عروج محمدیہ

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔

سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ والسماء والطارق“ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: اس سورہ میں اللہ تعالی نے آسمان اور اس پر چلنے والے کی قسم کھائی ہے ۔ آسمان پر چلنے والے حضرت محمدمصطفی ﷺہیں ۔ پہلے آپ ﷺکی ہمت عالی نے آسمان پر ترقی کی ، پھر آپ ﷺکے جسم مبارک یعنی بذاتہ ساتویں آسمان تک عروج کیا اور اللہ تعالی سے کلام کیا، اپنے سر مبارک کی آنکھوں سے بھی اللہ تعالی کو دیکھا، اور دل مبارک کی آنکھوں سے بھی اللہ کا دیدار کیا ، جبکہ آپ اس کے بندہ خاص تھے ، رات کے وقت آسمان میں تشریف لے گئے ۔ اور اللہ تعالی کوزمین پر دل کی آنکھوں سے اور آسمان پر اپنے سر کی آنکھوں سے دیدار کیا ۔ اسی طرح جب کسی بندے کا دل صحیح ہو جاتا ہے تو اس کا دل اللہ کا دیدار کرنے لگتا ہے،  اس بندے اور آسمان واسرار کے درمیان جو حجابات ہوتے ہیں وہ ہٹ جاتے ہیں، چنانچہ ہمتیں آگے بڑھتی ہیں اور اسرار سیر کرتے ہیں، صدیقین کے سینے اللہ کے اسرار کے نور سے روشن ہیں ، تم ایمان والے کی فراست (عقل ودانائی )سے ڈرتے رہو۔ دل جب قرب الہٰی تک پہنچ جاتا ہے تو وہ ایک ایسا آسمان بن جاتا ہے جس میں علم کے تارے اور معرفت کا آفتاب چمکنے لگتا ہے۔ان نوروں سے ملائکہ روشنی حاصل کرتے ہیں ۔ کوئی نفس ایسانہیں جس پر اللہ کی طرف سے کوئی محافظ نہ ہوں، جو کہ اس نفس کے شیطانوں کی دست بر د سے حفاظت نہ کرتا ہو اور اولیاء اللہ میں سے بعض افراد ایسے بھی ہیں کہ جن کی حفاظت صفیں باندھے فرشتے کرتے ہیں ، اور اللہ ان کے پیچھےسے احاطہ کرنے والا ہے،  تو فقط فصاحت و بلاغت میں پڑا ہوا ہے تو نے اپنے گھر کو اجاڑ دیا ہے، اپنے گھر کے گرد گردگھوم رہا ہے، وہاں سے پتا ہی نہیں ہے، گویا کہ تو چکی کا ایک اونٹ ہے۔ شاید کسی ولی اللہ نے تجھے بد دعا دے دی ، جس کی وجہ سے تیری دانائی کی آنکھیں پھوٹ گئی ہیں، تو نے اللہ کو چھوڑا اللہ نے تجھے راستے میں چھوڑ دیا، تیرے قصد کی آنکھ میں ڈھلکے(موت کے قریب آنکھوں سے پانی بہنا) کی بیماری جم گئی ہے، تیرے غم بہت ہو گئے ہیں، اور تیرے قصد کے بازوٹوٹ گئے ہیں، تو دنیا و آخرت کے درمیان میں پڑا ہوا گوشت کا ایک ٹکڑا باقی رہ گیا ہے، تو ایک سچے دوست کا محتاج ہے جو تیرے افلاس کے بعد تیری بھلائی کے لئے دعا کرے ۔

تو اولیاء اللہ اورفرشتوں کے ساتھ سچا انس پیدا کر ، جب تو ان سب سے انس پیدا کر لے گا تو تیرے لئے دوسرا دروازہ کھل جائے گا، مخلوق میں سے جب تو انسانوں سے انس پکڑ کر اس دروازے کو بند کر دے گا، تب تیرے لئے جنوں کے ساتھ انس کا درواز کھل جائے گا ۔جب تو یہ دروازہ بھی بند کر دے گا تو تیرے لئے فرشتوں کے ساتھ انس کا دروازہ کھل جائے گا۔ سب چیز یں اپنی ذات میں کچھ نہیں کر سکتیں وہ تو حکم کے تابع ہیں ۔آگ اپنی طبیعت سے نہیں جلاتی ، نہ ہی پانی اپنی طبیعت سے سیراب کر سکتا ہے، نمرود کی آگ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کونہ جلاسکی۔

حضرت ابو مسلم خولانی رحمۃ اللہ علیہ کو جب آگ میں ڈالا گیا تو جلنے سے محفوظ ر ہے، سمندل نام کا ایک جانور ہے، وہ آگ ہی میں رہتا بستا ہے، آگ اسے نہیں جلاتی ، جب تو اپنے اعمال میں اخلاص پیدا کر لے گا تو مخلوق سے رہائی پالے گا، اور تجھے مخلوق کے درمیان میں سے نکال لیا جائے گا، ان سے نکل کر تو اللہ کی طرف پہنچ جائے گا اور اس کی طلب کرنے لگے گا، ۔ اس کی مثال ایک ایسے مسافر کی طرح ہے جو کوچے میں داخل ہوا، اپنے دوست کی تلاش میں چکر لگا تارہتا ہے،کوچے کے آخر تک پہنچتا ہے، پھر شروع کی طرف لوٹ آ تا ہے، اور دوست کے دروازے کو پہچان نہیں پاتا، دوست خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہتا ہے، جب اس پر اپنے اس دوست کی حیرانی و پریشانی کھلتی ہے، اس پر اس کی محبت غالب آ جاتی ہے اور وہ باہر نکل آتا ہے، اور باہر نکل کر اس سے معانقہ کرتا ہے، اپنے سینے سے لگالیتا ہے جس طرح کہ سید نا یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائی بنیامین کے ساتھ کیا تھا، ان سےکہا تھا: ”یقینا میں تمہارا بھائی ہوں‘‘۔

فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 643،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں