پانچویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے پانچویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس الخامس فی سبب حب اللہ للعبد ‘‘ ہے۔

 منعقد ہ 12شوال  545 بروزمنگل بوقت عشاء، بمقام :مدرسہ قادر یہ بغداد شریف

کفایت الہی کو کافی سمجھنا ہی حقیقی بندگی اور سچی غلامی ہے: اے بیٹا اللہ کی بندگی کہاں ہے! تو حقیقی بندگی اور سچی غلامی کی جستجو کر اپنے سب کاموں ، اپنی تمام ضروریات کو اللہ کی کفایت کو ہی کافی سمجھے ۔ تو تو اپنے مالک سے بھا گا ہوا غلام ہے، اس کی طرف لوٹ چل، اس کے سامنے اپنا سر جھکا دے، اس کے تابع ہو جا، اس کے حکم کی تعمیل کر اور اس کے منع کئے ہوئے سے بازرہ ، اس کی قضا پرصبر اور موافقت کر اور تواضع اختیار کر ، جب ان باتوں میں تو کمال حاصل کر لے گا تو تیری بندگی اور غلامی اپنے آقا کے لئے کامل ہو جائے گی ، اور وہ تیرے سب کاموں میں کفیل ہوگا ، ارشاد باری تعالی ہے: أَلَيْسَ اللَّهُ ‌بِكَافٍ عَبْدَهُ کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں!‘‘

جب اللہ کے لئے تیری غلامی صحیح ہو جائے گی تو وہ تم سے پیار کرے گا۔ (تمہیں اپنا محبوب بنالے گا اور تمہارے دل میں اپنی محبت کو اور زور دار کر دے گا ۔ اس کے ساتھ تمہارے انس اور اس کی قربت بغیر کسی مثقت اور بغیر جستجو کے حاصل ہو گی ، تجھے اس کے غیر کی محبت اچھی نہ لگے گی، پھر تو اس سے ہر حال میں راضی رہے گا۔اب اگر وہ چاہے:

 ز مین کوفراخ ہونے کے باوجود تم پر تنگ کر دے، کشائش و وسعت کے باوجودتم پر دروازے بند کر دے،تمہیں اس سے کسی طرح کی شکایت نہ ہوگی ، اب تم نہ غیر کے در پر جاؤ گے  اور نہ غیر کے ہاں کھانا کھاؤ گے ایسے میں تم حضرت موسی علیہ السلام سے مل جاؤ گے، کہ اللہ تعالی نے ان کے حق میں ارشادفرمایا:

‌وَحَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ اور دودھ  پلانے والی ( دائیوں کا دودھ ان پر پہلے ہی حرام کر دیا۔‘‘

ہمارا پاک پروردگار ہر چیز کا دیکھنے والا ہے، ہر چیز میں حاضر ہے، ہر چیز کے ساتھ ( نگہبان ) اور ہر چیز سے قریب ہے، ۔ تم کسی حالت میں اس سے غائب ( اوجھل نہیں ہو سکتے ،معرفت کے بعد انکار کرنا کچھ معنی نہیں رکھتا۔ کیونکہ پہچان کر ایسےبن جانا کہ جیسے جانتے نہیں انتہائی تکلیف دہ اور تلخ ہے۔

 صبر میں دنیا اور آخرت کی راحت ہے:

تجھ پر افسوس ہے کہ تو اللہ کو پہچانتا ہے، اس کے باوجود اس سے منہ پھیرتا ہے اوراس کا انکار کرتا ہے ۔ اس سے منہ پھیر، ورنہ ہر طرح کی خیر سے محروم کر دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ صبر کر (حوصلہ رکھ ) ، ثابت قدم رہ، غیر کی طرف نہ جھک ، کیا تجھے خبر نہیں کہ جس نے صبر کیا ، وہ قادر ہو گیا ، پھر یہ تیری کیسی سمجھ ہے، اور تجھے کیسی جلدی ہے ، ذراسوچ

ارشاد باری تعالی ہے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ”اے ایمان والو! صبر کرو اور صبر کی تاکید کرو، اور آپس میں ربط پیدا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، تا کہ تم فلاح پاؤ۔“

صبر کے بارے میں قرآن مجید میں بہت سی آیتیں آئی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صبر میں کیا کیا نعمتیں اور عطائیں ہیں،اچھابدلہ ہے بخشش ہے،صبر میں دنیا اور آخرت کی راحت ہے،صبر کو اپنے اوپر لازم کرلو، کیونکہ تم نے دین ودنیا کےلئے صبر کی خوبیاں جان لی ہیں۔ قبروں کی زیارت ضرور کیا کرو، اللہ کے نیک بندوں (صلحاء کے ہاں آنا جانا اور بھلائی کے کام کرنا اپنے اوپر لازم سمجھو لو، ایسا کرنے سے تمہارے سب کام درست ہو جائیں گے ،سب بگڑے کام بن جائیں گے  تم ان لوگوں جیسے نہ ہو جاؤ ہ  کہ جب انہیں نصیحت کی جائے تو قبول نہ کریں، اور جب وہ سنیں تو اس پر عمل نہ کر یں۔   

چار چیزوں سے دین جا تارہتا ہے:

( یادرکھو ) ان چار چیزوں سے دین جا تا رہتا ہے۔ جن چیزوں کے بارے میں علم ہے، ان پرعمل نہیں کرتے ، جس چیز کے بارے میں علم نہیں ، اس پر عمل کرتےر ہو ؟  جسے تم جانتے نہیں ہوا سے حاصل نہیں کرتے ،( جاہل ہی رہتے ہو ) علم حاصل کرنے والوں کو روکتے ہو کہ علم حاصل نہ کریں۔

 اللہ کے دشمنوں سے مشابہت اختیار نہ کرو

اے لوگو! جب تم مجلس ذکر میں آتے ہو تو تمہارے آنے کا مقصد محض سیر وتفریح ہوتا ہے، تم علاج کے ارادے سے حاضر نہیں ہوتے ہو ، اور واعظ کے پندونصائح پر کوئی دھیان نہیں دیتے ، بلکہ اس کی بھول ، خطا اورلغزش پر نظر رکھتے ہو اور اس کی ہنسی اور مذاق اڑاتے ہو، سر ہلا ہلا کر اللہ کے ساتھ جوا کھیلتے ہو، ایسا کر کے خطرات میں پڑتے ہو، سچے دل سے سر کو نہیں ہلاتے، ان حرکتوں سے توبہ کرو اللہ کے دشمنوں سے مشابہت نہ اختیار کرو اور جو کچھ سنواس سے فائدہ اٹھاؤ۔ اور نصیحت پرعمل کرو۔ نیابت اور خلافت الہی کے لئے تربیت و تیاری:

اے بیٹا! تو عادت کا اسیر ہو کے رہ گیا ہے تو رزق طلب کرنے میں اور سبب پر تکیہ کر کے پابند ہو گیا ہے، اور سبب پیدا کرنے والے کو اور اس پر توکل کرنے کو بھول بیٹھا ہے، اس لئے تو نئے سرے سے عمل کر اور عمل کو اخلاص کے ساتھ کر ، ارشاد بارتعالی ہے۔ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ  ”میں نے جن اور انسان کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ انہیں ہوس اور کھیل کود، اور کھانے پینے ، سونے اور نکاح کرنے کے لئے نہیں پیدا کیا۔

اے غافلو غفلتیں چھوڑ دو، جاگ جاؤ، تمہارا دل اس کی طرف اگر ایک قدم چلتا ہے تو اس کی محبت تمہاری طرف کئی قدم بڑھتی ہے، وہ اپنی محبت والوں سے ملاقات کا ان سے بھی زیادہ شوق رکھتا ہے، ‌يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ. ” جسے چاہتا ہے، بے حساب رزق عنایت فرماتا ہے ۔ بندہ جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اس کے لئے اسباب پیدا فرما دیتا ہے ۔ جب کسی بندے سے کوئی کام لینا چاہتا ہے تو اسے اس کے لئے تیار کر دیتا ہے، اس بات کا  باطن سے تعلق ہے ،ظاہر سے نہیں ۔ جب بندے میں یہ سب خوبیاں اجاگر ہو جاتی ہیں تو اس کا زہد د نیا آ خرت ، اور ترک ماسوا اللہ میں درست ہو جا تا ہے،صحت اور قربت ، ملک اور سلطنت اور امارت (سرداری ) اس کے پاس حاضر ہوتے ہیں، تب: – اس کا ذرہ پہاڑ بن جاتا ہے۔ اس کا قطرہ دریا بن جاتا ہے۔ اس کا ستارہ چاند بن جاتا ہے۔ اس کا چاند سورج بن جا تا ہے – اس کا تھوڑازیادہ ہو جا تا ہے۔  اس کا عدم وجود بن جا تا ہے۔اس کی فنابقا بن جاتی ہے۔ اس کی حرکت سکون وثبات بن جاتی ہے۔

اس کا درخت بلند ہو کر عرش الہی تک بلندی ( رفعت ) پا تا ہے ۔ اس کی جڑ زمین تک پھیلتی ہے، اس کی شاخیں د نیا اور آخرت پر سایہ کرتی ہیں ، یہ شاخیں اورٹہنیاں کیا  ہیں حکم اور علم دنیا اس کے نزدیک انگوٹھی کے حلقہ کی طرح ہے،نہ دنیا اسے غلام بناسکتی ہے ۔ نہ آخرت اسے قید کر سکتی ہے، نہ کوئی بادشاہ یا ماتحت اس کا حاکم ہوسکتا ہے۔ نہ کوئی در بان اسے روک سکتا ہے، نہ کوئی اسے پکڑ سکتا ہے،  نہ کوئی گدلا اسے میلا کر سکتا ہے، جب یہ اوصاف بہ کمال ہوں تو یہ بندہ مخلوق کے ساتھ ٹھہرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ، اور وہ ان کا ہاتھ تھام کر ( بیعت کر کے دنیا کے سمندر سے پارا تار دینے کے قابل ہو جا تا ہے۔ چنانچہ اگر اللہ تعالی (اپنی نیابت اور خلافت کے لئے بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسےلوگوں کے لئے رہبر -ان کا طبیب -انہیں ادب سکھلانے والا نہیں مہذب بنانے والا ،ان کی ترجمانی کرنے والا ، ان کو تیرا نے والا ، ان کی نگہبانی کرنے والا ، ان کے لئے چاند اور سورج بنا دیتا ہے۔

چنانچہ اللہ تعالی اگر بندے سے (رشد و ہدایت کا کام چاہتا ہے تو ایسا ہو جا تا ہے۔ ورنہ ایسے بندے کو اپنے پاس پردے میں چھپا رکھتا ہے اور اپنے غیروں سے غائب کر دیتا ہے، ایسے افراد( اولیاءاللہ ) میں سے خاص ( گنے چنے ) لوگ ہوتے ہیں جو اللہ کی طرف سے مخلوق کی جانب پوری حفاظت اور کامل سلامتی کے ساتھ آتے ہیں۔ انہیں مخلوق کی  مصیبتوں کی اصلاح اور ہدایت کی توفیق عطا ہوتی ہے۔

دنیا کا زاہد ( تارک الدنیا ) آخرت سے آزمایا جا تا ہے ، اور دنیا و آخرت کا زاہد ( تارک الدنیا وآخرت ) رب کے ہاں دنیا وآخرت سے پرکھا جا تا ہے،تم تو یوں غافل ہوئے پڑے ہو کہ جیسے تمہیں مرنا ہی نہیں۔ گویا تم قیامت کے دن اٹھائے نہیں جاؤ گے ، جیسے اللہ کے سامنے تمہیں حساب نہیں دینا، یا پھر پل صراط سے تم نے گزرنانہیں، تمہاری یہ کیفیات ہیں، حالانکہ تم اسلام اور ایمان کے دعوے دار بھی ہو، اگر تم قرآن اور اس کے علم پرعمل نہ کرو گے تو ( یہ سب) تمہارے خلاف حجت سمجھے جائیں گے جب تم اہل علم کے ہاں جاؤ گے، اور ان کی تعلیم پرعمل نہ کرو گے ،تو تمہارا ان کے پاس جانا تمہارے خلاف حجت ہے،تم پر اس کا گناہ ( بالکل اسی طرح ہوگا جیسے تم نبی اکرم  ﷺ سے ملاقات کرتے اور آپ کے فرمان کو نہ مانتے ۔

قیامت کے دن ہر ایک پر اللہ کا خوف، اس کا جلال اور عظمت، اس کی کبریائی اور عدل سے عام ہو گا، دنیا کے ۔ بادشاہوں کی حکومتیں جاتی رہیں گی ، اور صرف اس کا ملک باقی رہے گا۔ قیامت کے دن سب اسی کی طرف رجوع کریں گے۔ اسی دن اولیاء اللہ کی سلطنت و بادشاہت عزت و امارت (سرداری اور ان پر اللہ کا انعام واکرام ظاہر ہوں گے۔ (قیامت کے دن کی بات تو دور کی بات ہے وہ تو آج بھی بندوں اور شہروں کے کوتوال ومحافظ ہیں، اور پہاڑوں پر غالب ہیں۔ زمین کا قائم رہنا انہی کے دم قدم سے ہے۔ حقیقت میں وہی خلقت کے امیر اور سردار ہیں، اور اللہ کے سچےنائب اور حقیقی خلیفہ ہیں۔ ان کا یہ حال باطن کے لحاظ سے ہے ظاہر کے اعتبار سے نہیں ، آج ان کے باطن ( کے کمالات کے ظہور کا دن ہے، کل قیامت کے دن ان کے ظاہر کا ظہور ہوگا (یعنی حجاب اٹھ جائے گا۔)

اپنے اپنے دائرہ کار میں بہادری کے جوہر

( اپنے اپنے دائرہ کار میں بہادری کے جوہر یہ ہیں ): – غازیوں کی بہادری یہ ہے کہ میدان جنگ میں کافروں کے مقابلے میں ثابت قدم رہیں ، صالحین کی شجاعت یہ ہے کہ اپنے نفسوں اور خواہشوں اور عادتوں اور شیطانوں اور میرے ہم نشینوں (انسان نما شیطانوں کے مقابلے میں ڈانواں ڈول نہ ہوں ، – اولیاء اللہ کی بہادری یہ ہے کہ دنیا و آخرت اور ماسوا اللہ سے بے رغبتی اختیار کر یں ۔

اہل دین ہی حقیقت میں انسان ہیں:

اے بیٹا! اس سے پہلے کہ تجھے مجبور ہو کر جا گنا پڑے، جاگ جا، ہوشیار ہو جا، دین دار بن جا اور اہل دین سے میل جول رکھ، اہل دین ہی ( حقیقت میں ) انسان ( کہلانے کے حق دار ہیں۔ لوگوں میں عقل والا وہی ہے جو اللہ کے حکموں کو مانے (فرماں برداری کرے ۔ اور سب سے بڑا جاہل وہ ہے جو اس کے حکموں کو نہ مانے (نافرمانی کرے ) ۔ رسول اللہ  ﷺ نے ارشادفرمایا:

‌بِذَاتِ ‌الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ تربت بمعنى افتقرت وأثرت إذا استغنى – تیرے ہاتھ مٹی لگے (یعنی تو محتاج ہو جائے ) اور جب غنا طلب کرے تو منہ میں خاک پڑے۔ جب تیراہل دین سے میل جول ہوگا ، ان سے دوستی ہو گی تو اس محبت کے بدلے دونوں ہاتھ اور تیرا دل مستغنی ہو جائیں گے تو نفاق اور اہل نفاق سے، اور ریا کار سے دور بھاگ ، کیونکہ منافق اور ریا کار کا کوئی عمل مقبول نہیں ، جس عمل میں اللہ کی رضا چاہو گئے وہی عمل مقبول بارگاہ الہی ہوگا ، عمل کی ظاہری صورت قبول نہ ہوگی ،قبولیت کے لائق تو تمہاری باطنی حالت ( اور نیت ) ہے ۔ اللہ کی ذات تیرے اس عمل کو شرف قبولیت عطا کرتی ہے جس میں تم اپنے نفس اور خواہش، اور شیطان اور دنیا کی پوری ) مخالفت کرو گے۔عمل میں اخلاص پیدا کر اپنے کسی عمل پر ناز نہ کر اللہ کے ہاں تیراو ہی عمل قبول کیا جائے گا جس میں اللہ کی رضا پیش نظر ہوگی ،نہ کہ دہ عمل ( مقبول ہوگا) جس میں مخلوق کی طرف دھیان ہو۔ تیرے لئے افسوس کی بات یہ ہے کہ تو مخلوق کی خوشنودی کے لئے عمل کرتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ ( تیرا یہ دکھاوے کاعمل) ، خالق کے ہاں شرف قبولیت کا درجہ پا جائے ، (ایسے عمل میں رکھا ہی کیا ہے ، یہ تومحض حرص و ہوس ہے ( تیرے لئے بہتر یہی ہے کہ ) تو فرحت وسر ور اور فخر وغرور اور ہوس کو چھوڑ دے۔ خوشی کوکم کر دے غم زیادہ اٹھا ، اس لئے کہ تو غم کدے اور قید خانے میں رہ رہا ہے۔

رسول اکرم  ﷺ کے حالات زندگی کو دیکھو ،آپ ہمیشہ فکر مند رہتے تھے۔ بالعموم غمگین زیادہ رہتے تھے، خوشی تھوڑی کرتے ، ہنستے کم تھے،کبھی کبھی تبسم فرماتے تھے، وہ بھی دوسروں کا دل خوش کرنے کے لئے ہوتا تھا ۔ آپ کا قلب اطہر غموں اور شغلوں سے پر تھا،اگر صحابہ کرام کی محبت اور دنیا کے معاملات ( جن کی تکمیل کے لئے آپ مامور تھے نہ ہوتے تو آپ حجرہ مبارک سے باہر تشریف نہ لاتے اور نہ کسی کے پاس بیٹھتے ۔

دنیا کی فکر حجاب بھی ہے اور عذاب بھی

اے بیٹا! جب اللہ تعالی کے ساتھ تیری خلوت صحیح ہو جائے گی تو :- تیرا باطن مد ہوش ہو جائے گا۔  دل کی صفائی ہو جائے گی ، تیری نظر سراپا عبرت بن جائے گی،  تیرا دل مجسم فکر ہو جائے گا ، – تیری روح اور باطن اللہ تعالی سے واصل ہو جائیں گے۔دنیا کی فکر تو حجاب بھی ہے اور عذاب بھی، آخرت کی فکرعلم بھی ہے اور دل کی زندگی بھی ، اور جس بندے کو اللہ کی طرف سے فکر نصیب ہو، اسے دنیا و آخرت کے احوال کا علم عطا فرمادیا جا تا ہے گویا اولیاءاللہ کو بھی علم غیب عطا کیا جا تا ہے ۔ ) – افسوس کی بات یہ ہے تو نے اپنے دل کو دنیا میں لگا کر ضائع کر دیا ہے، حالانکہ اللہ تعالی نے دنیا میں جو تیرا مقدر ہے، یا جو کچھ تجھے ملنے والا ہے، تیرے نصیب میں لکھ دیا ہے، اور اس کے ملنے کے اوقات کا بھی اپنے (احاطہ علم میں اندازہ لگالیا ہے، تجھے ہر روز کا رزق ملتارہے گا، چاہے تو اس کے حصول کے لئے ) سوال کرے یا نہ کرے، (البتہ ) تیری حرص تجھے اللہ اورمخلوق  کے سامنے رسوا کر رہی ہے – ایمان کی کمی کی وجہ سے تو رزق کے لئے سوال کرتا ہے، ایمان کی کثرت کے باعث تو دست سوال نہیں بڑھا تا (یعنی اگر گزارے سے زیادہ مل جائے تو سوال کرنا چھوڑ دیتا ہے ۔ اور اگر اتنامل جائے کہ رکھنے کو جگہ نہ رہے تو خدا کے وجود سے انکار کا بھی امکان ہے۔

جاہل آدمی سبب کے چکر میں مسبب کو چھوڑ بیٹھا:

 اے بیٹا! ایسی قطعی یقینی بات جس کا کرنا مقصود ہے، اس میں ٹھٹھایا مسخری نہ کر ۔ کیونکہ جب تک تیرادل مخلوق میں لگا رہے گا ، وہ خالق کے ساتھ کیسے لگےگا،سبب کے چکر میں پڑ کر سبب والے کے ساتھ کیسے رہے گا ، – ظاہر و باطن کیسے اکٹھے ہو سکتے ہیں، جس بات کو تو سمجھتا ہے اور جسے نہیں سمجھتا، وہ دونوں کیسے یکجا ہو سکتے ہیں، عقل میں آنے والی چیز اور عقل سے باہروالی دونوں کیسے جمع ہوسکتی ہیں، جومخلوق کے پاس ہے اور جو خالق کے پاس ہے، دونوں یکجا کیسے ہو سکتے ہیں ، وہ بندہ کتنا بڑا جاہل ہے جوسبب پیدا کرنے والے کو بھول بیٹھا ہے، اور سبب ہی میں مشغول ہے، سبب میں  پڑ کر مسبب کو چھوڑ بیٹھا ہے، جو باقی رہنے والا ہے اسے بھلا بیٹھا ہے ، اور جو فانی ہے اس کے ساتھ خوش ہے، (اس سے بڑھ کر اور کون بیوقوف ہے)۔

جاہلوں کی صحبت نقصان دہ ہے:

اے بیٹا! تو جاہلوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے، ان کی جہالت تم پر بھی اثر کرتی ہے، جاہل کی صحبت نقصان دہ ہے۔ خسارے کی بات ہے، ایمان والوں ، یقین والوں اور باعمل عالموں کی صحبت میں بیٹھا کرو،  اہل ایمان کا حال کیسا اچھا ہے ، ان کے تصرفات میں کس قدر بھلائیاں ہیں ، ان کے مجاہدوں اور ریاضتوں نے انہیں ان کے نفسوں اور خواہشوں پر غالب کر دیا ہے، اس غلبے نے انہیں کس قدرمضبوط اور قومی کر دیا ہے۔ اسی لئے رسول  ﷺ نے ارشادفر مایا: بشر المؤمنين في وجهه وحزنه في قلبه “مومن کی خوشی اس کے چہرے پر ( چمک رہی ہوتی ہے، اور غم اس کے دل میں چھپا ہوتا ہے )‘‘۔یہ اس کی قوت ضبط ہے کہ مخلوق کے سامنے خوشی کا اظہار کرتا ہے اور ( افشائے راز کے خیال سے محبت الہی کو دل میں چھپاتا ہے ۔ اس کا غم سدا کاغم ہے، اس کا تفکر بہت ہے جیسے اس کا رونا زیادہ ہے،اور ہنسناکم ، اس لئے سرکار دوعالم ﷺ نے ارشادفرمایا: لا راحة للمؤمن غير لقاء ربه وصل الہی کے سوا مومن کو راحت نہیں ۔

صاحب ایمان اپنے غم کو خندہ پیشانی کی اوٹ میں چھپائے رہتا ہے، ظاہری طور پر وہ ریاضت اور کسب میں لگا رہتا ہے، اور باطنی طور پر اپنے رب کے پاس سکون کرتا ہے، اس کا ظاہر اس کے اہل وعیال کے لئے ہے اور باطن رب کے لئے۔ وہ اپنا راز اپنے اہل، اولا د، ہمسایوں متعلقین اور مخلوق الہی میں سے کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتا ۔ اس نے رسول اللہ  ﷺ کا یہ ارشاد گرامی سن رکھا ہے:

اسْتَعِينُوا على ‌أُمُوركُم ‌بِالْكِتْمَانِ ۔ اپنے کاموں پر راز داری میں مددلیا کرو‘‘

اپنے احوال کو چھپاتے رہو، اللہ کا ولی اپنی ضرورت کو ہمیشہ چھپا تارہتا ہے، اگر کسی وقت جذ بہ اس پر غالب آ جائے ، ان کی زبان سے (اسرار کا کوئی کلمہ نکل جاتا ہے تو وہ فورابات کو سنبھالتے ہوئے اس کا تدارک کر لیتا ہے، اور الفاظ بدل دیتا ہے، اور ( اتفاق سے ) جو راز اس سے افشاء ہو جا تا ہے ، اسے چھپاتے ہوئے اس کے لئے معذرت کر لیتا ہے۔

اہل بصیرت کو اپنا آئینہ بنالو:

 اے بیٹا! تو مجھے اپنا آئینہ بنا ۔ اپنے دل کا آئینہ بنا، اپنے باطن اور اعمال کا آئینہ بنا ، مجھ سے قریب ہو جا یقینی طور پر میرے قرب کی وجہ سے تو اپنے نفس میں وہ کچھ دیکھ سکے گا جو مجھ سے دور رہنے کی وجہ سے نہیں دیکھ پایا۔ اپنے دین کے حوالے سے اگر تجھے کچھ پوچھنا ہے تو مجھ سے پوچھ۔ میں اللہ کے دین کے حوالے سے تمہاری کوئی الجھن نہ رہنے دوں گا، شریعت الہی کی تعمیل کے لئے میں نہایت بے باک اور بے جھجک ہوں ، میں نے دین ایسے مضبوط ہاتھ والوں اور راسخ ارادے والوں سے سیکھا ہے جونہ تو منافق تھے اور نہ ہی کوئی فائدہ اٹھانے والے تھے (سراسرا خلاص تھے ،تو دنیا کو گھر میں چھوڑآ اور میرے قریب ہو جا، یقینی طور پر میں آخرت کے دروازے پر کھڑا ہوں، میرے پاس ٹھہر ، میری بات کو سن اور چند روزہ زندگی میں اس پرعمل کر ، نجات کا دارو مدار اللہ کے خوف میں ہے ، اگر تجھے اللہ کا خوف نہیں تو نہ دنیا میں سکون ہوگا ، نہ ہی آخرت میں امن ہوگا ۔ ا

للہ تعالی کا سامنے موجود نہ ہونے کے باوجود اس کا خوف ہونا ہی اسے جاننا ہے، (یعنی خوف الہی اور علم ایک ہی چیز ہے۔ اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا:

إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ ‌الْعُلَمَاءُ

’’اللہ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔

یعنی میرے بندوں میں وہ اہل علم میرا (اللہ کا)ڈرر کھتے ہیں جوعمل کرنے والے ہیں ( باعمل ہیں ،  اور اپنے کئے کااصلہ (بدلہ )نہیں چاہتے ، بلکہ اس کی قربت اور اس کی رضا کی آرزو رکھتے ہیں ۔ اس کی محبت کے ارادے سے اس کی دوری اور حجاب کو دور کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ ہر وقت اس خیال میں رہتے ہیں کہ ان پر دنیا و آخرت میں رحمت الہی کا دروازہ نہ بند کیا جائے وہ دنیاوآخرت اور ماسوا اللہ کی کوئی تمنا نہیں رکھتے۔ دنیا ایک گروہ کے لئے ہے، اور آخرت کسی اور گروہ کے لئے ، اور اللہ کی ذات ایک اور گروہ کے لئے ہے، اس گردہ والےوہ ہیں جو ایمان والے ہیں۔ یقین والے ہیں۔ عرفان والے ہیں۔  اس کے دوست ہیں۔ اس کے ڈروالے ہیں۔ اس کے سامنے عاجزی کرنے والے ہیں، غم رکھنے والے ہیں ،  بن دیکھے اللہ کا خوف رکھتے ہیں۔ اللہ کی ذات ان کی ظاہری آنکھوں سے اوجھل ہے اور ان کے دل کی آنکھوں کے سامنے موجود ہے، یہ لوگ بھلا کیوں نہ اس سے خوف کھائیں،وہ ہر روز اک نئی شان میں ہے، ذات سے ذات میں تبدیلی لانا ہے، حال سے حال میں تغیر لاتا ہے، کسی کی مدد کرتا ہے ،کسی کو ذلیل محروم کرتا ہے، ،وہ کسی کو زندہ کرتا ہےکسی کو مارتا ہے، ۔ کسی کو مردود کرتا ہے، کسی کو اپنے سے دور کرتا ہے ۔کسی کو مقبول بنا تا ہے،کسی کو اپنے قریب کرتا ہے، لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ

وہ جو چاہے کرے، کوئی پوچھ گچھ ہیں، اور جو کچھ لوگ کر یں تو ان سے باز پرس ہوگی۔“

اس کے حضور یہی التجا ہے

اللهـم قـربـا إليك ولا تبا عدنا عنك ‌ آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

’’الہی! ہمیں اپنا قرب نصیب فرما، اور ہمیں اپنے سے دور نہ رکھ، اور ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کرے ،۔ اور ہمیں آخرت میں بھلائی عطا کرے  اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ، آمین!‘‘۔

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 46،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 36دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں