زبانوں کا عاجز ہونا (باب  نہم)

زبانوں کا عاجز ہونا کے عنوان سے  باب  نہم میں  حکمت نمبر77 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اللہ تعالیٰ تم کو استقامت کا کمال عطا کر دے۔ اور تم اپنی فوت شد ہ طاعتوں کے لئےنادم ہو کر اس کی طرف متوجہ ہو جاؤ ، تو تمہارا انجام اللہ تعالیٰ تک جو تمہارا دوست اور تمہارے قریب ہے، پہنچنا، اور اس سے سر گوشی کرنا ہوگا ۔ اور اس مقام میں پہنچنے کے بعد زبا نیں ، عبارت یعنی بیان سے عاجز ہو جاتی ہیں۔ اور اشارے ختم ہو جاتے ہیں۔ (یعنی وہاں جو حالت ہوتی ہے ،و ہ نہ زبان سے بیان کی جاسکتی ہے، نہ اشارے سےسمجھائی جاسکتی ہے ) جیسا کہ حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس حقیقت کو اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے۔
77) مَا الْعَارِفُ مَنْ إِذَا أَشَارَ وَجَدَ الْحَقَّ أَقْرَبَ إِلَيْهِ مِنْ إِشَارَتِهِ ، بِلِ الْعَارِفُ مَنْ لاَ إِشَارَةَ لَهُ لِفَنَائِهِ فِي وُجُودِهِ وَانْطِوَائِهِ فِي شُهُودِهِ.
عارف وہ شخص نہیں ہے کہ جب وہ اشارے کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے اشارہ سے اپنی طرف زیادہ قریب پائے ۔ بلکہ عارف وہ ہے جس کے لئے اشارہ کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے وجود میں فنا اور اس کے مشاہدہ میں محو ہے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں اشارہ ، عبارت سے زیادہ لطیف اور پوشیدہ ہے۔ اور رمز، اشارہ سے زیادہ پوشیدہ ہے۔ پس امور تین ہیں: عبارتیں ۔ اشارے ۔ رموز ۔ اور ہر ایک اپنے پہلے سے زیادہ پوشید ہے۔ پس عبارت ، واضح کرتی ہے۔ اور اشارہ ظاہر کرتا ہے۔ اور رمز محبوب حقیقی کے سامنے ہونے کے باعث فرحت بخشتا ہے۔ عارفین نے فرمایا ہے: ۔ ہمارا علم ، سب کا سب اشارہ ہے ۔ تو جب وہ بیان کی شکل اختیار کرتا ہے ۔ تو اس کا سر پوشیدہ ہو جاتا ہے۔ یعنی جب زبان کی فصاحت بیانی کے سبب عبارت بن جاتا ہے، تو اس کا سر قلب پر نہیں ظاہر ہوتا ہے۔ پس صوفیائے کرام کے اشارے، ان کی غزلیات اور محبوب کے ساتھ ان کے اشارے و کنایئے ہیں۔ جیسے کہ سلمی اور لیلی کا ذکر ، اور شراب اور عیار ، اور چالاک ہمنشین و غیر ہ الفاظ جن کا ذکر ان کے اشعار اور غزلیات میں ہیں اور جیسے کہ چاند اور ستارے اور سورج اور بدر کامل ، اور ظاہر ہونے والے، اور طلوع ہونے والے کا ذکر، اور جیسے کہ سمندروں، دریاؤں اور ڈبونے وغیرہ کا ذکر ۔ جو ان کی اصطلاحوں میں بیان کئے گئے ہیں۔
رموز :۔ وہ محبوب اور حبیب کے درمیان اسرار ہیں ۔ جو ان کے سواد دسرا نہیں سمجھ سکتا۔ انہی اسرار میں سے قرآن مجید میں سورتوں کے شروع میں حروف مقطعات ہیں۔
اور انہیں اسرار میں سے حدیث شریف میں جیسے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ کا کلام حضرت ابوبکر صدیق کے ساتھ :
اريد ان ادْعُوک لأمر، قالَ وَمَا هُوَ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ هُو ذاك میں چاہتا ہوں تم کو ایک کام کے لئے بلاؤں۔ حضرت ابوبکر صدیق نے کہا ۔ یا رسول اللہ ﷺوہ کیا ہے؟ آنحضرت نے فرمایا ۔ وہ یہ ہے ۔ پس آپ ﷺ نے ایسے کام کے لئے رمز کیا، جو آپ ﷺ کے اور حضرت صدیق درمیان ہے۔ اور ان دو حضرات کے سوا کوئی اور اس کو سمجھ نہیں سکتا ہے۔ نیز حضرت نبی کریم ﷺنے حضرت ابو بکر سے فرمایا: (یا ابا بكر اتعلَمُ يَوْمَ يَوْمَ لفظ يوم دو مرتبہ ( قَالَ نَعَمُ يَا رَسُولَ اللَّهِ سَأَلْتَنِي عَنْ يَوْمِ الْمَقَادِيرِ اے ابو بکر کیا تم اس دن کو جانتے ہو ۔ حضرت ابو بکر نے کہا: ہاں یا رسول اللہ ! آپ نے مجھ سے مقداروں کے (اندازوں ) دن کے بارے میں دریافت فرمایا ہے ۔ تو یہ حضرت ابو بکر صدیق اور ان کے دوست رسول اللہﷺ کے درمیان رموز ہیں۔
حضرت شیخ زروق رضی اللہ عنہ نے حزب کبیر کی شرح میں فرمایا ہے۔ حکما کے رموز میں عقلیں حیران ہو گئی میں تو علماء کرام کے رموز میں ان کا کیا حال ہو گا ؟ پھر انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے رموز میں ان کی حیرانی کتنی ہوگی ؟ تو رب العالمین کی حقیقتیں سمجھنے کی خواہش وہ کس طرح کرتا ہے؟
اشارات:۔ تو صوفیائے کرام میں اہل اشارہ حضرات اس کو سمجھتے ہیں۔ اور اشارہ کو سمجھنے اور نہ سمجھنے کے لحاظ سے آدمیوں کی کئی قسمیں ہیں ۔ ایک قسم وہ لوگ ہیں ۔ جو صرف ظاہری عبارت کو دیکھتے ہیں ۔ اور اس سے آگے کچھ نہیں سمجھتے ہیں اور وہ عام لوگوں میں سے جاہلین ہیں۔
دوسری قسم وہ لوگ ہیں جو مقصود کو سمجھتے ہیں۔ اور اشارے کے بعد، یعنی اشارے کو سننے کےبعد حق کو پالیتے ہیں۔ اور وہ سائرین میں ابتداوالے ہیں۔
تیسری قسم وہ لوگ ہیں جو اشارہ کو سمجھتے ہیں اور مشار الیہ یعنی حق تعالیٰ کو اپنے اشارہ سے اپنے زیادہ قریب پاتے ہیں اور وہ مرتبہ تمکین میں پہنچنے سے پہلے ذات میں فنا ہونے والے ہیں اور اس لئے تم اس قسم کے لوگوں کو سماع کے وقت وجد میں آکر حرکت کرتے ، اچھلتےکودتے ، ہوئے پاتے ہو اور ان کے اوقات خوشگوار ہوتے ہیں۔ اور جتنا وہ ذکر کے وقت وجد کی حالت میں ہوتے ہیں ، اس سے کہیں زیادہ ان کی روحیں حیران و سرگرداں ہوتی ہیں ۔ کیونکہ اشارہ عبارت سے زیادہ ہیجان و جوش میں لاتا ہے۔
اس کے برعکس متمکنین ہیں۔ ان کے قدم جم چکے ہیں۔ ان کے قلوب مطمئن و پرسکون ہو چکے ہیں۔ ان کا وصال ثابت ہو چکا ہے۔ لہذا وہ اشارہ اور اشارہ کرنے والے سے بے نیاز ہو گئے ہیں۔
حضرت جنید سے دریافت کیا گیا:۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ پہلے سماع میں حرکت کرتے ، اور وجد میں آتے تھے ۔ اور اب ہم آپ کو کسی چیز سے حرکت کرتے نہیں دیکھتے ہیں۔ حضرت جنید نے فرمایا:
وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ تم پہاڑ کو دیکھ کر اسے جامد یعنی اپنی جگہ پر جما ہوا سمجھتے ہو حالانکہ وہ بادل کی طرح چلتا ہے ۔
اور یہی وہ عارف ہے، جس کو اللہ تعالیٰ کے وجود میں فنا ہونے ، اور اس کے مشاہدہ میں محو ہونے کی وجہ سے اشارہ کی ضرورت نہیں ہے۔ یا تم اس طرح کہو: یہ اس کے وصال کے ثابت ہونے ، اور مشاہدہ میں قائم ہونے کی وجہ سے، اس کو اشارے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے وجود کے اس کے محبوب کے وجود میں فنا ہونے ، اور اس کی ذات کے اس کے مشہود کی ذات میں محو ہونے کی وجہ سے مشیر (اشارہ کرنے والا) خود مشار الیہ (جس کی طرف اشارہ کیا جائے ) ہو گیا ہے۔
یا اس طرح کہو:۔ اس کے وہم کے زائل ہونے ، اور اس کے علم کے ثابت ہونے کے باعث اس کو اشارے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ وحدت ثابت ہوگئی، اور غیریت ختم ہو چکی ہے۔
رَقَ الزَّجَاجُ وَرَاقَتِ الْخَمَرُ فَتَشَابَهَا وَتَشَاكَلَ الْأَمْرُ
شیشہ کا پیالہ بھی لطیف ہے اور شراب بھی لطیف ہے ۔ پس دونوں ایسا مشابہ ہو گئے کہ پہچاننا مشکل ہو گیا۔
فكانما عمرٌ وَلَا قَدْحٌ وَكَانَّمَا قَدَحٌ وَلَا عَمْرٌ
تو گویا کہ شراب ہے اور پیالہ نہیں ہے۔ اور گویا کہ پیالہ ہے اور شراب نہیں ہے
تو پیالہ سے مراد جسم، اور شراب سے مراد روح ہے۔ یا تم اس طرح کہو:۔ اس کی حس کے ختم ہو جانے ، اور اس کے نشان کے مٹ جانے کی بناء پر ایسی حالت ہے۔ پس برتن ٹوٹ گیا یعنی ظا ہر ختم ہو گیا اور باطن ظا ہر ہو گیا ۔
وَطَاحَ مَقَامِي فِي الرَّوَاسِم كُلُّهَا فَلَسْتُ أَرَى فِي الْوَقْتِ قُرْباً وَلَا بُعْدًا
اور میرا مقام کل کا کل، نشانیوں میں گم ہو گیا۔ تو میں اس وقت نہ قرب دیکھتا ہوں نہ بعد ۔
فنيتُ بِهِ عَنِى فَبَانَ بِهِ عَیبى فَهَذَا ظُهُورُ الْحَق عِندَ الفَنَا قَصٌداً
میں اس کے ساتھ اپنے وجود سے فنا ہو گیا۔ تو میرا غا ئب ہونا اس کے ساتھ ظاہر ہوا۔ تو یہ حق تعالیٰ کا ظاہر ہونا ہے، جو قصد وارادہ سے فنا ہونے کے وقت ہوتا ہے۔
أَحَاطَ بِنَا التَّعظِيمُ مِنْ كُلِّ جَانِبِ وَعَادَتْ صِفَاتُ الْحَقِّ مِمَّا يَلِى الْعَبدَا
تعظیم نے ہر طرف سے ہمیں گھیر لیا ہے۔ اور حق تعالیٰ کی صفات بندے کی صفات ہو گئیں ۔
حضرت شیخ ابو العباس مرسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔ اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہیں جن کے افعال کو اپنے افعال کے ساتھ ، اور ان کی صفات کو اپنی صفات کے ساتھ ، اور ان کی ذات کو اپنی ذات کے ساتھ فنا کر دیا ہے۔ اور اپنے اسرار میں سے ایسے اسرار کا ان کو حامل بنایا ہے، جس کےتحمل سے اولیاء بھی عاجز ہیں ۔
حضرت شیخ ابن مشیش قطب رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔ (اللہ تعالیٰ ان کی برکتوں سے ہم کوفیضیاب کرے) محبت کی شراب نے صفات کو صفات کے ساتھ ، اخلاق کو اخلاق کے ساتھ ، انوار کو انوار کے ساتھ ، اسموں کو اسموں کے ساتھ ، تعریفوں کو تعریفوں کے ساتھ ، اور افعال کو افعال کے ساتھ ملا دیاہے۔ اور ملانے سے مراد شراب کی مناسبت سے تغیر و تبدیلی ہے۔
امام طریقت ابو القاسم حضرت جنید رضی اللہ عنہ نے عارف کے وصف میں بیان فرمایا ہے:۔
عارف:۔ ایسا بندہ ہے جو اپنے نفس سے دور رہنے والا ، اپنے رب کے ذکر میں ہمیشہ مشغول، اس کا حق ادا کرنے میں قائم ، اپنے قلب سے اسی کی طرف دیکھنے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے انوار نے اس کے قلب کو جلا دیا ہو۔ اور اس کی محبت کے جام سے صاف شراب اس نے پی ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پر دہ غیب سے اس کے سامنے تجلی کی ہو ۔ تو اگر وہ بات کرے تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اگر وہ خاموش رہے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے، اور اگر وہ حرکت کرے تو اللہ تعالیٰ کی اجازت سے، اور اگر سکون اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ کی معیت میں ، پس وہ اللہ کے ساتھ ، اور اللہ کیلئے اور اللہ کی معیت میں، اور اللہ کی طرف سے، اور اللہ کی طرف ہوتا ہے۔
پس راسخ و متمکن حقیقی عارف کی یہ صفات ہیں:۔ اس کی زبان بیان سے عاجز ہوتی ہے۔ اور وہ اشارہ اور اشارہ کرنے والے سے بے نیاز ہوتا ہے تو جب اس سے کوئی اشارہ یا بیان صادر ہوتاہے تو وہ کسی وجد کے فیضان ، یا کسی فقیر کی ہدایت کا نتیجہ ہوتا ہے۔
اور ممکنین سے جو اشارے صادر ہوئے ہیں وہ اس پر محمول کئے جائیں گے ۔ جیسا کہ حضرت شیخ العباس رضی اللہ عنہ کا کلام ہے۔
اعِندَكَ عَنْ لَيْلَى حَدِيثٌ مُحَرَّرُ بِإِبْرَادِهِ يُحْيِ الرَّمِيمَ وَيَنْشُرُ
کیا تمہارے پاس لیلی کی کوئی لکھی ہوئی بات ہے جو اپنے بیان کرنے کے ساتھ بوسید و ہڈی کو زندہ کر دیتی اور اٹھاتی ہے؟
فَعَهْدِى بِهَا الْعَهْدُ الْقَدِيمُ وَإِنَّنِي عَلَى كُلِّ حَالٍ فِي هَوَاهَا مُقصِرُ
پس میرا عہد اس کے ساتھ پرانا عہد ہے اور میں ہر حال میں اس کی محبت میں کوتاہی کرنےوالا ہوں ۔
وَقَدْ كَانَ ھذھ اللطَّيْفُ قِدْمًا يَزُورُنِي وَلَمَّا يَزُرُ مَا بَالَهُ يَتَعَذَّرُ
اور نیند میں اس کا خیال بہت زمانے سے میری زیارت کرتا تھا یعنی نیند میں برابر اس کا خیال آتا تھا۔
اور جب اس کا خیال میری زیارت کرتا تھا تو کیا اس کے حال میں دشواری ہوتی تھی؟
وَهَلْ بَخِلَتْ حَتَّى بِطَيْفِ خَيَالِهَا أَم ِاعْتَلَّ حَتَّى لَا يَصِحَ التَّصَورُ
اور اب کیا وہ بخیل ہوگئی اتنا کہ نیند میں اس کا خیال بھی نہیں آتا یا مجبور ہوئی اتنا کہ تصور بھی درست نہیں ہوتا ہے۔
وَمِنْ وَجْهِ لیلَى طَلَعَةُ الشَّمْسِ تَسْتَضي وَفِى الشَّمْسِ أَبْصَارُ الْوَرى تَتَحَيَّرُ
اور لیلی کے چہرے سے آفتاب روشنی حاصل کرتا ہے اور آفتاب میں مخلوق کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔
وَمَا احْتَجَبَتْ إِلَّا بِرَفْعِ حِجَابِهَا وَمِنْ عَجَبٍ أَنَّ الظُّهُورَ تَسَتُرُ
اور وہ پوشیدہ نہیں ہوئی مگر حجاب کے اٹھ جانے کی وجہ سے اور تعجب یہ ہے کہ ظاہر ہونا ہی پوشیدہ ہونا ہے۔
ایسے ہی میں نے شیخ کی تحریر میں پایا ہے اور وہ اکثر اشعار میں لیلیٰ کی مثال بیان کرتے تھے ۔ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنی کتاب لطائف المنن میں بیان فرمایا ہے۔ پس حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کا قول عارف وہ نہیں ہے آخر تک یعنی عارف کامل ، راسخ متمکن وہ نہیں ہے جو اشارے کا محتاج ہو ۔ لیکن سائر :۔ تو وہ اشارے کا محتاج ہوتا ہے۔ اور اشارہ سے یا اشارہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو اپنی طرف زیادہ قریب پاتا ہے۔ اور اشارہ:۔ اس کے لئے مدد اور اس کی غذا ہے۔ جیسا کہ عبارت: متوجہین کے لئے مدد اور غذا ہے۔
اور عنقریب وہ عبارت آئے گی جو محتاج سننے والوں کے لئے غذا ہے۔ اور جتنا تم کھا سکتے یعنی برداشت کر سکتے ہو اتنا ہی تمہارا حصہ ہے۔ اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کا قول جب اشارہ کیا۔ یا کرے یعنی اس کے لئے اشارہ کیا گیا یا اشارہ کیا جائے۔
اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کا قول ۔ بلکہ عارف وہ ہے جس کے لئے اشارے کی حاجت نہیں ہے یعنی وہ اپنی ذات کے لئے اشارے کا محتاج نہیں ہے۔ لیکن دوسرے کے لئے کبھی اس کو اشارہ کیا جاتا ہے۔ اور عارف کامل اشارہ سے اس لئے بے نیاز ہے۔ کہ اشارہ اور عبارت بھوکے کی غذا ہے۔ اوروہ آسودہ اور بے نیاز ہو چکا ہے۔
یا تم اس طرح کہو:۔ اس لئے کہ اشارے کا تقاضا جدائی اور دوری ہے ۔ اور وہ جمع کر لیا گیا ہے۔ اسی لئے حضرت ابو یزید رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔ جس کی طرف اشارہ زیادہ کیا گیا۔ وہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ دور ہے۔
حضرت ابن عریف نے اس کی صفات میں بیان فرمایا ہے:۔ اشارہ :۔ بعد یعنی دوری کااعلان ہے۔ اورعین مرض کی وضاحت ہے۔ اور عین مرض دوری اور جدائی ہے ۔ حضرت روز بادی نے فرمایا ہے:۔ اشارہ : ان احوال سے جدا ہوتا ہے جن کو وجد شامل ہے۔ اور جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وارد ہوتے ہیں۔ اور فی الحقیقت اشارہ کے ساتھ علتیں ہوتی ہیں۔ اورعلتیں حقیقتوں سے دور ہوتی ہیں ۔
حضرت شبلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔ ہر اشارہ جس کے ذریعہ اشارہ کیا جائے جدائی اور دوری ہے۔ ان کے اس قول کی دلیل سے یہانتک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ اشارہ کریں۔ اور اشارہ و مشیر سے اللہ تعالیٰ کے بے نیاز ہونے کی وجہ سے اس کی طرف طریقہ کی نفی کی ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
اور احتمال یہ ہے کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اشارہ سے مراد قلب یا فکر کا اشارہ وجود کی طرف لیا ہو ۔ کیونکہ قلب جب موجود کی طرف کلی طور پر اشارہ کرتا ہے۔ تو فنا ہو جاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کو اس کی مخلوق کے لئے اپنے اشارہ سے زیادہ قریب پاتا ہے۔ یعنی وہ اپنے اشارہ سے پہلے ہی فنا ہو چکا ہے۔ اوریہ سائرین کا حال ہے۔ لیکن واصل :۔ تو وہ اس کی مخلوق کے لئے اشارہ کا محتاج نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی فنا ثابت ہو چکی ہے۔ اور اس کا وجود اس کے محبوب کے وجود میں گم ہو گیا ہے۔ تو اس کو اس کے حال کے قائم اور مقام کے ثابت ہونے کی وجہ سے اشارہ کی حاجت نہیں ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
حضرت ابو سعید بن اعرابی سے فنا کے بارے میں دریافت کیا گیا۔ تو انہوں نے فرمایا:۔ فنایہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال بندے پر ظاہر ہو۔ اور وہ اس کو دنیا، اور آخرت ، اور احوال، اور درجات ، اور مقامات ، اور اذکار بھلا دے۔ اس کو ہر شے سے، اور اس کی عقل ، اور اس کے نفس ، اور اشیاء سے اس کی فناء، اور فنا سے اس کی فنا سے فنا کر دے۔ اس لئے کہ وہ اس کی تعظیم میں غرق ہوتا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں