ربوبیت کے نور کا مشاہدہ (دوسرا مراسلہ)

ربوبیت کے نور کا مشاہدہ کے عنوان سے دوسرے مراسلے کا دوسرا حصہ ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ حقیقت: – مخلوق کے مظہروں میں اللہ تعالیٰ کے نور کا دیکھنا ہے یا عبودیت کے جسموں میں ربوبیت کے نور کا مشاہدہ کرنا ہے۔ لہذا اہل حقیقت وہی ہے جو بادشاہ حق اللہ تعالیٰ کے نور کے مشاہدہ میں حقوق کے مشاہدہ سے غائب ہو جاتا ہے اور مسبب الاسباب کے مشاہد ہ میں سبب کے مشاہدہ سے فنا ہو جاتا ہے۔

لہذاوہ اگر حکمت کا خیال رکھتے ہوئے غائب ہے ، تو وہ کامل ہے اور اگر حکمت کا لحاظ رکھے بغیر وہ اسباب اور مخلوق سے غائب ہے۔ تو اگر وہ ایسا نا ئب ہے کہ اس کی اصلیت سے اس کا تعلق ختم ہو چکا ہے تو وہ معذور ہے۔

اس کو مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے۔

فَهَذَا عَبْدُ مُوَاجَهٌ بالحَقِيقَةِ  پس یہ ا یسا بندہ ہے جو حقیقت کے سامنے ہے

یعنی حقیقت کا نور اس پر منکشف ہو چکا ہے۔

ظَاهِرُ عَلَيْهِ سَنَاهَا حقیقت کا نور اس پر غالب ہے۔

لہذا جب انوار اس پر غالب ہو گئے تو وہ مست ہو گیا  اور حکمت کو بھول گیا۔ پس وہ اپنی سابق حالت کے اعتبار سے اس لیے کامل ہے کہ وہ وحدت کے سمندر میں مستغرق ( ڈوبا ہوا ) ہے۔ اور وہ وجد اور سکر غالب ہونے کی وجہ سے حکمت کی نفی کرنے میں معذور ہے۔

اور وہ اپنی بعد کی حالت کے اعتبار سے اس لیے ناقص ہے کہ اس کا فائدہ اس کو کم پہنچتا ہے۔ اگر چہ اس نے طریقت کا سلوک اختیار کیا ، اور اس کی انتہا تک سیر کر کے حقیقت تک پہنچ گیا ہے۔

جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے بیان فرمایا:-

سَالِك لِلطَّرِيقَة     وہ طریقت کا سالک ہے

یعنی اگر طریقت کا سلوک اس کو حاصل نہ ہوتا تو حقیقت کے عالم اس پر ظاہر نہ ہوتے اورحقیقت یہ ہے کہ اس سے صرف شریعت کے انوار اور حکمت کے اسرار گم ہو گئے ہیں۔ لیکن اس نے طریقت کا سلوک کیا ہے اور اس کی انتہا تک سیر کی ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا ہے ۔

قَدِ اسْتَوَلىّٰ عَلَى مَدَاهَا   وہ طریقت کی انتہا پر مضبوطی سے قائم ہو گیا ہے

اور حقیقت تک رسائی نہیں ہوتی ہے مگر طریقت کے سلوک اور ظاہر شریعت پر ثابت قدمی سے قائم ہونے کے بعد ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔

وَآتُوا البُیُوْتَ مِنْ أَبْوَابِهَا اور تم لوگ گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ   ۔

اور حقیقت کے گھر کیلئے شریعت اور طریقت کے سوا کوئی دروازہ نہیں ہے۔ پھر جب بندہ حقیقت تک پہنچ جاتا ہے تو آدمیوں میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا سینہ تنگ ہوتا ہے وہان انوار کو برداشت نہیں کر سکتے ہیں ا ور ان اسرار کے مشاہدہ کی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔ لہذا وہ وحدت کے مشاہدے میں گم ہو جاتے ، اور حکمت کو بھول جاتے ہیں ۔

اور آدمیوں میں کچھ لوگ کشادہ سینہ والے اور طاقتورنور کے اہل ہوتے ہیں۔ تو جب ان کے اور حقیقت کے انوار روشن ہوتے ہیں ، تو وہ ان کو حکمت کے ساتھ قائم ہونے سے مغلوب نہیں کرتے ہیں۔

اور حکمت کے ساتھ قیام :- حقیقت اور شریعت کے درمیان برزخ (درمیانی شے ) ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اس کی سیر فنا اور بقا میں ہوتی رہتی ہے، یہاں تک کہ وہ دونوں میں متمکن ( مضبوطی سے قائم ) ہو جاتا ہے اور اس کا معاملہ دونوں کے درمیان معتدل رہتا ہے اور یہ طاقتور لوگوں کی حالت ہے۔

اور طریقہ شاذلیہ سراپا ایسا ہی ہے۔ اس طریقے پر چلنے والا حقیقت اور شریعت کے درمیان سیر کرتا ہے۔ یہاں تک کہ معین اور اعتدال پر قائم ہو جاتا ہے۔ پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس قسم کے لوگوں کو کامل قرار دیا ہے جن پر حقیقت غالب ہو چکی ہے، چنانچہ فرمایا:-

غَيْرَ أَنَّهُ غَرِيقُ الْأَنْوَارِ    وہ انوار میں ڈوبا ہوا ہے

یعنی اس پر حقیقت کے انوار غالب ہو گئے ۔ یہاں تک کہ وہ احکام شریعت سے گم ہو گیا۔

مَطْمُوسُ الْآثَارِ آثار یعنی مخلوقات سے غائب ہے

یعنی مخلوقات کے دیکھنے سے اس حیثیت سے غائب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس لیے قائم کیا ہے کہ وہ ان کے ذریعے پہنچانا جائے۔

اور ایسا اس لیے ہے کہ جب اس پر حقیقت کے انوار روشن ہوئے تو اس نے فروع کو اس کے اصول سے ، اور ملکوت کے انوار کو جبروت سے ملا دیا۔ اور اس کے اوپر سکر غالب ہونے کی وجہ سے وہ واسطوں کو بھول گیا۔

جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے اس قول میں بیان فرمایا ۔

قَدْ غَلَبَ سُكْرُهُ عَلَى صَحُوہ                             اس کا سکر اس کے صحو پر غالب ہے

سکر :۔ اس طاقتور وارد کو کہتے ہیں جو قلب کو ظاہر کے دیکھنے سے غائب کر دیتا ہے۔

صحو :- اس طاقتور وارد کے چلے جانے کو کہتے ہیں ، یہاں تک کہ قلب غائب ہونے کے بعداحساس کی طرف لوٹ جائے ۔

غَلَبَ عَلَيْهِ أَيْضًا ( جَمْعُهُ عَلَى فَرْقِهِ ] اور نیز اس کا جمع اس کے فرق پر غالب ہے

جمع : بغیر مخلوق کے اللہ تعالیٰ کو دیکھنا ہے۔ فرق : بغیر اللہ تعالیٰ کے مخلوق کو دیکھنا ہے، لیکن اگر جمع کے بعد فرق ہو، تو مخلوق اور اللہ تعالیٰ کودیکھنا ہے۔

حاصل یہ ہے:۔ اہل جمع صرف اللہ تعالیٰ کو دیکھتے ہیں اور اہل فرق ، صرف مخلوق کو دیکھتے ہیں اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر استدلال کرتے ہیں اور جمع کے بعد اہل فرق ، مخلوق اور خالق پردونوں کو  دیکھتے ہیں، یعنی واسطہ اور موسوط کو دونوں کے درمیان فرق کے بغیر دیکھتے ہیں ۔

و غَلَبْ عَلَيْهِ أَيْضًا فَنَاءُهُ عَلَى بَقَائِهِاور نیز اس کی فنا اس کی بقا پر غالب ہے

فنا – اللہ تعالیٰ کے مشاہدے کے ساتھ مخلوق سے غائب ہوتا ہے۔ بقا – اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخلوق کا مشاہدہ ہے، اگر فنا کے بعد ہو ۔ اور اگرفنا کے پہلے ہو، تو اللہ تعالیٰ کے بغیر مخلوق کا مشاہدہ ہے اور وہ اہل حجاب کا مقام ہے۔

وا غَلَبَ عَلَيْهِ أَيْضًا ( غَيْبتُهُ عَلَى حُضُورِه اور نیز اس کی گمشدگی اس کے حضور پر غالب ہے

غیبت ۔ مخلوق کے دیکھنے سے قلب کاعلیحد ہ ہو جاتا ہے۔

حضور ظاہر اور ماسوی سے غائب ہونے کے بعد بارگا ہ الہٰی کا مشاہد ہ کرتا ہے۔ پس یہ سالکین میں سے اہل جذب کے حالات ہیں لیکن اگر ان کا کوئی شیخ ہے، تو یہ ضروری ہے کہ وہ ان کو ان حالات سے نکال کر سلوک میں پہنچائے گا اور وہ بقا کا مقام ہے۔پس  بقا جذ ب چاہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس کو پالیتا ہے۔ جیسا کہ جذب کا طالب اپنی زندگی میں اس کو پالیتا ہے۔ اور ہمارے بعض شیوخ فرمایا کرتے تھے :۔ تم ہمیں وہ شخص دکھاؤ جو ہمارے سامنے فرق کو پیش کرے، تو ہم اس کیلئے فرق سے نکل کر بقا کے میدان تک پہنچنے کے ضامن ہیں۔ اور بقا کی طرف مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے ۔

وَاكْمَلَ مِنْهُ عَبْدٌ شَرِبَ فَازْدَادَ صَحُوًا ، وَ غَابَ فَازْدَادَ حُضُورًا ، فَلَا جَمْعُهُ يَحْجُبُهُ عَنْ فَرقِهِ ، وَلَا فَرْقُهُ يَحْجُبُهُ عَنْ جَمْعِهِ ، وَلَا فَنَاءَهُ يَصُدُّهُ عَنْ بَقَائِهِ ، وَلَا بَقَائُهُ يَصُدُّهُ عَنْ فَنَائِهِ ، يُعْطِي كُلَّ ذِي قِسْطِ قِسْطَهُ ، وَيُوْفِي كُلَّ ذِى حَقٍ حَقَهُ

اور ان میں سے زیادہ کامل وہ بندہ ہے جس نے حقیقت کا شراب پیا تو وہ زیادہ ہوشیار ہو گیا۔ اور گم ہوا تو اس کی حضوری بڑھ گئی۔ لہذا نہ اس کا جمع اس کو اس کے فرق سے روکتا ہے، اور نہ اس کا فرق اس کو اس کے جمع سے محجوب کرتا ہے۔ اور نہ اس کی فنا اس کو اس کی بقا سے روکتی ہے ۔ اور نہ اس کی بقااس کو اس کی فنا سے روکتی ہے۔ وہ ہر حصہ والے کو اس کا حصہ عطا کرتا ہے اور ہر مقدار کو اس کا حق پورا پورا دیتا ہے۔

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ یہی تیسری قسم کے لوگ ہیں اور یہ خاص الخاص کا مقام ہے اور یہ لوگ اہل رسوخ و تمکین ہیں۔ پس جب ان لوگوں نے حقیقت کی شراب پی ، تو ان کی ہوشیاری زیادہ ہوگئی اور جب وہ اللہ تعالیٰ کے شہود میں مخلوق کے شہود سے غائب ہوئے تو ان کی حضوری بڑھ گئی ۔ لہذا تم ان کو فکر و نظر میں فرق دیکھو گے۔ لیکن اس کے باوجود وہ چیونٹی کے رینگنے کی آواز بھی سنتے ہیں ۔ یہاں تک کہ جوشخص ان کے مقام میں نہیں پہنچا ہے، وہ ان کی ذہانت اور ہوشیاری کی زیادتی کی بنا پر یہ خیال کرتا ہے، کہ یہ اہل غفلت میں سے ہے۔ حالانکہ یہ لوگ بارگاہ قدس میں غرق ہیں۔

حضرت رسول کریم ﷺلوگوں کے نماز کی امامت کرتے تھے لیکن جب آپ کسی بچے کے رونے کی آواز سنتے تھے تو بچے کی ماں پر شفقت و مہربانی کے خیال سے نماز کو مختصر کر دیتے تھے۔ یعنی اس کامل مقام والے کو اس کا جمع اس کے فرق سے نہیں روکتا ہے۔ لہذاوہ اپنی فرق کی حالت میں جمع کے مقام میں ہیں، اور اپنی جمع کی حالت میں فرق کے مقام میں ہیں۔ وہ اپنے مخلوق کے شہود کے حال میں اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ اور ان کو ان کی فنا، ان کی بقا سے نہیں روکتی ہے۔ پس وہ اپنے نفوس سے فانی، اور اپنے رب تعالیٰ کے ساتھ باقی ہیں ، اور نہ ان کو ان کی بقا ان کی فنا سے روکتی ہے۔ لہذا ان کا ظاہر ، ظاہر میں مشغول ہے لیکن ان کا باطن حقیقت سے معمور ہے۔ وہ ہر حقدار کو اس کا حق دیتے ہیں ۔ لہذا وہ حقیقت کو اس کا حق ، باطن میں اللہ تعالیٰ کے مشاہدہ میں مشغول رہتے ہیں ۔ اور شریعت کواس کا حق ظاہر میں شریعت کے حقوق میں اپنی جسمانی اعضا کو استعمال کر کے ادا کرتے ہیں۔ اور وہ ہر حصہ دار کو اس کا حصہ پورا پورا دیتے ہیں ۔ لہذا وہ آدمیوں کو احسان میں سے ان کو حصہ، اور اللہ تعالیٰ کو اس کا حصہ قلب کے ساتھ اس کی توحید میں پورا پورا دیتے ہیں۔ یا تم اس طرح کہو:۔ وہ انعام اور احسان کے شہود میں اللہ تعالیٰ کو واحد سمجھتے ہیں اور زبان سےواسطوں کا شکر ادا کرتے ہیں۔ یا تم اس طرح کہو:۔ وہ ربوبیت کو اس کا حق تنہا اس کی طرف سے احسان کا مشاہدہ کر کے ادا کرتے ہیں اور مخلوق کو اس کا حق عبودیت کا نشان قائم کرنے کیلئے واسطہ کا شکر ادا کر کے دیتے ہیں۔

حاصل یہ ہے:۔ یہ ویسے ہی ہے جیسے کہ حضرت شاذلی نے فرمایا ہے۔ تمہارے باطن میں جمع حاضر ہے اور تمہاری   زبان پر فرق موجود ہے۔

تنبیہ ۔ ہم نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ اس کامل مقام میں بغیر صحبت اور بغیر جذب کے تیراندازی کرتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ صرف شریعت کے علم اور عمل کی مضبوطی کے ذریعے وہ اس کامل مقام تک پہنچ جائیں گے ۔ حالانکہ یہ خیال قطعی غلط ہے کیونکہ اس مقام تک پہنچنے کا اس کے  سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ ان مقامات سے گزرے جو اس سے پہلے ہیں۔

اور وہ مقامات – جذب ہے، اور جذب:- مخلوق کے شہود سے خالق کے شہود کی طرف اچانک کھنچ جاتا ہے۔ اور جذب کیلئے سکر ضروری ہے ۔ پھر صحو اور جذب، پھر سلوک اور جمع ، پھر فرق اور فنا،پھر بقا ہے۔ ہاں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بعض افراد بہت طاقتور ہوتے ہیں ۔ وہ مخلوق کے مشاہدہ کے ساتھ بارگاہ الہٰی میں کھینچ لیے جاتے ہیں اور وہ جذب اور سلوک کے درمیان سیر کرتے ہیں۔ جیسا کہ طریقہ شاذلیہ اور اسی کے مثل دوسرے طریقوں میں ہوتا ہے جس کا بیان پہلے گزر چکا ہے۔

لیکن جس شخص نے ان عارفین کی صحبت نہیں اختیار کی ہے ، جنہوں نے ان مقامات کا سلوک اختیار کیا ہے وہ کبھی اس مقام پر پہنچنے کی تمنانہ کرے۔

اور اگر کبھی کوئی خاص شخص اس مقام پر پہنچ جائے تو وہ اس حکم سے مستثنی ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں