سنت سے باہر مت جا۔ اگر دل میں کوئی خیال ابھرے، الہام ہو تو اسے کتاب و سنت پر پیش کر۔ اگر قرآن و سنت کی روسے وہ فعل حرام ہے مثلا زنا، سود ، اہل فسق و فجور کی دوستی اور اس جیسے دوسرے گناہ تو ان کے قریب تک نہ جا۔ نافرمانی کے ایسے کام سے دور ہو جا۔ اسے ترک کر دے اسے کسی صورت قبول نہ کرو اور ایسے خیالات کو عملی جامہ نہ پہنا۔ یقین کر لے کہ یہ الہام نہیں شیطان لعین کی طرف سے وسوسہ اندازی ہے۔ اگر قرآن و سنت میں وہ کام مباح ہے۔ مثلا کھانے پینے کی چیزیں۔ لباس، نکاح تو بھی ان سے احتراز کر اور انہیں قبول نہ کر۔ اور جان لے کہ یہ خیال بھی نفس کا الہام اور خواہش ہے۔ اگر قرآن وسنت میں نہ اس کی مذمت پائی جارہی ہے اور نہ ہی اس کی اباحت بلکہ وہ ایسا معاملہ ہے جسے تو سمجھنے سے قاصر ہے مثلا تجھے کہا جاتا ہے کہ فلاں جگہ حاضر ہو۔ فلاں نیک شخص کی خدمت میں حاضری دے۔ تو بھی تجھے کوئی ضرورت نہیں کہ اس خیال پر عمل پیرا ہو۔ کیونکہ تیر اوہاں جانا ایک آدمی سے ملنا ضروری نہیں۔ علم و معرفت کی صورت میں اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمتوں نے تجھے اس سے مستغنی کر دیا ہے۔ توقف اختیار کر اور جلدی نہ کر۔ بلکہ یوں کہہ کہ اگر یہ حق تعالی کی طرف سے الہام ہے تو میں اس پر عمل کروں گا۔ پھر بھلائی اور فعل خداوندی کا انتظار کر کہ یہ بات تیرے دل میں دوبارہ ڈالی جائے اور تجھے جانے کا حکم دیا جائے یااہل معرفت کے لیے کوئی علامت ظاہر ہو جسے اولیاء وابدال سمجھ جائیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ دلی خیالات کو فورا عملی جامہ پہنانے کی کوشش نہ کرے کیونکہ تو نہیں جانتا اس کا انجام کیا ہو گا۔ ممکن ہے اس کامال بہتر ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ فتنہ و آزمائش اور ہلاکت و فریب ہو۔ صبر کر حتی کہ اللہ تعالی خود ترے اندرفاعل بن جائے۔ 

جب تو دلی خیالات پر عمل کرنے سے رک جائے گا اور معاملہ اللہ تعالی کے سپرد کر دے گا اور پھر کسی آزمائش سے سامنے ہو گا تو دست قدرت تیری دستگیری فرمائے گا اور تجھے لغزش سے محفوظ رکھے گا۔ کیونکہ یہ عمل اللہ کا ہو گا اور اللہ تعالی اپنے فعل پر تجھے سزا نہیں دے گا۔ تجھے سزا تو اس وقت ملتی کہ تیر اس کام میں ارادہ شامل ہوتا۔ اگر تو حالت حقیقت یعنی حالت ولایت میں ہے تو خواہش نفسانی کی مخالفت کر اور تمام امور میں حکم خداوندی کی اتباع کر۔ 

اتباع کی دو صورتیں ہیں۔ 

ایک صورت تو یہ ہے کہ دنیا سے قوت لا يموت حاصل کر یعنی جو تیرے نفس کا حق ہے لذائذ دنیا کو ترک کر دے فرائض کو ادا کر اور ظاہری وباطنی تمام گناہوں کو ترک کر دے۔ 

دوسری صورت امر باطنی کی ہے۔ اللہ تعالى باطن کے متعلق بھی حکم صادر فرماتا ہے۔ بعض چیزوں کا حکم دیتا ہے بعض چیزوں سے منع فرماتا ہے۔ القاء والہام مباحات کے بارے ہوتا ہے۔ جن امور کے بارے شریعت مطہر ہ میں کوئی حکم نہیں ہوتا۔ یعنی نہ توممنوع ہوتے ہیں اور نہ ہی واجب اور فرض۔ ایسے امور میں بندہ اپنے اختیار سے تصرف کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔ مباح امور کے بارے اپنی طرف سے کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیئے بلکہ انتظار کرنا چاہیئے۔ جب بھی بذریعہ الہام والقاء اللہ تعالی کی طرف سے کوئی حکم صادر ہو تو عمل پیرا ہو ۔ اس طرح ده اپنی تمام حرکات و سکنات میں اللہ تعالی کا تابع فرمان ہو جائے گا۔یعنی امور مشروعہ میں شریعت کی پیروی اور مباحات میں الہام والقاء کی پیروی اور جن کے بارے نہ حکم شرع ہونہ الہام ہو تو اس سے مجتنب ہو کر سر تسلیم خم کر دے گا اور اگر تو حالت حق الحق یعنی حالت محو وفنا میں ہے۔ جوابدال، شکستہ دل ، اہل معرفت و توحید ، ارباب علم و عقل سید الامراء ، پیشوان خلق تائبین حق، خاصان بارگاہ اور محبوبان ایزد تعالی کی حالت ہے تو اس حالت میں حکم خداوندی کی اتباع اس طرح کر کہ تو اپنے نفس کی مخالفت کر رہا ہو اور ہر قوت و طاقت سے اپنے آپ کو خالی یقین کر رہا ہو۔ اور دیار عقبی کی کسی شے کا تیرے دل میں ارادہ اور خواہش نہ ہو۔ اگر تو یوں اللہ تعالی کی فرمانبرداری کرے گا بادشاہ حقیقی کا بندہ بن جائے گا اور دنیا کی بندگی سے محفوظ رہے گا۔ تیرا ہر قدم اللہ تعالی کے حکم سے اٹھے گا خواہش نفس کی وجہ سے نہیں۔ اور تیری مثال اس شیر خوار بچے کی ہوگی جو دایہ کے ہاتھوں میں ہوتا ہے یا اس میت کی مانند جو غسال کے ہاتھوں میں بے حس و حرکت یا پھر پہلو کے بل لیٹے ہوئے اس مرض کی طرح جو خود سپردگی کی حالت میں طبیب کے سامنے لیٹا ہوتا ہے۔ یہ جس پہلو پر جیسے چاہتے ہیں اے حرکت دیتا ہے۔ امرونہی میں  بندہ یونہی اپنے مالک کی فرمانبرداری کر تا ہے۔ 

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 66 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں