قلب و ظلمت کے لشکر (باب ششم)

قلب و ظلمت کے لشکر کے عنوان سے  باب  ششم میں  حکمت نمبر56 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے ان سواریوں پر سیر کی کیفیت اورجوچیز سیر سے روکتی ہے ۔ اس کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:۔
56) النُّورُ جُنْدُ الْقَلْبِ كَمَا أَنَّ الظُّلْمَةَ جُنْدُ النَّفْسِ ، فَإِذَا أَرَادَ اللهُ أَنْ يَنْصُرَ عَبْدَهُ أَمَدَّهُ بِجُنُودِ الأَنْوَارِ ، وَقَطَعَ عَنْهُ مَدَدَ الظُّلَمِ وَالأَغْيَارِ.
نور، قلب کا لشکر ہے۔ جیسا کہ ظلمت نفس کا لشکر ہے۔ تو جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ تو انوار کے لشکروں سے اس کی مدد کرتا ہے۔ اور اس سے ظلمتوں اور اغیار کی مدد کومنقطع کر دیتا ہے۔ میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: ظلمت : ایک نکتہ ہے۔ جو وہم وگمان کی بناء پر خواہش سے نفس میں واقع ہوتی ہے۔ پھر وہ اللہ تعالیٰ سے اندھا ہونے کا سبب بنتی ہے۔ تاکہ حق کی جگہ پر باطل کو قائم کرے ۔ تو وہ باطل بندے کے پاس آتا ہے اور اس کو بصیرت سے خالی کر کے چھوڑ دیتا ہے۔ یہ حضرت شیخ زروق نے فرمایا ہے۔ میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: پہلے یہ بیان ہو چکا ہے کہ نفس، اور عقل ، اور قلب اور روح اور سر ایک ہی شے کے مختلف نام ہیں۔ اور وہ نورانی ربانی لطیفہ ہے۔ جو اس ظلمانی جسمانی قالب میں امانت رکھی گئی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اس کے احوال کے مختلف ہونے اور اس کے طریقوں کے منتقل ہونے کے ساتھ اس کے نام بدلتے رہتے ہیں۔ اس کی مثال بارش کے پانی کی طرح ہے۔ جو درخت کی جڑ میں پہنچتا ہے۔ پھر اس کی شاخوں میں چڑھتا ہے۔ پھر پتا ظاہر کرتا ہے۔ پھر کلیاں ۔ پھر پھل بنتا ہے جو بڑھتا ہے یہاں تک کہ مکمل ہو جاتا ہے۔ تو پانی ایک ہے۔ لیکن اس کے طریقوں کے مختلف ہونے کے ساتھ اس کے نام مختلف ہو گئے ہیں۔ ایسے ہی ساحلی نے اپنی کتاب بغیہ میں بیان کیا ہے اور میں نے اس کے بارے میں ایک قصید ہ نظم کیا ہے۔ جس کو دوسری کتاب میں بیان کیاگیا ہے۔ پس اس بناء پر قلب کا نفس کے ساتھ جنگ کے لئے مقابلہ کرنا ظلمت کے وطن نفس کے مقام سے انور کے وطن قلب اور اس کے مابعد کے مقام کی طرف ، روح کے منتقل ہونے کی سختی سے، کنا یہ ہوتا ہے۔ تو قلب نفس سے جنگ کرتا ہے تا کہ اس کو اس کی اصل کی طرف منتقل کرے۔ اور نفس رکتا ہے۔ اور بشریت کی زمین اور ان میں خواہشات پر کرتا ہے تو واردات کے انوار قلب کی مدد کرتے ہیں ۔ اور اس کو قریب کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ترقی کر کے اپنی اصل کے حضور میں پہنچتا ہے اور وہی اس کا وطن ہے۔ اور گویا کہ وہ انوار اس حیثیت سے اس کے لشکر ہیں کہ وہ ان کے ذریعہ طاقت حاصل کرتا ہے۔ اور نفس کی ظلمت پر غالب ہوتا ہے۔ اور یہ انوار پہلے کے بیان کئےہوئے واردات ہیں۔
اور نفس جب خواہشات کی طرف مائل ہوتا ہے اور اس کی لذت چکھتا ہے تو وہ خواہشات گویا کہ نفس کے لشکر ہیں۔ اور وہ ظلمت اس حیثیت سے ہیں کہ انہوں نے اس کو حق تعالیٰ سے حجاب میں کر دیا ہے اور عرفان کے آفتابوں کے مشاہدہ سے روک دیا ہے تو جب نفس اپنی حکمتوں اور خواہشوں کے لشکر کے ساتھ کسی نافرمانی ، یا خواہش کی طرف بڑھتا ہے تو قلب اس کی طرف اپنے انوار کے لشکروں کے ساتھ بڑھتا ہے۔ اور پھر دونوں کے درمیان جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ تو اگر اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر عنایت اور مہربانی ، اور اسکی مدد کرنا چاہتا ہے تو انوار کے لشکروں کے ذریعہ اس کے قلب کی مدد کرتا ہے۔ اور نفس کی طرف اغیار کی مدد کو منقطع کر دیتا ہے۔ پس نور ظلمت پر غالب ہو جاتا ہے اور نفس شکست کھا کر منہ پھیر لیتا ہے۔ یعنی بھاگتا ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی رسوائی اور ذلت چاہتا ہے تو اغیار کے ساتھ اس کے نفس کی مدد کرتا ہے اور اس کے قلب سے انوار کی شعائیں ختم کر دیتا ہے تو حکم کے ساتھ مدد کیا ہوا اپنے منہ پر آتا ہے۔ اور شے کے ساتھ رسوا کیا ہوا ۔ اس کے برعکس۔
حضرت شیخ زروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔ انوار کی امداد کی تین قسمیں ہیں۔ اول :۔ یقین جس میں شک کی آمیزش نہ ہو۔ دوم:۔ علم جس کے ساتھ بصیرت اور بیان ہو ۔ سوم : ۔ الہام ، جو عیاں مشاہدہ کے بعد جاری ہوتا ہے۔ اور ظلمت کی امداد کی تین قسمیں ہیں ۔ اول: یقین کی کمزوری دوم جہالت کا غلبہ ۔ سوم: نفس پر شفقت اور ان سب کی اصل : نفس سے راضی ہونا۔ اور راضی نہ ہونا ہے۔ اور اس کا مظہر تین ہیں جو اس سے مرتب ہوتی ہیں اور وہ معصیت ، اور شہوت ، اور غفلت ہے۔ اور ان کی ضد، جو تیسرے باب میں بیان ہو چکی ہے۔ تو تم بخوبی سمجھو۔ اور جب کہ نور قلب کا لشکر ہے۔ اور وہ اشیاء کی حقیقتوں کو ظاہر کرتا ہے۔ تو حق کی تمیز باطل سے ہو جاتی ہے۔ پس حق کو ثابت کرتا ، اور باطل کو مٹا دیتا ہے۔ تو قلب ، واضح دلیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے میں کامیاب ہوتا ہے اور نفس، اپنی ظلمتوں کے لشکر کے شکست کھانے کے ساتھ شکست کھا جاتا ہے۔ کیونکہ نور کے ظاہر ہونے کے ساتھ ظلمت باقی نہیں رہتی ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں