ذکر اللہ غموں سے نجات کا ذریعہ

حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :

کہ رسول کریم ﷺکی بیان کردہ حدیث قدسی ہے۔

 ‌مَنْ ‌شَغَلَهُ ‌ذِكْرِي عَنْ مَسْأَلَتِي أَعْطَيْتُهُ فَوْقَ مَا أُعْطِي السَّائِلِينَ ” جسے میرےذکر نے مجھ سے کچھ مانگنے سے روک دیا۔ میں اسے مانگنے والوں سے بہتر عطا کروں گا“ 

اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالی جب کسی بندے کو اپنانا چاہتا ہے اور اسے کسی بلند مقام پر فائز کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے ایک حالت سے دوسری حالت کی راہ پر چلاتا ہے۔ اسے طرح طرح کی مشقتوں، مصیبتوں اور بلاؤں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ غنی کے بعد اس پر فقر مسلط ہو تا ہے اور وہ بتقا ضائے بشری لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالی اس پر یہ دروازہ بند کر دیتا ہے اور اسے دریوزہ گری  (بھیک مانگنا) کی لعنت سے محفوظ فرمالیتا ہے۔ پھر اسے مجبور کر تا ہے کہ وہ لوگوں سے قرض لے پھر قرض لینے سے بھی اسےبچالیتا ہے۔ اور کسب کی راہ پر ڈال کر اس کیلئے اس راہ کو آسان کر دیتا ہے۔ وہ اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتا ہے جو کہ سنت طریقہ ہے پھر اس کیلئے کسب کو مشکل بنادیتا ہے اور یہ بات اس کے دل میں ڈال دیتا ہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرے ۔ بذریعہ الہام یہ حکم دے کر بندے کیلئے دوسروں سے سوال کرنے کو عبادت اور اس کے ترک کو معصیت بنادیتا ہے۔ مخلوق سے سوال کرانے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس طریقے سے خواہشات زائل ہو جائیں اور نفس کی سرکشی ختم ہو جائے۔ یہ در حقیقت مرحلہ ریاضت میں ہے۔ اور اس مرحلے میں مخلوق سے سوال کرنا شرک نہیں بلکہ بندے کو یہ بتانا مقصود ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے باذن الہی ہو تا ہے۔ پھر اللہ تعالی اپنے بندے کی حالت تبدیل فرمادیتا ہے اور اسے سوال کرنے سے بچالیتا ہے اور اسے حکم دیتا ہے (الہام کر تا ہے) کہ لوگوں سے قرض لے۔ اس امر باطنی کوبنده جانتا ہے۔ وہ آگاہ ہو تا ہے کہ یہ وسوسہ نہیں بلکہ حکم خداوندی ہے اس لیے ناممکن ہے کہ بندہ اس حکم کی خلاف ورزی کرے۔ جس طرح پہلے وہ مانگنے پر مجبور تھا اب قرض لینے پر مجبور ہوتا ہے پھر اللہ تعالی اسے قرض سے بھی بچا لیتا ہے اور اس کے ساری ضرورتوں کی خود کفالت کر تا ہے۔ بندہ دعا کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کی دعا قبول کرتا ہے۔ اگر دعا نہ کرے تو محروم رہتا ہے۔ پھر اسے اس حالت سے بہتر حالت کی طرف لے جاتا ہے۔ بند ہ بزبان قال سوال نہیں کرتا بلکہ دل کی زبان سے اپنی ضرورتوں کیلئے سوال کرتا ہے جب بھی بندوں کی زبان سے سوال کرتا ہے اس کی دعا قبول ہوتی ہے لیکن زبان قال سے کچھ مانگے تو محروم رہتا ہے اسی طرح مخلوق سے کچھ مانگے تو مخلوق اعراض برتتی ہے اور وہ محروم رہتا ہے۔ 

پھر اللہ تعالی اسے اس سےبھی غنی کر دیتا ہے۔ وہ ہر قسم کے سوال ظاہری و باطنی سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اور اس کی ساری ضرور تیں اللہ تعالی بن مانگے پوری فرماتا ہے۔ کھانا، پینا، لباس اور دوسری تمام بشری ضرورتوں کیلئے نہ اسے سوچناپڑتا ہے اور نہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ سب ضرورتیں خود خود پوری ہوتی جاتی ہیں۔ اللہ تعالی بندے کا کار سازبن جاتا ہے اور اس کی کی ضرورت نہیں رہتی جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے۔

 إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتَابَ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ یقینا میرا حمایتی اللہ ہے جس نے اتاری یہ کتاب ۔ اور وہ حمایت کیا کر تا ہے نیک بندوں کی“۔ 

 پس اس وقت اللہ تعالی کا یہ ارشاد متحقق ہوتا ہے۔ کہ جس کو میری یاد نے میری بارگاہ میں سوال کرنے سے مشغول رکھا میں اسے مانگنے والوں کو جو دیتا ہوں اس سے بہتر عطا کروں گا“۔ 

یہی  حالت فنا ہے جو اولیاء اور ابدال کے احوال کی غایت ہے پھرکبھی امور تکوینیہ بندے کے سپرد ہو جاتے ہیں اور وہ باذن خداوندی کلمہ کن سے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اللہ کریم کا کسی آسمانی کتاب میں ارشاد گرامی ہے۔ اے ابن آدم میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں کسی چیز کو کہتا ہوں ہو جا وہ ہو جاتی ہے۔ میری اطاعت کر۔ میں تمہیں وہ مر تبہ دونگا کہ جب تو کسی چیز کے بارے کہے گا ہو جا تو وہ ہو جائے گی۔

ہوس پرستی سے اجتناب لازم ہے

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وار دام نے فرمایا : 

خواب میں ایک بوڑھے شخص نے مجھ سے پوچھا۔ کوئی چیز بندے کو حق تعالی کے قریب کرتی ہے۔ میں نے جواب دیا کہ اس کی ایک ابتداء ہے اور ایک انتہاء اس کی ابتداء زہد وورع ہے جبکہ انتہا، تسلیم ورضا اور توکل ہے۔ 

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 142 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں