کلمہ طیبہ کے اسرار غیبیہ مکتوب نمبر173دفتر اول

 ایک سوال کے جواب میں مع بعض اسرار غریبیہ کے بیان میں جو کلمہ طیبہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کی نفی و اثبات کے متعلق ہیں ۔ میر محمد نعمان کی طرف لکھا ہے۔ 

حمدوصلوة کے بعد سیادت کی پناہ والے کو معلوم ہو کہ آپ نے پوچھا تھا کہ جب جو کچھ دید دانش میں آئے۔ کلمہ لا کے ساتھ اس کا نفی کرنا ضروری ہے کیونکہ مطلوب مثبت و دید و دانش(دیکھنے و سمجھنے) کے ماوراء ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ حضرت محمد رسول الله ﷺکا مشہود بھی نفی کے لائق ہو اور مطلوب مثبت(اصل مقصود ذات حق) اس کے ماوراء ہیں متحقق ہو۔ 

اے بھائی ! حضرت محمد رسول الله ﷺبھی باوجود اس قدر بلند شان ہونے کے بشر تھے اور حدوث و امکان(لازمہ بشریت) کے داغ سے داغدار تھے۔ بشر خالق بشر کی نسبت کیا معلوم کرسکتا ہے اورممکن واجب کی نسبت کیا حاصل کر سکتا ہے اور حادث(پردہ خفا سے وجود میں آنے والا) قد یم کو کیسے احاطہ کرسکتا ہے وَلَا ‌يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا نص قاطع ہے۔ شیخ عطار رحمتہ الله علی فرماتے ہیں ۔ ۔ 

نمے بینی کہ شاہے چوں پیمبر            نیافت اوفقرکل تورنج کم بر

ترجمہ: نہ پایا جبکہ محمد نے فقر کا کل گنج تو اس کے لینے کی خاطر اٹھانا مطلق رنج۔

اے عزیز یہ مقام تفصیل چاہتا ہے گوش و ہوش سے سننا چاہیئے۔ 

جاننا چاہیئے کہ کلمہ طیبہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کے دو مقام نفی اور اثبات اورنفی و اثبات میں سے ایک کے دو اعتبار ہیں۔

اول یہ کہ جھوٹے خداؤں کی عبادت کے استحقاق کی نفی کی جائے اور حق تعالیٰ کو عبادت کا مستحق ثابت کیا جائے۔ (لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ بمعنی لَا مَعْبُوْدَ اِلَّا اللہُ)

دوسرا اعتبار یہ ہے کہ غیرمقصود مقصودوں اور غیر مطلوب مطلوبوں کی نفی کی جائے(لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ بمعنی لَا مَقْصُوْدَ اِلَّا اللہُ) اور مطلوب حقیقی اور مقصود اصلی کے سوا کچھ ثابت نہ کیا جائے اور اعتبار اول میں کمال پہلے ہی ہے کہ جو کچھ معلوم و شہود(مشاہدہ) ہوا ہے سب لا کے نیچے داخل ہوجائے اور اثبات کی جانب میں کلمہ مستثنی کے تکلم سے سوا کچھ ملحوظ نہ ہو۔ کچھ مدت کے بعد جبکہ بصیرت تیزی پیدا کر لیتی ہے اور مطلوب کے راہ کی خاک کے سرمہ سے سرمگیں ہو جاتی ہے تو مستثنی (اللہ)بھی مستثنی منہ (جس سے خارج کیاجائے )کے رنگ میں مشہود ہوتا ہے۔ باوجود اس کےسالک اپنے آپ کو اس مشہودکے ماوراء میں گرفتار ہوا ہوا پاتا ہے اور اپنے مطلوب کو اس کے با عث طلب کرتا ہے کیونکہ اس کمال کی ابتداء میں جو کچھ لا کے نیچے داخل ہوا تھا سب کا سب دائرہ ممکنات سے تھا جو عبادت کا استحقاق نہ رکھتا تھا اور اس کلمہ طیبہ کے تکرار کی برکت سے اس معبود سے جو عبادت کے تحت ہیں ۔ جدا ہوا تھا۔ لیکن ضعف بصیرت سے مرتبہ وجوب کو جو عبادت کے لائق ہے اور کلمہ الا سےمثبت ہوا ہے نہیں دیکھتا تھا اور کلمہ مستثنی کے تکلم کے سوا اس مقام سے بھی نصیب نہ رکھتا تھا لیکن قوت بصیرت کے بعد مستثنی بھی مستثنی منہ کے رنگ میں مشہود ہوا اور جب مرتبہ وجوب اللہ جل شانہ کے اسماء و صفات کا جامع ہے اور سالک کی ہمت کا متعلق احدیت مجردہ (غیر مادی) ہے جس مقام میں عبادت کا استحقاق بھی عبادت کے عدم استحقاق کی طرح رستہ میں رہ جاتا ہے اس لئے اپنے مقصود کو اسماء و صفات کے ماورا میں طلب کرتا ہے اور اس کے ماسوا کی گرفتاری سے کنار کشی کرتا ہے ۔ 

چو دل با دلبرے آرام گیرد . زوصل دیگرے کے کام گیرد نہی صد دسته ریحاں پیش بلبل نخواہد خاطرش جزنکہت گل

 زمہ آتش چودر نیلوفر افتد تماشائے مہش کے درخور افتد چوخواہد تشنہ جانے شربت آب نیفتد سود مندش شکرناب 

ہوا دلبر ہے جبکہ دل کو آرام اسے پھر وصل سے اوروں کے کیا کام رکھے سودستہ ریحاں گر تولا کر سوا گل کے نہیں بلبل کو خوشتر پڑے جب نیلوفر میں تاب خورشید رکھے پھر چاند کی وہ کیسے امید پیاسا جبکہ مانگے مجھ کو دوآب بری ہے اس کے حق میں شکرناب

 اور اعتبارثانی میں کہ جس سے مقصود غیر مقصودہ مقصودوں کی نفی ہے۔ 

کمال یہ ہے کہ مرتبہ وجوب کا شہود بھی مراتب امکانی کے شہودکی طرح لا کے تحت میں داخل ہوجائے اور جانب اثبات میں مستثنی کے تکلم کے سوا کوئی چیزملحوظ نہ ہو ۔ 

چوں گویم باتواز مرغ نشانہ           کہ باعنقا بود ہم آشیانہ

زعنقا ہست نامے پیش مردم     زمرغ من بود آں نام ہم گم

 ترجمہ: میں تجھے کیا بتاؤں کہ وہ کہاں ہےدراصل وہ عنقا کی طرح بے نشان ہے جس طرح عنقا کانام تو سب کو معلوم ہےمگر اس کا تو نام بھی کسی کو پتہ نہیں

اور یہ ہے کہ اعلی فطرت اور بلند ہمت اسی قسم کے مطلوب کی خواہاں ہے کہ اس سے 

کچھ بھی ہاتھ میں نہ آئے بلکہ ذره گردبھی اس کے ادراک کے دامن کو نہ لگے۔ 

روئیت اخروی یعنی آخرت کا دیدارحق ہے لیکن مجھ کو اس کا تصور بیقرار کئے جاتا ہے۔ 

لوگ روئیت اخروی کے وعدہ پر مسرور ومحفوظ ہیں لیکن میری گرفتاری غیب الغیب کے سوا کسی سے نہیں ہے بلکہ تمام ہمت اس امر کی خواہاں ہے کہ مطلوب کا سرمو بھی غیب سے شہادت میں نہ آئے اور گوش سے آغوش میں نہ پہنچے اور علم سے عین کی طرف اسباب نہ لے جائے(دکھائی نہ دے) میں کیا کروں مجھے ایساہی پیدا کیا ہے۔ 

ہر کسے رابہر کارے ساختندترجمہ: ہر کام کے لئے ہے پیدا کیا ہراک کو

 اگرچہ اس مقام میں بہت سی دیوانہ پن کی باتیں رکھتا ہوں لیکن ادب سے لب نہیں ہلا سکتا ہوں۔ 

جُنُوْنِیْ مِنْ حَبِیْبٍ ذِیْ فُنُوْنٍ  مرادیوانگی  محبوب سے ہے

عمربگذشت وحدیث دردما آخر نشد شب بآ خر شد کنوں کوتاه کنم افسانه را

عمر گزری پر نہ قصہ درد کا آخر ہوا  رات آخر ہوئی کرتا ہوں افسانہ کو بس 

وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالتَزَمَ مُتَابَعَةَ المُصطَفىٰ عَلَيهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ الصَّلَواتُ وَالتَّسلِيمَاتُ العُلیٰ اَتَمَّهَا وَاَدْوَمَهَا اور سلام ہو آپ پر اوران لوگوں پر جو ہدایت کے رستہ پر چلے اور جنہوں نے حضرت محمدﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول(حصہ دوم) صفحہ23ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں