عبادت کا فوری ثمر (پچیسواں باب)

عبادت کا فوری ثمر کے عنوان سے پچیسویں باب میں  حکمت نمبر 252 اور 253 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے۔

252) وِجْدَانُ ثمَرَاتِ الطَّاعَاتِ عَاجِلاً وَبَشَائِرُ العَامِلِينَ بِوُجُودِ الجَزَاءِ عَلَيْهَا آجِلاً .

عبادت کا نتیجہ فورا یعنی اسی دنیا میں پانا، اس عمل کا بدلہ مقررہ وقت پر پانے کی خوشخبری ہے۔

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں : جو شخص اپنی ابتداء میں اپنے مجاہدہ کی شیرینی پا جائے اس کو اپنا مشاہدہ پانے کی خوشخبری سمجھنی چاہیئے ۔ اور جو شخص اپنے مجاہدہ کی شیرینی نہ پائے اس کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید نہ ہونا چاہیئے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے واردات قلوب پر آتے ہیں۔تو وہ علام الغیوب اللہ تعالیٰ کے قریب ہو جاتے ہیں۔ یا تم اس طرح کہو: جو شخص اپنے عمل کا پھل فورا اس دنیا میں پا جائے تو اس کو اس مقررہ وقت پر آخرت میں بدلہ پانے کی خوشخبری سمجھنی چاہیئے  ۔ اور اس موضوع کے بارے میں مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کا قول کئی مرتبہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور عامل جس بدلنے کی خوشخبری حاصل کرتا ہے اس کو اس کا ارادہ اور اس کی طلب نہ کرنی چاہیئے  تا کہ یہ اخلاص میں عیب نہ ثابت ہو ۔ جیسا کہ اس کو مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے:۔

253) كَيْفَ تَطْلُبُ العِوَضَ عَلَى عَمَلٍ هُوَ مُتَصَدِّقٌ بِهِ عَلَيْكَ ؟ أَمْ كَيْفَ تَطْلُبُ الجَزَاءَ عَلَى صِدْقٍ هُوَ مُهْدِيهِ إِلَيْكَ.

تم اللہ تعالیٰ سے اس عمل پر بدلہ کس طرح چاہتے ہو اس نے تم کو صدقہ عطا فرمایا ہے۔ یا تم اس صدق پر اللہ تعالیٰ سے بدلہ کس طرح چاہتے ہو جو اس نے تمہاری   طرف ہدیہ ارسال فرمایا ہے  ۔ میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں: بندہ صرف ایک تابع فرمان آلہ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اس کو فرمان بردار کرتا ہے تو وہ عمل کرتا ہے۔ ورنہ نہیں کرتا ہے۔ تو جب حالت ایسی ہے ، تو عمل کی کوئی نسبت تمہاری   طرف نہیں ہے۔ بلکہ تم سے اس کا ظاہر ہونا ایک حکمت ہے۔ تو تم اس عمل پر بدلہ کیسے چاہتے ہو، جو اس نے تمہارے اوپر صدقہ کیا ہے؟

اور جب اللہ تعالیٰ نے بندگی کی سچائی کے ساتھ تمہارے اوپر احسان فرمایا ہے۔ اور بندگی کی سچائی اخلاص کا راز ہے تو تم اس صدق و اخلاص پر بدلہ کیسے چاہتے ہو، جو اس نے تمہاری   طرف ہدیہ بھیجا ہے؟

اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے عمل کے لئے صدقہ کا لفظ استعمال کیا۔ جومحتا جوں کے لئے ہوتا ہے۔ اور صدق کے لئے ہدیہ کا لفظ استعمال کیا۔ جو محبو بین کے لئے ہوتا ہے کیونکہ عمل میں بہت سے لوگ مشترک ہیں۔ اس لئے کہ عمل اکثر لوگ کرتے ہیں لیکن ان میں اخلاص کم ہوتا ہے۔ اور اہل اخلاص کم سے بھی بہت کم ہیں۔ اور وہ خواص یا خواص الخواص ہیں۔

حضرت شیخ ابو العباس نے حضرت نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام کے اس قول کے بارے میں انما انا نعمة مهداة   میں در حقیقت بطور ہدیہ کے بھیجا ہوا نعمت ہوں  ۔ فرمایا: انبیاء کرام علیہم السلام اپنی امتوں کے لئے عطیہ ہیں۔ اور ہمارے نبی کریم ﷺ ہمارے لئے ہدیہ ہیں ۔ اور عطیہ محتا جوں کے لئے ہوتا ہے اور ہدیہ دوستوں کے لئے ہوتا ہے۔

حضرت واسطی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے۔ عبادت پر اجر و ثواب چاہنا، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کو فراموش کر دینا ہے۔ حضرت ابوالعباس بن عطارضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے سب اشیاء سے زیادہ قریب نفس اور اس کے افعال کو دیکھنا ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ سخت اس کے افعال پر بدلہ چاہنا ہے۔ اور سب اعمال سے زیادہ جس عمل کا اجر و ثمرہ  دنیاو آخرت میں ملتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔ اور اس کا ثمرہ وہ نور ہے جو قلب میں روشن ہوتا ہے اور اس سے تمام باطل نیست و نابود ہو جاتا ہے۔ اور اس نور کے اعتبار سے آدمیوں کی دو قسمیں ہیں۔

ایک قسم وہ لوگ ہیں جن کے قلوب میں نو ر کا فیضان ہوا ہے۔ اس وجہ سے وہ لوگ ہمیشہ ذکر میں مشغول رہتے ہیں۔

دوسری قسم وہ لوگ ہیں جو اپنے اذکار کے ذریعے نور کا فیضان حاصل کرنا چاہتے ہیں۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں