چراگاہ سے دور رہو 

حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :

زہد و تقوی اختیار کر ورنہ ہلاکت کا پھندا تیری گردن میں ہو گا اور تو اس سے بھی نجات نہیں پا سکے گا۔ ہاں اللہ تعالی فضل و کرم فرمائے تو الگ بات ہے۔ نبی کریم ﷺ کی حدیث ہے۔ 

إن ملاك الدين الورع. وهلاكه الطمع وان  من حام حول الحمى يوشك أن يقع فيه کاالراتع إلى جنب الزرع يوشك ان یمد فاه إليه لا يكاد أن يسلم الزرع منہ 

دین کا مدار زہدو ورع ہے اور اس کی ہلاکت لالچ ہے۔ بلاشبہ جو چراگاہ کے اردگرد گھومتا ہے کسی وقت بھی اس میں داخل ہو سکتا ہے۔ کھیتی کے کنارے چرنے والے جانور کی مانند قریب ہے کہ اس کا منہ اس تک پہنچ جائے۔ ممکن نہیں کہ کھیتی اس سے محفوظ رہے ۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا ارشاد ہے کہ ہم دس میں سے نو چیزیں اس خوف سے ترک کر دیتے ہیں کہ حرام کا ارتکاب نہ کر بیٹھیں۔ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا، ہم ستر مباح دروازے اس خوف سے چھوڑ دیتے ہیں کہ کہیں گناہ نہ کر بیٹھیں۔

حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی یہ احتیاط صرف اس وجہ سے ہے کہ کہیں حرام کا ارتکاب نہ کر بیٹھیں۔ کیونکہ نبی کریم ﷺکی یہ حدیث مبار کہ ان کے پیش نظر تھی۔ 

أَلَا إنَّ لِكُلِّ ‌مَلِكٍ ‌حِمًى وَحِمَى اللَّهِ ‌مَحَارِمُهُ فَمَنْ ‌حَامَ ‌حَوْلَ ‌الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يَقَعَ فِيهِ ہر بادشاہ کی ایک محفوظ چراگاہ ہوتی ہے۔ اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ جو اس چراگاہ کے اردگرد گھوما قریب ہے کہ اس میں واقع ہو جائے 

جو شخص بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا۔ پہلے دروازے سے آگے گزر گیا۔ پھر دوسرے دروازے کو عبور کیا اور تیسرے دروازے پر جا کر ٹھہر گیاوہ بہتر ہے اس شخص سے جو پہلے دروازے پر ہے۔ کیونکہ باہر والا دروازہ صحراء کے قریب ہے اگر تیسرا دروازہ اس پربند بھی کر دیا گیا تو بھی اسے کوئی نقصان نہ ہو گا کیونکہ اس کے پیچھےمحل کے دو دروازے اور ہیں۔ اور ان دو دروازوں کے باہر بادشاہ کی فوج کا پہرہ ہے۔ 

لیکن پہلے دروازے پر ٹھہرنے والا محفوظ نہیں۔ اگر یہ دروازہ بند کر دیا جائے تووہ صحراء میں اکیلا رہ جاۓ گااور بد معاش اور دشمن اسے پکڑ کر ہلاک کر دیں گے۔ 

یوں ہی جو عزیمت کی راہ اختیار کرتا ہے اور اسے نہیں چھوڑتا۔ اگر توفیق اور حفاظت کی صورت میں کی جاتی مد دروک بھی لی جائے تو تب بھی اسے رخصت پر عمل کی توفیق تو حاصل رہے گی۔ اور اس طرح وہ عزیمت کو چھوڑ کر شریعت کی حدود سے باہر نہیں آئے گا۔ اور اس حالت میں اگر اسے موت آگئی تو اطاعت کی حالت میں آئے گی اور اس کے حق میں بہترین عمل کی گواہی دی جائے گی۔ 

لیکن جو رخصت پر عمل پیرا ہو اور عزت کی طرف قدم نہیں بڑھایا تو اس سے اگر توفیق چھن جائے اور اللہ تعالی اس سے اپنی مدد واپس لے لے تو اس پر حرص و ہوا غالب آجائے گی۔ شہوات نفس اس پر مسلط ہو جائیں گی۔ وہ حرام میں پڑ کر شریعت کی حدوں سے باہر آجائے گا اور اللہ تعالی کے دشمنوں شیاطین کے زمرے میں آجائے گا۔ اگر توبہ سے پہلے اسے موت آگئی تو ہلاکت اس کا مقدر ٹھہرے گی ہاں رحمت و فضل خداوندی اسے ڈھانپ لے تو الگ بات ہے۔ بہر حال رخصت میں خطرہ ہے۔ اورعزیمت کی راہ اپنانے میں ہر قسم کی سلامتی ہے۔ 

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 119 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں