شریعت کا جہاز

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔

دنیا سمندر ہے اور شریعت جہاز ہے:

اے میری قوم کے لوگو تمہارے ہاتھ میں رسالت و نبوت کے مرتبےنہ ر ہے، یہ نہ ہو کہ تمہارے ہاتھ میں ولایت کا مرتبہ نہ ر ہے، خودی کے ہوتے ہوئے بادشاہی صحبت نصیب نہیں ہوسکتی۔

تو ایسا اندھا بن جا گویا کہ تو کچھ دیکھتاہی نہیں ہے۔ گویا تو ایسا سراب ہے کہ تجھے پینے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔گویا کہ تو ایسامردہ ہے کہ تجھ میں حرکت ہی نہیں ہے،

افسوس ان حجاب والوں کے جو یہ  نہیں جانتے کہ یقیناوہ حجاب میں ہیں ، تو نہ تو بھلائی کرتا ہے اور نہ خیر پر اہل خیر کی مدد کرتا ہے ۔ یقینا تو سراپا شر ہے، دنیا کو آخرت کے بغیر اور ظاہر کو باطن کے بغیر دوست رکھتا ہے،  تیری حکومت اور تیری امارت اور تیرا مصاحب تجھے کچھ نفع نہ دے گا ،عنقریب تیری موت واقع ہو جائے گی اور بعد میں ذلیل ہوگا ، جو آ دمی عزت چاہتا ہے تو عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور اولیاء اللہ اور صالحین ہی کے لئے ہے ۔

دنیا سمندر ہے اور شریعت جہاز ہے اور لطف الہٰی نا خدا ہے ، چنانچہ: جوشخص  شریعت کی متابعت سے ہٹے گا، وہ دنیا کے سمندر میں ڈوبے گا، جو شریعت کے جہاز میں سوار ہو گا اور وہاں کھڑا ہوگا ، ناخدا اسے اپنا نائب بنا لے گا، اور سامان سمیت جہاز اس کے حوالے کر دے گا، اور اس سے رشتہ جوڑ لے گا۔

اور ایسا ہی حال اس شخص کا ہے جو دنیا کو چھوڑے اور علم میں مشغول ہو جائے اور تکلیفوں پر صبر سے کام لے، وہ شریعت کا محبوب بن جائے گا ۔ ابھی وہ اسی حالت میں ہوتا ہے کہ اللہ کا لطف و کرم اس کے لئے اپنی معرفت اور مخصوص خلعت لے کر  آ پہنچتا ہے تیرے لئے ولایت پر ولایت ہے ۔ غیر اللہ کے فوت ہو جانے پر اللہ کے پاس تیرے لئے بڑی وسعت ہے۔ جب کوئی شے تجھ سے فوت ہو جائے تو اس کا غم نہ کیا کر، کیوں کہ بادشاہ اپنے مال میں تصرف کیا ہی کرتا ہے ، نظام اور اس کی ملکیت کی ساری چیزیں اس کے مالک ہی کی ہوتی ہیں ۔ اللہ آج جو کچھ تجھ سے لے لے گا کل تو اسے پائے گا۔ دوزخ کی آگ اس سے کہے گی۔

”اے مؤمن! تو جلد مجھ سے گزر جا، اس لئے کہ تیرے نور نے میرا شعلہ بجھا دیا‘‘۔ اسی طرح دنیا میں جب ایمان قوی ہو جا تا ہے اور باطن قرب الہٰی سے متصل ہو جا تا ہے تو

 آفتوں کی آگ آتی ہے اور دلوں کے دروازے پرآ کر ٹھہر جاتی ہے، مجاہدے کی آ گ آتی ہے اور مریدوں کے راستے میں آ کر ٹھہر جاتی ہے۔ چنانچہ وہ مرید جس میں دنیا کا بقیہ اورخلق کی نظر کا سامان موجود ہوتا ہے، اسے یہ آگ پکڑ لیتی ہے، اور کامل الایمان مرید سے کہتی ہے:

”اے ایمان دار! تو مجھ سے جلد گزر جاء تیرے نور نے میرا شعلہ بجھا دیا‘‘۔ ایسے کاملین کو دنیا میں تیر بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے جو قلعے کی دیوار پر گر کر اسے توڑ ڈالیں ، تم عمل کئے جاؤ تمہیں دنیا وآخرت کی آگ نقصان نہ پہنچا سکے گی ، اللہ کے کچھ ایسے بندے ہیں جن کا نام طبیب رکھا جا تا ہے انہیں وہ عافیت میں زندہ رکھتا ہے اور عافیت ہی میں مارتا ہے اور انہیں عافیت ہی میں جنت میں داخل کرے گا ۔ جواللہ کو پہچان لیتا ہے وہ شہوتوں اور لذتوں سے علیحدہ ہو جاتا ہے، اسے مقسوم حصوں کو اپنی دسترس میں لینے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے، گھر سے پہلے ہمسایہ دیکھ لینا چاہئے ،اسے اچھا ہمسایہ مل گیا تو بابرکت شخص نے گھر پر فتح مندی پائی ، اس نے بادشاہ کی طرف سے مرتبہ پالیا،اسے فرمادیا گیا: تحقیق آج کے دن تو ہمارے ہاں مر تبے والا ،امانت والا ہے۔

جو اللہ کو پہچان لیتا ہے وہ اس کی حضوری میں داخل ہو جا تا ہے ، وہ اس کی مملکت میں سے کسی شے کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا، اور نہ اپنے ہاتھ اٹھاتا ہے، وہ تو اس دلہن کی طرح ہے جو بنا سجا کے بادشاہ کے حضور بھیجی گئی ہو، اس کا سارا کھانا پینا بادشاہ کا قرب ہوتا ہے، وہ اپنی سب خواہشیں بادشاہ کے قرب میں پالیتا ہے، نفس جب تابعدار ہو جا تا ہے تو قلب کی معیت میں رہتا ہے، قلب نفس کا اسیر ہو جا تا ہے، قلب کو قید خانے سے نکالا جا تا ہے، بادشاہ کہتا ہے: “اسے میرے پاس لاؤ(جیسا کہ یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں ہوا ) اس کی نجابت، اس کا حسن اخلاق اور حسن ادب ظاہر ہونے پر جب اسے بادشاہ کے ہاں لایا جاتا ہے، اس  موقع پر بادشاہ اس کا کرامت کے ساتھ استقبال کرتا ہے اور مقرب بنالیتا ہے، اور اپنے نزدیک کر لیتا ہے ۔ اس کے ساتھ بھلائی کرتا ہے اور خلعت عطافرماتا ہے، اس کے ساتھ کسی ذریعے کے بغیر کلام کرتا ہے کہ تحقیق آج کے دن تو میرے نزدیک مرتبے والا ،امامت والا ہے۔ وہ پھر اسے اپنے غیر کے ساتھ مشغول نہیں کرتا ۔ یہ فرماتے ہوئے سید ناغوث اعظم رضی اللہ عنہ نے چیخ ماری اور فرمایا:

“یا اللہ! —یا اللہ! – یا اللہ! – حبیب غائب ہے ، وہ تیرے ساتھ مشغول ہونے کے لئے آگے بڑھا، تا کہ وہ دوسرے مشغلے میں نہ پڑ جائے ،“

جب اس بندے کی صحبت طویل ہو جاتی ہے اور اس سے سفر کی تھکان دور ہو جاتی ہے، تو اس کا گوشت بڑھتا ہے اور ہڈی مضبوط ہو جاتی ہے، اس کی آنکھ روشن ہوتی ہے، اس کی بے چینی کو سکون ملتا ہے، وہ بادشاہ کا خاص راز دار بن جاتا ہے، اس وقت بادشاہ اسے حاکم اور اپنی رعایا اور اصحاب اور ولایت پرامیر بنادیتا ہے۔

 پھراسے سمندر کی طرف بھیجتا ہے تا کہ ڈوبتوں کو بچائے ، اور جنگل کی طرف بھیجتا ہے تا کہ وہ مردوں اور بچوں کو درندوں کے منہ سے چھڑائے ، جب وہ بندہ اپنی طبیعت کے گھر سے باہر نکل گیا،اللہ نے اسے نیابت وامامت کا اہل بنا دیا، ان کے دلوں پر ویسے ہی خلعت عطا کرتا ہے جیسے کہ نبیوں اور رسولوں کے دلوں پر خلعت عطا کئے تھے، ان کے لقب اولیاءاور ابدال ہیں۔

اے بازار والو!یہاں مجلس میں بادشاہی راز دار اور باخبر حضرات موجود ہیں تم باادب بنوسید ناغوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا اس بات سے ان ولیوں اور فرشتوں کی طرف اشارہ تھا جو کہ آپ کی مجلس مبارک میں حاضر تھے اور وہ دوسرے حاضرین کی نظروں سے اوجھل تھے، اور وہ ان سے ناواقف تھے۔

فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 688،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں