ملکوت کے غیبی اسرار(سترھواں باب)

ملکوت کے غیبی اسرار کے عنوان سے سترھویں باب میں  حکمت نمبر 157 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
حضرت شطیبی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :- یہ اسرار جن کو اولیاء اللہ کے اسرار اپنے اندر چھپائے ہوئے ہیں۔ اور جو عوام سے پوشیدہ ہیں ۔ یہ ملکوت کے وہ غیبی اسرار ہیں ۔ جن کی طرف مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے
157) رُبَّمَا أَطْلَعَكَ عَلَى غَيْبِ مَلَكُوِتِه ، وَحَجَبَ عَنْكَ الاسْتِشْرَافَ عَلَى أَسْرَارِ العِبَادِ .
اکثر اوقات اللہ تعالیٰ تم کو اپنے ملکوت کے غیب سے آگاہ کرتا ہے۔ لیکن بندوں کے رازوں سے تم کو آگاہ نہیں کرتا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : صوفیائے کرام کی اصطلاح میں عالم تین ہیں:- پہلا ملک۔ دوسرا:- ملکوت – تیسرا :- جبروت
پہلا : – عالم ملک : ۔ وہ عالم ۔ جوحس اور وہم سے معلوم کیا جاتا ہے۔
دوسرا:۔ عالم ملکوت:- وہ عالم ہے۔ جو علم اور سمجھ سے معلوم کیا جاتا ہے ۔
تیسرا: – عالم جبروت :- وہ عالم ہے۔ جو بصیرت اور معرفت سے معلوم کیا جاتا ہے۔ اور ان تینوں عالموں کا مقام ایک ہے۔ اور وہ اصلی اور فرعی وجود ہے اور صرف فکر و نظر کے اختلاف سے مختلف نام رکھا گیا ہے۔ اور معرفت میں ترقی کے اختلاف سے فکر ونظر میں اختلاف واقع ہوا۔
لہذا عارفین محققین کے نزدک وجود کی دو قسمیں ہیں:۔
ایک قسم لطیف غیبی وجود ہے۔ جو عالم تکوین میں داخل نہیں ہے۔
دوسری قسم : – کثیف وجود ہے۔ جو عالم تکوین میں داخل ہے۔
پہلی قسم کا نام عالم غیب ہے اور دوسری قسم کا نام عالم شہادت ہے۔ اور جوشے عالم غیب میں پوشیدہ تھی۔ عالم شہادت میں ظاہر ہوئی۔ تو جس شخص نے اشیاء کے ظاہری حسن کی طرف دیکھا اس نے اس کا نام عالم ملک رکھا اور اس کا دوسرا نام ، عالم حکمت اور عالم اجسام ہے۔
اور جس شخص نے ان حقیقتوں کے اسرار کی طرف نظر کی جواوانی کے ساتھ قائم ہیں ۔ اور وہ ذات کے وہ اسرار ہیں۔ جو صفات کے انوار کے ساتھ قائم ہیں ۔ اُس نے اُس کا نام عالم ملکوت رکھا۔
اور جس شخص نے ان از لی اسرار کی طرف نظر کی ، جو پوشیدہ خزانے کی حالت میں ہیں۔ اور عالم تکوین میں داخل نہیں ہیں۔ اس نے اس کا نام عالم جبروت رکھا۔
یا تم اس طرح کہو :- جس نے اس کثیف کی طرف دیکھا۔ جو عالم تکوین میں داخل ہے۔ اور اس کو اس کے نفس کیسا تھ مشغول اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ساتھ قائم دیکھا ۔ اس نے اس کا نام عالم ملک رکھا۔ اور سید اہل فرق میں سے اہل حجاب کا مقام ہے۔
اور جس نے اس نور کی طرف دیکھا۔ جو لطیف نور سے جاری ہونے والا اور اس کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ مگر یہ کہ وہ قدرت سے کثیف ہو گیا۔ اور حکمت سے پوشیدہ ہو گیا ہے۔ اس نے اس کا نام عالم ملکوت رکھا۔
اور اس نے اس لطیف کا نام عالم جبروت رکھا ۔ جو اپنی اصل پر باقی ہے ۔ عالم تکوین میں داخل نہیں ہے۔ جو ہرشے کا اول ہے ۔ اور ہرشے کا آخر ہے۔ اور ہرشے کو محیط ( گھیرے ہوئے ) ہے ۔ تو اگر فرع اپنی اصل سے اور کثیف لطیف سے ملا دیا جائے ۔ تو سب کا نام عالم جبروت رکھا گیا ہے۔ اور ان حقیقتوں کو کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے۔ مگر وہ جو اہل ذوق کی صحبت میں رہ کر اہل ذوق ہو چکا ہے۔ اور جو شخص اس مقام میں نہیں پہنچا ہے۔ اس کے لئے تسلیم کرناہی کافی ہے۔ ورنہ وہ اولیاء اللہ کے انکار میںمبتلا ہو کر بے جا اعتراض کرے گا۔
اب ہم حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے کلام کی طرف لوٹتے ہیں اور کہتے ہیں ۔اکثر اوقات اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر سے حجاب دور کر دیتا ہے۔ اور تم ترقی کر کے احباب میں داخل ہو جاتے ہو۔ پھر تم کو مخلوق کے دیکھنے کے قید خانے سے نکال کر خالق کے مشہود تک اور عالم اجسام سے نکال کر عالم ارواح تک پہنچاتا ہے۔ پھر تم کو اپنے ملکوت کے غیب سے آگاہ کرتا ہے۔ تو تم کل کائنات کو ایسا نور دیکھتے ہو، جو جبروت کے سمندر سے جاری ہے۔ پھر تم اس کو اس کی اصل سےملا دیتے ہو۔ اور تم اس ملکوت کے شہود میں جس کا نام عالم جمع ہے مشغول ہو کر ، اس ملک کے شہود سے جس کا نام عالم فرق ہے، فنا ہو جاتے ہو۔ اس حقیقت کے بارے میں حضرت ابن بناء نے فرمایا
مهُمَا تَعَدَّيْتَ عَنِ الْأَجْسَامِ ابْصَرتَ نُورَ الْحَقِّ ذَا ابْتِسَامِ
جب تم اجسام سے تجاوز کر کے آگے بڑھ گئے۔ تو تم نے اللہ تعالیٰ کے نور کو مسکراتے دیکھا۔ اور تمہارے اوپر رحمت کی بنا پر اپنے بندوں کے پوشیدہ راز تم سے چھپا دیتا ہے۔ اس لئے کہ تم بندوں کے رازوں سے آگاہی کے سبب ملکوت کے شہود سے محجوب ہو جاتے ہو ۔ لہذامحققین کے نزدیک بندوں کے رازوں کے مکاشفہ ( آگاہ ہونا ) کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ بلکہ یہ کبھی آگاہ ہونے والے کے حق میں مصیبت بن جاتی ہے۔ جیسا کہ عنقریب اس کا بیان آئے گا۔ اور بندوں کے رازوں سے آگاہی ، ایسے لوگوں کو بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ جن کو عبادت سے بالکل تعلق نہیں ہوتا ہے۔ جیسے کا ہن اور جادوگر وغیرہ
اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ملکوت کا مشاہدہ کرنے والے، بندوں کے رازوں کی آگاہی سے محجوب ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ اس حالت میں مشغول ہوتے ہیں ، جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑی اور بہت مفید ہے۔
اور یہ مکاشفات ( بندوں کے رازوں سے آگاہی ) صرف عابدین ، زاہدین ، اور ریاضت و مجاہدہ کرنے والوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ اور عارفین کے لئے بھی مکاشفات کے حاصل ہونے سے انکار نہیں ہے۔ کبھی ان کو مکاشفہ اور کشف دونوں حاصل ہوتے ہیں۔ یعنی بندوں کے رازوں کا مکاشفہ اور قلب سے حجاب کا کشف ۔ لیکن اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔ کہ روح ملکوت کے شہود میں مستغرق رہتی ہے۔ نہ یہ کہ بندوں کے رازوں سے آگاہ ہونے کی طرف متوجہ ہو۔ کیونکہ اس کا تعلق عالم ملک سے ہے۔
حضرت شیخ ابو یعزی رضی اللہ عنہ لوگوں کے پوشیدہ رازوں سے آگاہ ہو جاتے تھے۔ اور اُن کو رسوا کرتے تھے۔ تو ان کے شیخ حضرت ابو شعیب ایوب رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس اس سے پر ہیز کرنے اور مسلمانوں کی پردہ دری سے روکنے کے لئے خط لکھا۔ تو حضرت شیخ ابو یعزی نے اس کے جواب میں ان کو یہ تحریر کیا : کسی بشر کو یہ قدرت حاصل نہیں ہے ۔ کہ بندوں کے پوشیدہ رازوں سے واقف ہو سکے۔ اور ان کے عیوب کو عالم غیب سے نکال کر عالم شہادت میں لائے ۔ لیکن میں جو کر رہا ہوں۔ یہ در حقیقت میری طرف القا کیا جاتا ہے۔ اور مجھ کو حکم دیا جاتا ہے۔ کہ کہو : ۔ اور خطاب کو سنو :- تم اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہو ۔ اور تمہاری ذات سے مقصود یہ ہے کہ مخلوق تمہارے ہاتھ پر تو بہ کرے۔ لہذا میرے اوپر ایسے حال کا غلبہ ہوتا ہے۔ جس کا اختیار میرے اوپر اتنا غالب ہو جاتا ہے۔ کہ اس حال کے ہوتے ہوئے میں ان باتوں کے کہنے سے باز نہیں رہ سکتا ہوں۔ اور حضرت شیخ ابوعبداللہ تاودی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے ۔ جس راستے کو شیخ ابو یعزی نے سولہ سال میں طے کیا ہے۔ میں نے اس کو چالیس روز میں طے کیا ہے اور انہوں نے ہماری اس طریقت کا غبار بھی نہیں سونگھا ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ
اور سب کے سب اولیاء اللہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے ذکر سے ہم کو فائدہ پہنچائے ۔ اور مذکور بیان سے ہمارا مقصد اولیائے کرام میں سے کسی کی تنقیص ( درجہ گھٹانا ) نہیں ہے۔ بلکہ در حقیقت ہمارا مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ مکاشفہ کا طریقہ، انتہا نہیں ہے۔ بلکہ بعض عارفین نے فرمایا ہے:۔ وہ ابتدا ہے۔ وبالله التوفيق


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں