تیسری مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے تیسری مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس الثالث فی عدم تمنی الغنی ‘‘ ہے۔

منعقده 8 شوال المکرم  545 بروز جمعتہ المبارک بوقت صبح بمقام مدرسہ قادر یہ، بغداد

اپنے نصیب پرخوش رہنے والا ہی خوش نصیب ہے:

اے فقیر! تو مالدار بننے کی آرزو نہ کر ، ہوسکتا ہے کہ مال )کی کثرت (  تیری تباہی کا باعث ہو۔اے بیمار! تو تندرست و صحت مند ہونے کی خواہش  نہ کر ، شائد کہ تیری تندرستی تیری ہلاکت کا سبب بن جائے ۔ دانائی اختیار کر کے (اپنی محنت کے نتیجہ کومحفوظ کر ، ( اس حکمت عملی سے ) تیرا انجام قابل قدر ہوگا ۔ جو نعمت حاصل ہے اس پر قناعت کر ، اس سے زیادہ کی طلب نہ کر ، مالک کی رضا پر راضی رہ تمہارے مانگنے پر اللہ سے جو ملے گا، یہ تجربے کی اور آزمائی ہوئی بات ہے کہ اس میں راحت اور آسائش نہ ہوگی، ہاں جب بندے کے دل میں القائے الہی سے کوئی تمنا ڈال دی جائے ، اس میں (یقینا ) برکت ہوگی ، اس سے ہر طرح کی خرابی دور کر دی جائے گی ، عام طور سے تمہیں اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی ۔ بخشش صحت و تندرستی ، دین دنیا اور آخرت میں ہمیشہ کی صحت کا سوال کرنا چاہئے ۔ اور تجھے اسی پر اکتفا اور قناعت کرنا چاہئے ۔ اللہ تعالی سے کسی خاص چیز کی پسند کا اظہار کر کے اپنی خودمختاری نہ جتا، اور نہ اپنے جبر کا اظہار کر ، ورنہ بھاری شدید نقصان اٹھائے گا – اپنی جوانی اور طاقت اور مال سے ذات الہی اور اس کی مخلوق پر اترامت، کیونکہ اس کی پکڑ بڑی سخت ہے، دوسروں کی طرح تمہیں بھی اپنی گرفت میں لے لے گا۔ اس کی گرفت بڑی مصیبت میں ڈالنے والی ہے۔

 دورنگی چھوڑ دے، یک رنگ ہوجا:

افسوں تجھ پر کہ تم صرف زبان سے مسلمان ہو، دل سے مسلمان نہیں ( یعنی مسلمان ہونے کا زبانی اقرار کیا ہے، دل سے اس کی تصدیق نہیں کی باتیں مسلمانوں والی ہیں ، کام مسلمانوں والے نہیں ، محفلوں میں، مجلسوں میں تو مسلمان ( دکھائی دیتا ہے لیکن اکیلے میں اس کے برعکس ہے، کیا تجھے معلوم نہیں کہ جب تو نماز پڑھے گا اور روزہ رکھے گا، اور نیکی کے اور کام کرے گا ، اگر یہ سب کچھ خالص اللہ کے لئے نہیں تو تم پکے منافق ہو۔ اور اللہ کی رحمت سے بہت دور ہو، اب بھی وقت ہے کہ تو بارگاہ الہی میں اپنے تمام عملوں، باتوں اور گندے مقاصد سے توبہ کر لے۔ اللہ والے کے کسی کام میں نفاق ( خوشامد نہیں ہوتا ۔ وہ اعلی مقام ومرتبہ پانے والے ہیں ، وہ یقین والے ہیں ، اللہ کو ایک ماننے والے ہیں ، اخلاص والے ہیں ، اور اللہ کی طرف سے آنے والی آزمائشوں اور مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں ، اس کی عطا کردہ نعمتوں اور احسانوں پر شکر ادا کرتے ہیں ۔ اپنی زبانوں سے اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ لوگوں سے دکھ اور تکلیفیں اٹھا کر اللہ کے سامنے ہنستے مسکراتے ہیں۔ ان کے نزدیک دنیا کے بادشاہ نا کارہ ہیں، زمین پر بسنے والے مردے ہیں ، عاجز ہیں ،محتاج، پیار اور تنگ دست ان کے خیال میں بہشت اجاڑ اور دوزخ کی آگ بجھی ہوئی ہے، ان کی نظر میں نہ زمین ہے نہ آسمان ، نہ ہی ان میں کوئی رہنے والا ہے ، ان کی توجہ ہر طرف سے ہٹ کر ایک ہی طرف (مرتکز ہوگئی ۔ پہلے وہ دنیا داروں کے ساتھ تھے۔ پھر آخرت اور آخرت والوں کے ہمراہ ہوئے ۔ پھر دنیا وآخرت کے رب اور اس کے محبوبوں سے جا ملے اپنے دلوں سے خدا کے ساتھ سیر کر کے واصل بحق ہو گئے اور رستہ چلنے سے پہلے ہی رفیق کو پالیا اوراپنے اور اس کے درمیان درواز کھول لیا۔

 مردان الہی جب تک اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں، اللہ (بھی) ان کا ذکر کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے سب گناہ جھڑجاتے ہیں۔ غیر اللہ سےگم ہوکر ان کا وجوداللہ کی ذات کے ساتھ موجود ہوتا ہے، کیونکہ یہ ارشاد الہی انہوں نے سن رکھا

‌فَاذْكُرُونِي ‌أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ” تم مجھے یادکرو میں تمہیں یادکروں گا تم میرا شکر کرو ناشکری نہ کرو ۔“ چنانچہ انہوں نے اس شوق کے باعث کہ اللہ ان کا ذکر کرے، وہ ہمیشہ ذکر الہی میں مصروف رہتے ہیں ، انہوں نےحدیت قدسی میں یہ ارشادالہی سنا:

‌أَنَا ‌جَلِيسُ مَنْ ذَكَرَنِي“جوشخص میراذ کر کرتا ہے، میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں ۔‘‘

چنانچہ ا للہ والوں نے مخلوق کی محفلیں ترک کر دیں اور یا دالہی پر قانع ہوکر رب تعالی کے ہمنشیں ہو گئے ۔ علمبغیرعمل کے نفع نہیں دیتا:

 اے لوگو! حرص نہ کرو تم تو سراپا حرص بن رہے ہو، یہ علم بغیر عمل سے نفع نہیں دیتا ۔ تمہیں اشد ضرورت اہے کہ یہ سیاہی جو سپیدی پر ہے (یعنی قرآن مجید ) ، اس پرعمل کرو، احکام الہی پر متواتر ہر دن اور ہر سال عمل کرتے رہو تا کہ اس کا نیک اجر تمہارے ہاتھ لگ سکے۔

 علم عمل کو آواز دیتا ہے

بیٹا! تیراعلم تجھے پکارتا ہے کہ اگرتو مجھ پرعمل نہ کرے گا تو میں تیرے خلاف نقصان دہ دلیل و حجت ہوں، اگر مجھ پر عمل کرو گے تو میں تیرے موافق ( نافع دلیل و حجت ہوں۔  

رسول اللہ  ﷺ نے ارشادفرمایا: یهتف العلم بالعمل فإن أجابة وإلا ارتحل ترتحل بركته وتبقى حجتہ ترتجل شفاعته لك من مولاه وينقطع دخوله عليك في حوائجك إرتحل ليه وبقى قشورا فان لب العلم لا يصح

 علم عمل کو آواز دیتا ہے اگر عمل سن لے تو بہتر ور نہ علم چل دیتا ہے، اس کی برکت اٹھ جاتی ہے، عالم کی محنت ( دھری رہ جاتی ہے ، تیرے علم کا اللہ تعالی سے شفاعت ( کرنے کا حق چلا جاتا ہے، حاجت اور ضرورت کے وقت اس کا تیرے پاس آ نا موقوف ہو جاتا ہے ۔ یعنی علم کا مغز رخصت ہو جا تا ہے اور اس کا پوست( چھلکا ) باقی رہ جاتا ہے ، اس لئے علم کا مغز و جوہرعمل ہے ۔‘‘

رسول اللہ  ﷺ کی اطاعت و تابعداری اس صورت میں صحیح ہو سکتی ہے کہ جو کچھ آپ نے فرمایا ہے اس پر عمل کیا جائے جب تم آپ  ﷺ کے بتائے ہوئے تمام حکموں پرعمل کرلو گے تورسول اللہ  ﷺ تیرے قلب  اور باطن ( دونوں ) پر تو جہ فرماکر اللہ تعالی کی بارگاہ میں پیش فرمادیں گے، تمہاراعلم تمہیں آواز دیتا ہے اگرتم اسے نہیں سنتے ، جائے ، کیونکہ تمہارے پاس قلب سلیم نہیں ہے، اس کی بات دل اور باطن کے کانوں سے سنو اور اس پر توجہ کرو، کیونکہ تو اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے،عمل کے ساتھ علم تجھے اس عالم (اللہ تعالی جوکہ علم کا نازل کرنے والا ہے ) کے قریب کر دیتا ہے، جب اس حکم پر جو کہ علم اول ہے عمل کر لو گے تو تم پر دوسرے علم کا چشمہ پھوٹ نکلے گا،تمہارے پاس دوعلموں کے چشمے جاری ہو جائیں گے، تمہارے قلب میں حکم اور ظاہر و باطن کا علم بھر دیا جائے گا ، اس وقت تم پر اس نعمت (لازوال ) کی زکوۃ ادا کرنا واجب ہوگی ۔ اس سے اپنے بھائیوں اور مریدوں کی غم خواری کرنا ۔ علم کی ز کوۃ یہ ہے کہ علم کو عام کر دیا جائے ، اورخلق خدا کو خدا کی طرف دعوت دی جائے ۔

اولیاء کرام نبی اللہ  ﷺ کے نائب اور حقیقی وارث ہیں:۔

 اے بیٹا! جس نے صبر کیا اس نے قدرت پالی ( گویا وہ قادر ہو گیا ارشاد باری تعالی ہے:

إِنَّمَا ‌يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ و صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دیا جائے گا ۔‘‘

تم کسب ( کمائی کر کے کھاؤ، دین فروشی سے نہ کھاؤ، کسب و کمائی سے کھاؤ ، اور اپنی کمائی سے دوسروں کی بھی دل داری کرو، ایمان والوں کی کمائی صدیقوں کے طباق ہیں۔ ان کے کسب، پیشے اور محنت کی غرض صرف فقیروں اور مسکینوں کی خدمت کرنا ہے (یعنی ان کی کمائی میں فقیروں اور مسکینوں کے سوا کسی اور کا حصہ نہیں۔ وہ خلق خدا پر رحمت کر نے کی آرزو رکھتے ہیں ۔ اس خیرات سے ان کا مقصد رضائے الہی اور محبت حقانی کا حصول ہے، کیونکہ انہوں نے رسول اللہ  ﷺ کا یہ ارشا دسنا ہے: ‘ الْخَلْقُ كُلُّهُمْ ‌عِيَالُ ‌اللَّهِ، فَأَحَبُّ خَلْقِهِ إِلَيْهِ أَنْفَعُهُمْ ‌لِعِيَالِهِ – لوگ اللہ کی عیال ( کنبہ ) ہیں،اورلوگوں میں اللہ کا سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو اللہ کی عیال کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچائے ۔

اولیاء اللہ خلقت کے اعتبار سے گونگے ، بہرے اور اندھے ہیں ، ان کے دل جب اللہ کے نزدیک ہوجاتے ہیں تو وہ نہ غیر اللہ کودیکھتے ہیں اور نہ غیراللہ کی بات سنتے ہیں، قرب الہی کے باعث انہیں شدت سے رونا آتا ہے، ان پر اللہ کی ہیبت طاری ہوتی ہے۔ اللہ کی محبت انہیں محبوب کے پاس قید کر دیتی ہے۔ وہ جلال اور جمال کے درمیان رہتے ہیں، دائیں بائیں دھیان نہیں کرتے ، پیچھے کی بجائے ان کی توجہ سامنے ہی رہتی ہے، انسان، جن اور فرشتے غرض سب طرح کی مخلوق ان کی خدمت کے لئے کمر بستہ رہتی ہے حکم اور علم ان کے خادم بن جاتے ہیں، اللہ کا فضل ان کی غذا ہے، ، بوئے محبت ( انس ) انہیں تروتازہ رہتی ہے،  اس کے فضل کے طعام سے کھاتے ہیں، اور اس کی انسیت کے شربت سے پیتے ہیں ۔ کلام الہی سننے کے شغل کے باعث خلقت کا کلام نہیں سنتے ،غرض ان میں اور عام خلقت میں زمین و آسمان کا فرق ہے ( اولیاء کرام ایک جنگل ومیدان میں ہیں اور دوسری مخلوق دوسرے میدان میں ) خلق خدا کو احکام الہی سناتے ہیں، اور جن باتوں سے اللہ نے روکا ہے ان سے روکتے ہیں ، وہ نبی  ﷺ کے نائب اور حقیقی وارث ہیں ۔ ان کا کام خلقت کو دروازہ حق پر پہنچانا ہے، اور ان پراللہ کی حجت کو قائم کرنا ہے، سب چیز یں ان کے مقام پر رکھتے ہیں (یعنی ہر شے کوقرینے سے رکھتے ہیں۔ ہر صاحب فضل کو اس کے حصے کافضل دیتے ہیں ، وہ کسی کی حق تلفی نہیں کرتے ،اپنی طبیعتوں اور نفسانی خواہشوں کی پیروی نہیں کرتے ۔ اللہ ہی کے لئے محبت کرتے ہیں، اور اللہ ہی کے لئے نفرت کرتے ہیں، ان کا سب کچھ اللہ ہی کے لئے ہے، کسی غیر کا ان میں کچھ عمل دخل نہیں ، جس کا مکمل طور پر یہ حال ہو جائے تو اس پر کمال محبت ختم ہو جا تا ہے۔ (یعنی تمام انسان ، جن اور فرشتے ،زمین و آسمان اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور اس کے تابع فرمان بن جاتے ہیں)۔ اے منافق! – مخلوق واسباب کے پجاری! اے رب تعالی کو بھول جانے والے ! تم چاہتے ہو کہ اللہ نے جو مقام ومرتبہ اپنے اولیاء کرام کو دیا ہے، وہ تجھے بھی مل جائے جبکہ تم بد خصائل میں مبتلا  ہواللہ کے دربار میں تمہاری کوئی عزت نہیں ، تمہاری کوئی قدر نہیں ۔ پہلے مسلمان بنو ( اسلام لاؤ) پھر توبہ کرو۔ پھرعلم پڑھو اور عمل کرو۔ اخلاص پیدا کر، ورنہ تجھے ہدایت نصیب نہ ہوگی۔ تم پر افسوس ہے۔ مجھے تم سے کوئی دشمنی نہیں ،سوائے اس بات کے کہ، میں تجھ سے حق بات کہتا ہوں ، اور اللہ کے دین کی تعمیل میں تم سے نہیں ڈرتا ، میں نے مشائخ عظام کے کلام کی سختی اور سفر وفقر کی مشقت میں پرورش پائی ہے، جب میں تمہیں مخاطب کر کے کوئی کلام کروں تو اسے اللہ کی طرف سے سمجھو۔ اس لئے کہ اس نے مجھ سے کہلوایا ہے۔ جب تم میرے پاس آؤ تو اپنے آپ سے اور اپنے نفس سے اپنی خواہشوں سے خالی ہو کہ آؤ اگر تیرے دل کی آنکھیں ہوتیں توتو مجھے ان سب چیزوں سے خالی دیکھتا ۔مگر تیری الٹی سمجھ تیرے لئے خرابی کا باعث ہے۔

اے مرید!مجھ سے فائدہ اٹھانے کی خواہش رکھنے والے! ۔ میری صحبت میں بیٹھنے کی آرزو کرنے والے! میری اپنی حالت یہ ہے کہ جس میں نہ خلقت ہے نہ دنیا اور نہ آخرت ہے۔ لہذا جوشخص میرے ہاتھ پرتو بہ کرے اور میری صحبت میں رہے، اور میرے بارے میں حسن ظن رکھے، اور میرے کہے پرعمل کرے ، وہ بھی ان شاء اللہ ایسا ہی ہو جائے گا ، اللہ تعالی:

انبیاء کرام کی تربیت اپنے کلام ( وجی ) سے فرماتا ہے، اوراولیاء کرام کی تربیت اپنی حدیث (یہاں حدیث سے مراد اولیا اللہ کے دلوں میں القائے ربانی ہے)سے فرماتا ہے جو قلبی الہام ہے۔ اولیاء کرام، انبیاء کرام کے وصی اور خلفاء اور بچے ہیں، اللہ تعالی کلام کرنے والا ہے، کلام کرنا اس کی صفت ہے، اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام سے کلام کیا ، خالق وعلام الغیوب نے کلام کیا کسی مخلوق نے نہیں ، خالق نے موسی علیہ السلام سے بلا واسطہ ایسا کلام کیا جو انہوں نے سمجھ لیا اور یہ کلام ان کی عقل تک پہنچ گیا اللہ  تعالی نے ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ سے بھی بلا واسطہ کلام فرمایا ، یہ قرآن مجید ایک مضبوط رسی ہے جو تمہارے اور رب کے درمیان تنی ہوئی ہے، جسے جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کے پاس سے آسمان سے آپ  ﷺ پر اتارا ، جیسا کہ اللہ نے فرمایا دیا اور اس (جبرائیل) نے خبر دے دی ۔ اس بات کا انکار کرنا جائز نہیں۔ اللهم اهد الكل وتب على الكل وارحم الكل الہی ہم سب کو ہدایت دے ، اور سب کی توبہ قبول کر اور سب پر رحم فرما

حکایت خلیفہ معتصم باللہ :

 امیرالمومنین معتصم باللہ سے حکایت ہے کہ جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اس بات کا اقرار کرتے ہوئے تو بہ  کی کہ

خدا کی قسم میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس ظلم سے توبہ کرتا ہوں جو میں نے (امام احمد بن حنبل (علیہ الرحمہ) کے حق میں کیا تھا، باوجود اس کے کہ میں خوداس (ایذارسانی کا بانی نہ تھا، میرے علاوہ اور لوگ تھے جو اس کا سبب بنے تھے ۔( اس کے دور میں معتزلہ کا فتنہ  کلام اللہ غیر مخلوق اور حادث  ہے امام احمد نے اس  کے خلاف دلائل دئیے ۔ خلیفہ معتصم معتزلہ کے زیر اثر تھا، اس کے دربار میں ان کا بڑا عمل دخل تھا  خلیفہ نے امام صاحب کوکوڑے لگوائے اور قید کر دیا ۔ اس کے باوجودامام اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور آخر تک یہی فرماتے رہے کہ قرآن کلام الہی ہے اور غیر مخلوق  ہے )

 ایسے کام میں لگوجود نیاد آ خرت میں فائدہ دے:

اس مسکین جس  معاملے میں  بات کرنے کا فائدہ نہیں  اس میں بات نہ کر مذہب کے بارے میں بے جاتعصب کو چھوڑ دے، اور ایسے کام میں لگو جو دنیا وآخرت میں فائدہ دے، تمہیں بہت جلد اپنی خبر معلوم ہو جائے گی ، پھر میری بات کو یاد کرے گا ، اور بہت جلد نیزہ بازی کے وقت دیکھ لو گے کہ سر پر خود نہ (پہنا ہوتو سر پر کتنے کاری زخم لگتے  ہیں، اپنے دل کو دنیا کی سوچوں اور غموں سے خالی کر دو، کیونکہ عنقریب تم سے ان کی پوچھ کچھ ہوگی ، یا تو دنیا سے چلا جانے والا ہے ،د نیا میں عیش و آرام کی زندگی کی تمنامت کر، وہ تیرے ہاتھ نہ لگے گی ، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا

العيش عيش الأخرة عیش (بس) آخرت کی عیش ہے ۔“ اپنی امید کو گھٹا دینا کہ (اس سے) تجھے دنیا میں زہد حاصل ہو جائے گا، کیونکہ زہد کے معنی یہی ہیں کہ اپنی امید کوگھٹا دیا ،بروں کی دوستی چھوڑ دے۔ تجھ میں اور ان میں جوتعلق ہے اسے توڑ دے، اور نیکوں کے ساتھ ناطہ جوڑ لے۔ اگربروں میں اپنا کوئی قریبی ہو تو اس سے بھی الگ ہو جا۔ اگر کوئی دور والا نیکیوں کے ساتھ ناطہ جوڑے، اگربروں میں اپنا کوئی قریبی ہوتو اس سے بھی الگ ہو جاؤ،  اگر کوئی دور والا نیکوں میں سے ہو تو اس سے واسطہ بنالے، جس سے تم محبت کرو گے اس کے اور تمہارے بیچ قرابت ہو جائے گی، جس سے تو دوستی کرنا چاہتا ہے اسے آزمالے، پر کھلے۔

کسی بزرگ سے پوچھا گیا کہ قرابت کیا چیز ہے؟ فرمایا: محبت جو چیز تیرے نصیب میں ہے اور جو چیز نصیب میں نہیں، دونوں کی طلب چھوڑ دے نصیب کی آرزو کرنا بے فائدہ و بے کار ہے ( وہ تو خود ہی بن مانگے ملے گا ۔ اور جو چیز نصیب میں نہیں ، اس کی تمنا کرنا جان کا عذاب اور رسوائی ہے۔ اسی لئے رسول اللہ  ﷺ نے ارشادفرمایا:

من جملة عقوبات الله عز وجل يعبده طلب مالم يقسم له بندے کا ایسی چیز طلب کرنا جو اس کی قسمت میں نہیں لکھی گئی ، بھی اللہ کے عذابوں میں سے ایک ہے۔

 اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں کا مشاہدہ کرنا:

اے بیٹا اللہ کی بنائی ہوئی چیزیں اس کے ہونے کی دلیل ہیں بنے ہوئے کی مہارت و کاری گری سے متعلق غوروفکر کر تو اس کے بنانے والے تک پہنچ جائے گا۔ اس کے بنانے والا تجھے مل جائے گا۔) صاحب ایمان و یقین عارف کامل کی دو آنکھیں ظاہر میں ہیں اور دوباطن میں ہیں۔ وہ ظاہری آنکھوں سے زمین پر پیدا ہونے والی چیزیں دیکھتا ہے، اور باطنی آنکھوں سے آسمانوں میں پیدا ہونے والی چیز یں دیکھتا ہے، پھر اس کے دل سے سب پر دے ( حجاب ) اٹھا دیئے جاتے ہیں، اور وہ کسی تشبیہ اورکسی کیفیت کے بغیر اللہ کو دیکھتا ہے ۔ چنانچہ وہ مقرب ومحبوب الہی ہو ہے، اور محبوب سے تو کوئی راز چھپا ہی نہیں رہتا، کوئی پردہ نہیں رہتا ۔ جو دل مخلوق نفس وطبیعت ، حرص اور شیطان سے خالی ہو، اس سے پردے اٹھادیئے جاتے ہیں ، وہ اپنے ہاتھ سے زمین کے خزانوں کی کنجیاں  پھینک دیتا ہے ، اس کے نزدیک قیمتی پتھر اور مٹی برابر ہوتے ہیں، تو عقل سے کام لے، میرے کہے پر غور کر ، سوچو۔ سمجھو، بلاشبہ میں نے کلام کو پالیا ہے، اس قیمتی کلام کے جو ہر میں ، اس کے باطن میں معنی خیز راز ہے۔

عقل مندی اس کے در کا رہور ہنے میں ہے:

 اے بیٹا !مخلوق سے خالق کا شکوہ نہ کر، بلکہ اس سے کر کہ وہی قدرت رکھتا ہے، اس کے سوا کسی دوسرے کو قدرت نہیں ۔ مصیبتوں، بیماریوں اور صدقہ خیرات کا چھپانا اچھائیوں کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے، اپنے دائیں ہاتھ سے جب صدقہ خیرات کرو تو اس بات کا خیال رہے کہ اس کا بائیں ہاتھ کو علم نہ ہو، نیا کے سمندر سے بچ کے رہو، کیونکہ اس میں بہت سی خلقت ڈوب چکی ہے۔ توحید والوں کے سوا کوئی نجات نہیں پاسکا۔ وہ بہت گہرا سمندر ہے، وہ ہر ایک کو ڈبو دیتا ہے ،سوائے اس امر کے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جسے چاہے دنیا کے سمندر سے نجات عطا فرمادے۔ جیسا کہ قیامت کے دن ایمان والوں کو دوزخ کی آگ سے نجات عطا فرمائے گا، کیونکہ سب کو دوزخ کے اوپر سے گزرنا ہوگا (اس لئے کہ پل صراط دوزخ پر قائم ہے ، اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جسے چاہے گا نجات عطا فرمائے گا۔ ارشاد باری تعالی ہے۔

وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا ‌وَارِدُهَا كَانَ عَلَى رَبِّكَ حَتْمًا مَقْضِيًّا اورتم میں سے کوئی ایسا نہیں جس کا گز ردوزخ پر نہ ہو، تمہارے رب کے ذمہ یہ ضرور فیصلہ کن بات ہے۔ دوزخ کی آگ سے اللہ تعالی فرمائے گا کہ تو سرداور سلامتی والی ہو جا تا کہ میرے بندے جو مجھ پر ایمان لائے ،میرے لئے اخلاص رکھنے والے ،میری طرف رغبت رکھنے والے، میرے ساتھ رہ کر غیر کو چھوڑ دینے والے، تیرے اوپر سے (باامن گزر جائیں – یار شادالہی ویسا ہی ہو گا جیسا کہ نمرود کی آگ کو حکم ہوا جو اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلانے  کیلئے جلائی تھی ، ارشادالہی یہ تھا: يَانَارُ كُونِي ‌بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ اللہ تعالی نے جب دنیا کے سمندر سے کسی کو نجات دینا ہوتی ہے تو ارشادفرماتا ہے: يا بحر الدنيا أمانا لا تغرق هذا العبد المراد المحبوب فينحو منه اے   دنیا کے سمندر! میرے اس محبوب و مراد بندے کو  نجات دے اور غرق نہ کرنا۔

چنانچہ اللہ کا محبوب دنیا کے سمندر سے نجات پا لیتا ہے (یعنی یہ شخص صاحب باطن ہو جا تا ہے جیسا کہ موسی علیہ السلام اور آپ کی قوم کو اس دریا ( نیل سے نجات عطا فر مائی وہ کریم اپنے فضل و کرم سے جسے جو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔ اور جسے چاہتا ہے اسے بے حساب رزق دیتا ہے۔ سب بھلائیاں اس کے ہاتھ میں ہیں۔ دینا، نہ دینا — امیر کر دینا غریب کر دینا ،اس کے دست قدرت میں ہے، عزت وذلت بھی اس کے اختیار میں ہے ۔ اس کے کسی امر میں کسی غیر کا عمل دخل نہیں،  صاحب دانش وہی ہے جو اس کے در کا ہور ہے ، اور غیر کے دروازے کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھے۔ مگراے بد بخت! میں دیکھتا ہوں کہ تو مخلوق خدا کو راضی کرتا ہے اور خدا کو خفا ،دنیا کی عمارت کھڑی کر کے آ خرت کو بر باد کرنے پے تلا ہوا ہے، تو جلد ہی گرفتار ہو جائے گا، تجھے وہی پکڑے گا جس کی پکڑ بڑی سخت اور دردناک ہے ۔ اس کی پکڑ کے کئی طریق ہیں۔  تجھے تیری ولایت سے الگ کردے،  بیماری ، ذلت محتاجی میں مبتلا کر دے، تیرے اوپرسختیاں اور غم مسلط کر دے، مخلوق کی زبانوں اور ہاتھوں کو مسلط کر دے – تیرے نقصان پر ساری خلقت کواکسادے۔ اے غفلت میں پڑے انسان! ہوشیار ہو جا، بیدار ہو جا، اللهم يقضنا بك ولك آمين! و “البی! ہمیں اپنے ساتھ اور اپنے لئے بیدار کر!۔آمین!‘‘

دنیا کی طلب نے تجھے غافل کر دیا ہے:

اے بیٹا! تو دنیا کی طلب میں ایسا نہ بن جا جیسے کوئی رات کے اندھیرے میں لکڑیاں جمع کرنے والا ہوتا ہے، وہ نہیں جانتا کہ اندھیرے میں اس کا ہاتھ کہاں جاپڑے اور اس کے ہاتھ کیا لگ جائے ، میں دیکھ رہا ہوں کہ تو اپنے دھندے میں رات کولکڑیاں جمع کرنے والے کی طرح ہے۔ رات بھی اندھیری ہے، چاندنی نہیں، اورلکڑیاں جمع کرنے والے کے پاس روشنی (مشعل) بھی نہیں، وہ ایسے ریگستان میں ہے جہاں گھنی جھاڑیاں ہیں اور مار دینے والے موذی جانور بھی ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی موذی ( سانپ یا بچھو اسے ڈس لے ( اندھیرے میں ممکن  ہے لکڑی کے دھوکے میں سانپ پر ہاتھ ڈال دے۔ تجھے چاہئے کہ تو لکڑیاں دن کو جمع کرے (یعنی غفلت چھوڑ کر ہوشیاری سے کام کر ۔ کیونکہ آفتاب کی روشنی تجھے ایذا دینے والی چیزوں پر ہاتھ ڈالنے سے بچائے رکھے گی ۔نیا کے دھندوں میں آفتاب تو حید وشرع اور تقوی کے ساتھ چل ، آفتاب تجھے نفس کی خواہشوں، حرص و شیطان اور غیر کے جال میں پھنسنے سے بچا تارہے گا، اور دنیا کی سیر میں جلد بازی کرنے سےتجھے روکے گا ۔

جلدی کا کام شیطان سے منسوب ہے:

تجھ پر افسوس ہے، جلدی نہ کر ، جس نے کام میں جلدی کی ، یا خطا کی ، یا اس سے قریب ہوا اور جوسوچ سمجھ کر سنبھل کر ،آ ہستگی سے چلا ، وہ مراد کو پہنچایا اپنی مراد کے قریب ہوا، جلدی کا کام شیطان سے منسوب ہے، اور آہستگی سے کام کرنا رحمان کی طرف سے ہے۔دنیا جمع کرنے کی حرص اکثر تمہیں جلد بازی (عجلت ) پر اکساتی ہے ، قناعت سے کام لے، اس لئے کہ قناعت ایسا خزانہ ہے جو کبھی ختم ہو نے کا نہیں ۔ جو چیز تمہاری قسمت میں نہیں اس کی تمنا کیوں کرتے ہو۔ وہ تمہارے ہاتھ بھی نہ لگے گی ۔ اپنے نفس کو روکو اور رب کی رضا پر شا کر رہو، اس کے غیر سے کوئی واسطہ نہ رکھو۔ انہی باتوں کا التزام کر ، یہاں تک کہ تو خدا شناس ہو جائے ، تب تو ہر چیز سے بے پرواہ و بے نیاز ہو جائے گا ۔ تیرادل معرفت کے اسرار سے آشنا ہو جائے گا اور باطن صفا ہو جائے گا ، اور رب تعالی تجھے تعلیم دے گا ، چنانچہ تمہارے سر کی آنکھوں میں دنیاء دل کی آنکھوں میں آخرت، باطن کی آنکھوں میں ماسوا اللہ، ذلیل ہوں گے ۔ تمہارے نزدیک اللہ کے سواکسی چیز کی عظمت، قدرومنزلت نہ رہے گی ۔ ایسے میں تم سب خلقت کے نزدیک صاحب عظمت ہو جاؤ گے۔

خوف خدا ہر بند دروازے کی چابی ہے:۔

بیٹا! اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارے سامنے کوئی دروازہ بند نہ ر ہے تو اللہ سے ڈرو، کیونکہ خوف خداہر بند دروازے کی چابی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:  

وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا  وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا ‌يَحْتَسِبُ’’جوشخص خوف خدا کرتا ہے، اللہ اس کے لئے نجات کی راہ نکال دے گا، اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں کااسے گمان نہ ہو ۔ تو اللہ کی تقدیر سے اپنے نفس اور کنبے، مال اور دنیا کے دوستوں کے بارے میں موزانہ مت کیا کر کیا تجھے اس کی ذرا بھی حیا نہیں کہ تو اللہ پر حکم چلاتا ہے کہ اس کی تقدیرکو بدل دے، اس کے حالات کو بدل دے – کیا تو اس سے بڑا حاکم ہے۔ زیادہ علم رکھتا ہے، زیادہ رحمت والا ہے۔ (نہیں ہرگز نہیں تو بھی اور ساری خلقت بھی اس کے (عاجز بندے ہیں وہی تمہاری اور ساری خلقت کی حسن تدبیر کرنے والا ہے۔ اگر تم دنیا و آخرت میں اس کی صحبت میں ( مصاحبت میں) رہنا چاہتا ہے تو سکون اور خاموشی کے ساتھ لب بستہ ہو جا۔ زبان پر تالا لگا دے۔

جن کی دنیا میں حسن ، جن کی آخرت بھی حسن :

اولیاء اللہ اللہ کے سامنے بادب ہیں ، اس کے حضور کسی قسم کی بے جا حرکت نہیں کرتے جب تک اس کی طرف سے ان کے دلوں کو واضح حکم نہ آ جائے ، وہ ایک قدم بھی اٹھانے کے روادار نہیں، وہ مباح چیزوں سے نہ کوئی چیز کھاتے ہیں نہ لیتے ہیں، نہ نکاح کرتے ہیں ، نہ اپنے اسباب کو برتتے ہیں ، جب تک کہ الہام کے ذریعے ان کے دلوں میں اس کی واضح اجازت نہ مل جائے ، وہ خدا کی ذات کے ساتھ قائم ہیں، جو ذات دلوں اور نگاہوں کو پلٹنے والی ہے ، انہیں اپنے رب کے بغیر قرار ہی نہیں حتی کہ دنیا میں وہ دلوں کے ساتھ چلتے ہیں اور آخرت میں اپنے جسموں کے ساتھ ملیں گے ۔ اللهم ارزقنا لقائك في الدنيا والاخرة للذنا بالقرب منك والرؤية لك اجعلنا ممن يرضى بك عما سواك ‌ آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ الہی  دنیا اور آخرت میں اپنی ملاقات ہمارے نصیب کر اپنی قربت اور زیارت سے ہمیں لذت عطا فرما ہمیں ان لوگوں میں سے کر دے جو تیرے ما سوا کو چھوڑ کر تجھ سے راضی ہیں ۔ اور ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائے گی‘‘ – آمین!

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 28،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 25دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں