مقامِ حیرت

یہ طریقت کا انتہائی مقام ہے جس کا مطلب انکشافِ حقیقت پر حیران ہوجانا ہے حدیث میں ہے کہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے اَللّٰھُمَّ زِدْنِی تَحَیُّراً فِیْکَ(فتوحاتِ مکیہ از ابنِ عربی رح)(ترجمہ: اے اللہ! مجھے اپنی ذات میں حیرت کی فراوانی عطا فرما) صوفیاء نے اسکی دو قسمیں بیان فرمائی ہیں۔

حیرتِ مذمُوم اور حیرتِ محمود

حیرتِ مذموم

یہ حیرت جہالت کا نتیجہ ہوتی ہے اور تنزّلی کا سبب بنتی ہے۔

حیرتِ محمود

یہ حیرت علم کا نتیجہ ہوتی ہے اور عروج و ترقّی کا سبب بنتی ہے اہلِ طریقت نے اسکے مختلف مفہوم بیان فرمائے ہیں۔

*سالک پر اچانک طاری ہونے والی کیفیت ہے جو قلبِ عارفین پر تامل و حضور اور غور و فکر کرنے کے وقت وارد ہوتی ہے اور انہیں تامل و حضور اور گور و فکر سے دُور لیجاتی ہے۔[ کتاب اللمع ص 345]

واسطی علیہ الرحمۃ کہتے ہیں اچانک طاری ہونے والی حیرت ، حیرت سے مُنہ پھیر کر حاصل ہونے والے سکون سے کہیں بُلند رُتبہ ہے۔[ کتاب اللمع ص 345]

*سالک کا مرتبہِ احدیت میں محو ہونا اور تجلی اسم “ھو” کا مشاہدہ کرنا حیرت ہے۔ [اصطلاحاتِ صوفیہ]

*معرفت کی آخری منزل جہاں عارف مَا عَرَفْنَاکَ حَقَّ مَعْرِفَتِکَ[قول امام ابوحنیفہ رح](ترجمہ: ہم تیری معرفت کا حق نہیں ادا کرسکے جیسے کہ ادا کرنے کا حق تھا) کا اقرار کرتا ہے اور تجلیاتِ بلاکیف و جہت اور مشاہدہِ بلاحجاب کی وسعت سے بہرہ یاب ہوتا ہے صوفیاء اس مقام کو فنائے جذبہ سے بھی تعبیر فرماتے ہیں۔( ملخصًا مکتوباتِ معصُومیہ) *عارف کا پہلا درجہ حیرت سے شروع ہوتا ہے اور آخری درجہ بھی حیرت پر تمام ہوتا ہے پہلی حیرت شُکرِ نعمت میں ہوتی ہے اور دوسری حیرت فکرِ وصل میں ہوتی ہے


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں