دلوں کے معالج

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کے ملفوظات میں سے ہے۔

دکھی دلوں کے طبیب:

 اے اللہ کے بندو! تم حکمت کے گھر میں ہو، لہذا تمہارے واسطے ، واسطہ کی ضرورت ہے، تم اپنے معبود سے ایسے طبیب کو تلاش کرو جو تمہارے دلوں کے دکھوں کا علاج کرے ۔

— ایسادوادینے  والاطلب کرو جوتمہیں دوادے،

-ایسار ہنماڈھونڈ و جوتمہاری رہنمائی کرے اور تمہارے ہاتھ پکڑ لے،

تم اللہ کے مقرب اور ادب آموز بندوں ، اور اس کے قرب کے دربانوں ، اور اس کے دروازے کے نگہبانوں سے قریب ہو جاؤ ، تم تو اپنے نفسوں کی خدمت اور اپنی خواہشوں اور عادتوں کی پیروی میں راضی ہو گئے ہو ۔ جبکہ میں تمہارے اخلاق کوسنوارنا چاہتا ہوں اور دین اسلام سے تمہیں دلیر بنانا چاہتا ہوں، تم ان لوگوں کی باتوں پر کان نہ دھرو، جو  اپنے نفسوں پر خوش ہوتے ہیں اور تمہیں خوش کر تے ہیں ،  بادشاہوں کے سامنے ذلیل ہوتے ہیں اور ان کے سامنے چیونٹیوں کی طرح ہو جاتے ہیں ،  انہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہیں کرتے ، اور اگر کرتے بھی ہیں تو بناوٹ اور نفاق کے ساتھ ۔ اللہ تعالی زمین کو ایسے لوگوں اور ہر منافق سے پاک کر دے یا انہیں توبہ کی توفیق دے اور انہیں اپنے دروازے کی طرف ہدایت دے۔آمین! مجھے بڑی غیرت آتی ہے جب کسی کے بارے میں سنتا ہوں کہ وہ زبان سے تو اللہ اللہ کہتا ہے مگر اس کی نظر غیراللہ پرٹھہرتی ہے ۔

اے ذکر کرنے والے! تو یہ جانتے ہوئے اللہ کا ذکر کر کہ تو اس کے سامنے ہے، تو دل کو غیر اللہ کی طرف متوجہ کر کے زبان سے ذکر الہی نہ کیا کر ، میرے لئے میرے دوست اور دشمن دونوں برابر ہیں ، روۓ زمین پر نہ کوئی میرا دوست ہے اور نہ کوئی دشمن، میری یہ بات صحت توحید اور مخلوق کی عاجزی کی نظر سے دیکھنے کے اعتبار سے ہے۔ ورنہ ہر وہ شخص جو اللہ سے ڈرتا ہے، میرا دوست ہے، اور اس کی نافرمانی کرتا ہے، وہ میرا دشمن ہے، ڈرنے والا میرے ایمان کا دوست ہے اور نافرمان اس کا دشمن! اللهم حقق لي هذا وثبته وثبتنى عليه إجعله مؤهبة لا عارية

 الہی! تو اس امر کومیرے لئے متحقق وثابت کر دے اور مجھے اس پر ثابت قدم رکھ اور اسے دائمی عطیہ بنادے نہ کہ بحیثیت عاریت ۔آمین

یہ ایک ایسی چیز ہے جو کہ صرف دعوے اور بناوٹ سے حاصل نہیں ہوتی اور نہ ہی  آرزو اور ناموں اور لقبوں اورزور زباں سے حاصل ہوتی ، بلکہ سچائی اور اخلاص  اور دنیا کے چھوڑ دینے سے اورنفس اور خواہش  اور شیطان  کی دشمنی  سے حاصل  ہوا کرتی ہے۔

تم عقل سے کام لو۔ میں تمہیں دیکھ رہا ہوں کہ نہ  تم صاحب دل ہو اور نہ تمہارے لئے معرفت قلب ہے، نہ تمہارے دل کی کوئی ریاضت ہے نہ ہی تعلیم یافتہ ہیں، وہ فقط  تکبراور بڑائی سے بھرے پڑے ہیں ، اللہ کے راستے میں: انا” (میں) لی (میرے لئے)۔ معی”(میرے سنگ)، نہیں ہے،یہ راستہ تمام ترمحووفنا کا ہے، جہاں’’انا وانت نہیں۔ ابتداء میں ضعف ایمان کے وقت لا الہ الا اللہ “ ہے۔ (یعنی کوئی معبود نہیں اللہ کے سوا) ،

 اور  انتہاء میں قوت ایمان کے وقت لا إلہ إلا أنت“ ہے، (یعنی کوئی نہیں ہے تیرے سوا )،

کیونکہ مخاطب انتہائی حالت میں حاضر وشاہد ہو جا تا ہے ، جس نے مخلوق سے کچھ طلب کیا، وہ اللہ کے دروازے سے اندھا ہو گیا ۔ نہ اس نے اللہ کی کوئی خدمت کی نہ ہی اس کی صحبت میں رہا۔ اگر وہ جوانی کے عالم میں اس کی خدمت کرتا۔ تو یقینا اسے بڑھاپے میں غنی کر دیتا ۔ وہ ان بندوں کو بھی عطا کرتا ہے جو اس کی خدمت نہیں کرتے ، لہذا جو اس کی ” خدمت کریں گے ، وہ انہیں کیونکر نہ عطا کر لے گا، ۔ ایمان والا جب بوڑھا ہو جاتا ہے، اس کا ایمان قوی ہو جا تا ہے اور وہ قرب الہی کی وجہ سے مخلوق سے بے نیاز ہو جا تا ہے، اگرچہ وہ ایک ذرے، ایک لقمہ اور گدڑی کا بھی مالک نہ ہوتو بھی وہ مخلوق سے بے نیاز ہوتا ہے ، تم میری بات غور سے سنو، اور اسے پس پشت نہ ڈالو، میں تحقیق کے ساتھ سچ کہہ رہا ہوں، اور سچ کہہ رہا ہوں جوحق درحق ہے،  میں اپنے تجربے کی بنا پر کہ رہا ہوں کہ تم میں سے اکثر لوگ حجاب میں ہیں، انہیں اسلام  کا دعوی تو ہے مگرحقیقت میں ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے ۔ تم پر افسوس ہے کہ فقط اسلام کا نام لینا تمہیں کچھ نفع نہ دے گا۔ تم باطن کو چھوڑ کر اسلام کی ظاہری پابندیوں پرعمل کرتے ہو تمہاراعمل ادنی چیز کے بھی برابر نہیں ، لیلۃ القدر کی پہچان کے لئے اللہ کے نیک بندوں کے علم میں اس کی کچھ علامتیں ہیں، جن کی آنکھوں سے پردے ہٹا دیئے جاتے ہیں، فرشتوں کے ہاتھوں میں جو جھنڈے ہوتے ہیں، ان جھنڈوں  کی روشنی ، اور فرشتوں کے چہروں کا نور اور آسمانوں کے  دروازوں  کی روشنی  اور اللہ تعالیٰ  کے نور کا نظارہ کرتے ہیں۔ کیونکہ اس رات میں زمین والوں کیلئے اللہ کی خاص تجلی  ہوتی ہے۔

 بندہ جب اللہ کو پہچان لیتا ہے تو اس کا دل پوری طرح سے اس کے قریب ہو جا تا ہے ۔ اللہ تعالی اسے کامل عطیہ عطا فرماتا ہے اور بھر پورانس سے نوازتا ہے ،اسے کامل عزت بخشتا ہے، چنانچہ وہ بندہ جب اس سے قرار پاتا ہے تو اللہ تعالی اس کی خودی کو زائل کر دیتا ہے ۔ اس کے ہاتھ خالی کر دیتا ہے، اسے اپنی ذات کی طرف لوٹا لیتا ہے، پھر اپنے اور اس کے بیچ میں پردہ ڈال دیتا ہے، اس کے عمل دیکھنے کے لئے اسے پرکھتا ہے اور یہ کہ وہ ثابت قدم رہتا ہے یا بھاگ نکلتا ہے۔ جب اس کی ثابت قدمی تحقق ہو جاتی ہے تو اس سے پردے اٹھادیتا ہے، اور اسے اس کے پہلے حال کی طرف لوٹا دیتاہے، حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اکثر اوقات فرمایا کرتے تھے: مجھ میں میرا ہے ہی کیا! بندہ اور اس کی تمام ملکیت اس کے آقا کی ہوتی ہے ۔ آپ نے اپنے نفس کو اللہ کے سپرد کر دیا تھا، اور اپنے اختیار ومزاحمت زائل کر دیئے تھے، آپ اس بات پر راضی تھے کہ تقدیرالہی ان کی کار سازی کرے، آپ کا دل صالح اور نفس مطمئن ہو گیا تھا، آپ اس ارشاد باری پرعمل پیرا تھے

إِنَّ ‌وَلِيِّيَ اللَّهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتَابَ وَهُوَ ‌يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ” بے شک میراولی اللہ ہے جس نے کتاب اتاری ، وہ نیکوں کو دوست رکھتا ہے۔

حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ کی جب حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات ہوتی تو ان سے فرماتے آؤاللہ کے اس علم پر  ہم تم مل کر روئیں  جو ہمارے بارے ہے

کیاہی اچھا یہ کلام تھا ۔ یہ کلام اس شخص کا ہے جو اللہ کو جاننے والا اور پہچانے والا اور اس کے تصرفات کا علم رکھتا تھا،  اللہ کا کون سا علم ہے جس کی طرف حضرت فضیل رحمۃ اللہ علیہ نے اشارہ کیا تھا، وہ ارشاد باری میں ہے:

 هؤلاء إلى الجنة ولا أبالي وهؤلاء إلى النار ولا أبالي

یہ جماعت جنتی ہے اور میں بے پرواہ ہوں، کچھ پروا نہیں کرتا اور یہ جماعت جہنمی ہے اور میں بے پرواہ ہوں۔

اللہ تعالی نے سب کو ایک ہی جگہ پر اکٹھا کر دیا ،الہذا پتہ ہیں ہم دونوں میں سے کس جماعت میں ہیں ،  اولیاء اللہ اپنے ظاہری اعمال پر مغرور نہیں ہوتے ، کیونکہ اعمال کا اعتبار خاتمے پرموقوف ہے،

بہت سی مخلوق کے معبود بادشاہ بنے ہوئے ہیں،

 بہتوں کی دنیا اور امارت ، عافیت اور طاقت اور دیگر قوتیں معبود بنی ہوئی ہیں ۔

فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 611،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں