سرور کی تین اقسام

خاتمہ کے عنوان کا تیسراحصہ سرور کی تین اقسام ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

بعض بزرگوں نے فرمایا ہے :۔ سرور کی تین قسمیں ہیں ۔

ابتداء اور وسط اور انتہا

سرور کی ابتداء یہ ہے، کہ اس حالت میں جدائی کا خوف اور جہالت کی تاریکی ختم ہو جاتی

سرور کا وسط یعنی درمیان یہ ہے، کہ اس حالت میں علم کا حجاب دور ہو جاتا ہے اور تکلیف کی غلامی مٹ جاتی ہے اور تدبیر و اختیارختم ہو جاتا ہے۔

سرور کی انتہا یہ حالت وحشت کے آثار کو مٹادیتی ہے اور مشاہدہ کے دروازے کو کھٹکھٹاتی ہے اور تجلی کی بشارت کیلئے روح کے چہرے کو بشاش (ہنس مکھ )بنا دیتی ہے۔

لہذاسرور کی ابتداء میں تصدیق حاصل ہوتی ہے اور اس کے وسط میں انسیت حاصل ہوتی ہے اور اس کی انتہا میں جمیع اور وصال حاصل ہوتا ہے۔

سرور کی اقسام ثلثہ کی مثال

ایک عارف نے سرور کی تینوں قسموں کی مثال بیان کی ہے۔ یعنی ایک وہ شخص ہے جو نعمتوں سے اس وجہ سے خوش ہوتا ہے کہ اس میں اس کی خواہش پوری ہوتی ہے۔ دوسرا وہ شخص ہے۔ اس وجہ سے خوش ہوتا ہے کہ وہ نعمتوں میں نعمت دینے والے کا احسان دیکھتا ہے اور تیسر اور شخص ہے جو صرف نعمت دینے والے سے خوش ہوتا ہے۔ ان عارف نے فرمایا۔ اس کی مثال اس طرح ہے ۔ تین اشخاص بادشاہ کے پاس گئے ۔

بادشاہ نے ہر شخص کو ایک گھوڑ اور ایک تلواردی۔ تو ایک شخص نے کہا ۔ ہم اس گھوڑے سے فائدہ حاصل کریں گے۔ اور اپنی حاجتیں پوری کرنے کیلئے ہم اس پر سوار ہوں گے اور ہم اس پر سوار ہو کر اپنے دشمن سے جنگ کریں گے۔ تو وہ اس سے اس لیے خوش ہوا کہ اس میں اس کے فوائد حاصل ہوں گے ۔ اور اس کی خواہش پوری ہوگی۔ اس کے دل میں بادشاہ کی محبت نہیں ہے بلکہ صرف اپنی حاجت پوری کرنے کیلئے اس کے پاس آیا۔دوسرے شخص نے کہا ہم باد شہ کی خدمت کیلئے اور اس کے پاس حاضر ہونے کیلئے اور ان کے دشمن سے جہاد کرنے کیلئے اس گھوڑے سے  مدد لیں گےتووہ گھوڑے سے اس لیے خوش ہوا کہ باد شاہ کی ضروریات اور فوائد کیلئے نہ کہ اپنی ذات کی حاجتوں کیلئے گھوڑے سے مدد لے گا۔

تیسرے شخص نے کیاباد شاہ میری اتنی محبت اور تعظیم کرتا ہے کہ اس نے مجھ کو یہ گھوڑاعطا فرمایا۔ اور یہ کہ میرے اوپر بادشاہ کی خاص توجہ ہے تو وہ گھوڑے سے اس لیے خوش ہوا کہ وہ بادشاہ کی محبت اور توجہ کی دلیل ہے یہ تینوں قسموں کی مثال ہے۔

حضرت امام غزالی نے اس کے متعلق باب شکر میں تفصیل کے ساتھ بحث فرمائی ہے اگر تم چاہتے ہو تو اس کا مطالعہ کرو۔ پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے مکتوب کو مناسب دعا کے ساتھ ختم کیا، چنانچہ فرمایا۔

وَاللهُ يَجْعَلُ فَرَحْنَا وَإِيَّاكَ بِهِ أَیْ دُونَ غَيْرِهِ اللہ تعالیٰ ہماری اور تمہاری   خوشی کو اپنے ساتھ بنائے اپنے غیر کے ساتھ نہ بنائے یعنی ہم اس کے سوا کسی شے سے خوش نہ ہوں۔

اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کا مخاطب وہ ہے جس کے پاس انہوں نے یہ مکتوب روانہ کیا ۔ یا ہر وہ شخص مخاطب ہے جو اس کتاب کا مطالعہ کرے یا اس کو یاد کرے یا اس پر عمل کرے یا اس کو سنے یا اس کے سامنے  پڑھی جائے۔ اور جب ہماری خوشی تنہا اسی کے ساتھ متعلق ہو جائے گی تو ہم اس تیسری قسم میں شامل ہو جا ئیں گے جو خواص الخواص کا مقام ہے۔ اور جس شخص کی خوشی صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہو جاتی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا۔

وَبِالرَّضىٰ مِنْهُ ور ہماری خوشی اپنی رضا مندی کے ساتھ جائے

یعنی ہماری خوشی کو اپنی رضا مندی کے ساتھ اس طرح وابستہ کردے کہ ہم اس کی رضامندی کے سوا کسی شے سے راضی  نہ ہوں۔ پھر ہم اللہ تعالیٰ سے راضی ہوں اور اللہ تعالیٰ ہم سےراضی ہو۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔

رضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوعَنهُ تعالیٰ ان سے راضی ہوا اور  وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوئے۔

اور جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے قلعے میں پناہ لی ، وہ ایک مضبوط قلعہ میں پناہ گزین ہو کر غفلت سے محفوظ ہو گیا۔ اس لیے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا:-

وَأَنْ لَّا يَجْعَلَنَا مِنَ الْغَافِلِينَ  اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ہم کو غافلین میں سے نہ بنائے   یعنی ان لوگوں میں سے جو منعم حقیقی کے شہود سے خوش ہونے کی بجائے نعمتوں سے خوش ہوتے ہیں۔

اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کی دعا نزول کے طریقے پر تینوں قسموں کو شامل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خوشی تیسرا مقام ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا مندی سے خوشی :۔ دوسرا مقام ہے اور پہلے مقام سے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری )  نے پر ہیز کیا ہے کہ وہ ہم کو اس میں سے نہ بنائے ۔ اور جب بندہ غفلت سے نکل جاتا ہے تو وہ بیدار و ہوشیار ہو جاتا ہے اور بیداری ہی تقوی ہے جس کی طرف مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے قول میں اشارہ فرمایا ہے۔

وَأَنْ يَسْلُكَ بِنَا مَسْلَكَ الْمُتَّقِينَ اور اللہ تعالیٰ ہم کو متقین کے راستے پر چلائے   یعنی ان لوگوں کے راستے پر جنہوں نے پہلے شرک اور گناہوں سے پر ہیز کیا اور دوسری مرتبہ خواہشوں اور عادتوں سے پر ہیز کیا اور تیسری مرتبہ ماسوی اور غیر سے پر ہیز کیا۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس قول کا یہی معنی ہے:۔

لَیْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيْمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَّآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ التَّقَوْا وَّامَنُوا ثُمَّ اتَّقَوْا وَاحْسَنُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کیا ان کے اوپر اس میں کوئی گناہ نہیں جو انہوں نے کھایا۔ جبکہ وہ تقوی اختیار کریں اور ایمان لائیں اور عمل صالح کریں ۔ پھر وہ تقوی اختیار کریں اور ایمان لائیں۔ پھر وہ تقوی اختیار کریں اور احسان کریں ، اور اللہ تعالیٰ احسان والوں کو دوست رکھتا ہے


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں