فاقوں سے روحانی ترقی (انیسواں باب)

فاقوں سے روحانی ترقی کے عنوان سے انیسویں باب میں  حکمت نمبر 175 176 اور177 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فاقہ کے عید ہونے کا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا:-

175) رُبَّمَا وَجَدْتَ مِنَ الْمَزِيدِ فِى الْفَاقَاتِ مَا لاَ تَجِدُهُ فِى الصَّوْمِ وَالصَّلاَةِ .

176) الْفَاقَاتُ بُسُطُ الْمَوَاهِبِ.

177) إِنْ أَرَدْتَ وُرُودَ الْمَوَاهِبِ عَلَيْكَ صَحِّحِ الْفَقْرَ وَالْفَاقَةَ لَدَيْكَ {إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ .

اکثر اوقات ،فاقوں میں تم کو وہ ترقی حاصل ہوتی ہے۔ جو روزہ اور نماز میں بھی تم کو حاصل نہیں ہوتی ہے۔ فاقے :- عطیات الہی کے کشادہ ہونے کا سبب ہیں۔ اگر تم اپنے اوپر عطیات الہی کی کشائش چاہتے ہو۔ تو اپنے فقر و فاقہ کو درست کرو۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ صدقات – صرف فقیروں اور مسکینوں کے لئے ہیں۔

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں: یہ حقیقت ہے کہ انسان فاقہ میں اس قدر ترقی حاصل کرتا ہے جس قدر وہ روزہ اور نماز میں نہیں حاصل کر سکتا ہے۔ کیونکہ فاقہ (محتاجی ) قلوب کے اعمال میں سے ہے ۔ اور روزہ  و نماز جسمانی اعضا کے اعمال میں سے ہے۔ اور قلبی اعمال کا ایک ذرہ، جسمانی اعمال کے پہاڑ جیسے اعمال سے افضل ہے۔ فاقے :۔ روح کی غذا ہیں اور روزہ ونماز :- قلب کی غذا ہے۔ روح ۔ مشاہدہ کا مقام ہے۔ اور قلب : – مراقب کا مقام ہے۔ اور دونوں کے درمیان فرق ظاہر ہے۔ ایک عارف نے فرمایا ہے۔ وہ مرد جس کا نام فتح ربانی ہے۔ صرف انہیں  قلوب میں داخل ہوتی ہے۔ جو عوائق ( رو کنے والی اشیاء ) اور شواغل ( مشغول کر کے غافل کرنے والی اشیا ء) سے خالی ہوتے ہیں اور ایسے بندے بھی موجود ہیں۔ جو کثرت سے نمازیں پڑھتے اور روزے رکھتے ہیں۔ مگر ان کے قلب کا درواز ہ  دنیاوی معاملات میں مشغول ہونے کی وجہ سے بند ہے۔ اور ایسے ہی لوگوں کی تعداد زیادہ ہے اور کچھ ایسے بندے بھی موجود ہیں۔ جو نمازیں کم پڑھتے اور روزے کم رکھتے ہیں۔ مگر ان کے قلوب کا دروازہ  علوم لدنیہ کے لئے کھلا ہوا ہے۔ اور ایسے لوگ کم ہیں ۔ اور کل عبادتوں میں ریاء  داخل ہو جاتی ہے۔ مگر صرف گمنامی میں داخل نہیں ہو سکتی ہے

کیونکہ گمنامی میں نفس کا کچھ فائدہ نہیں ہے۔ حدیث شریف میں ہے۔

يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لِعَبْدِهِ : – سَبَكْتُكَ بِالْفَاقَةِ لِتَكُونَ ذَهَباً اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے فرماتا ہے :۔ میں نے تم کو فاقہ میں اس لئے پگھلایا تا کہ تم سونا بن جاؤ۔

حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنی کتاب تنویر میں فرمایا ہے :۔ تم یہ جان لو کہ بلائیں اور فاقے لطف و کرم کے ان اسرار میں سے ہیں جن کو اہل بصیرت کے سوا کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے۔ اور اگر کچھ نہ بھی ہو پھر بھی نفس کی ذلت اور حقارت اور اس کا اپنے فوائد سے رک جانا کافی ہے اور فاقے کا انتہائی مقصد یہی ہے۔ اور بیان کیا گیا ہے ۔ جب ذلت واقع ہوتی ہے تائید الہی اس کے ساتھ نازل ہوتی ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :-

وَلَقَدْ نَصَرَ كُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَ أَنْتُمْ أَذِلَّةٌ اور اللہ تعالی  نے بدر کے میدان میں تمہاری مددفرمائی ۔ جبکہ تم ذلیل اور کمزور تھے ۔

لہذا اے مرید ! اگر تم عطیات الہی کی کشائش اور اپنے اوپر ان کا وارد ہونا، چاہتے ہو ۔ تواپنے فقر و فاقہ کو درست کرو۔ پھر جب تمہارا فقر و فاقہ درست ہو جائے ۔ تو عطیات الہی کے نزول کے لئے تیار ہو جاؤ۔ کیونکہ اب وہ تمہارے اوپر بادلوں کی طرح نازل ہوں گی اور اس کے بارے میں، میں نے ایک قصیدہ کہا ہے۔ اس کا بیان انشاء اللہ عنقریب آئے گا

وَإِنْ تُرِدْنَ بَسُطُ الْمَوَاهِبِ عَاجِلا           فَفِى الْفَاقَةِ رِیْحُ الْمَوَاهِبِ يُنْشَرُ

اور اگر تم فورا عطیات الہی کی کشائش چاہتے ہو۔ تو سمجھ لو کہ فقر و فاقہ کے اندر عطیات کی خوشبو پھیلتی ہے۔

اور عطیات : – سے مراد ، معارف اور کشف اور اطمینان اور حکمتیں اور علوم اور اسرار ہیں۔ جو غیوب کے خزانوں سے قلوب پر ، اس وقت وارد ہوتے ہیں جب وہ غیر اللہ کی آلائش سے پاک وصاف ہو جاتے ہیں ۔ اور قلب سب سے زیادہ صاف اس وقت ہوتا ہے، جبکہ نفس ختم ہو جاتا ہے۔ اور نفس کا خاتمہ : – صرف اس کے فوائد کے ترک ہونے سے ہوتا ہے۔ اور نفس کا خاتمہ :- اکثر اوقات فقر وفاقہ کے سوا کسی دوسرے حال میں نہیں ہوتا ہے۔ اس وجہ سے حضرات صوفیائے کرام فقر وفاقہ سے خوش ہوتے اور تو نگری وخوش حالی سے غمگین ہوتے ہیں ۔

ایک صوفی پر دنیا کا دروازہ کچھ کھول دیا گیا۔ تو انہوں  نے فرمایا : یہ سزا ہے اور اس سزا کے ملنے کا سبب مجھ کو نہیں معلوم ہے۔

حضرت ہروی نے فرمایا ہے:۔ فقر و فاقہ چھوڑی ہوئی صفت ہے اور جتنی چیزیں عارف کو حاصل ہوتی ہیں ان میں سب سے زیادہ لذیذ یہی ہے۔ اس وجہ سے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں داخل کرتا ہے اور اس کے سامنے بٹھاتا ہے۔ اور اللہ تعالی  سے روکنے والی اشیاء کو ختم کرنے اور تعلقات سے پاک ہونے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ قلب کے مشغول ہونے کے لئے سب مقامات سے زیادہ مشہور یہی مقام ہے۔

بیان کیا گیا ہے ۔ سچا فقیر ۔ نہ کسی شے  کا خود مالک ہوتا ہے اور نہ کوئی شے اس کا مالک ہوتی ہے۔ یعنی نہ وہ حاکم ہوتا ہے۔ نہ محکوم۔

حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا۔ فقیر کو کب آرام وسکون ملتا ہے ؟ انہوں  نے جواب دیا:- جب وہ غیر اللہ کو نہیں دیکھتا ہے۔ حضرت شبلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔ فقیر، صرف اللہ تعالی  سے متعلق ہو کر ہرشے سےبے نیاز ہو جاتا ہے۔ حضرت شیخ سہروردی رضی اللہ عنہ نے اپنی کتاب عوارف المعارف میں فرمایا ہے :۔ فقر د فاقہ ۔ تصوف کی بنیاد ہے۔ اور فقرہی سے تصوف قائم رہتا ہے۔ اور تصوف کے لئے فقر کا ہونالازمی ہے۔ اس لئے کہ تصوف ایسا جامع نام ہے۔ جس میں فقر اور زہد کے معانی ، ان احوال کی ترقی کےساتھ شامل ہیں جو صوفی کے لئے لازمی ہیں اگر چہ وہ فقیر زاہد ہو ۔ ایک عارف نے فرمایا ہے :۔ فقر کی انتہاء تصوف کی ابتدا ہے۔ کیونکہ تمام اعلیٰ اخلاق کے مجموعے اور پست اخلاق سے پاکیزگی کا نام تصوف ہے۔ بلکہ سارے صوفیائے کرام اس پر متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں داخل ہونے کا دروازہ صرف فقر ہے اور جو شخص فقر میں ثابت قدمی سے قائم نہیں ہوا اس کو ان فیوض و برکات میں سے کچھ بھی نہیں ملا جس کی طرف صوفیائے کرام نے اشارہ فرمایا ہے۔

اور فقر میں ثابت قدمی سے قائم ہونا : اس سے مانوس ہونا اور اس کے حاصل ہونے کے لئے رشک کرنا اور اس کے ساتھ مضبوطی سے قائم ہونا ہے۔ یہاں تک کہ فقر و فاقہ اس کے لئے شہد سے زیادہ میٹھا اور مال و دولت اس کے لئے حنظل سے زیادہ کڑوی ہو جائے ۔ اور جب اس حال پر قائم ہو جاتا ہے۔ تو اس کے اوپر عطیات الہی کا نزول متواتر ہوتا ہے۔ اور معارف کے دروازے اس کے لئے کھل جاتے ہیں۔ پھر وہ سب سے زیادہ غنی اور خوشحال ہو جاتا ہے۔

ایک صالح نے فرمایا ہے :- میرے پاس کچھ مال تھا۔ میں نے حرم شریف میں ایک درویش کو چند روز سے اس طرح بیٹھے ہوئے دیکھا کہ وہ نہ کچھ کھاتے ہیں۔ نہ پیتے ہیں۔ اور پھٹےہوئے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ یہ مال ان کو دیدوں چنانچہ میں نے وہ مال ان کی گود میں ڈالد یا اور کہا ۔ اس مال سے اپنی دنیاوی ضرورتیں پوری کیجئے۔ لیکن انہوں  نے اس مال کو پتھریلی زمین پر پھینک دیا اور مجھ سے فرمایا: – میں نے اپنے رب کے ساتھ یہ نشست اپنے کل مال کے معاوضے میں خریدی ہے۔ اور تم اس کو خراب کرنا چاہتے ہو۔ یہ کہہ کر وہ چلے گئے ۔ لہذا اللہ کی قسم ، میں نے ان سے زیادہ بزرگ اور با عزت نہیں دیکھا کیونکہ انہوں  نے مال کو پھینک دیا۔

اور میں نے اپنے سے زیادہ حقیر اور ذلیل نہیں دیکھا کہ میں مال کو حفاظت سے جمع کرتا تھا۔ اور ظاہر و باطن میں فقر و فاقہ کی درستی یہی ہے۔ بعض صوفیائے کرام کی یہ حالت تھی :- جب ان کے پاس کچھ مال ہو جاتا تو وہ رنجیدہ  ہوجاتے اور جب ان کے پاس کچھ نہ ہوتا ، تو وہ خوش ہوتے تھے ۔ ان سے کہا گیا :۔ دوسرے سب لوگوں کا حال ، آپ سے الٹا ہے۔ انہوں  نے فرمایا:- جب میرے پاس کچھ نہیں ہوتا ہے۔ تو میں حضرت رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ کے مطابق ہوتا ہوں ۔ اور جب میرے پاس کچھ ہوتا ہے تو رسول اللہ ﷺ کا اسوہ حسنہ مجھ سے ترک ہو جاتا ہے۔ میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں : ہمارے شیوخ کرام رضی اللہ عنھم کی یہی حالت تھی اور ہے۔ اور ہمارے لئے یہی کافی ہے کہ ان کے احوال کی پیروی کریں۔

مجھ کو یہ خبر پہنچی ہے ۔ ہمارے شیخ الشیوخ حضرت مولائےعربی رضی اللہ عنہ رات کو چراغ جلا کر گھر میں چاروں طرف دیکھتے تھے اگر گھر میں کچھ پا جاتے تو وہ اس کو فورا صدقہ کر دیتے تھے ۔ اور رات فاقہ کی حالت میں گزارتے تھے۔ تجرید کی حالت میں ان کا یہی حال تھا۔ اسی حال کی شہادت میں مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس آیت کریمہ کو پیش کیا ہے :۔

إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ صدقات صرف فقرا و مساکین کے لئے ہیں۔

مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس مقام میں یہ آیہ کریمہ پیش کر کے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے :- اللہ تعالیٰ  جو عطیات اور معارف عطا فرماتا ہے۔ وہ سب صرف صدقات واحسانات ہیں۔ اعمال واحوال کا بدلہ نہیں ہیں۔ کیونکہ صدقہ کسی عمل کے معاوضے میں نہیں ہوتا ہے۔

وَإِنَّ اللَّهُ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَلَمِينَ بیشک اللہ تعالی  کل عالم سے بے نیاز ہے ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں