غالب مشیت(مناجات 13)

یہ تیرھویں دعا ہے کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ کی جوتالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

تیرھویں مناجات

 إِلٰهِي حُكْمُكَ النَّافِذُ وَمَشِیْئَتُكَ الْقَاهِرَةُ ، لَمْ يَتْرُكَا لِذِى حَالٍ حَالَا وَلِذِى مَقَالٍ مَقَالًا
اے میرے اللہ ! تیرے نافذ حکم اور تیری غالب مشیت نے کسی حال والے کے لئے کوئی حال اور کسی قال والے کے لئے کوئی قال باقی نہیں رکھا۔
اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم اس کی مخلوق میں نافذ ہے۔ اس کے حکم کو کوئی ٹال نہیں سکتا، اور اس کی قضا کو کوئی رد نہیں کر سکتا ہے۔ وہ جو چاہتا ہے، کرتا ہے۔ اور جو ارادہ کرتا ہے ، وہ حکم دیتا ہے۔
لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ اللہ تعالیٰ سے اس کے متعلق سوال نہیں کیا جا سکتا ہے جو وہ کرتا ہے۔ اور ان لوگوں سے ان کے اعمال کے متعلق سوال کیا جائے گا۔
اور یہی وہ شے ہے جس نے عارفین کے قلوب کو متحرک کیا۔ تو وہ، نہ کسی حال سے مطمئن ہوئے ، اور نہ انہوں نے کسی عمل اور قول پر اعتماد کیا۔ بلکہ وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے سامنے محتاج رہے۔ اس لئے کہ انہوں نے یہ یقین کر لیا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم چشم زدن ( آنکھ جھپکنے ) یا اس سے بھی کم وقت میں نافذ ہو جاتا ہے اور اس کی مشیت ایسی غالب ہے کہ اس کو اس کے ارادہ کے مطابق نافذ ہونے سے نہ کوئی پھیرنے والا پھیر سکتا ہے، نہ کوئی روکنے والا روک سکتا ہے اور نہ کسی ولی اور عارف کی ہمت اس کو رد کر سکتی ہے۔ لہذا وہ ایک لحظہ میں دور کو قریب ، اور قریب کو دور کر دیتا ہے۔ اور پست کو بلند اور بلند کو پست کر دیتا ہے۔ اور ذلیل کو عزیز اور عزیز کو ذلیل کر دیتا ہے۔ اور غنی کو فقیر اور فقیر کو غنی کر دیتا ہے۔ اور تنگ دست کو فراخدست اور فراخدست کو تنگدست کر دیتا ہے۔ اور بیمارکوتندرست اور تندرست کو بیمار کر دیتا ہے۔ لہذا کسی عقلمند کیلئے یہ کسی طرح درست ہو سکتا ہے کہ وہ کسی حال یا مقام کی طرف مائل ہو ۔ یا کسی علم اور عمل پر بھروسہ کرے۔ یا اپنی زبان اور قول کی روانی سے دھو کہ کھائے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَاَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ اور تم لوگ یہ جان لو کہ بے شک اللہ تعالیٰ آدمی اور اس کے قلب کے درمیان حائل ہے ۔ اور یہ کہ تم سب اس کے پاس جمع کئے جاؤ گے ۔
یہ ایک عارف نے فرمایا ہے: بندے کے لئے حال یا قال کس طرح ثابت ہوسکتا ہے۔ جب کہ وہ حال میں بھی عین قال ہے؟ وہ ایک حقیر ذرہ ہے۔ جو اپنے باطن کی طرف دوڑا۔ لیکن اس کے آخری حد تک نہیں پہنچا۔ لہذا اللہ کی قسم، بندہ اپنے باطن کے جفت تک نہیں پہنچا۔ تو وہ اپنے باطن کے طاق تک کیسے پہنچے گا۔ اس کے باطن کا طاق ایک جو ہر ہے ۔ جس نے ارادہ کیا تو وہ ظاہر ہوا۔ اور چمکا تو وہ چھپ گیا۔ اور ٹھہرا، تو وہ متمکن ہوا ۔ پھر وہ غیب کے سمندر کی گہرائی سے ظاہر ہوا۔ پھر اس سے قدرت نے غیرت کیا۔ پھر اس کو اس کی ذات کی سیاہی میں پائے جانے ، یا ظا ہر ہو جانے ، یا پہچان لئے جانے کے خوف سے چھپا دیا۔ لہذا اس کے لئے نہ کیفیت ہے ، نہ مکان ، نہ رحم ، نہ عین ، نہ وصل نہ قطع .
تشریح: عارف کے قول وہ حال میں عین قال ہے کا مفہوم یہ ہے ۔ذرہ کے معنی چھوٹی چیونٹی ۔ اور جلہ کے معنی عظیم (بڑا)۔
یعنی بندہ ظاہر میں چھوٹی چیونٹی ، اور باطن میں عظیم یعنی بڑا ہے۔ وہ اپنی فکر کے ساتھ اپنےباطن کے معلوم کرنے کے لئے دوڑا۔ لیکن اس کی انتہا تک نہیں پہنچا۔
انتہا۔ بہت چھوٹی سی شے میں اللہ تعالیٰ کی صنعت کے عجائبات سے کنا یہ ہے ۔ تو جب وہ ایک بہت ہی چھوٹی شے کی حقیقت تک نہ پہنچ سکا۔ تو انسان کی حقیقت تک کیسے پہنچ سکے گا ؟
اس لئے عارف نے فرمایا :۔ بندہ اپنے باطن کے جفت تک نہیں پہنچا بندے کے باطن کا جفت :۔ اس کی ظاہری بشریت ہے ۔ کیونکہ وہ عبودیت کا مقام ہے۔ جوربوبیت کے اعتبار سے جفت ہے۔
اور اس کے باطن کا طاق : اس کی روحانیت ہے ۔ کیونکہ وہ واحد ہے۔ اور عارف کے قول وہ جو ہر ہے جس نے ارادہ کیا’ کا مفہوم یہ ہے۔
جو ہر سے مراد، روح ہے۔ یعنی روح نے ظاہر ہونے کا ارادہ کیا ۔ تو وہ ظاہر ہوئی ۔ یعنی اس بشری جسم میں ظاہر ہوئی۔ اور اس کے انوار اس جسم پر چمکے ۔ پھر چھپ گئے ۔ لہذا اس کو اس اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نے نہیں جانا۔ جس نے اس کو پیدا کیا۔ اور اس کو جسم میں پھونکا۔ پھر وہ اپنے پنجرے میں ٹھہری ۔ تو اس میں متمکن یعنی مضبوطی سے قائم ہوئی۔
اور عارف کے قول پھر وہ غیب کے سمندر کی گہرائی سے ظاہر ہوا کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اپنےظاہر ہونے کی اصل جبروت کے سمندر سے ظاہر ہوئی۔ لہذا جب وہ عالم خلاق میں غیب کے اسرار کے عالم ہونے کی حالت میں ظاہر ہوئی۔ اور غیب کے اسرار: بادشاہ کے اسرار ہیں ۔ تو اس سے قدر کو غیرت لاحق ہوئی۔ اور اس کو یہ خوف ہوا کہ بادشاہ کے اسرار کو فاش نہ کر دے ۔ تو اس کو پوشیدہ کر دیا۔ یعنی اس کو اس کی ذات کی سیاہی میں پوشیدہ کر دیا۔ پس اس کو ان اسرار سے ، اس خوف سے کہ وہ پالئے جائیں یا ظاہر ہو جائیں یا پہچان لئے جائیں، محجوب کر دیا۔ لہذا روح کے لئے نہ کیفیت ہے نہ مکان نہ رحم، بلکہ وہ در یتیم (بڑا اور قیمتی موتی جو سیپ میں اکیلا ہوتا ہے ) ۔ نہ اس کے لئے ذات ہے، جس سے وہ پہچانی جائے ۔ نہ اس کے لئے کسی شے سے وصل ہے نہ جدائی ۔ ہمارا رب اس سے بلند ہے کہ کوئی شے اس سے متصل ہو ۔ یا وہ کسی شے سے متصل ہو ۔ اور عارف کے قول وہ حال میں بھی عین قال ہے کا مفہوم یہ ہے کہ بندے کا معاملہ کاف اور نون کے درمیان ہے۔ لہذادہ عین قول کن ہے۔ پس قال سے مراد قول کن ہے لہذاحال میں اس حکم کا تصرف ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
ایک عارف کے اشعار ہیں ۔
فَالْكُل يَطْلُبُ نُعْمَى حَيْثُ ضَلَّ وَمَا یَحْظىٰ بِنُعْمَى سِوَى فَرْدٍ بِأَفْرَادِ
پس ہر شخص نعمیٰ کو اس طرح تلاش کرتا ہے گویا کہ وہ گم ہو گیا ہے۔ اورنعمی تک سب لوگوں میں سے صرف ایک شخص پہنچے گا ۔
مَهْلًا عَلَيْكَ وَعُدْ مِنْ حَيْثُ جِئْتَ وَسَلْ فِي الدَّارِ ئِيْنَ غَدًا عَنْ سَاكِنِ الْوَادِي
تم ٹھہر و اور اس جگہ واپس جاؤ جہاں سے آئے ہو۔ اور آئند ہ کل روانہ ہونے والوں کے بارے میں اس وادی کے رہنے والوں سے دریافت کرو۔
عَسَاكَ تَلقِي خَبِيرًا عَالِمًا بِهِمْ يُنْبِيْكَ عَنْهُمْ وَلَمْ يُلْمِمْ بِمِیعَادٍ
ممکن ہے کہ تمہاری ملاقات کسی ایسے واقف کار شخص سے ہو جائے جو انکو جانتا ہو۔ اور وہ تم کو ان کی خبر دے۔ اگر چہ وہ مقررہ وقت کو نہ جانتا ہو۔
بعض عارفین نے فرمایا ہے: اللہ کی قسم، سعدی کے پانے میں وہی شخص کامیاب ہوا جو تقدیس کی سرزمین میں سرگرداں رہا۔ اور خیس و نفیس سے پاک ہو گیا۔ تو اس کا جسم اور اس کی روح نافرمان ہوگئی۔ اور اس کا نفس فرعون بن گیا۔ لہذا اس کا کلام خاموشی ہے۔ اور اس کی خاموشی کلام ہے۔ اور اس کے حال کی زبان کل مخلوقات سے خطاب کرتی ہے۔ لہذا اگر اس کے سامنے اس کے حجرے کے دروازے پر شہادت پیش کی جائے اور موت اس حجرے کے اندر بخوبی مہر بند ہو تو وہ شہادت کو چھوڑ دے گا، اور موت کو مکمل طریقے پر اختیار کرنے گا ۔ کیو نکہ اس کا عمل یقین پر ہے۔ شک پر نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ہی بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔ اس شخص کی زندگی کتنی بہتر اور پاکیزہ ہے جس کو دعوت دی گئی تو اس نے قبول کیا۔ اور لبیک کہا۔ اور اس شخص کا مرتبہ کتنا بلند ہے۔ جس نے دروازے کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ اور اس کا مرتبہ کتنا پست اور حقیر ہے جو بارگاہ سے دور کر دیا گیا۔ اس شخص کی قیمت کتنی کم ہے۔ جو غفلتوں میں سر کے بل پڑاہوا ہے۔ جب طبیعت غالب ہو جاتی ہے تو تقدیر کام نہیں کرتی ہے اور جس کے لئے قضا پہلے ہی مقدر ہو چکی ہے اس کو وسیلہ فائدہ نہیں پہنچاتا ہے۔لہذاوہ اللہ تعالیٰ پاک ہے۔ جو عطا فر ما تا اور محرم کرتا ہے۔ اورنقصان اور نفع پہنچاتا ہے۔
عنایت الہٰی نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو فارس سے کھینچ لیا۔ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ ملک حبشہ سے بلا لئے گئے ۔ اور ابو طالب حقیقت کے دروازے پر رہتے ہوئے توفیق ربانی سے محروم رہ گئے۔ حکم واقع ہو چکا۔ اور امر نافذ ہو گیا۔ اور مشیت سبقت کر چکی ۔ اور قلم خشک ہو گیا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: لَو أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً مَا اَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنِ اللَّهَ الَّفَ بَيْنَهُمْ
اگر آپ زمین کی تمام چیزوں کو خرچ کر دیتے تو بھی ان کے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت نہ پیدا کر سکتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان محبت پیدا کر دی۔ اور جس طرح اس کا نافذ حکم احوال پر اعتماد کو منہدم کر دیتا ہے۔ اسی طرح اس کا غالب انصاف اعمال پر اعتماد کو منہدم کر دیتا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں