ذکر و اذ کار کے بارے میں فصل7

اللہ تعالی ذکر کرنے والوں کی رہنمائی کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے۔ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ (البقرہ:198( اور ذکر کرو اس کا جس طرح اس نے تمہیں ہدایت دی“ 

یعنی اللہ تعالی کا اس طرح ذکر کرو جس طرح اس نے تمہارے ذکر کے مراتب کی طرف تمہاری رہنمائی فرمائی۔ نبی کریم ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ 

فضَلُ ما أقولُ أَنا ومَا قالَهُ النَّبِيُّونَ مِنْ قَبْلِي لا إله إِلاّ الله بہترین کلمہ وہ ہے جس کا ورد میں کر تا ہوں اور مجھ سے پہلے انبیاء علیہم السلام کرتے رہے ہیں۔ وہ کلمہ لا الہ الا اللہ ہے۔ 

ذکر کے ہر مقام کا ایک خاص مرتبہ ہے خواہ ذ کر جہری ہو یا خفی ہو۔ پہلا مرتبہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی زبانی ذکر کی طرف رہنمائی کی ہے۔ پھر ذکر نفس ہے پھر ذکر قلب ، ذکر روح ، ذ کر سر، ذکر خفی اور آخر میں ذکر اخفی الخفی کا مرتبہ ہے۔

 لسانی ذکر :۔ گویا دل کو بھولا ہوا سبق یاد کرانا ہے۔ وہ اللہ تعالی کا ذکر بھول چکا تھا اس ذکر کے ساتھ اس کو یہ بھولا ہو اسبق یاد آجائے گا۔ 

ذکرنفس :۔یہ ذکر سنائی نہیں دیتا اور اس میں حرف و صوت پائے جاتے ہیں ہاں یہ باطن میں حس و حرکت کے ذریعے سنائی دیتا ہے۔

 ذکر قلبی :۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ دل اپنی تہہ میں اللہ کے جلال و جمال کو ملاحظہ کرے۔ 

ذکر روحی :۔ صرف روح ذکر کرتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تجلیات(غیبی انوار جو دلوں پر منکشف ہوتے ہیں) صفات کے انوار مشاہدہ میں آنے لگتے ہیں۔

ذکرسری :۔ اس سے مراد اسرارالہٰی کے مکاشفہ(اتصال یا تعلق باللہ کا نام مکاشفہ ہے۔ مکاشفہ سے چھپے راز عیاں ہو جاتے ہیں اور انسان باطن کی آنکھ سے سب کچھ دیکھنے لگتا ہے) کے لیے مراقبہ کرتا ہے۔ 

ذکر خفی :۔ مقصد صدق میں حجال ذات احدیت ( اللہ تعالی کی ذات یکتا) کے انوار کا معائنہ ذکر خفی ہے۔ 

ذکر اخفی الخفی :۔ حق الیقین کی حقیقت پر نظر رکھنا ذکر اخفی الخفی ہے ۔ اس ذکر سے سوائے اللہ تعالی کے کوئی مطلع نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔ 

فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى (طہ:7( وہ تو بلا شبہ جانتا ہے رازوں کو بھی اور دل کے بھیدوں کو بھی“ 

ذکر کی یہ صورت تمام عالموں تک پہنچنے والی اور تمام مقاصد کو پانے والی ہے یادرہے کہ ایک اور روح بھی ہے۔ اور کی یہ قسم تمام ارواح سے زیادہ لطیف ہے۔ اسی دوسری روح کا نام طفل معانی(انسان حقیقی ، عالم لاہوت میں روح کی پہلی صورت جس میں اللہ نے پیدا کیا) ہے۔ یہ اللہ تعالی کا ایک خاص عطیہ ہے جو بندے کو ان اطوار کے ذریعے اللہ تعالی کی طرف بلاتا ہے۔ عرفاء فرماتے ہیں کہ یہ روح ہر ایک کو نہیں ملتی بلکہ صرف خواص کو دی جاتی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ (غافر:15( نازل فرماتا ہے وہی اپنے فضل سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے ۔

یہ روح ہمیشہ عالم قدرت میں رہتی ہے اور عالم حقیقت(یہ عالم لاہوت میں انبیاء و اولیاء کا مقام ہے ۔ اس کی تشر یح میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد محل وصال ہے جہاں انسان و اصل بحق ہو تا ہے۔ اس کے متعلق ایک تیسرا قول بھی ہے کہ عالم حقیقت سے مراد عالم احسان میں دخول ہے۔ اس کو عالم قربت(یہ عالم لاہوت میں انبیاء و اولیاء کا مقام ہے ۔ اس کی تشر یح میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد محل وصال ہے جہاں انسان و اصل بحق ہو تا ہے۔ اس کے متعلق ایک تیسرا قول بھی ہے کہ عالم حقیقت سے مراد عالم احسان میں دخول ہے۔ اس کو عالم قربت کانام بھی دیا جاتا ہے۔) کانام بھی دیا جاتا ہے۔) کا اس طرح مشاہدہ(دل کی آنکھ سے حق کو دیکھنا) کرتی ہے کہ اس کی نظر غیر کی طرف کبھی ملتفت نہیں ہوتی جیسا کہ حضور ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ 

الدُّنْيا حَرَامٌ على أهْلِ الآخِرَةِ والآخِرَةُ حَرَامٌ عَلى أهْلِ الدُّنْيا والدُّنْيا والآخِرَةُ ‌حَرَامٌ ‌على ‌أهْلِ ‌الله دنیا اہل آخرت پر حرام ہے اور آخرت اہل دنیا پر حرام۔ اور یہ دونوں (دنیاو آخرت) اللہ والوں پر حرام ہے۔

اللہ تعالی تک پہنچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ جسم صبح و شام شریعت مطہره کی پابندی کر کے صراط مستقیم پر گامزن رہے طالبان حقیقت پر فرض عین ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ کی یاد میں رہیں جیسا کہ اللہ کریم کا ارشاد ہے۔ 

الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ (آل عمران:191)وہ عقل مند جو یاد کرتے رہتے ہیں اللہ تعالی کو کھڑے ہوئے اور بیٹھے ہوئے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے اور غور کرتے رہتے ہیں ۔

آیت کریم میں قیام سے مراد دن ہے قعودسے مراد رات ہے اور جنوب سے مراد یہ ہے کہ قبض ، بسط ، صحت ، بیماری، غنی، فقر ،تنگی و ترشی ہر حالت میں اللہ تعالی کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ 

سرالاسرار ،شیخ عبد القادر جیلانی صفحہ61 سلطان الفقر پبلیکیشنز لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں