سوال اور بغیر سوال کے احکام (بیسواں باب)

سوال اور بغیر سوال کے احکام کے عنوان سے بیسویں باب میں  حکمت نمبر 190 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے اس قول میں بیان فرمایا:
190) لاَ تَمُدَّنَّ يَدَكَ إِلَى الأَخْذِ مِنَ الْخَلاَئِقِ إِلاَّ أَنْ تَرَى أَنَّ الْمُعْطِىَ فِيهِمْ مَوْلاَكَ ، فَإِذَا كُنْتَ كَذَلِكَ فَخُذْ مَا وَافَقَكَ الْعِلْمُ .
تم مخلوق سے لینے کے لئے اپنا ہاتھ ہر گز نہ بڑھاؤ مگر اس وقت جبکہ تم یہ دیکھو کہ ان کے لباس میں دینے والا تمہارا مولائے حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔ لہذا اگر تم اس مرتبہ پر پہنچ چکے ہو تو اتنالو جتنا تم کوعلم اجازت دے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :- مخلوق سے لینے کے لئے ہاتھ بڑھانے کی دو قسمیں ہیں: ایک یہ کہ بغیر سوال کے ہو ۔ دوسرا یہ کہ سوال کے بعد ہو اور دونوں قسموں میں سے ہر ایک کے لئے جدا جدا احکام ہیں۔
پہلی قسم ، بغیر سوال کے لینا ۔ اس کے لئے دو شرطیں ہیں ۔ ایک علمی اور دوسرا صوفی ۔
لہذا اگر عالم ہے تو ان سے نہ لے جن کی کمائی حرام ہے یا مخلوط ہے۔ یا جن کے مال میں تصرف کرنا منع کر دیا گیا ہے جیسے بچہ، پاگل ، غلام ، اور اگر صوفی ہے۔ تو وہ اس وقت تک نہ لے ، جب تک کہ علم اور حال سے ان کو پہچان نہ لے، جن سے لیتا ہے۔ لہذا اگر صوفی کی معرفت وسیع ہو اور اس کی فنا اس طریقے پر قائم ہو گئی ہو، کہ اس کی نظر واسطے کی طرف نہ ہو۔ تو اکثر اوقات اس کے لئے قبض یعنی لینا بالکل درست ہے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالی سے لیتا ہے۔ اور اللہ تعالی کے ساتھ دیتا ہے۔ لیکن حقیقت اور شریعت کے درمیان جمع کرنا ہی کمال ہے۔ اور بہت سے محققین صوفیائے کرام بادشاہوں کے عطیات کو لے لیتے تھے۔ پھر ان کو اپنے ہاتھوں سے تقسیم کر دیتے تھے۔
دوسری قسم سوال کے بعد لینا ۔ اس کے بارے میں دو طریقے پر کلام ہے۔
پہلا طریقہ یہ ہے کہ سوال کرنا جائز ہے یا منع ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ لینے کے بعد اس کو استعمال کرے یا نہ کرے۔
پہلا طریقہ سوال کرنے کا حکم ۔ اس کی اصلیت یہ ہے کہ سوال کرناجائز ہے۔ وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ اور سائل (مانگنے والے ) کو مت جھڑ کو ۔
لہذا اگر سوال کرنا جائزنہ ہوتا تو اللہ تعالی سائل کو جھڑ کنے سے منع نہ کرتے ۔ اور سوال کی پانچ قسمیں ہیں ۔ واجب مندوب مباح مکر وہ حرام ۔
واجب سوال :۔ وہ وہ ہے کہ جان بچانے کے لیے سوال کیا جائے ۔ اس حال میں اگر سوال نہ کرے گا، تو مر جائے گا۔ لہذا اس حال میں سوال کرنا اس کے اوپر واجب ہے۔ لہذا اگر وہ سوال نہ کرے گا اور مر جائے گا۔ تو گنہگار ہو کر مرے گا۔ کیونکہ شارع علیہ الصلاۃ والسلام نے انسان کی ظاہری زندگی کے فوت ہو جانے کے خوف سے سوال کو واجب کر دیا ہے۔ اور صوفیائے کرام نے بھی روحانی زندگی کے فوت ہونے کے خوف سے سوال کو واجب قرار دیا ہے۔ اس لئے کہ سرداری اس کو اپنی روح کوفائدہ پہنچانے اور نفس کو مارنے سے روک دیتی ہے۔
چنانچہ حضرت قسطلانی رحمتہ اللہ تعالیٰ نے شرح بخاری شریف میں حضرت ابن العربی معافری سے نقل کیا ہے :- انہوں نے فرمایا ہے :- ابتدا میں مرید کے لئے سوال کرنا واجب ہے۔ توحاصل یہ ہوا: جب انسان کی ظاہری زندگی ، یا روحانی زندگی کے فوت ہونے خطرہ ہو، تو سوال کرتا واجب ہے۔ اور حضرت ابن بنا ء نے اپنے ان اشعار میں اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے :-
وَمَا عَلَى السَّائِلِ مِنْ تَاوِيل لَاجُلِ قَهْرِ النَّفْسِ وَالتَّذْلِيلِ
سائل کیلئے نفس کو مغلوب اور ذلیل کرنے کی وجہ سے کوئی تاویل نہیں ہے۔
فَمِنْ أَوْلِی الأذْوَاقُ الْأَحْوَالِ مَنْ كَانَ رَاضَ النَّفْسَ بِالسُّوَالِ
جس شخص نے نفس کو سوال کے ذریعہ فرماں بردار کر لیا ہے، وہ اہل ذوق و احوال سے ہے۔
قَالُوا وَلَا خَيْرَ إِذًا فِي الْعَبْدِ مَا لَمْ يَكُن قَدْذَاقَ طَعْمَ الرَّدِ
بزرگوں نے کہا ہے ۔ بندے میں اس وقت تک کوئی کمال نہیں پیدا ہوتا ہے، جب تک وہ سوال کورد کرنے کا مزہ نہ چکھے۔
حاصل یہ ہے ۔ کہ نفس کی ریاضت کے لئے سوال کرنا واجب یا مندوب ہے۔ حضرت ابراہیم خواص رضی اللہ عنہ کی خدمت اقدس میں ہزاروں درہم و دینار پیش کئےجاتے تھے۔ لیکن وہ انہیں قبول نہیں کرتے تھے۔ اور اکثر اوقات اپنے پہچاننے والے لوگوں سے ایک درم ، دودرم مانگ لیتے تھے۔ لیکن ایک دو درہم سے زیادہ نہیں مانگتے تھے
مندوب سوال:۔ وہ ہے۔ جو دوسروں کے لئے سوال کرے۔ اور یہ نیکی پر مدد کے سلسلے میں سے ہے۔ لہذاوہ لوگوں سے کھانا اس لئے مانگے تا کہ اس شخص کو کھلائے جو مانگنے سے شرماتا ہے۔ یا کپڑا مانگے ۔ یا ان کے علاوہ دوسری چیزیں مانگے ۔
اور حضرت نبی کریم ﷺ نے اپنے ان اصحاب کرام کے لئے سوال کیا ہے، جو آپ کے پاس ننگے آئے تھے ۔ اور جو سوال نفس کی ریاضت کے لئے ہو ، وہ مندوب میں داخل ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔
مکروہ سوال :- وہ ہے ۔ جو بشری غذا کے لئے سوال کرے، باوجود یکہ وہ اسباب میں ہے سے کوئی سبب اختیار کر کے اپنی غذا حاصل کرنے کی طاقت رکھتا ہو۔ اور یہ سوال اس حالت میں مکروہ ہے، کہ عبادت کے لئے اسباب سے علیحدہ اور ذکر کے لئے مجرد نہ ہوا ہو۔ لیکن جو شخص اللہ تعالی کے لئے اسباب سے علیحدہ ہو گیا ہے۔ اس کے لئے سوال کرنے میں کچھ حرج نہیں ہے ۔ اور بہت سے عارفین محققین نے ایسا کیا ہے۔ چنانچہ حضرت جنید بغدادی رضی اللہ عنہ کے شیخ حضرت ابو جعفر حداد رضی اللہ عنہ، ایک یا دویا تین دروازوں پر مغرب و عشا کے درمیان مانگا کرتے تھے۔ پہلے عام لوگ ان کی اس حرکت پرتعجب کرتے تھے۔ پھر جب وہ اس معاملے میں مشہور ہو گئے ۔ تو نہ عوام ان کے مانگنے کو معیوب سمجھتےتھے۔ نہ خواص اور وہ باوجود اپنے بزرگ مرتبہ ہونے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت میں کامل ہونے کےمانگا کرتے تھے ۔
اور حضرت ابو سعید خراز رضی اللہ عنہ : جب ان کو سخت فاقہ کی نوبت آئی تھی تو دست سوال دراز کرتے تھے اور فرماتے تھے ۔۔ کون شخص ہے جو اللہ تعالی کے لئے کچھ عنایت کرے۔ اور حضرت ابراهیم بن ادھم رضی اللہ عنہ : بصرہ کی جامع مسجد میں معتکف تھے اور تین ،تین دن پر افطار کرتے تھے۔ وہ مغرب کی نماز کے بعد باہر نکلتے تھے اور دروازوں پر اپنے افطار کے لئے مانگ لیاکرتے تھے۔
اور حضرت سفیان ثوری رضی اللہ عنہ : اللہ تعالی کے لئے کھانا مانگا کرتے تھے ۔ اگر کبھی زیادہ مل جاتا تو اپنی ضرورت کے مطابق لے لیا کرتے، باقی چھوڑ دیا کرتے تھے ۔ اور اکثر اولیاء اللہ نے باقی رہنے والی آخرت کو تر جیح دینے کی بنا پر ، دنیائے فانی کو اسی حال میں گزارا ہے۔ اور یہ سب شریعت اور حقیقت میں نقص نہیں پیدا کرتا ہے۔ اور نہ معرفت کےنور کو بجھاتا ہے۔
اور حضرت ابن بناءنے سوال کی ان دونوں قسموں مندوب و مکروہ کی طرف اپنے حسب ذیل اشعارمیں اشارہ فرمایا ہے :-
وَ كَرِهُوا سُوَالَهُ لِنَفْسِهِ ثُمَّ اَبا حُوهُ لا جَل جنَسه
اور عارفین نے اپنے ذات کے لئے فقیر کے سوال کو مکروہ قرار دیا ہے۔ لیکن اپنے ہم جنس یعنی دوسرے لوگوں کے لئے اس کے سوال کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔
وَلَمْ يَعُدُّوهُ مِنَ السُّوَالِ لَكِنْ مِنَ الْعَوْنِ عَلَى الْأَعْمَالِ
بلکہ عارفین نے دوسرے لوگوں کے لئے سوال کرنے کو سوال میں نہیں شمار کیا ہے۔ بلکہ اس کو اعمال پرمدد کی قسم میں شمار کیا ہے۔
إِذْ كَانَ خَيْرُ الْخَلْقِ فِي اترَابِهِ يَسْأَلُ إِحْیَانًا إِلَى أَصْحَابِهِ
اس لئے کہ تمام مخلوق سے افضل حضرت رسول کریم ﷺ کبھی کبھی اپنے اصحاب کرام کے لئے چندہ طلب فرمایا کرتے تھے۔
مباح سوال ۔ وہ ہے کہ غیر ضروری حاجت کو پورا کرنے کے لئے سوال کرے۔ جیسے کہ اپنا قرض ادا کرنے کے لئے سوال کرے، یا اپنی ستر پوشی اور جان بچانے کے لئے جتنی ضرورت ہو ، اس سے زیادہ سوال کرے یا ان کے سواوہ چیزیں مانگے ، جو اس کی زندگی کے لئے ضروری نہیں ہیں، مگر اس کواُن چیزوں کی حاجت ہے۔
حرام سوال وہ ہے کہ اپنی ضرورت سے زیادمانگے۔ حدیث شریف میں ہے۔
من لَهُ أَرْبَعُونَ دِرْهَمًا فَالسُّوَالُ عَلَيْهِ حَرَامٌ جس شخص کے پاس چالیس درہم ہوں۔ اس کے لئے سوال کرنا حرام ہے۔
اور اسی کے تعلق یہ حدیث شریف بھی وارد ہے۔
مَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَسْأَلُ النَّاسَ، حَتَّى يَأْتِيَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَيْسَ فِي وَجْهِهِ ‌مُزْعَةُ ‌لَحْمٍجس کے لئے مانگنا حرام ہے۔ ایسا مانگنے والا قیامت کے دن اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ایک ٹکڑا نہ ہوگا۔ اور گڑ گڑا کر اور ضد کر کے مانگنا بھی حرام ہے اور اس طرح مانگنا بھی حرام ہے کہ جس سے مانگا ہے۔ اس کو نقصان پہنچ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :-
لَا يَسْئَلُونَ النَّاسَ الْحَافاً وہ لوگوں سے اصرار اور ضد کے ساتھ نہیں مانگتے ہیں۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ بعض صوفیائے کرام جو گڑ گڑانے اور ضد کرنے کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اس سے ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے، کہ وہ دینے والوں کی سخت و نا گوار باتیں سن کر اپنے نفس کو مار ڈالیں اور ایسا وہ صرف انہی لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں ، جن کو وہ پہچانتے ہیں کہ وہ دینے سے انکار کریں گے۔ اس لئے وہ اپنے نفس کے امتحان اور درستی کے لئے دینے والوں سے سخت اور ناگوار باتیں نکلواتے ہیں۔ اورکبھی اس طرح کرنے سے ان کا ارادہ ، اخلاص کا ثابت کرنا اور اپنے حال کا چھپانا ہوتا ہے۔ لہذاوہ رغبت اور خواہش ظاہر کرتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کے علم کو کافی سمجھنے کی بنا پر تمام لوگوں سے زیادہ زاہد اور تارک الدنیا ہوتے ہیں ۔ اور یہ سب ، عارفین سے قوت اور جذب کے حال میں ہوتا ہے۔ جبکہ سکر یعنی مد ہوشی ان پر غالب ہوتی ہے۔
یہ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے۔ سب ان حضرات سے تحقیق کر کے بیان کیا ہے ۔ اور یہ سب حالتیں اس زمانہ میں ختم ہو چکے ہیں۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں