روح کا سمانا (پچیسواں باب)

روح کا سمانا کے عنوان سے پچیسویں باب میں  حکمت نمبر 246 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
روح کو نہ زمین اپنے اند ر سما سکتی ہے نہ آسمان اس حقیقت کو مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے:۔
246) إِنَّمَا وَسِعَكَ الكَوْنُ مِنْ حَيْثُ جِسمَانِيَّتُكَ (جثمانيتك) وَلمْ يَسَعْكَ مِنْ حَيْثُ ثُبُوتُ رُوحَانِيَّتِكَ .
تم کو تمہاری جسمانیت کی حیثیت سے عالم مطلق اپنے اندر سما سکتا ہے لیکن تمہاری روحانیت کی حیثیت سے وہ تم کو اپنے اندر نہیں سما سکتا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : – روح جب ظاہر کی کثافتوں سے پاک وصاف ہو جاتی ہے۔ تو وہ عالم جبروت کی طرف ترقی کرتی ہے۔ پھر اس کو اللہ تعالیٰ سے نہ زمین روک سکتی ہے، نہ آسمان ، نہ عرش و کرسی ۔ بلکہ یہ سب اس کے پیٹ میں حقیرشے کی طرح ہو جاتی ہیں۔ اور یہ عارفین کے نزدیک ایک ذوقی امرہے۔ لہذا جب وہ کل عالم کی طرف دیکھتے ہیں تو وہ پگھل کر پانی ہو جاتا ہے۔ تو جب وہ اس کو پیتے ہیں ، تو وہ ان کے قلوب میں ایک نقطہ کی طرح ہو جاتا ہے ۔ اور عارفین عالم کے احاطہ کرنے میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ ان میں کچھ عارفین ایسے ہیں جن کی نظر میں کل عالم ایک انڈے کے مثل ہوتا ہے۔ اور ان میں سے کچھ عارفین ایسے ہیں ۔ جن کی نظر میں رائی کی طرح ہوتا ہے۔ اور یہ فرق فکر و نظر کی فراخی اور تنگی کے مطابق ہوتا ہے۔ لہذا روح جیسے جیسے جبروت کے سمندر میں غوطہ لگاتی ہے ، ویسے ویسے یہ عالم اس کے نزدیک چھوٹا ہوتا جاتا ہے۔ یہانتک کہ روح عالم کو محسوس بھی نہیں کرتی ہے۔ اس لئے ایک عارف نے فرمایا ہے: عارف کے قلب کے گوشوں میں سے کسی گوشہ میں اگر عرش سما جائے ، تو وہ اس کو محسوس نہیں کرتا ہے۔
اور ایک دوسرے عارف نے فرمایا ہے:۔ عرش وکرسی میرے ڈھال میں چھپے ہوئے ہیں۔
اور ہمارے شیخ الشیوخ سیدی حضرت عبد القادر جیلانی نے فرمایا ہے: عرش و کرسی میری مٹھی کی لپیٹ میں ہیں۔ پھر عالم نیست و نابود ہو جاتا ہے ۔ اور عالم ملکوت عالم جبروت سے مل جاتا ہے۔ لہذا صرف اللہ حی و قیوم باقی رہ جاتا ہے۔ جس کے لئے فنا نہیں ہے۔ اور اس حقیقت کو صرف وہی عارفین سمجھتے ہیں ، جن کی روحانیت ان کی بشریت پر غالب ہوچکی ہے۔ کیونکہ وہ روحانی ملکوتی ہو چکے ہیں۔ ان کے اجسام مخلوق کے ساتھ ، اور ان کی ارواح اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہیں۔
لہذا اے انسان تمہاری جسمانیت اور بشریت ، اور گھری ہوئی محدود شکل کی حیثیت سے کائنات تم کو اپنی وسعت میں سمائے ہوئے اور تم کوگھیرے ہوئے ہے ۔ لیکن تمہاری روحانیت کی حیثیت سے کائنات کے اندر تمہاری گنجائش نہیں ہے۔ بلکہ کائنات کو تم اپنی وسعت میں سمائےہوئے اورگھیرے ہوئے ہو۔ کیونکہ تمہاری روح اس عالم جبروت سےملی ہوئی ہے، جو کل کا ئنات کو گھیرے ہوئے ہے۔
لیکن جب روح کثیف ہو جاتی ہے اور اس شکل میں گھر جاتی ہے۔ تو اس پر قہریت لازم ہو جاتی ہے۔ پھر وہ حکمت کے ساتھ محجوب ، اور قدرت کے ساتھ مقید ہو جاتی ہے۔
لہذا جب تک بشریت خواہشات اور عادات کی محبت سے کثیف رہتی ہے۔ اس وقت تک وہ محجوب رہتی ہے لیکن جب وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے لطیف ہو جاتی ہے، اور ظاہر کا حجاب دور ہو جاتا ہے۔ تو وہ اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ اور اپنے سمندر سے مل جاتی ہے۔ اس وقت ملک اور ملکوت اس کی مٹھی میں ہو جاتے ہیں۔ اور اس وقت اس کو نہ زمین اپنے اندر سما سکتی ہے نہ آسمان ، نہ اس کوعرش گھیر سکتا ہے نہ فرش ۔ اس لئے کہا گیا ہے: صوفی کو نہ زمین اٹھا سکتی ہے نہ آسمان اس کو سایہ دے سکتا ہے۔
حدیث قدسی میں ہے۔ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: لَمْ تَسَعْنِي أَرْضِي وَلَا سَمَائِي، وَوَسِعَنِى قَلْبُ عَبْدِى الْمُؤْمِنِ، أَي الْكَامِلِ وَهُوَ الْعَارِفُ
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے نہ میری زمین مجھے اپنے اندر سماسکتی ہے نہ میرا آسمان ۔ لیکن میرے مومن بندے کے قلب نے مجھ کو اپنے اندر سمالیا ہے یعنی وہ مومن جو کامل ہے۔ اور مومن کامل ہی عارف ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
لہذا جبروت و لطیف اور قدیم حقیقت ہے۔ جو عالم خلق میں داخل نہیں ہے۔ اور ملکوت اپنے جمع اور اپنی اصل کے ساتھ ملنے ہونے کے اعتبارت عالم خلق میں داخل ہے۔ اور ملک ۔ عالم خلق میں داخل ہے اور اس کا وجود فرق کے اعتبار سے ہے۔ اور اہل جمیع کے نزدیک ملک کا وجود ہی نہیں ہے۔ ان کے نزدیک صرف ملکوت و جبروت ہے۔ اور جب تک ان کو لطیف اور کثیف نور کا فرق محسوس ہوتا ہے ان کی نظر میں ملکوت و جبروت رہتے ہیں۔ پھر جب وہ ہرشے کو اس کی اصل کے ساتھ ملا ہواد یکھتے ہیں ۔ تو صرف جبروت باقی رہ جاتا ہے۔
اور اہل فرق ، اپنے وہم کی وجہ سے ملک کو دیکھتے ہیں۔ اور اس میں مشغول ہو کر اللہ تعالیٰ سے محجوب ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اور ان کے درمیان ملک کاحجاب حائل کر دیا ہے ۔
وَاللهُ غَالِبٌ عَلَى اَمٌرِہِ اور اللہ تعالیٰ اپنے حکم پر غالب ہے ۔
لہذا جب تک بندہ مخلوق میں محدود ، اور اپنی بشریت میں گھرا ہوا ہے اس وقت تک وہ کائنات کے قید خانے میں مقید ہے۔ پھر اگر اس کی بصیرت کی روشنی بڑھتی ہے اور اس کی روح ملکوت کی بلندی کی طرف چڑھتی ہے۔ تو وہ کائنات کے قید خانے سے نکل کر ملکوت کی آزاد فضا میں پہنچ جاتا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں