پچپنویں مجلس

پچپنویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے پچپنویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس الخامس والخمسون فی الرضا بقضاء اللہ‘‘ ہے۔

منعقدہ 17مضان  545 بوقت صبح جمعہ بمقام مدرسه قادریہ

 تقدیر الہی پر اس کی رضا کا حصول:

جو بندہ تقدیر الہی پر اللہ کی رضا کا طلب گار ہے تو وہ موت کو بکثرت یاد کرے، کیونکہ موت کا ذکر آفتوں اور مصیبتوں کو آسان کر دیتا ہے ۔ اللہ پر اپنے نفس اور مال اور اولاد کے بارے میں تہمت نہ لگایا کر بلکہ یہ کہا کر ”میرارب مجھ سے بہتر جاننے والا ہے۔اس حال پر ثابت قدمی سے تجھے اللہ کی رضا اور موافقت کی لذت آئے گی ، تمام آفتیں اپنی جڑ اور شاخوں سمیت ٹل جائیں گی ، اور ان کے بدلے میں نعمتیں اور پاکیزہ چیز یں حاصل ہوں گی ، تو جب بھی کسی مصیبت میں اللہ کی رضا کے ساتھ موافقت کرے گا اور اس سے لذت پائے گا تو تیرے لئے ہر سمت سے ہمتیں آئیں گی۔

تھ پر افسوس ہے ،اے غافل ! ۔ تو غیر کی طلب میں اس سے لا پرواہ نہ ہو، تو کب تک اس سے رزق میں کشادگی چاہے ۔ گا ممکن  ہے یہ طلب تیرے لئے فتنہ ہو اور اس کی خبر نہ ہو ، تجھے یہ معلوم نہیں کہ کس چیز میں بھلائی ہے، خاموشی اختیار کر اور تقدیر سے موافق ہو ۔ اللہ کے کاموں میں اس کی رضا مندی اور سب احوال میں شکر طلب کر ، رزق کی کشادگی بغیر شکر کے فتنہ ہے، رزق کی تنگی بغیر صبر کے فتنہ ہے، شکر نعمتیں بڑھاتا ہے، اور اللہ کے قریب کرتا ہے، اور صبر تیرے دل کے قدموں کو استقامت دیتا ہے اور اس کی تائید و مد دکرتا ہے، اور کامیابی وفتح مندی دلاتا ہے، دنیا و آخرت میں صبر کا انجام نیک اور حسین ہے، اللہ کی ذات پر اعتراض کرنا  حرام ہے، اس سے دل اور چہرہ دونوں سیاہ ہو جاتے ہیں ۔

تجھ پر افسوس! اپنے نفس کو اللہ پر اعتراض کرنے سے روک دے، اس کے بجائے اللہ تعالی سے سوال کرنے میں مشغول کر ، تا کہ تیری مصیبتوں کے وقت ٹل جائیں اور آفتوں کی آگ بجھ جائے ، اے اللہ کی طلب کا دعوی کرنے والے اور اس کی رحمت اور محبت کے خزانوں کا علم رکھنے والے! اس تک پہنچنے سے پہلے تو جب تک راستے میں رہے، اس سے سوال کرتا رہ

جب راستے میں حیران ہو تو یہ عرض کر : يا دليل المتحيرين دلني ”اےحیرانوں کے رہبر ! میری رہنمائی کر ‘‘ جب تو آزمایا جائے اور صبر سے عاجز ہوتو یہی سوال کر : الهی اعنى وصبرني واكشف عنی الہی میری مددفر ماء اور صبر عطا کر، اور میری مصیبت کو دور کر “

 اور جب تو گوہر مقصود کو پالے، تیرے دل کو حضوری مل جائے اور قرب عطا ہو جائے تو اس سے نہ کوئی سوال ہو نہ کچھ زبان کہے، خاموشی ہو اور نظارہ ہو ۔ تیری مہمان کی حیثیت ہوگی ، اور مہمان کسی طرح کی فرمائش نہیں کرتا ، بلکہ حسن ادب کوملحو ظ رکھتا ہے، جو کچھ پیش ہو کھالیتا ہے جو کچھ دیا جائے لے لیتا ہے،  مگر جب میزبان کہے:” کوئی فرمائش کر‘‘! – تب حکم کی تعمیل میں بے اختیار خواہش کا اظہار کر دیتا ہے ، دوری ہوتو سوال نزدیکی ، ہوتو خاموشی۔ اولیاء اللہ اللہ کے سواکسی کو نہیں پہچانتے ، دوست احباب سے قطع تعلق ہو جا تا ہے ، اسباب کا سلسلہ دلوں سے ٹوٹ جاتا ہے، اگر ان پر چند دنوں یا چند مہینوں کے لئے کھانا روک دیا جائے تو وہ کچھ پرواہ نہیں کر تے ،نہ ان میں کوئی تبدیلی آتی ہے، کیونکہ اللہ ان کو کھلانے والا ہے، جو چاہتا ہے انہیں کھلاتا ہے، جسے اللہ کی محبت کا دعوی ہو اور اس سے اس کے غیر کو طلب کرے، تو وہ اپنی محبت میں جھوٹا ہے، لیکن جب محبوب اللہ سے واصل اور اس کی بارگاہ میں مہمان ومقرب ہو جائے تو اس سے کہا جاتا ہے –

مانگ اور تمنا کر سوال کر ، کیا چاہتا ہے۔ کیونکہ یہ اس کی عزت افزائی ہے، محب (عاشق) حالت قبض (تنگی ، وخوف ) اور محبوب ( معشوق ) حالت بسط ( کشادگی ، رحمت و وسعت ) میں ہے، محبت نا کامی میں اور محبوب عطا و بخشش میں ہوتا ہے، جب تک بندہ محب ہے توحیرانی و پریشانی میں کوفت اور گزارے کے لئے فکر معاش میں رہتا ہے۔ جب حالت بدل جائے محب سے محبوب بن جائے تو اس کے حق میں ماحول بدل جا تا ہے، ناز و نیاز، خوشحالی ، اطمینان اور رزق میں کشادگی آتی ہے، اور مخلوق مسخر ہو جاتی ہے، یہ سب انعام و اکرام اس کے صبر اور محبت کے عالم میں ثابت قدمی کی برکتیں ہیں ، ۔ بندے کی اللہ کے لئے صحبت اور اللہ کی بندے سے محبت مخلوق سے مخلوق کی محبت کی طرح نہیں ہوتی ۔ اس کی مثل کوئی چیز نہیں، وہ سب کی سنتا اور سب کچھ دیکھتا ہے۔

لَيْسَ ‌كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ اس نے مثالیں لوگوں کے سمجھانے کے لئے بیان فرمائی ہیں ، تم اس سے عقل سمجھ طلب کرو، اس کی سنگت میں دل کی خوشی چا ہو، کیونکہ وہ جس کے لئے چاہتا ہے خوش دلی کو وسعت دے دیتا ہے ۔ جس کے لئے چاہتا ہے دلوں کے رزق کو بڑھا دیتا ہے ۔ اولیاء اللہ میں سے ہر ایک کا دل تمام آسمان اور زمین والوں کی وسعت رکھتا ہے ۔ اس کا دل حضرت موسی علیہ السلام کے عصا کی طرح ہو جا تا ہے ۔

 خصائص حضرت موسی علیہ السلام :

حضرت موسی علیہ السلام کا عصا ابتدائے حال میں حکمت تھا، پھر سراپا قدرت ہو گیا تھا وموسی علیہ السلام جب اپنے سامان کو نہ اٹھا سکتے تھے ،عصا اٹھالیتا تھا، جب چلنے سے عاجز ہو جاتے تو آپ کی سواری بن جا تا تھا ۔ آپ کے بیٹھنے اور سونے کے وقت آپ کی حفاظت کرتا اور تکلیف دہ چیز یں ہٹا تا رہتا ، ضرورت کے وقت وہ عصا درخت بن جاتا اور آپ کے لئے طرح طرح کے پھل پیش کرتا ، اور جب آپ بیٹھتے تو آپ پر سایہ کرتا – تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو عصا میں قدرت دکھائی ، عصا کے ذریعے موسی علیہ السلام کو اپنی قدرت سے

مانوس کر لیا ، ان سے کلام فرمایا اوران پر احکام جاری کئے اور ارشادفرمایا:

وَمَا تِلْكَ ‌بِيَمِينِكَ يَامُوسَى  قَالَ هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّأُ عَلَيْهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَى غَنَمِي وَلِيَ فِيهَا مَآرِبُ أُخْرَى  قَالَ أَلْقِهَا يَامُوسَى  فَأَلْقَاهَا فَإِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعَى  قَالَ خُذْهَا وَلَا تَخَفْ سَنُعِيدُهَا سِيرَتَهَا الْأُولَى اے موسی ! تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے، عرض کیا : یہ میرا عصا ہے، میں اس پر ٹیک لگا تا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑ تا ہوں ، اور اس میں میری اور بھی حاجتیں ہیں، فرمایا: اسے زمین پر ڈال دو – آپ نے عصا ڈال دیا، عصا ایک بڑا بھاری اژدھا بن گیا ، موسی اس سے ڈر کر بھاگنے لگےو فرمایا اسے پکڑلو، ڈر نہیں ، ہم ابھی اسے پھر عصا بنادیں گے۔

مقصد اس سے یہ تھا کہ آپ کو قدرت پر مطلع کر دیا جائے ، تا کہ آپ کی نظر میں فرعون کی سلطنت ذلیل ہو جائے ،اور آپ کو فرعون اور اس کے لشکر سے لڑنا سکھادے، اللہ نے موسی علیہ السلام کو فرعونیوں سے لڑائی کے لئے مستعد کیا ، آپ کو خلاف عادت (یعنی معجزات ) پر مطلع کیا،(اتنے بڑے بار کے لئے )ابتدائے امر میں آپ کا دل اور سینہ تنگ تھے، پھر اللہ تعالی نے ان کے دل اور سینے میں وسعت دے دی۔ اور انہیں شجاعت و ثابت قدمی عطا فرمائی ، ان کے ہاتھ میں قدرت رکھ دی اور انہیں حکم اور نبوت اور علم عنایت فرمائے: اے جاہل  جس کی قدرت ایسی ہو کیا وہ بھلا دینے اور نافرمانی کے قابل ہے، جو تجھے  نہ بھلائے  تو اسے مت بھلا جو تجھ سے غافل نہیں تو اس سے غافل نہ ہو، موت کو یا درکھ، کیونکہ موت کا فرشتہ روحوں پر تعین کر دیا گیا ہے،  تیرامال ومتاع واسباب اور جن نعمتوں میں تو ہے، تجھے کہیں دھوکے میں نہ ڈال دیں عنقریب یہ سب کچھ تجھ سے لے لیا جائے گا۔ ان دنوں کو فضول کاموں میں ضائع کر دینے اور اپنی کوتاہیاں یا دکر کے ندامت اٹھائے گا، اس وقت کی شرمساری کچھ کام نہ آئے گی۔ جلد ہی مرے گا تو میری باتیں اورنصیحتیں یا دآئیں گی اور قبر میں یہ خواہش کرے گا کہ میری مجلس میں آئے اور میری نصیحتیں سنے تو میری باتیں قبول کرنے کی کوشش کر ، اور ان پر عمل کرتا کہ دنیا و آخرت میں میرے ساتھ رہے،  میرے ساتھ حسن ظن رکھ تا کہ میری باتیں تجھے فائدہ دیں، لوگوں کے ساتھ اچھا گمان رکھ اور اپنے نفس سے بدگمانی رکھ، ایسا کرنے سے تیرا بھی فائدہ ہوگا اور دوسروں کو بھی تجھ سے فائدہ ہوگا۔ جب تک تو غیر اللہ کے ساتھ رہے گا تو رنج وغم اور شرک و گناہ میں گھرا رہے گا، مخلوق سے دلی طور پر الگ ہو جا اور اللہ تعالی سے مل جا، اور پھر وہ دیکھے گا جونہ آ نکھ نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا اور کسی انسان کے دل پر بھی خیال بھی نہیں گزرا ۔ جس حال میں تو ہے، یہ نہ صحیح ہے نہ تمام ہے۔ سراسر ریا ءہے، اس لئے کہ اس کی بنیاد مضبوط نہیں کمزور ہے اونچے ٹیلے پر بنائی گئی عمارت گر جائے گی ، اللہ کے حضور تو بہ کر، اور جس حال میں اور جس حال پر ہے اسے بدل دینے کی اللہ سے التجا کر ، اور یہ کہ دل میں دنیا کی طلب اور آخرت سے جو روگردانی ہے، اسے دور کر دے ۔

 اللہ کے اختیار پرصبر کر، اس کا اجر بے شمار ہے:

تھ پر افسوس ! اللہ نے تیرے لئے محتاجی پسند کی ہے اور تو اس سے کشائش چاہتا ہے، کیا معلوم نہیں کہ وہ تیرے لئے جو پسند کرتا ہے، تو اسے نا پسند کرتا ہے تو اللہ کی پسند کو برا سمجھتا ہے ، تیرا نفس اور حرص ، اور تیری عادت اور شیطان اور تیرے برے دوست انہیں اللہ کا اختیار نا پسند ہے،نہ ان کی موافقت کر ، نہ ان کے غصے اور اعتراض کی طرف تو جہ کر ۔ قلب و باطن جو کرنے کو کہتے ہیں اور جس سے منع کرتے ہیں، اسے سن ۔ کیونکہ وہ نیکی کے لئے کہتے ہیں اور بدی سے روکتے ہیں تو اپنی محتاجی پرخوش رہ ، اس لئے کہ اس پر خوش رہنا ہی اصل سرمایہ ہے ۔ یہ بھی ایک طرح سے اللہ کی تیرے لئے حفاظت ہے کہ تو تقدیر کے خلاف پر قدرت نہیں رکھتا ۔ اللہ اگر تقدیر کے خلاف کرنے پر قدرت دے دیتا تو غالب امکان یہی ہے کہ تو گناہوں میں پڑ کر ہلاک ہو جا تا ۔ اگر اس نے تجھے عاجز ومحتاج بنایا ہے تو ظاہر یہی ہے کہ تجھے گناہوں سے  بچائے رکھے ۔ اللہ کی رضا پر صبر کرنے سے اس قدر ثواب ملے گا کہ سب زمین والے اسے شمار نہ کرسکیں ،تو جلد باز ہے اور جلد بازکے ہاتھ کچھ نہیں لگتا ۔ جلد بازی شیطان کا کام ہے، اور توقف واطمینان اللہ کی طرف سے ہے،  جلدی کرے گا تو شیطان کا ساتھی اور اس کے لشکر میں سے ہوگا ۔ اور جب تو بہ کر کے ادب بجالائے ۔ ثابت قدم رہے اور صبرکرے تو رحمان کا ساتھی اور اس کے لشکر میں سے ہوگا۔ تقوی کی حقیقت یہ ہے ہی کہ اللہ نے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے، وہ کرے ۔ اور جن کاموں سے منع کیا ہے۔ان سے منع رہے، اور اس کی تقدیروں اور افعال اور تمام بلاؤں اور آفتوں پر صبر کرے تم سر سے پاؤں تک مخلوق اور نفس اور حرص ہو، اور مکمل طور پر غیر حاضر اور مجسم ہوس بن گئے ہو،  تمہیں اللہ اور اس کے پہچاننے والوں کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ، ان کے لحاظ سے تم دیوانے اور بے حواس ہو ، وہ تو عقل والے ہیں جب اللہ کے دیوانے کا دیوانہ پن کامل ہو جا تا ہے تو اس کا اس کیفیت سے نکلنے کا وقت قریب آ جا تا ہے،  شروع میں حرکت ہوتی ہے اور انتہاء میں سکون ہے، اس کا مرض جاتا رہتا ہے اور حکمت اس کی فرماں بردار ہو جاتی ہے۔

 سواد اعظم کی اتباع میں صراط مستقیم پر چلو :

بیٹا! تو آخرت سے تہی دامن ہے اور دنیا سے بھر پور ہے ۔ تیرا یہ حال اور اولیاء اللہ اور صالحین سے تیری دوری ، انکی صحبت سے غیر حاضری اور اپنی سوچ پر بھروسہ کرنا مجھے دکھی کرتا ہے، کیا تجھےنہیں معلوم کہ جو اپنی رائے پر تکیہ کرتا ہے وہ راہ سے بھٹک جاتا ہے۔

ہرعلم والے کو اپناعلم بڑھانے کی ضرورت ہے، ہر علم والا ، دوسرے علم والے سے زیادہ  علم رکھتا ہے، ۔

ارشاد باری تعالی ہے: وَمَا ‌أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا اور تمہیں علم دیا گیا مگر بہت تھوڑا‘‘

سواد اعظم کی اتباع کرو اور صراط مستقیم پر چلو ، طریقت کا دامن تھامے رہو، شریعت کی فرماں برداری کرو۔ اس سے ہٹ کر نہ چلو، اللہ تک پہنچ جاؤ گے، فرماں برداری کرونت نئی راہیں نہ چلو، وہی ایک راستہ کافی ہے، نفس اور حرص کے ساتھ نہ چلو بلکہ اپنی طاقت اور قوت اور بہادری کے ساتھ حکم پرعمل کرتے جاؤ ، سرتسلیم جھکاؤ اور چالا کی چھوڑ دو، جلد بازی کی بجائے مستقل مزاجی اور آہستگی اختیار کر یہ بات ایسی نہیں جو جلد بازی سے ہاتھ آ جائے ، اس میں محنتوں اور اللہ کے بندوں کی رفاقت میں صبر کرتے ہوئے مجاہدے اور مشقت کی ضرورت ہے ۔ یہ کہ تواللہ کی معرفت رکھنے والے بادشاہوں کی بارگاہ میں رہے تا کہ: وہ تیری رہنمائی کر یں، معرفت کا سبق بتائیں، تیرا بوجھ اٹھالیں،  ان کے ہمرکاب چلو تھک جائے تو تجھے اٹھانے کا حکم دیں یا اپنے پیچھے سوار کر لیں ، اگر تو محب ہے تو اپنے پیچھے بٹھائیں گے۔ اگر تو محبوب ہے تو زین پر بٹھا کر خود تیرے پیچھے بیٹھیں گے۔ جس نے اس کا لطف اٹھایا، اسے وہی جانتا ہے۔اہل اللہ کے پاس بیٹھنا ایک نعمت ہے کیونکہ وہ اس بات کے اہل ہیں کہ ان کے پاس بیٹھا جائے ، اغیار کے پاس بیٹھنا ایک عذاب ہے کیونکہ وہ لوگ جھوٹے اور منافق ہیں ، تیرے لئے ضروری ہے کہ اللہ کے لئے مراقبہ کر اور اپنے نفس سے ان چیزوں کا مطالبہ کر جو کہ اس پر حقوق الہی اور حقوق العباد سے واجب ہیں ، اگر نیاوآخرت کی بھلائی چاہتا ہے تو اپنے بارے میں اللہ کے علم کا انتظار کر اور اپنے نفس سے اس پرعمل کر ، اورنفس سے یہ مطالبہ کر کہ ظلم الہی پرعمل کر کے گناہ سے بچتارہے،آفتیں آنے پر صبر کر اللہ کی قضا اور قدر پر راضی رہتے ہوئے اس نعمتوں کا شکر واجب سمجھ جب تو ایسا کرے گا تو رکاوٹیں دور جائیں گی اور اللہ کی صحبت تیرے لئےصحیح  ہو جائے گی ،تجھے سفر میں ہمسفرمل جائے گا اور چشمہ معرفت پالے گا اور یوں تیرے ہاتھ ایک ایسا خزانہ آ جائے گا۔ کہ تو جہاں کہیں بھی جائے گا وہ تیرے پیچھے پیچھے چلے گا، تجھے اس کی کچھ پرواہ نہ ہوگی ، کہ کہاں اترا، کیونکہ تو جہاں گرے گا اٹھالیا جائے گا۔ حکم اور علم اور قدر، جن وانسان اور فرشتے سب تیرے خدمت گزار ہوں گے، ہر چیز کوتیراڈر ہوگا کیونکہ تو اللہ سے ڈر رکھنے والا ہو گیا ۔ اور ہر چیز تیری فرماں بردار ہو جائے گی۔ کیونکہ تو اللہ کا فرماں بردار ہو گیا ، جو اللہ سے ڈرتا ہے اس سے ہر شے ڈرتی ہے ۔ جواللہ سے نہیں ڈرتا، وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے ۔ جواللہ کی خدمت کرتا ہے، ہر چیز اس کی خدمت کرتی ہے۔ اس لئے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے کسی کا ذرہ برابر عمل بھی ضائع نہیں کرتا۔ جیسا تو کرے گا ویسا بدلہ پالے گا، جیسے تم ہوگے، ویسا ہی تم پر حکمران ہوگا،۔ اللهـم عـامـلـنا بكرمك وإحسانك وتجاوزك و لطفك بنا في الدنيا والأخرة واتنا في الدنياحسنة وفي الاخرة حسنة وقنا عذاب النار الہی دنیاو آخرت میں ہم سے اپنے کرم اور احسان اور درگز رکرنے اور لطف کے ساتھ معاملہ فرما اور ہمیں دنیا کی بھلائی عطا کر، اور ہمیں آخرت کی بھلائی عطا کرے ۔ اور دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ ۔آمین!‘‘

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 409،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 211دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں