کلمہ طیبہ لا اله الا الله کے فضائل مکتوب نمبر37دفتر دوم

 کلمہ طیبہ لا اله الا الله کے فضائل اور اس کے مناسب بیان میں فقیر حقیر عبدالحی کی طرف جوان مکتوبات شریف کا جامع ہے، صادر فرمایا ہے۔ 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ لا اله الا الله حق تعالی کے غضب کو دور کرنے کے لیے اس کلمہ طیبہ سے بڑھ کر زیادہ فائدہ مند اور کوئی چیز نہیں ہے۔ جب یہ کلمہ طیبہ دوزخ کے غضب کو تسکین کر دیتا ہے تو غضب جواس سے کم درجہ کے ہیں، ان کی بطریق اولی تسکین کر دیتا ہے۔ کیوں تسکین نہ کرے جب کہ بندے نے اس کلمہ طیبہ کے تکرار سے ماسوی کی نفی کر کے سب کی طرف سے منہ پھیر لیا ہے اور اپنی توجہ کا قبلہ معبود برحق کو بنایا ہے۔ غضب کا باعث مختلف تعلقات اور توجہات ہی تھیں جن میں بندہ مبتلا ہو رہا تھا جب وہ نہ ر ہیں تو غضب بھی نہ رہا۔ اس باز کو عالم مجاز میں بھی مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ 

جب مالک اپنے غلام پر ناراض اور غضبناک ہو تو بندہ اپنے حسن فطرت سے جو اس کو حاصل ہے، اپنی توجہ کو اپنے مالک کے ماسوا سے پھیر کر اپنے آپ کو پورے طور پر مالک کی طرف متوجہ کر لے تو اس وقت مالک کو اپنے غلام پر ضرور شفقت و رحمت آ جائے گی اور غضب و آزار دور ہو جائے گا۔ 

فقیر اس کلمہ طیبہ کو رحمت کے ان ننانوے حصوں کے خزانہ کی کنجی سمجھتا ہے جو آخرت کے لیے ذخیره فرمائے ہیں اور جانتا ہے کہ کفرکی ظلمتوں اور شرک کی کدورتوں کو دفع کرنے کے لیے اس کلمہ طیبہ سے بڑھ کر زیادہ شفیع اور کوئی کلمہ نہیں ہے جس شخص نے اس کلمہ طیبہ کی تصدیق کی ہو اور ذرہ بھر ایمان حاصل کر لیا ہو اور پھر کفر و شرک کی رسموں میں بھی مبتلا ہوتو امید ہے کہ اس کلمہ کی شفاعت سے اس کا عذاب دور ہو جائے گا اور دوزخ کے دائمی عذاب سے نجات پا جائے گا۔ جس طرح کہ اس امت کے تمام کبیرہ گناہوں کے عذاب دور کرنے میں حضرت محمد رسول الله ﷺکی شفاعت نافع اور فائدہ مند ہے۔ 

اور یہ جو میں نے کہا ہے کہ اس امت کے کبیرہ گناہ تو اس لیے کہا ہے کہ سابقہ امتوں میں کبیرہ گناہوں کا ارتکاب بہت کم ہے بلکہ کفر و شرک کی رسمیں بھی بہت کم پائی جاتی ہیں۔ شفاعت کی زیادہ محتاج یہی امت ہے۔ گزشتہ امتوں میں بعض لوگ کفر پر اڑے رہتے تھے اور بعض اخلاص کے ساتھ ایمان لاتے تھے اور امر بجا لاتے تھے۔ اگر کلمہ طیبہ ان کاشفیع نہ ہوتا اور حضرت خاتم الرسل ﷺ جيسا شفيع ان کی شفاعت نہ کرتا تو یہ امت پرگناہ ہلاک ہو جاتی۔ امة مذنبة ورب غفو(امت گنہگار ہے اور رب بخشنے والا ہے)حق تعالی کی عفو و بخشش جس قدر کہ اس امت کے حق میں کام آئے گی، معلوم نہیں کہ گزشتہ امتوں کے حق میں اس قدر کام آ ئے۔ گویا رحمت کے ننانوے حصوں کو اس پر گناہ امت کے لیے ذخیرہ کیا ہوا ہے ۔

کے مستحق کرامت گناہ گار اند        ترجمہ: کہ ہیں گناہ گار لائق بخشش

چونکہ حق تعالی عفوومغفرت کو دوست رکھتا ہے اورعفوو معرفت کے لیے اس پرتقصیرامت کے برابر اور کوئی محل نہیں، اس لیے یہ امت خیر الامم ہوگئی اور کلمہ طیبہ جو ان کی شفاعت کرنے والا ہے، افضل الذکر بن گیا اور ان کی شفاعت کرنے والے پیغمبر ﷺنے سید الانبیاء کا خطاب پایا فَأُولَئِكَ ‌يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (یہ وہ لوگ ہیں جن کی برائیوں کو اللہ تعالی نیکیوں سے بدل دیتا ہے اور اللہ تعالی بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ ہاں ارحم الراحمین اور ا کرم الاکرمین ایسا ہی ہونا چاہیئے۔ 

بر کر یماں کار ہا دشوار نیست  ترجمہ: کریموں پرنہیں یہ کام دشوار 

وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ ‌يَسِيرًا (اللہ تعالی پر یہ بات بہت آسان ہے) رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا ‌وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (ياللہ ہمارے گناہوں اور کاموں میں زیادتی کو بخش اور ہمارے قدموں کو ثابت رکھے اور کافروں پر ہمیں مدددے)

اب اس کلمہ کے فضائل سنو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے۔ مَنْ ‌قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ دَخَلَ ‌الْجَنَّةَ جس نے (صدق دل)لا إله إلا الله كہا جنت میں داخل ہوا۔ کوتاہ نظر لوگ تعجب کرتے ہیں کہ ایک بار کلمہ لا الہ الا الله کہنے سے جنت میں داخل ہونا کیسے حاصل ہوسکتا ہے۔ لوگ اس کلمہ طیبہ کے برکات سے واقف نہیں ہیں۔ اس فقیر کومحسوس ہوا ہے کہ اگر تمام جہان کو اس کلمہ طیبہ کے ایک بار کہنے سے بخش دیں تو بھی ہوسکتا ہے اور یہ بھی مشہودہوتا ہے کہ اگر اس کلمہ پاک کے برکات کو تمام جہان میں تقسیم کریں تو ہمیشہ کیلئے سب کو کفایت کرے اور سب کو سیراب کر دے۔ خاص کر جب کہ اس کلمہ طیبہ کے ساتھ کلمہ مقدس محمد رسول اللہ  ﷺ جمع ہو جائے اور تبلیغ توحید کے ساتھ منتظم ہو جائے اور رسالت ولایت کے ساتھ مل جائے، ان دوکلموں کا مجموعہ نبوت و ولایت کے کمالات کا جامع اور ان دونوں سعادتوں کے راستوں پر ہدایت کرنے والا ہے جولایت کو ظلال کےظلمات سے پاک کرتا ہے اور نبوت کو درجہ بلند تک پہنچاتا ہے۔ 

اللهم لا تحرمنا من بركات هذه الكلمة الطيبة وثبتنا عليها وامتنا على تصديقها واحشرنا مع المصدقين لها وأدخلنا الجنة بحرمتها وحرمة مبلغيها عليهم الصلوة والتجيات والتسليمات والبركات (یا اللہ تو ہم کو اس کلمہ طیبہ کی برکات سے محروم نہ رکھ اور ہم کو اس پر ثابت قدم رکھ اور اس کی تصدیق پر مار اور ہم کو اس کی تصدیق کرنے والوں کے ساتھ اٹھا اور اس کلمہ اور اس کے پانے والوں کے طفیل ہم کو جنت میں داخل کر۔)

جب نظر وقدم واپس رہ جاتے ہیں اور ہمت کے پرو بال گر جاتے ہیں اور غیب محض کے ساتھ معاملہ پڑتا ہے تو اس مقام میں کلمہ طیبہ لا إله إلا الله محمد رسول الله کے پاؤں کے سوا نہیں چل سکتے اور اس کلمہ مقدسہ کی مدد کے سوا اس مسافت کوقطع نہیں کر سکتے۔ اس مقام کا چلنے والا کلمہ طیبہ کے ایک بار کہنے سے اس کلمہ مقدسہ کی حقیقت کو مدد و اعانت سے اس مسافت سے ایک قدم راستہ قطع کر لیتا ہے اور اپنے آپ سے دور اور حق تعالی کے نزدیک ہو جاتا ہے۔ اس مسافت کا ہر ایک جزو اور قدم عالم امکان کے تمام دائرہ سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس بیان سے اس ذکر کی فضیلت کو معلوم کرنا چاہیئے کہ تمام دنیا کا اس کے مقابلہ میں کچھ مقدار واحساس نہیں۔ کاش کہ ان کے درمیان وہی نسبت ہوتی جو قطرہ کو دریائے محیط کے ساتھ ہے۔ اس کلمہ طیبہ کی عظمت کہنے والے کے درجات کے اعتبار سے ہے جس قدر کہنے والا کا درجہ زیادہ ہوگا۔ اسی قدر یہ عظمت زیادہ ظاہر ہوگی۔

یزیدک  وجه حسنا   إذا مازدته نظرا

چہرے پر اس کے جوں جوں تیری نظر پڑے گی تیری نظر میں اس کی خوبی بہت بڑھے گی ۔

دنیا میں اس آرزو کے برابر اور کوئی آرزونہیں کہ گوشہ میں بیٹھ کر اس کلمہ کے تکرار سے محظوظ ومتلذذ ہوں مگر کیا کیا جائے سب خواہشیں میسر نہیں ہوسکتیں اور خلقت کی غفلت اور خلط ملط سے چار ہ نہیں ۔ رَبَّنَا ‌أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ” (يارب ہمارے نور کو کامل اور ہمارے گناہوں کو بخش تو سب چیز پر قادر ہے) سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ ‌الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ  وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ  وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ پاک ہے رب تیرا جو بڑی عزت والا ہے۔ اس وصف سے جولوگ کرتے ہیں۔ بہتر برتر اور مرسلین پر سلام ہو۔ الله تعالی کے لیے حمد ہے جو تمام جہان کا پالنے والا ہے۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ128ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں