رسالہ آداب الشيخ۔ الشيخ شہاب الدين السہروردی

رسالہ آداب الشيخ از الشيخ شہاب الدين السہروردی

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

مرید کو شیخ کی خدمت میں جانا ، اور اس کی خدمت میں بیٹھنے کے آداب اور اطوارسے واقف ہونا اور ان پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے ۔ کیونکہ جب مرید شیخ کی خدمت میں مودب رہے گا تو شیخ کے دل میں اس کی محبت پیداہوجائے گی ، اور جب شیخ کے دل میں اس کی محبت اثر کر گئی تو اس وسیلہ جمیلہ سے مرید کا وجود رحمت الہی اور برکات وفیوض لامتناہی میں شامل ہوجائے مرید کا شیخ کے حضور میں مقبول ہونا ، اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ وہ خدا وندکریم اور رسول علیہ الصلوۃ والسلام اور سب مشائخ کے حضور میں جو اس کے شیخ اور رسول علیہ السلام کے درمیان واسطہ ہیں مقبول ہوچکا مقبول اہل دل مقبو ل خداست یعنی جو شخص اہل دل حضرات کے نزدیک مقبول ہے ، وہ خدا کے  نزدیک  بھی مقبول ہے

شیخ کے بعض حقوق تربیت کا بدلہ سواحسن آداب کے اور کچھ نہیں ۔ چوں کہ مرید کو علماء اور مشائخ کے ساتھ ابوت معنوی(ایک معنی سے باپ کی جگہ) کی نسبت ہے اس واسطے ان کی  تعظیم و توقیر  بھی  نہایت ضروری ہے ، اور اس امرمیں کوتاہی کرنا بے معنی بزرگوں کی خدمت اور بڑوں  کی قدر

شناسی   بہت ضروری امرہے حدیث شریف میں وارد ہے کہ مَنْ ‌لَمْ ‌يَرحَم ‌صَغِيرَنَا، وَلَم ‌يُوَقر ‌كَبِيرَنَا – فَلَيسَ مِنَّا

یعنی جوشخص چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کی تعظیم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے ، خاص کر شیخ جو خدا وند کریم کی حضوری کا نہایت ہی نزدیک وسیلہ ہے۔اگر کوئی شخص اس کے حقوق میں کوتاہی کرے گا تو وہ خداوند کریم کے حقوق ادا کر نے میں قاصر کہلائیگا من ضیع رب الأدنى لم یصل رب الأعلى یعنی جس نے چھوٹے مربی کے حقوق کو ضائع کیا ، وہ بڑے مربی یعنی پروردگار تک نہیں پہنچ سکتا۔ مریدوں میں شیخ کا وجود گو یانبی علیہ السلام کے وجود کا نمونہ ہے صحابہ رضی اللہ عنہم میں چونکہ شیخ مخلوق کو خدا کی طرف دعوت دینے والا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی پیروی کی رو سے پیغمبرعلیہ الصلوۃ والسلام کا نائب ہے کیونکہ الشیخ فی قومہ  کالنبی فی امتہ کے معنی میں شیخ اپنے مریدوں میں ایسا ہے جیسے نبی اپنی امت میں کلی اورجز ئی آداب جن کی نگاہ داشت اور لحاظ مرید کو شیخ کے حضور میں لازم ہیں وہ پندرہ ہیں ۔

پہلاادب:۔مرید کو لازم ہے کہ اپنے شیخ کو مریدوں کی تربیت و ارشاد اور تادیب و تہذیب میں اس زمانے کے مشائخ سے اعلی اور اکمل جانے بلکہ یہی اعتقاد رکھے کیونکہ اگر کسی دوسرے کو اس کا ہم پلہ یا اس سے زیادہ سمجھے گا تومحبت والفت کا تعلق ضعیف اور سست ہوجائے گا ۔

بنا بریں مشائخ کرام کے اقوال اور احوال کی سرایت کا رابطہ شیخ کے ساتھ محبت رکھنے سے ہوتا ہے مرید کو اپنے شیخ کے ساتھ جس قدر زیادہ  محبت ہو گی اسی قدراس کی تربیت کی استعدا د قوی ہوتی جائے گی ۔ (یہاں یہ خیال نہ کرے کہ میرے شیخ کے سوا ادنیا میں کوئی ولی اللہ اور  خدا کا دوست نہیں ہے ۔

خاکساران جہاں رابحقارت منگر            توچہ دانی که در یں گرد سواری باشد

یعنی دنیا کے خاکساروں کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھ ۔ تجھکو کیا معلوم کراس غبار میں کوئی شہسوار پوشیدہ ہو  اس باب میں بعض احباب افراط و تفریط سے کام لیتے ہیں جو انکی ہلاکت کا باعث ہےیعنی جب انکے سامنے کسی شیخ سجادہ نشین کا ذکر ہوتا ہے تو اس کی غیبت بلکہ تحقیر کرتے ہیں یا اس کے عیوب بیان کرنے لگتے ہیں اس سے بڑھ کر انکی ہلاکت کے لیے کوئی بدی نہیں۔ کیوں کہ الغيبة أشد من الزنا یعنی غیبت زنا سے بھی زیادہ بری شے ہے بعض تو بے جھجک بول اٹھتے ہیں کہ آجکل کے فلاں سجادہ نشین یا شیخ نے دکان داری پھیلائی ہے ۔ یہ کلمہ بھی قابل غورہے گراگر وہ سجادہنشین یا شیخ باطنی تکمیل سے بے بہرہ ہے اور بظاہر بنا ہوا ہے تو اس کے مکر اور دھوکے کا حساب خداوندکریم اس سے قیامت میں لے گا ۔ چنانچہ اس حالت میں بھی غیبت درست نہیں ۔

ہر کرا جا مہ پارسا بینی    پارسادان ونیک مرد انگار

یعنی  جس شخص  کا لباس پارساؤں کا ساد یکھ اسکو پارسا اور نیک خیال کر۔

درندانی که در نهادش چیست ٍٍمحتسب را درون خانہ چه کار

اور اگر تونہیں جانتا کہ اس کے دل میں کیا ہے تو کیا حرج ہے آخر دار وغہ آبکاری کو اس کے گھریلو  معاملات سے کیاغرض ؟ اور اگر وہ باطنی کمال سے بہرہ ور ہو تو خیال کرو کہ خدا کے دوست کی غیبتت تمہیں کہاں پہنچائیگی الحذر الحذر من الغیبة غیبت سےپر ہیزکر غیبت کرنے والا اپنی تمام نیکیاں دوسرے کو دےدیتا  ہے)

دوسراادب  :۔شیخ کی صحبت کے التزام میں کمرہمت بندھی رہے یعنی طالب اپنے دل میں یہ فیصلہ کرلے کہ میرافتح الباب یعنی دینی ودنیوی سعادت اورتکمیل کا دروازہ شیخ کی صحبت اور اس کی خدمت سے کھلے گا ۔ نیز یہ بھی طے کرلے کہ شیخ کے آستانے پر اپنی جان بھی قربان کر دے گا اور منزل مقصود کو حاصل کرلے گا اس عزیمت اورثبات ہمت کی علامت یہ ہے کہ اگر شیخ اس کو رد اور دور بھی کرے تو بھی شیخ سے نہ پھرے اور نہ بے اعتقاد ہو کیونکہ مشائخ اکثر مریدوں کی ہمت کا امتحان بھی لیتے ہیں ۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ابوعثمان حیری شاہ شجاع کرمانی علیہ الرحمہ  کے ساتھ نیشاپورمیں  ابوحفص حداد رحمتہ اللہ علیہ کی زیارت کو تشریف لائے  

ابوحفص حداد  نے شیخ عثمان حیری کی پیشانی میں نور ولایت کو روشن دیکھ کر قوت القائی سے  اس کے احوال کو جذب کرلیا اور اپنی ارادت میں مقید کر دیا۔ جب شاہ کرمان  واپس ہونے لگے  تو ابو عثمان حیری نے شاہ کرمان سے کہا  کہ آپ کچھ دن  اور نیشا پور میں قیام فرمائیں تو بہتر ہے۔ابوحفص حداد نے عثمان حیری کو اپنے پاس سے اٹھا دیا اور فرمایا کہ آئیندہ ہماری مجلس میں نہ بیٹھے۔ابوعثمان اس اشارت کو قبول  کر کے پچھلے پاؤں پیچھے ہٹے یہاں تک کہ نظروں سے غائب ہو گئے ۔ لیکن آپنے دل  میں یہ ٹھان لی کہ ابوحفص حداد کے دروازے پر ایک گڑھا کھود کر بیٹھ جاؤں اور جب تک وہ باہر نکلنے کی اجازت نہ دیں اس وقت باہر نہ آؤں، جب ابوحفص حدا د نے عثمان حیری کی سچی ارادت اور بلند ہمت کا مشاہدہ فرمایا تو ان کو بلا کر بہت مہربانی فرمائی اور اپنے خواص میں داخل کیا۔ یہاں تک کہ آپ نے اپنی بیٹی کا نکاح بھی ان کے ساتھ کر دیا شیخ کی رحلت کے بعدیہی سجادہ نشین ہوئے۔

تیسرا ادب :۔ اپنی جان و مال میں تصرفات شیخ کا مانع نہ ہو ۔ جو کچھ شیخ فرمائے اسی پر راضی اور قائم رہے ،کیونکہ ارادت اور محبت کا جوہراس طریقے کے سوا کسی اور طرح ظاہر نہیں ہوسکتا اور اس کی سچائی اور ارادت کا معیار اس کسوٹی کے سوا نہیں پرکھا جا سکتا۔ چنانچہ خداوند کریم نے اپنی سچی کتاب میں فرمایا ہے ۔ ‌فَلَا ‌وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا یعنی قسم ہے آپ کے رب کی کہ یہ لوگ اس وقت تک ایمان دار نہ ہوں گے جب تک کہ ان کے درمیان جھگڑا ہو اہے اسکا فیصلہ آپ سے نہ کرا ئیں اورپھر آپ کے اس فیصلے میں اپنے دلوں میں تنگی نہ پائیں مگر اس کو پوری طرح تسلیم کرلیں ۔

چوتھا ادب  :۔شیخ کے ظاہری اور باطنی تصرفات میں اعتراض نہ کرے اور جب  شیخ کے احوال سے کسی باب میں تردد ہو اور اس بات کی صحت کومعلوم نہ کر سکے تو حضرت موسی اور خضر علیہما السلام کے واقعے پر غور کرے کہ با وجودنبوت اور کمال علم کے موسی نے خضر کے بعض تصرفات پرکیسا انکار کیا تھا اور جب موسی پران تصرفات کے راز اور حکمت کے ابواب کھولے گئے تومان گئےلہذا جس بات کے راز کو نہ سمجھ سکے اس میں اپنی سمجھ اورعلم کا قصور اور کوتاہی سمجھے تاکہ اس کی ارادت اور محبت میں کمی نہ آنے پائے کیونکہ محبت اور ارادت کے کم ہو جانے سے شیخ کے سینے سے مرید کے سینے میں فیوض کی آمدکم ہو جاتی ہے ۔ حضرت جنید رحمتہ اللہ علیہ کے ایک مرید نے آپ سے سوال کیا ۔پھر شیخ علیہ الرحمہ کے جواب پر اعتراض کیا تو آپ نے فرمایاوَإِنْ لَمْ تُؤْمِنُوا لِي ‌فَاعْتَزِلُونِ یعنی اگر تم کو مجھ پر یقین نہیں ہے تو کنارہ کشی اختیار کرد۔

پانچواں ادب :۔  دینی اور دنیوی ، کلی اورجزوی غرض تمام کاموں کو شیخ کی ارادت و اختیا ر ا و ر اجازت کے بغیر شر وع نہ کرے ۔

چھٹا ادب  :۔ شیخ  کے خطرات کی رعایت واجب ہے ، جو حرکت شیخ کو ناپسند ہے اس پراقدام نہ کرے اور اپنی اس حرکت کو شیخ کےحسن خلق، کمال حلم اور مدار عفو پراعتماد اور بھرد ساکر کےخفیف  نہ سمجھے

ساتواں ادب  :۔اپنے کشف اور واقعات کے احوال شیخ کے آگے ظاہر کرے اور ان کی صحت وسقم کے لیے صرف شیخ کے علم کی رہ نمائی تلاش کرے کشف  اور واقعات  خواہ  بیداری میں ہوں یانیند میں ، ان کوشیخ کے علم کی طرف رجوع کرے اور جب تک ان کی صحت اور اہمیت کو اچھی طرح سے نہ سمجھ لے ان کی صحت پر جلدی سے حکم نہ  کر بیٹھے کیونکہ بہت ممکن ہے کہ ان واقعات کا منبع اورجڑ مرید  کی جان  میں پوشیدہ کوئی ارادت ہوجس  سے دہ آگاہ نہیں اور بے سوچے سمجھے ان کی صحت پرحکم کر بیٹھے ، اور اس سے کوئی خلل واقع ہو، لہذاجب واقعات کو شیخ کے آگے بیان کرے گا اور شیخ اپنے علم سے ان کی ماہیت سے واقف ہو جائے گا تو مرید کو اس کی صحت سے مطلع کر دے گا ۔ اس وقت اس کو شیخ کے حکم پریقین کے ساتھ عمل کرنا چا ہیئے ۔ ورنہ شبہ توضرورہی رفع ہو جائے گا ۔

آٹھواں ادب  :۔جب شیخ  کلام کرے تو اس کے کلام کو غور سے سنے اور منتظر ہے کہ شیخ کے کلام پر کیا گزر رہا ہے۔ شیخ کی زبان کو کلام الہی کا واسطہ ووسیلہ سمجھے اور یقین کرے کہ شیخ خدا کے ساتھ ہم کلام ہے ۔ حرص و ہوا کے ساتھ کچھ نہیں کہتا اور مرتبہ بی ینطق و بی یبصر وبی یسمع ( یہ ایک حدیث قدسی کی طرف اشارہ ہے اللہ فرماتا ہے وہ بندہ میری زبان سے کلام کرتا میرے کان سے سنتا اور میری آنکھ سے دیکھتا ہے)کو پہنچاہے شیخ کے دل کوبحرمواج خیال کرے جو علم کے خزانوں اور معرفت کے موتیوں سےبھرا  پڑاہے اورجب عنائت  ازلی  کی لہر آتی ہے تو ان میں  بیش بہا جواہرات میں سے بعض کو زبان کے ساحل پر ڈال دیتا ہے ، مرید کو لازم ہے کہ ہمیشہ منتظر وحاضر رہے تاکہ شیخ کے پر فوائد کلام سے  محروم وبے نصیب نہ رہے ۔ اور اس کے کلام اور اپنےچال کے درمیان منا سبت اور متابعت دیکھے اور اپنےجی میں یہ خیال کرے کہ خد اوند تعالی کے دروازے  پرقابلیت کی زبان کے ساتھ اپنے حال کی بہتری ڈھونڈتا ہے ۔ اس کی قابلیت اور استعداد کے مطابق غیب سے خطاب وارد ہوتا ہے، شیخ کے ساتھ کلام کرنے میں اپنے نفس کی حالت کی جستجو کرے  ۔یہ نہیں کہ ریاء ا ور اظہا رعلم اور اپنی  معرفت ظاہر کرنے کی صفت سے موصوف ہوکر شیخ سے کلا م کرے اور نہ اپنے  آپ کو کمال کی صفت سے شیخ کے آگے ظاہر کرے ۔بعض مفسرین نے اس آیت کے نزول کا سبب یوں بیان کیا ہے۔

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ یعنی اے ایمان والو! اللہ اور رسول کےروبرپیش دستی نہ کر و۔

 کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کیمجلس شریف  میں بیٹھنے والے ایسے تھے کہ جب کوئی سائل آپ سےکوئی مسئلہ پو چھتا تھا تو وہ آپ کے جواب سے پہلے ہی فتوی دے دیتے تھے اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اور خدا وند کریم نے سب کو تادیب فرمائی اور ایسی سبقت سے منع فرمایا ۔

نواں ادب  : ۔ شیخ کے حضور میں اپنی آواز بلند نہ کرے کیونکہ بزرگوں کے سامنے آواز بلند کرنا بھی بے ادبی میں شامل ہے ۔ ایک دفعہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے درمیان آن حضرت ﷺ کے حضور میں کسی مسئلے میں بحث ہوئی انھوں نے آوازبلند کی اسی وقت ان کو ادب سکھانے کے لیے یہ آیت نازل ہوئی۔ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ یعنی اے ایمان والو! اپنی آواز کو حضور نبی کریم ﷺ کی آواز شریف  سے زیادہ بلند نہ کرو چنانچہ اس واقعے کے بعد جب صحابہ کلام کرتے تو اس قدر آہستہ کلام کرتے کی مشکل سے سنا جاتا تھا  بنا بریں یہ آیت نازل ہوئی  إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ أُولَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى یعنی بے شک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسول اللہ ﷺکے سامنے پست رکھتے ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ تعالی نے تقوے کے لیے خاص کر دیا۔

دسواں ادب : ۔ شیخ کے ساتھ زیادہ کلام نہ کرے کیوں کہ اس فعل سے شیخ کا رعب اس کے دل میں کم ہو جائے گا اور فیض بند ہو جائے گا ۔شیخ  کو تعظیم و احترام سے خطاب کرناچا ہئیے ۔ مثلا یا سیدی یا مولائی اوائل نبوت کے وقت صحابہ رضی اللہ  عنہم رسول اللہ ﷺ کا  اسم مبارک تعظیم سے نہیں پکارتے مثلا یا محمد یااحمد کہہ کر پکارتے تھے۔ خداوند کریم نے ان کوادب سکھانے کےلئے یہ آیت نازل فرمائی ۔ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ یعنی ان سے اس طرح  کھل کر نہ بولا کرو جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے کھل کر بات کرتے ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہوجائیں، اور تم کوخبر بھی نہ ہو ۔

بعدازاں آنحضرت ﷺ کو با رسول اللہ یانبی اللہ کہہ کرپکارا  کرتے تھے ۔ ایک دفعہ و فدبنی تمیم کی ایک جماعت رسول اللہ ﷺ کے حجرہ  مبارک پر آئی اور آپ کو باہرتشریف لانے کے لیے یوں آواز دی یا محمد  أخرج الینار اے محمد ہمارے پاس آؤ اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی ۔ إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِنْ وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّى تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ یعنی  جو لوگ حجروں کے باہر سے آپ کو پکارتے ہیں ان میں سے اکثربے عقل ہیں او راگر یہ لوگ صبر کرتے ، یہاں تک کہ آپ خود ان کے پاس باہر آجاتے تو یہ انکے لیے بہتر ہوتا ۔

 ہر ایک قول وفعل میں شیخ  کی تعظیم وتکریم واجب ہے۔ اپناسجادہ  شیخ کے سامنے نہ  ڈالے سو ا نماز کے وقت کے سماع (محفل)کے وقت جہاں تک ممکن ہو حرکت اور آواز نکالنے سے پر ہیز کرے شیخ کے سامنے ہنسی بھی  نہ کرے ۔

گیارہواں  ادب : ۔ جب شیخ سے گفتگو کرنا چاہے خواہ وہ دینی ہو یاد نیوی پہلے  یہ سمجھ لے کہ شیخ کو اس کی بات سننے کی فرصت بھی ہے یا نہیں اور جب کلام کرے تو جلدی نہ کرے ۔

بارہواں ادب : ۔ شیخ کے حضور میں اپنے مرتبے کی حد پر نگاہ رکھےجس حالت اور مقام سے واقف نہیں ہے اس کی بابت کلام نہ  کرے ۔

تیرھواں  ادب : ۔ شیخ کے بھید کو ظاہر نہ کرے جن کرامتوں اور واقعات کو شیخ چھپاتا ہے اگر ان سے واقف ہو جائے  تو ظاہر نہ کرے ممکن ہے کہ شیخ ان اسرار کو بعض دینی مصالح کی بنا پر پوشیدہ رکھنا چاہتا ہو کہ اگر وہ  ظاہر ہو جائیں توباعث فساد ہوں۔

چودھواں ادب : ۔ اپنے راز شیخ سے نہ چھپائے جوکرامت اور موہبت خداوندکریم کی جانب سے عنایت ہوئی ہو اس کو شیخ کے آگے بیان کرے کیونکہ اس سے آئیندہ بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔

پندرہواں ادب : ۔اگر اپنے شیخ کی کسی بات کوئی دوسرے آدمی کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہے تو سننے والے کی سمجھ کے مطابق بیان کرے اورجس بات کو عوام نہ سمجھ سکیں ، ان کے بیان کرنے سے کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے کیونکہ ممکن ہے کہ سننے والے کا عقید ہ شیخ کی نسبت فاسد ہوجائے ۔ اسی واسطے پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کلموا الناس على قدر عقولھم  ولا تكلموا الناس على قدر عقولكم ودعوما ینکرون اتریدون ان یكذب الله ور سولہ یعنی لوگوں سے ان کی عقل کے موافق کلام کرو ۔ اپنی عقل کے موافق کبھی گفتگو نہ کر یں جس  بات سے وہ منکر ہوں، اس کو چھوڑ دو کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ اور رسول کی تکذب ہو۔یعنی  تمہاری بات کو نہ سمجھیں گے تو اپنے دل میں کچھ کا کچھ سمجھ کر کیا عجب ہے کہ خدا اور رسول کی بھی تکذیب  کربیٹھیں لہذا ایسی بات کہو ، اور اس   طرح کہو کہ اس کو خالص وعام سمجھ سکیں۔ 

رسالہ: – آداب الشيخ  شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ،تجلیات سہروردیہ صفحہ 51 مرکز علم و فن زریاب کالونی پشاور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں