وجود ابلیس کے اصولی مظاہر

وجود ابلیس کے اصولی مظاہر

ابلیس نفس کی جہت جلالی و گمراہی کا مظہر ہے اور اُسے انسان پر نفس ہی کے وسیلہ سے کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ شیاطین ابلیس کی اولاد ہیں۔ ابلیس نے نفس طبیعیہ پر قابو پا کر عادات حیوانیہ کی دُنیا میں دل کی شہوانی آگ سے نکاح کیا تو شیاطین الانس والجن پیدا ہوئے اور بہ نسبت شیاطین جن کے شیاطین انس زیادہ قوی اور زیادہ خطرناک ثابت ہوئے۔

ابلیس کے تعلق سے صوفیائے کرام بیان کرتے ہیں کہ ابلیس کے وجود میں بے شمار تنوعات کے ساتھ ننانوے مظاہر ہیں جن کے اصولی مظاہر سات ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔

1:  دنیا و مافیہا

۔ اس میں ابلیس کفار ومشرکین پر ظاہر ہوتا ہے یعنی اگرکسی انسان کے پاس وہ دنیا و مافیہا کے راستے سے آرہا ہے تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ وہ کفرو شرک کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اسی لیے ابلیس نے اس کے پاس آنے کے لیے یہ دروازہ منتخب کیا ہے۔ دنیا و مافیہا کی رغبت، کفر و شرک میں مبتلا ہونے کا پیش خیمہ ہے ۔

2:طبیعت ، شہرت، لذت

اس میں اہلیس عام مسلمانوں پر ظاہر ہوتا ہے۔ اس راستے سے اگر وہ کسی کے پاس آرہا ہے تو اس کو سمجھ لینا چاہئے کہ اب اس کے اسلام کی خیر نہیں۔ اسے فورا شہوت ولذت کے راستے سے ہٹ جانا چاہیئے ور نہ عین ممکن ہے کہ اسلام کی نقد جنس اس کے ہاتھ سے جاتی رہے ۔

3:عجب

۔ اس میں وہ نیک اور بھلے لوگوں پر ظاہر ہوتا ہے ۔ اس کی علامت یہ ہے کہ انھیں اپنے نیک اوربھلے اعمال بہت اچھے معلوم ہونے لگتے ہیں۔ اور وہ خود کو عام مسلمانوں سے برتر سمجھنے لگتے ہیں۔ انھیں اپنی عظمت اور بڑائی کا وہم ہو جاتا ہے اور پھر ابلیس اس وہم کو اس قدر بڑھاتا ہے کہ اعمال صالحہ میں تخفیف شروع ہو جاتی ہے اور رفتہ رفتہ یہ لوگ بد اخلاقی، بد گمانی، غیبت ، فسق و فجور اور خاندانی فخر و غرور میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ بالعموم ہر مسلمان کو اور بالخصوص سالک کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رکھنی چاہئیے کہ عجب و غرور ہی وہ اخلاق ہے جس کی وجہ سے ابلیس کو بارگاہ رب العزت سے مردود قرار دیا گیا۔ یہ اخلاق اختیار کر کے دنیا میں آج تک کوئی بھی سرخرو نہ ہو سکا جو سرا اٹھا کر چلتا ہے، اس کی گردن توڑ دی جاتی ہے۔ یہی قانون قدرت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غرور اللہ تعالیٰ کی چادر ہے جو صرف اسی ذات کبریا یہ زیب دیتی ہے ۔  اس نے فرمایا ہے ۔

التكبر ردائی فمن جلبنى ادخله النار

غرور میری چادر ہے ، جو اس کو کھینچے گا میں اس کو جہنم میں جھونک دوں گا

ابلیس نے یہی چادر گھسیٹنے کی کوشش کی تھی۔ نتیجہ کیا نکلا

تکبر عزازیل را خوار کرد

به زندان لعنت گرفتار کرد

تکبر نے عزازیل (ابلیس) کو ذلیل و خوار کر کے لعنت کے قید خانے میں گرفتار کر دیا

صوفیاء نے تواضع کو تصوف کے بنیادی اصولوں میں شامل کر کے بتایا ہے کہ عجب و غرور کی راہ پر چلنے والے کے لیے طریقت کا ہر دروازہ بند ہوتا ہے۔ –

4:ریاء

۔ اس میں ابلیس عابدوں اور زاہدوں پر ظاہر ہوتا ہے۔ ان کے دل میں یہ بات ڈال دیتا ہےکہ تم اللہ والے ہو۔ اپنے نیک اعمال کو لوگوں مین ظاہر کرو تاکہ لوگ  تمہارے مرید. اور معتقد بنیں۔ اور تمہاری پیروی کر کے ہدایت کی راہ بھی پائیں اور تم اللہ والے بھی کہلاؤ اس طرح ان عابدوں اور زاہدوں کی نیتیں فاسد  ہوجاتی ہیں اور ان کا عمل باعث ثواب ہونے کے بجائے باعث عذاب بن جاتا ہے ۔

5: علم کا خناس

اس میں وہ علماء پر ظاہر ہوتا ہے علماء کو بہکانا جہاں مشکل ہے وہاں ایک جاہل کی بہ نسبت آسان بھی ہے۔ کیونکہ علماء کا ایمان بالعموم علم استدلال اور عقل استدلالی کے سہارے قائم رہتا ہے۔ جبکہ ایک جاہل کا ایمان ” عشق کے سہارے قائم رہتا ہے اور عشق میں چوں چراں کی گنجائش نہیں ہوتی ۔ ایک عاشق کے پاس قال الله وقال الرسول ہی اصل ہے۔ عقل خواہ اس کی کتنی ہی مخالفت کرتی رہے ،اس کی بلا سے ۔ دراصل عشق کی راہ میں عقل استدلالی کو خیر باد کہہ دینا ” صدیقین کی صفت ہے. جن کا مقام و مرتبہ انبیاء سے چھوٹا اور باقی تمام اولیاء سے بڑا ہوتا ہے۔ لہذا جو شخص بھی عقل استدلالی کو رخصت کر کے عشق کے سہارے چلتا ہے تو حق تعالیٰ صدیقین کے نور ایمانی کا پرتو اس کے دل پر چمکا دیتا ہے۔ اور اس کا بیٹرا پار ہو جاتا ہے۔ علماء کو ابلیس اس طور سے بہکاتا ہے کہ ان کے دماغوں میں علم کا خناس بٹھاتا ہے اور انہیں سمجھاتا ہے کہ تم اپنے وقت کے بہت بڑے عالم فاضل ہو۔ پھر یہ غرور علمی راہ حق میں ان کے لیے سنگ گراں بن جاتا ہے ۔ اور حق کو قبول کرنے نہیں دیتا ۔

6: عادات اور طلب راحت

اس میں ابلیس طالبان حق اور سالکان طریقت پر ظاہر ہوتا ہے اور ان کی ہمتوں کو شدت عبادت میں تھکا ڈالتا ہے تاکہ وہ تھک ہار کر اپنا راستہ ترک کریں اور نفس و طبیعت کی طرف پلٹ آئیں۔ اس طرح عبادات کے وقت کسل پیدا کرتا ہے۔ شب بیداری کا عزم کلیجے تو نیند کو غالب کردے گا ۔ نفلوں کی نیت کیجئے توشستی کو غالب کردے گا وغیرہ وغیرہ۔

7:معارف الہیہ میں التباس

اس میں ابلیس، اولیاء اللہ اور عارفین پر ظاہر ہوتا ہے، اعتقادات ، تجلیات اور فہم میں التباس کرتا رہتا ہے ۔ انبیائے کرام کے علاوہ کوئی فرد بشر بھی اس سے محفوظ نہیں ۔ بڑے سے بڑے ولی کے پاس بھی یہ اپنی کارگزاریاں جاری رکھتا ہے۔ مقربین اس کے مکائد کو پہچان لیتے ہیں۔ ایسی باریک چالوں سے ان کے پاس جاتا ہے کہ اس کی چالوں کو سمجھنا صرف اولیاء اللہ کا ہی حصہ ہوتا ہے ۔ عام آدمی تو اس کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا ۔ انہی مظاہر کی قوتوں کی بناء پر اس نے قسم کھائی تھی کہ

” اے رب قسم ہے تیری عزت کی میں انسانوں کو ضرور گمراہ کر کے چھوڑوں گا

اس سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہر وقت انسان اللہ تعالی کی پناہ میں رہے یہی بڑی مضبوط پناہ گاہ ہے جہاں سے انسان کو گھسیٹ  کرنکالنا اس کے بس میں نہیں۔ اعوذ بالله من الشیطان الرحيم کا یہی مفہوم ہے

ابلیس کے آلات

ابلیس کے پاس گمراہ کرنے کے حسب ذیل آلات ہوتے ہیں:

(1) غفلت: یہ اُس کی تلوار ہے۔

(2) شہوت یہ اُس کا تیر ہے۔

(3) ریاست: یہ اُس کا قلعہ ہے۔

(4) جہل یہ اُس کی سواری ہے۔

(5) لہو ولعب : شرابیں اور فضول قصے کہانیاں ، یہ اس کے ہتھیار ہیں۔

(6) عورتیں: یہ اُس کا گروہ ہیں جن سے زیادہ زبردست ہتھیار اس کے قبضہ میں اورکوئی نہیں۔

پھر اس کے حملہ کرنے کے خاص خاص موسم اور خاص خاص اوقات بھی ہیں جن میں اس کی مصروفیت بڑھ جاتی ہے اور اسے کامیابیاں زیادہ ہوتی ہیں۔ منجملہ ان کے رات ہے۔ اور غصہ کا وقت ہے۔ اور تہمت کا وقت ہے اور جھگڑے کا وقت ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں