واردات الہیہ اور بشری عادات (تیئسواں باب)

واردات الہیہ اور بشری عادات کے عنوان سےتیئسویں باب میں  حکمت نمبر 216 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے انہی واردات کا بیان اپنے اس قول میں فرمایا ہے ۔
216) مَتَى وَرَدَتِ الْوَارِدَاتُ الإِلَهِيَّةُ عَلَيْكَ هَدَمَتِ الْعَوَائِدَ عَلَيْكَ {إِنَّ المُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا}
جب واردات الہٰیہ تمہاری طرف وارد ہوتے ہیں، تو تمہاری بشری عادتوں کو منہدم کر دیتے ہیں۔ بیشک بادشاہ لوگ جب کسی آبادی میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو ویران کر دیتے ہیں ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ واردالہٰی ۔ وہ شوق یا اشتیاق یا محبت کی قوت ہے۔ جو اللہ تعالیٰ بندےکے قلب میں پیدا فرماتا ہے۔ اور وہ کبھی خوف یا ہیبت یا جلال کی قوت سے پیدا ہوتا ہے۔ پھر وہ قوت بندے کو اپنے مولائے حقیقی کی طرف بڑھنے کے لئے مجبور کر دیتی ہے۔ پھر وہ اپنی عادتوں اور شہوتوں اور خواہشوں سے علیحدہ ہو جاتا ہے۔ اور اپنے رب کی معرفت اور اس کی رضا مندی کی طرف سیر کرتا ہے اور کبھی اس کے اوپر اس محبت اور شوق کے انوار متواتر آتے رہتے ہیں اور اس کو اس کی حس سے کم کر دیتے ہیں۔ اور یہی جذب ہے اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے واردات کو جمع کے لفظ سے اس محبت اور شوق کی زیادتی کے اعتبار سے استعمال کیا ہے۔ کیونکہ واردات اس کی عادتوں کو اسی وقت ختم کر سکتے ہیں، جبکہ وہ زیادہ ہوں ۔ اور ان واردات کا نام نفحات بھی ہے۔
حضرت رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا ہے۔
إِنَّ لِلَّهِ نَفْحَاتٍ فَتَعَرَّضُوا لِنَفَحَاتِهِ بے شک اللہ تعالیٰ کے نفحات یعنی واردات ہیں۔ لہذا تم اس کے نفحات حاصل کرنے کے لئے سامنے آو ( آگے بڑھو)
لہذا جس شخص پر یہ واردات اختیاری طور پر نہ وارد ہوں ۔ اس کو چاہیئے کہ ان واردات کے حاصل کرنے کے لئے ایسے عارفین کی صحبت اختیار کرے۔ جو اس اکسیر کے مالک ہیں، جو اشیاء کی ماہیت کو بدل دیتا ہے۔ اور اگر ان کی صحبت اختیار کرنے کے بعد بھی اس کے اوپر واردات الہٰیہ نہ وارد ہوں۔ تو اس کو چاہیئے کہ اپنے نفس کی عادت کو ظاہر سے ختم کر دے۔ کیونکہ وہ ظاہر سے باطن میں داخل ہوتی ہیں۔ پھر جب واردات الہٰیہ تمہارے اوپر وارد ہوں گے تو وہ تمہاری عادات کو باطن سے بھی ختم کر دیں گے۔ پھر وہ تمہاری عزت کو ذلت میں اور تمہاری دولتمندی کو محتاجی میں اور تمہارے مرتبہ اور شہرت کو گمنامی میں اور تمہاری سرداری کو تو اضع میں اور تمہارے کلام کو خاموشی میں اور تمہارے مزے دار کھانے کو بے مزہ اور تلخ کھانے میں اور تمہاری آسودگی کو بھوک میں اور تمہارے اپنے وطن میں قیام کو سیاحت اور سفر میں تبدیل کر دیں گے ۔
دار دالہٰی کی شان یہی ہے کہ وہ عادات کو دیران ومنہدم کر دیتا ہے۔ لہذاوہ طاقتور صاحب فوج ، سرکش بادشاہ کی طرح ہے۔ جو کسی بستی میں داخل ہوتا ہے، تو اس کی عمارتوں کو ویران کر دیتا ہے۔ اور اس کے معمولات ( طریقوں اور رواجوں ) کو بدل دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ( إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُو قَرْيَةٌ أَفْسَدُوهَا ) أى تَزَعُوهَا وَ خَرَبُوهَا ( وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا اذِلَّةٌ )أَيْ رَءُ وَسَاهَا أَتْبَاعًا مَرُهُ وَسِينَ ) وَكَذَلِكَ يَفْعَلُونَ)
بے شک بادشاہ لوگ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو ویران اور برباد کر دیتے ہیں ۔ اور اس کے معزز اور شریف باشندوں کو ذلیل کرتے ہیں ۔ یعنی اس کے رئیسوں اور سرداروں کو غلام اور کمزور بنا دیتے ہیں۔ اور بادشاہوں کی شان یہی ہے کہ وہ اسی طرح کرتے ہیں۔ اور اس آیہ کریمہ سے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کا شہادت حاصل کرنا بہت ہی خوب اور مناسب ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں