شیعہ کا جنازہ پڑھنے پڑھانے والےکیلئے اعلیٰحضرت کا فتویٰ

اعلٰی حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت ، عظیمُ البَرَکت، مُجَدِّدِ دِین ومِلَّت، حضرتِ علامہ مولٰینا شاہ امام احمد رَضا خان رحمۃ اللہ علیہ فاضل بریلی

فتاویٰ رضویہ جلد 9مسئلہ نمبر 36پر حکیم محمد تفاضل حسین کے سوال اہل شیعہ کی نمازِ جنازہ پڑھنا اہلسنّت وجماعت کے لئے جائز ہے یا نہیں اور  پڑھنے والےکے لئے شرعی حکم کیاہے۔کے جواب میں فرماتے ہیں

جنازہ پڑھنے والے کیلئے حکم

الجواب:۔اگر رافضی ضروریاتِ دین کا منکر ہے، مثلاً قرآن کریم میں کُچھ سوُرتیں یا آیتیں یا کوئی حرف صرف امیرا لمؤمنین عثمان ذی النورین غنی رضی اﷲ تعالٰی  عنہ یا اور صحابہ خواہ کسی شخص کا گھٹایا ہوا مانتا ہے۔یا مولیٰ  علی کرم اﷲ وجہہ الکریم خواہ دیگر ائمہ اطہار کوا نبیائے سابقین علیہم الصّلوۃ والتسلیم میں کسی سے افضل جانتاہے۔ اور آجکل یہاں کے رافضی تبرائی عموماً ایسے ہی ہیں اُن میں شاید ایک شخص بھی ایسا نہ نکلے جو ان عقائدِ کفریہ کا معتقدنہ ہو جب تو وہ کافر مرتدہے اور اس کے جنازہ کی نماز حرام قطعی وگناہ شدیدہے۔اﷲ عزوجل فرماتا ہے: وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ (التوبہ:84) اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا ، بیشک اللہ اور رسول سے منکر ہوئے اور فسق ہی میں مرگئے  ۔

اگر ضروریاتِ دین کا منکر نہیں مگر تبرائی(گالی گلوچ کرنے والا) ہے تو جمہور آئمہ وفقہا کے نزدیک اس کا بھی وہی حکم ہے  جیسا کہ خلاصہ ، فتح القدیر ، تنویر الابصار ، درمختار ، ہدایہ وغیرہا عام کتب میں ہے۔اور اگر صرف تفضیلیہ (حضرات ابوبکر ،عمر اورعثمان پر فضیلت دینے والا)ہے تو اُس کے جنازے کی نماز بھی نہ چاہتے، متعدد حدیثوں میں بد مذہبوں کی نسبت ارشاد ہوا: وَإِنْ مَاتُوا ‌فَلَا ‌تَشْهَدُوهُمْ (مسند احمد حنبل)وُہ مریں تو ان کے جنازہ پر نہ جائیں۔ وَلاَ تُصَلُّوا عَلَيْهِمْ(السنن الکبریٰ البیہقی)انکے جنازے کی نمازنہ پڑھو۔ نماز پڑھنے والوں کو توبہ استغفار کرنی چاہئے۔

اوراگر صورت پہلی تھی یعنی وہ مُردہ رافضی منکرِ بعض ضروریاتِ دین تھا اور کسی شخص نے باوجود اس کے  کہ حال سے مطلع(جانتا) تھا دانستہ(جان بوجھ کر) اس کے جنازے کی نماز پڑھی اُس کے لئے استغفار کی جب تو اُس شخص کی تجدید اسلام اوراپنی عورت سے ازسر نو نکاح کرنا چاہئے۔ فی الحلیۃ نقلاعن القرا فی  واقرہ إنَّ الدُّعَاءَ ‌بِالْمَغْفِرَةِ ‌لِلْكَافِرِ كُفْرٌ لِطَلَبِهِ تَكْذِيبَ اللَّهِ تَعَالَى فِيمَا أَخْبَرَ بِهِ(البحر الرائق شرح كنز الدقائق)حلیہ میں قرافی سے نقل کیا اوراسے برقرار رکھا کہ: کافر کے لئے دُعائے مغفرت کفر ہے کیونکہ یہ خبر الٰہی کی تکذیب کا طالب ہے۔

جنازہ پڑھانے والے کیلئے حکم

اور مسئلہ نمبر 37:  محمد خلیل اﷲ کے  اس سوال پر کہ ایک شخص جو شیعہ اثناء عشری مذہب رکھتا ہے اور کلمہ لا الٰہ الاﷲ محمدرسول اﷲ علی خلیفۃ بلا فصل وغیرہ اعتقاداتِ مذہبِ شیعہ کا معتقد ہے فوت ہوا ہے اُس کا جنازہ ہمارے امام حنفی المذہب جامع مسجدنے پڑھایا اوراس کو غسل دیا، نیز اس کے ختم میں شامل ہوا، شیعہ جماعت نے امام مذکور کے نمازِ جنازہ پڑھانے کے بعد دوبارہ شیعہ امام سے متوفی مذکور کی نماز جنازہ پڑھائی۔ کیا امام مذکور حنفی المذہب کا یہ فعل ائمہ احناف کے نزدیک جائز ہے۔ اگر ناجائز ہے تو کیا امام صاحب مذکور کا یہ فعل شرعاً قابلِ تعزیر ہے اور کیا تعزیر ہونی چاہئے؟

الجواب:۔صورتِ مذکورہ میں وُہ امام سخت اشد کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوا، اُس نے حکمِ قرآنِ عظیم کا خلاف کیا، قال اﷲ تعالٰی : وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا (التوبہ:84) اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز نہ پڑھنا۔

تعزیر یہاں کون دے سکتا ہے، اس کی سزا حاکمِ اسلام کی رائے پر ہے، وُہ چاہتا تو پچھتر کوڑے لگاتا اور چاہتاتو قتل کرسکتا تھا کہ اُس نے مذہب کی توہین کی۔ اُس کے پیچھے نماز جائز نہیں اور اسے امامت سے معزول کرنا واجب  ہے۔

تبیین الحقائق وغیرہ میں ہے : وَلِأَنَّ فِي ‌تَقْدِيمِهِ لِلْإِمَامَةِ تَعْظِيمَهُ وَقَدْ وَجَبَ عَلَيْهِمْ إهَانَتُهُ شَرْعًا (تبیین الحقائق    )۔ اس لئے کہ اسے امام بنانے میں تعظیم ہے جبکہ شرعاً ان پر اس کی اہانت واجب ہے۔

فتاوٰی  حجہ و غنیہ میں ہے: لوقد موافاسقایاثمون(غنیۃ المستملی فصل فی الامامۃ) (اگر لوگوں نے کسی فاسق کو امام بنایا تو گنہگار ہوں گے۔)

یہ سب اس صورت میں ہے کہ اس نے کسی دنیوی طمع سے ایسا کیا ہو، اگر دینی طور پر اسے کارِ ثواب اور رافضی تبرائی کو مستحق غسل ونماز جان کر یہ حرکاتِ مردودہ کیں تو وُہ مسلمان ہی نہ رہا۔ اگر عورت رکھتا ہو اس کے نکاح سے نکل گئی کہ آجکل رافضی تبرائی عموماً مرتدین ہیں جیسا کہ ہم نے اپنے رسالہ ”ردالرفضہ” میں اس کی تحقیق کی ہے۔اوربحکم فقہائے کرام تو نفسِ تبرا کفر ہے جیسا کہ خلاصہ اور فتح القدیر وغیرہ بہت سی کتابوں میں ہے۔ نہ کہ نمازِ جنازہ  جیساکہ الاعلام بقواطع الاسلام میں ہے اور ہم نے اسے اپنے فتاوٰی  میں بیان کیا ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔

حوالہ :۔فتاوی رضویہ جلد 9،صفحہ 172 تا174، امام احمد رضا خان  بریلوی ،رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ  لاہور

ایصال ثواب دعا و فاتحہ کا حکم

مسئلہ258: محمد حسن یار خان کے سوال پر کہ اگر کوئی مسلمان کسی کافر یا مشرک یا رافضی(شیعہ) کو قرآن خوانی اور کسی ذریعہ سے ایصال ثواب کرے تو اس کافر یا مشرک یا رافضی کو ثواب پہنچے گا یا نہیں؟ اور ایصال ثواب کرنے والے کی بابت کیا حکم ہے؟

الجواب:۔کافر خواہ مشرک ہو یا غیر مشرک جیسے آج کل کے عام رافضی کہ منکرانِ ضروریات دین ہیں، اسے ہرگز کسی طرح کسی فعل خیر کا ثواب نہیں پہنچ سکتا، قال اﷲ تعالٰی وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ ‌خَلَاقٍ (البقرہ:200)اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: اور ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔)

اور انھیں ایصال ثواب کرنا معاذ اﷲ خود راہ کفر کی طرف جانا ہے کہ نصوص قطعیہ کو باطل ٹھہرانا ہے۔ رافضی تبرائی کا فقہائے کرام کے نزدیک یہی حکم ہے، ہاں جو تبرائی نہیں جیسے تفضیلی، انھیں ثواب پہنچ سکتاہے اور پہنچانا بھی حرام نہیں جبکہ ان سے دینی محبت یا ان کی بدعت کو سہل وآسان سمجھنے کی بنا پر نہ ہو، ورنہ إِنَّكُمْ ‌إِذًا ‌مِثْلُهُمْ  یہ بھی انھیں میں شمار ہوگا۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔

حوالہ :۔فتاوی رضویہ جلد 9،صفحہ 650، امام احمد رضا خان  بریلوی ،رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ  لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں