قلب پر نور کا غلاف (بیسواں باب)

قلب پر نور کا غلاف کے عنوان سے بیسویں باب میں  حکمت نمبر 183 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس بیان کی علامت ، جس کے پہلے بیان کرنے والے کا نور آگے بڑھ جاتا ہے۔ اور اس بیان کی علامت، جس کے پہلے بیان کرنے والے کی کثافت اور ظلمت آگے بڑھ جاتی ہے، بیان کرتے ہوئے فرمایا :-
183) كُلُّ كَلاَمٍ يَبْرُزُ وَعَلَيْهِ كِسْوَةُ الْقَلْبِ الَّذِى مِنْهُ بَرَزَ.
جو بات نکلتی ہے۔ اس کے اوپر اس قلب کا غلاف ہوتا ہے، جس سے وہ نکلی ہے۔ میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ جس کلام سے پہلے کلام کرنے والے کا نور ، آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس کی علامت:- قلوب میں اس کا اثر کرنا اور روحوں کو ابھارنا اور اسرار الہی کا شوق پیدا کرنا ہے۔ لہذا جب غافل اس کو سنتا ہے، تو ہوشیار ہو جاتا ہے۔ اور جب اس کو اطاعت کرنے والا سنتا ہے، تو اسکی خوشی بڑھتی اور اس کا شوق زیادہ ہوتا ہے۔ اور جب اس کو نا فرمان گنہگا ر سنتا ہے، تو وہ گناہ اور نافرمانی سے رک جاتا ہے۔ اور جب اس کو سائر سنتا ہے، تو اس کے سیر کی تکان اور تکلیف دور ہو جاتی ہے ۔ اور جب اس کو واصل سنتا ہے، تو اپنے حال میں مضبوطی سے قائم ہو جاتا ہے۔ چونکہ کلام ، کام کرنے والے کی صفت ہے۔ اس لئے جب کلام کرنے والا نورانی اور روشن ضمیر ہوتا ہے، تو اس کا کلام سننے والوں کے قلوب میں اتر جاتا ہے۔ اور اگر کلام کرنے والا سیاہ قلب اور کثافت والا ہوتا ہے ، تو اس کے کلام کی حد صرف سننے والوں کا کان ہے۔ (یعنی اس کی بات صرف کانوں تک رہ جاتی ہے لہذا جو کلام نکلتا ہے اس کے اوپراس قلب کاغلاف ہوتا ہےجس سے وہ نکلا ہے اس لئے سید نا حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے ۔ جو شخص بات کرتا ہے، ہم اس کو فورا پہچان لیتے ہیں۔ اور جو شخص بات نہیں کرتا ہے، ہم اس کو اس کے دن سے پہچانتے ہیں ۔ (یعنی کن چیزوں میں وہ دن گزارتا ہے ) بزرگوں نے بیان کیا ہے :۔ آدمی ، بند دوکانوں کی طرح ہیں ۔ جب وہ بات کرتے ہیں تو یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے، کہ یہ بیطار ( جانوروں کا ڈاکٹر ) ہے،یا عطار (عطر فروش)۔
اور یہ بھی بزرگوں نے فرمایا ہے ۔ بات جب دل سے نکلتی ہے، تو دل میں اثر کرتی ہے۔ اور جب زبان سے نکلتی ہے تو وہ صرف کانوں تک رہ جاتی ہے۔ اور حال کا ابھارنا ، قال ( زبانی باتوں )سے زیادہ ضروری ہے اور اگر کسی شخص میں حال اور قال دونوں جمع ہو جا ئیں ، تو وہ موجیں مارتا ہوا گہرا سمندر اور پوری طرح روشن ستارہ ہے۔
ایک عارف نے فرمایا ہے :۔ جس شخص کا قلب روحانی ہوتا ہے۔ اس کی با تیں حقیقت میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہیں۔ وہ ایسے قلب سے نکلی ہوتی ہیں جس کا میدان بہت وسیع ہے۔ اور جس شخص کا قلب نفسانی ہوتا ہے۔ اس کی باتیں ظاہری ہوتی ہے۔ اور جس شخص کے قلب کے کان کو دنیا کے حجابات نے بند کر دیا ہے۔ وہ نہ سن سکتا ہے، نہ سنا سکتا ہے۔ اور آدمیوں میں بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو زبانی علم کے عالم ہوتے ہیں۔ اور انکا قلب معرفت سے جاہل ہوتا ہے۔ اور ان کی پہچان :۔ دنیا کی باتوں کو آخرت کی باتوں پر ، یا ظاہر کی باتوں کو باطن کی باتوں پر ترجیح دیتا ہے۔ اس قسم کے لوگوں سے پر ہیز کرو، اور دور بھا گو۔ کیونکہ ان کے قلوب مردہ ہیں۔ لہذا ان کی باتیں مردار کے متعلق ہوتی ہے۔ اور مردار انتہائی بد بودار ہوتا ہے۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے ۔
الدُّنْيَا جِيفَةٌ وَ طُلًّا بُهَا كِلَابٌ دنیا مردار ہے اور اس کے چاہنے والے کتے ہیں، لہذا جو شخص دنیا سے متعلق باتیں کرتا ہے، اس کی مثال کتے کی طرح ہے اور کتے میں کچھ بھلائی نہیں ہے ، اگر چہ وہ عالم ہو ۔ یہ حضرت امام شطیبی نے فرمایا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں