خلق نفس کی حکمت (چوبیسواں باب)

خلق نفس کی حکمت کے عنوان سےچوبیسویں باب میں  حکمت نمبر 237 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے نفس کے ظاہر ہونے کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا :-
وَحَرَّكَ عَلَيْكَ النَّفْسَ لِيَدُومَ إِقْبَالُكَ عَلَيْهِ .
اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر نفس کو حرکت دی ( مسلط کیا ) تا کہ تمہاری توجہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف رہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر نفس کو اس لئے حرکت دی ہے، تا کہ تمہاری توجہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف رہے۔ کیونکہ نفس پر جب بشریت غالب آتی ہے۔ تو وہ اس کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ لہذا وہ ہمیشہ تم کو خواہشات کی زمین کی طرف گراتی ہے۔ اور تم ہمیشہ حقوق اور واجبات کے آسمان کی طرف چڑھنا چاہتے ہو۔ وہ تم کو اپنی اصل صلصال اور طین ( کھنکھناتی ) ہوئی مٹی اور گیلی مٹی ) کی طرف مائل کرنا چاہتی ہے اور تم نفس کو اس کی روح کی اصل کی طرف اعلی علین میں لوٹا نا چاہتے ہو۔ نفس عالم اجسام میں رہنا چاہتا ہے۔ اور تم اس کو عالم ارواح کی طرف ترقی دینا چاہتے ہو۔ لہذا وہ ہمیشہ نیچے کی طرف گرنا چاہتا ہے اور تم ہمیشہ اوپر کی طرف چڑھنا چاہتے ہو۔ تمہاری توجہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہونے کے یہی معنی ہیں اور عنقریب مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے اس قول کی تشریح آئے گی۔ اگر نفوس کے میدان نہ ہوتے ،تو سائرین کی سیر نہ ہوتی۔ لہذانفس اور شیطان، باطن میں دو نعمتیں ہیں۔ کیونکہ اگر وہ دونوں نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ کی طرف تمہاری حرکت نہ ہوتی۔ نہ اس کی طرف تمہاری سیر ہوتی۔ اسی وجہ سے ہمارے شیخ الشیوخ حضرت مولائے عربی رضی اللہ عنہ سے جب کوئی شخص نفس کی شکایت کرتا تھا۔ تو وہ فرمایا کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ تجھ کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔ میرے اوپر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور نفس کا احسان ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قسم میں نفس کی بھلائیوں کو فراموش نہیں کر سکتاہوں۔ حضرت مولائے عربی کا یہ قول ، اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتا ہے جو میں نے بیان کیا ہے۔
اور نفس و شیطان ، اس شخص کے لئے عذاب ہیں ، جو ان کے ساتھ مشغول ہو جاتا ہے۔ اور ان کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ سےحجاب میں ہو جاتا ہے۔
حاصل یہ ہے ۔ ۔ نفس اور شیطان اور دنیا اور انسان ،اس شخص کے لئے قاطعات ( روکنے والے ) ہیں۔ جو ان کی وجہ سے راستہ سے جدا ہو گیا۔ اور اس شخص کے لئے موصلات ہیں ( پہنچانے والے) جو حقیقت میں ٹھہرا۔ اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی توفیق سبقت کر چکی ہے۔ یعنی مقدر ہوچکی ہے۔
اور نفس، شیطان سے زیادہ سخت دشمن ہے۔ کیونکہ وہ تمہارا قریبی اور تمہارے ساتھ رہنےوالا دشمن ہے۔ اور تم اس کے اوپر مہربان ہو ۔ لہذا وہ راستے سے علیحدہ کر کے گمراہ کرنے میں ستر شیطانوں سے زیادہ برا ہے۔
حضرت ابن قسطلانی نے احمد بن سہل رحمہ اللہ تعالیٰ سے روایت کی ہے۔ کہ انہوں نے فرمایا ہے:۔ تمہارے دشمن چار ہیں۔ پہلا دشمن :- دنیا ہے اور اس کا ہتھیار : – مخلوق کی ملاقات ہے اور اس کا قید خانہ – گوشہ تنہائی ہے۔
دوسرا دشمن :- خواہش ہے اور اس کا ہتھیار – بات کرنا ہے اور اس کا قید خانہ ۔ خاموشی ہے۔
تیسرا دشمن شیطان ہے اور اس کا ہتھیار : – پیٹ بھر کر کھانا ہے اور اس کا قید خانہ :۔ بھوکا رہنا ہے۔
چوتھا دشمن :- نفس ہے اور اس کا ہتھیار – زیادہ سونا ہے اور اس کا قید خانہ – جاگنا ہے۔ایک عارف نے ان قاطعات کو نظم میں بیان فرمایا ہے ۔
إِنِّي بَلَيْتُ بِأَرْبَعٍ يَرْمِينَنِي بِالنَّبِلِ عَنْ قَوْسٍ لَهُ تَوْثِيرٌ
میں چار چیزوں میں مبتلا کیا گیا ہوں۔ جو مجھے تانت والی کمان سے تیر پھینکنے کی طرح پھینکتی ہیں۔
ابلیس ، وَالدُّنْيَا وَنَفْسِى وَالْهَوَى يَا رَبِّ أَنتَ عَلَى الْخَلَاصِ قَدِيرٌ
وہ ابلیس اور دنیا اور میر انفس اور خواہش ہیں۔اے میرے رب ا تو ان چاروں سے رہائی دینے پرقدرت رکھتا ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے ان قاطعات کا بیاں اس ترتیب سے بیان فرمایا ہے ۔ کہ انہوں نے پہلے دنیا ،پھر آدمی ، پھر شیطان ، پھر نفس کو بیان کیا ہے۔ تو انہوں نے ان کا بیان توحیدی طریقے پر کیا ہے۔ انہوں نے ان کا بیان اس طریقے پر نہیں کیا ہے، کہ یہ ماسوی ہیں ، یا قاطعات ہیں۔ انہوں نے در حقیقت ان کے اسرار اور ان کے وجود کی حکمت بیان فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزا ئے خیردے ۔ کہ تو حید اور تفرید کے اسرار کی معرفت ان کو کتنی زیادہ حاصل تھی ۔ اللہ تعالیٰ ہم کو ان کے ذکر خیر سے فائدہ پہنچائے ۔ اور ہم کو ان کے زمرے میں شامل فرمائے ۔ آمین یہاں چوبیسواں باب ختم ہوا
باب کا خلاصہ اس باب کا حاصل : اللہ تعالیٰ کی انتہائی نعمتوں کا بیان کرتا ہے۔ اور وہ اس کے چہرو انور کے نور کا مشاہدہ کرنا ہے۔ کیونکہ جوشخص مشاہدہ کے مقام میں آپہنچ جاتا ہے۔ اس کو نہ کوئی فکر ہوتی ہے، نہ کوئی غم ہوتا ہے۔ اور ان قاطعات کا بیان کرنا ہے۔ جو مشاہدہ کے مقام میں پہنچنے سے روکتی ہے۔ اور وہ د نیا ہے۔ اور جو چیزیں دنیا سے متعلق ہیں۔ مثلا علم غیر نافع ہیں ۔ اور جاہ و مرتبہ کی سرداری ۔ اور مخلوق ہے اور مخلوق کی ایذارسانی سے جن چیزوں کا تعلق ہے۔ اور شیطان اور نفس ہے۔
لیکن مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے ان کا بیان حقیقت کے طریقے پر کیا ہے۔ نہ کہ شریعت کے طریقے پر لہذا جب انسان ان قاطعات سے نجات پا جاتا ہے۔ تو وہ اپنے رب کی عظمت کے نور کی تجلیوں کے مشاہدہ تک پہنچ جاتا ہے۔ پھر وہ تمام اشیاء کے ساتھ تواضع اختیار کرتا ہے۔ کیونکہ وہ ان میں اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرتا ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے پچیسویں باب کی ابتدا میں اس کو بیان فرمایا ہے :-


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں