مخلوق سے امید سراب ہے کے عنوان سے سترھویں باب میں حکمت نمبر 162 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے تم کو مخلوق سے خواہش کو ترک کرنے کے لئے دوا بتائی اور وہ دوا :- اللہ تعالیٰ کے دیکھنے کو کافی سمجھنا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:-
162) غَيِّبْ نَظَرَ الْخَلْقِ إِلَيْكَ بِنَظَرِ اللهِ إِلَيْكَ ، وَغِبْ عَنْ إِقْبَالِهِمْ عَلَيْكَ بِشُهُودِ إِقْبَالِهِ عَلَيْكَ.
تم اپنی طرف مخلوق کے دیکھنے کو، اپنی طرف اللہ تعالیٰ کے دیکھنے میں غائب (فنا ) کر دو۔ اور تم اللہ تعالیٰ کے اپنے سامنے ہونے اور اپنی طرف متوجہ ہونے کے شہود میں مخلوق کے اپنی طرف عزت و تعظیم کے ساتھ متوجہ ہونے کے دیکھنے سے غائب ہو جاؤ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : مخلوق ، در حقیقت عدم ہے۔ اور صرف اللہ واحد ، احد ہی وجود ہے۔ لہذا ما سوی کا وجود، ہوا میں خیالی غبار کی طرح ، یالوگوں کے سایوں کی طرح ہے۔ اگر تم اس کو تلاش کرو تو اس کو کچھ نہ پاؤ گے۔
لہذا اے فقیر تم اللہ تعالیٰ کے اپنی طرف دیکھنے کو کافی سمجھ کر مخلوق کے اپنی طرف دیکھنے کو اپنے دل سے مٹادو۔ کیونکہ ما سوی کو دیکھنے کی قوت نہیں ہے اور بزرگ بادشاہ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہونے اور متوجہ ہونے کے مشاہدے میں مشغول ہو کر مخلوق کے عزت و تعظیم کے ساتھ اپنی طرف متوجہ ہونے کے شہود سے ، تم غائب ہو جاؤ۔ یعنی تم علم کے ثابت ہونے کے ساتھ وہم سے دور ہو جاؤ۔ اس لئے کہ تمہارا مخلوق کی طرف متوجہ ہونا ، اللہ تعالیٰ سے منہ پھیر لینا ہے۔ اور مخلوق سے منہ پھیر لینا، اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا ہے۔ اور دونوں یعنی منہ پھیر لینا اور متوجہ ہوا ، ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے ۔ حدیث شریف میں ہے۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو وصیت فرمائی ہے:۔ احْفَظِ الله يَحْفَظكَ، احْفَظِ الله تَجِدْهُ تُجَاهَكَ، وَإِذَا سَالْتَ فَاسْأَلِ الله، وَإذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِالله، وَاعْلَمْ أَنَّ الأُمَّةَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشئٍ لَمْ يَكْتُبْهُ الله لَكَ لَمْ يَقْدِرُوا عَلَى ذَلِكَ، وَلَوِ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشىْءٍ لَمْ يَكْتبهُ الله لَكَ لَمْ يَقْدِرُوا عَلَى ذَلِكَ، قُضِىَ القَضَاءُ، وَجَفَّتِ الأقْلَامُ وَطُوِيَتِ الصُّحُفُ
اگر تم اللہ تعالیٰ کے حقوق اور احکام کی حفاظت کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت فرمائے گا۔ اگر تم اللہ تعالیٰ کے حقوق کی حفاظت کرو گے تو اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے موجود پاؤ گے ۔ جب تم کچھ مانگو، تو اللہ تعالیٰ سے مانگو ۔ اور جب تم مدد چاہو، تو اللہ تعالیٰ سے مدد چاہو ۔ اور تم یہ جان لو :- بیشک اگر امت اس بات پر متفق ہو جائے کہ تم کو کچھ فائدہ پہنچا ئیں۔ تو تم کو فا ئدہ نہیں پہنچا سکتی ہیں مگر اتنا ہی ، جتنا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے اور اگر وہ سب اس بات پر متفق ہو جائیں ، کہ تم کو کچھ نقصان پہنچا ئیں ۔ تو وہ تم کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں ۔ اگر اتناہی ، جتنا ہی ، جتنا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے۔ قلم خشک ہو گیا ور صحیفے لپیٹ دیئے گئے۔
حضرت شیخ ابوالحسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:-
میں اپنے نفس کے لئے اپنے فائدے سے نا امید ہو گیا ہوں۔ تو میں اپنے غیر کے فائدے سے جو اس کے نفس کے لئے ہو کیسے نا امید نہ رہوں۔ اور جب میں اپنے غیر کے لئے اللہ تعالیٰ سے امید کروں گا۔ تو اپنے لئے کیوں نہ کروں گا۔
حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے کتاب لطائف المنن میں فرمایا ہے:۔
ولی کی بنیاد :- اللہ تعالیٰ کو کافی سمجھنا۔ اس کے علم پر قناعت کرنا اور اس کےشہود کا ارادہ کرنا ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
وَمَن يَتَوَكَّلۡ عَلَى ٱللَّهِ فَهُوَ حَسۡبُهُۥاور جو شخص اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے کافی ہے
اور اللہ تعالیٰ نےفرمایا:
اليس اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:- الَمْ يَعْلَمُ بِأَنَّ اللَّهَ يَرَىکیا انسان کو معلوم نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ اور اللہ تعالی نے فرمایا:
أو لَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلَّ شَيْءٍ شَهِيدٌ کیا تمہارا رب اس کے لئے کافی نہیں ہے کہ وہ ہرشے کو دیکھ رہا ہے۔
پس صوفیائے کرام کا طریقہ :۔ ابتدا میں مخلوق سے دور رہنا اور بادشاہ حقیقی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تنہائی اختیار کرنا اور اعمال کو چھپانا اور احوال کو پوشیدہ رکھنا ہے۔ تا کہ ان کی فنا قائم اور ان کا زہد ثابت اور ان قلب سلیم ہو جائے ۔ یہاں تک کہ جب یقین مضبوط ہو جائے ۔ اور وہ مضبوطی اور ثابت قدمی کی تائید حاصل کر لیں ۔ اور فنا میں ثابت ہو جا ئیں ۔ اور بقا میں پہنچ جائیں۔ تو اس وقت اگر اللہ تعالیٰ چاہے، تو ان کو ، اپنے بندوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے، ہادی بنا کر ظاہر کرے۔ اور اگر چاہے تو ان کو چھپائے اور ہرشے سے ان کو جدا کر کے اپنی طرف متوجہ رکھے۔
حضرت سہل بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: بندہ اس طریقت کی کسی حقیقت کو نہیں پا سکتا ہے۔ جب تک وہ دو و صفوں میں سے کسی ایک وصف سے موصوف نہ ہو جائے۔ پہلا وصف : ۔ لوگ اس کی نگاہ سے گر جائیں۔ اس طرح کہ دنیا و آخرت میں اپنے اور اپنے خالق کے سوا کسی کو نہ دیکھے۔ کیونکہ کوئی شخص نہ اس کو نقصان پہنچانے کی قدرت رکھتا ہے نہ فائدہ پہنچانے کی۔
دوسرا وصف :- یہ ہے کہ نفس اس کے قلب سے گر جائے ۔ اس طرح کہ اس کو اس کی پرواہ نہ رہ جائے ۔ کہ لوگ اس کو کس حال میں دیکھتے ہیں۔ کسی عارف شاعر نے کیا خوف فرمایا ہے :۔
فَلَيْتَكَ تَحْلُو وَالْحَيَاةُ مَرِيرَةٌ وَلَيْتَكَ تَرْضَى وَالْآنَامُ غِضَابُ
اے کاش کہ تم میٹھے ہوتے اور زندگی تو کڑوی ہی ہے۔ اور اے کاش کہ تم راضی ہوتے ۔ حالانکہ مخلوق غضب ناک ہے۔
وَلَيْتَ الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَكَ عَامِرٌ وَبَيْنِي وَبَيْنَ الْعَالَمِيْنَ خَرَابُ
اور اے کاش جو میرے اور تمہارے درمیان ہے وہ آباد ہوتا۔اور میرے اور تمام عالم کے درمیان اجاڑ ہے۔
وَلَيْتَ شَرَابِي مِنْ وِدَادِكَ صَافِيًا وَشُرْبِي مِنْ مَّاءِ الْمَعِينِ سَرَابُ
اے کاش کہ تمہاری محبت سے میری شراب خالص ہو جاتی اور جاری پانی سے آسودہ ہونا سراب(بے حقیقت) ہے۔
إِذَا صَحَّ مِنْكَ الْوُدُّ فَالْكُلُّ ھَیِّنٌ وَكُلُّ الَّذِي فَوقَ التُّرَابِ تُرَابُ
مگر تمہاری طرف سے محبت درست ہو جائے تو ہرشے آسان ہے اور جو کچھ مٹی پر ہے وہ مٹی ہے۔
اور جان لو کہ مخلوق کی رضا مندی ، ایسا مقصد ہے۔ جو حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے اور لقمان ان کے بیٹے کے قصے پر غور کرو اور وہ قصہ مشہور ہے۔ اس قصے سے تمہارے اوپر یہ واضح ہو جائے گا کہ مخلوق کا راضی ہونا محال ، یا دشوار ہے اور سب لوگوں سے بڑا جاہل وہ شخص ہے جو ایسی چیز طلب کرتا ہے، جو حاصل نہیں کی جاسکتی ہے لقمان کا قصہ یہ ہے:۔ وہ سفر پر جارہے تھے۔ ان کے ساتھ ان کا لڑکا اور ایک گدھا تھا۔ وہ لڑکے کو گدھے پر سوار کر کے خود پیدل چل رہے تھے ۔ تھوڑی دور چلے تھے ۔ کہ کچھ لوگ ملے وہ لوگ کہنے لگے :۔ یہ لڑکا بڑا بد تمیز ہے۔ خود تو گدھے پر سوار ہے اور ضعیف باپ پیدل چل رہا ہے۔ یہ سن کر لقمان نے لڑکے کو گدھے سے اتار دیا۔ اور خود سوار ہو گئے ۔ ابھی تھوڑی ہی دور چلے تھے کہ پھر کچھ لوگ ملے کہنے لگے :۔ یہ باپ کتنا سخت دل ہے کہ خود گدھے پر سوار ہے اور لڑکا پیدل چل رہا ہے۔ یہ سن کر لقمان نے لڑکے کو بھی گدھے پر سوار کر لیا۔ اس حال میں کچھ دور چلے کہ پھر کچھ لوگ ملے اور کہنے لگے :۔ یہ دونوں بڑے بے رحم ہیں ۔ کہ ایک بے زبان جانور پر دو آدمی سوار ہو کر چل رہے ہیں۔ ان کو تو یہ چاہیئے کہ ایسے کمزور گدھے کو یہ دونوں اپنے کندھے پر اٹھا کر لے جاتے۔ یہ سن کر لقمان نے ایک بانس لیا اور گدھے کا پاؤں رسی سے بانس میں باندھا۔ اور دونوں باپ بیٹے ، دو طرف سے بانس کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر چلے۔ ابھی تھوڑی ہی دور گئے تھے۔ کہ کچھ مرد اور عورت کھیتوں میں کام کر رہے تھے۔ ان کی نظر گدھے پر پڑی تو وہ لوگ قہقہہ لگا کر ہنسنے اور پاگل دیوانہ کا شور مچانے اور تالیاں بجانے لگے۔ اُس وقت یہ دونوں ایک نہر کے پل کے اوپرگزرر ہے تھے۔ شور سن کر گدھا بد کا اور بانس ان کے کندھوں سے گرا اور گدھا نہر میں گر گیا۔
بعض عارفین نے فرمایا ہے :- میرالوگوں سے کیا تعلق ہے؟ میں اپنی ماں کے شکم میں تنہا تھا اور میں دنیا میں تنہا آیا اور میں تنہا مروں گا۔ اور میں قبر میں تنہا جاؤں گا۔ اور مجھ سے قبر میں تنہا سوال کیا جائے گا۔ اور میں اپنے قبر سے تنہا اٹھوں گا ۔ اور ہم سے تنہا حساب لیا جائے گا۔ پھر اگر میں جنت میں جاؤں گا۔ تو تنہا جاؤں گا۔ اور اگر میں دوزخ میں جاؤں گا۔ تو تنہا جاؤں گا۔ تو جب ان سب جگہوں میں کوئی شخص نہ میرا ساتھ دے سکتا ہے۔ نہ میرے کچھ کام آ سکتا ہے۔ تو مجھے لوگوں سے کیا تعلق ہے اور میں ان کی فکر میں کیوں پڑوں ۔
شیعہ کا جنازہ پڑھنے پڑھانے والےکیلئے اعلیٰحضرت کا فتویٰ
سواء السبیل کلیمی
خاندانِ نبوی ﷺ کے فضائل و برکات العلم الظاهر في نفع النسب الطاهر
حیلہ اسقاط ایک جلیل القدر نعمت
امر الہی کے تین مراتب
آداب مرشد
تہنیت از سخی مادھو لعل حسین قلندر
مقامات سلوک از ڈاكٹر محمد عبد الرحمن عمیرہ المصری
مفتاح اللطائف
کشکول کلیمی حضرت قطب العالم شاہ کلیم اللہ جہان آبادی
رسم رسُولی
آداب سماع شیخ کلیم اللہ جہان آبادی چشتی
ارشاد المرشد