ہرشے کو مشیت کا سہارا (اٹھارھواں باب)

ہرشے کو مشیت کا سہارا کے عنوان سے اٹھارھویں باب میں  حکمت نمبر 171 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے مشیت کے سابق حکم کی حقیقت بیان کی۔ چنانچہ فرمایا ۔
171) إِلَى المَشِيئةِ يَسْتَنِدُ كُلَّ شَيْءٍ وَلَاتَسْتَنِدُ هِيَ إِلَى شَيْءٍ .
ہرشے مشیت کا سہارا لیتی ہے۔ اور مشیت کسی شے کا سہارا نہیں لیتی ہے۔ میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ مشیت اور ارادہ دونوں ایک شے ہیں اور کل اشیاء کے وجود کا سبب وہی ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے ۔
وَمَا تَشَاءُ وَنَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ – وَلَو شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ اور تم لوگ نہیں چاہتے ہو مگر وہی جو اللہ تعالی چاہتا ہے۔ اور اگر آپ کا رب چاہتا تو وہ لوگ اس کو نہ کرتے ۔
اور اس آیہ کریمہ کے علاوہ بہت سی آیتیں اس کی دلیل ہیں کہ ہرشے کی علت (سبب) سابق اولی مشیت ہے۔ لیکن مشیت نہ کسی شے کا سہارا لیتی ہے۔ نہ کسی شے پر موقوف ہوتی ہے۔لہذا وہ کسی سوال اور دعا پر موقوف نہیں ہے۔ اس لئے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ وہ بغیر کسی سبب اور سوال کے ہوتا ہے۔ اور جو ہمارا رب نہیں چاہتا ہے۔ وہ نہیں ہوتا ہے وہ جس کو چاہتا ہے بغیر کسی عمل کے قریب کر لیتاہے۔ اور جس کو چاہتا ہے۔ بغیر کسی سبب کے دور کر دیتا ہے :-
لَا يُسْئَل عَمَّا يَفْعَلُ وَ هُمْ يُسْئَلُونَ اللہ تعالیٰ جو کرتا ہے۔ اس کے متعلق سوال نہیں کیا جا سکتا ہے اور لوگوں سے ان کے اعمال کے
بارے میں سوال کیا جائے گا ۔
لہذاو ہاں تحقیق (پہنچنے اور حاصل ہونے ) کا ازلی توفیق کے سوا کوئی قاعدہ نہیں ہے۔ حضرت ابو بکر واسطی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے : اللہ تعالی کسی فقیر کو اس کی فقر کی وجہ سے قریب نہیں کرتا ہے اور نہ کسی دولت مند کو اس کی دولتمندی کی بنا پر دور کرتا ہے۔ اس کے نزدیک اسباب کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ کہ ان کے ذریعے تعلق قائم کرے۔ اور ان کی بنا پر جدا کر دے۔ اگر تم دنیا و آخرت نثار کر دو تو اس کے سبب تم کو اپنے قریب نہیں کرتا اور اگر تم سب کو لے لوتو اس کے سبب تم کو اپنے سے دور نہیں کرتا ۔ جس کو چاہتا ہے بغیر کسی سبب کے قریب کر لیتا ہے۔ اور جس کو چاہتا ہے بغیر کسی سبب کے دور کر دیتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:-
وَ مَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِنْ تُوِرٍ اور جس کے لئے اللہ تعالی نے نور نہیں بنایا ان کے لئے کوئی نور نہیں ہے۔
لہذا مشیت پر نظر رکھنا حقیقت ہے اور سبب پر نظر رکھنا شریعت ہے۔ یا تم اس طرح کہو :- مشیت کی طرف نظر کرنا قدرت ہے۔ اور سبب کی طرف نظر کرنا حکمت ہے اور دونوں کا ایک ساتھ ہونا ضروری ہے۔ پس حقیقت مقرر ہے اور شریعت واضح ہے۔ شریعت ، حکمت ہے اور حقیقت قدرت ہے اور باطن میں حقیقت شریعت پر حاکم ہے اور ظاہر میں شریعت حقیقت پر حاکم ہے۔ اور قدرت کا علم حکمت کے وصف سے اس کے مقام میں افضل نہیں ہے۔ اور نہ حکمت کا وصف قدرت کے حکم سے اس کے مقام میں افضل ہے حضرت شطیبی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :۔ تم جان لو کہ آدمیوں کی چار قسمیں ہیں:۔
ایک قسم :- وہ لوگ ہیں ۔ جو اللہ تعالی کے از لی علم یعنی قضا و قدر پر نظر رکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ قضا قد ر کا حکم بندے کی کوشش سے بدل نہیں سکتا ہے۔
دوسری قسم : وہ لوگ ہیں ۔ جو انجام پر نظر رکھتے ہیں ۔ کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ اعمال اپنے انجام کے ساتھ وابستہ ہیں ۔
تیسری قسم : وہ لوگ ہیں ۔ جو وقت پر نظر رکھتے ہیں ۔ وہ نہ سابق قضا و قدر میں مشغول ہوتے ہیں نہ نتیجے کی فکر کرتے ہیں۔ وہ صرف موجود وقت کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں جس کے کرنے کی ان کو تکلیف دی گئی ہے۔ کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عارف ابن الوقت (اپنے وقت کا پابند ) ہوتا ہے۔ وہ ماضی اور مستقبل کی فکر میں نہیں پڑتا اور نہ اس وقت کے سوا جو اس کے سامنے موجود ہےدوسرے وقت کی طرف نظر کرتا ہے۔
چوتھی قسم : وہ لوگ ہیں ۔ جو صرف اللہ تعالی پر نظر رکھتے ہیں ۔ وہ اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ ماضی و مستقیل اور حال اللہ تعالی کے قبضہ قدرت میں ہیں ۔ اور اس کے حکم سے بدلتے رہتے ہیں۔ اور کل اوقات تغیر اور تبدیلی کو قبول کرنے والے ہیں اس لئے وہ ہرشے سے منہ پھیر کرصرف اللہ تعالی پر نظر رکھتے ہیں ۔
ایک بزرگ نے ایک شیخ کے پاس سے جانے کا ارادہ کیا۔ تو شیخ نے پوچھا: تم کہاں اورکیوں جانا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا یا حضرت میں جا رہا ہوں تا کہ آپ کو اپنے وقت سے غافل نہ کروں(یعنی میری طرف متوجہ ہونے کی وجہ سے آپ کا وقت ضائع نہ ہو ) شیخ نے فرمایا :- اللہ تعالیٰ کے پاس نہ وقت ہے، نہ مقت ( نا راضی ) ۔ ہم وقت کو نہیں دیکھتے ہیں ۔ بلکہ ہم صرف وقت کے رب کود یکھتے اور جس کے اندر شہود کی حالت مضبوطی سے قائم ہو جاتی ہے وہ موجد اللہ تعالی کے ساتھ مشغول ہو کر موجود سے غائب ہو جاتا ہے۔
وَتَحۡسَبُهُمۡ أَيۡقَاظٗا وَهُمۡ ‌رُقُودٌتم ان کو جاگتا ہوا سمجھتے ہو حالانکہ وہ سوئے ہوئے ہیں ۔
ایک شخص نے حضرت یزید رضی اللہ عنہ سے پوچھا ابو یزید کہاں ہیں ؟ تو حضرت نے جواب دیا ابو یزید یہاں نہیں ہیں۔
حکایت – ایک شخص نے حضرت شبلی رضی اللہ عنہ سے پوچھا ۔ شبلی کہاں ہیں ؟ حضرت شبلی نے جواب دیا :- شبلی مر گیا۔ اللہ تعالی اس پر رحم نہ کرے۔ اس سے حضرت شبلی نے یہ مراد لیا اللہ تعالیٰ اس کو اپنے رب کے مشاہدہ سے دور کر کے اس کے احساس کی طرف نہ لوٹائے ۔
حکایت – حضرت ابو یزید رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو مسجد میں دیکھا کہ ان کو دریافت کر رہا ہے۔ حضرت ابو یزید نے اس سے فرمایا :- میں بھی ابو یزید کو سالوں سے تلاش کر رہا ہوں۔ اس شخص نے خیال کیا :- یہ کوئی دیوانہ ہے۔ پھر جب اس کو بتایا گیا کہ یہی ابو یزید ہیں۔ تو اس نے کہا یا حضرت میں آپ ہی کو دریافت کر رہا ہوں اور آپ ہی سے ملنا چاہتا ہوں۔ تو ابو یزید نے اس سے فرمایا: تم جس ابو یزید کو تلاش کر رہے ہو ۔ وہ اللہ تعالی میں اللہ تعالی کے ساتھ اللہ تعالی کے لئے ، جانے والوں میں شامل ہو کر چلا گیا۔ اب اس کو اللہ تعالیٰ نہ لوٹائے ۔یہاں اٹھارھواں باب ختم ہوا۔
خلاصہ
اس باب کا حاصل :- دعا اور طلب کے آداب ہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ دعا ۔ بندگی ظا ہر کرنے کیلئے ہونی چاہیئے ۔ نہ کہ کچھ مانگنے کے لئے ۔ اس لئے تمہارا حصہ اول ہی میں تمہارے ماتھے سے پہلے مقدر ہو چکا ہے لہذا اللہ تعالی کی عنایت تمہارے ماتھے سے پہلے ہی تمہارے اوپر ہے۔ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءَاللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے۔ اپنی رحمت سے خاص کرتا ہے۔ لیکن اللہ تعالی کی حکمت عمل چاہتی ہے۔ لہذا عمل مشیت پر موقوف ہونے کے باوجودازل کی خصوصیت پر حاکم ہے کیونکہ ہرشے مشیت کا سہارا لیتی ہے (یعنی ہرشے کے وجود کا سبب مشیت ہے اور مشیت کسی شے کی محتاج نہیں ہے۔ لہذا سکون اور ادب لازم ہے۔ یہاں تک کہ طلب کے ترک کرنے میں بھی ادب وسکون ملا زم ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے انیسویں باب کی ابتدا میں اس کو بیان فرمایا ہے


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں