مسجد میں نماز جنازہ کی ادائیگی

مسجد میں نماز جنازہ کی ادائیگی

مسجد میں نماز جنازہ کے عذرات

موجودہ دور میں مسجد میں نماز جنازہ کے  حالات و واقعات تبدیل ہورہے ہیں جن میں
آبادی کا گنجان ہونا
آبادی میں جنازہ کیلئے پاک جگہ نہ ہونا
سڑک یا شاہراہ پر نماز جنازہ کا ادا کیا جانا
ٹریفک کے رکنے سے عوام الناس کو تکلیف برداشت کرنا
سخت دھوپ یابارش کی وجہ سے کھلی جگہ نماز جنازہ پڑھنے میں تکلیف ہونا
ایسے مسائل ہیں جن کی وجہ سے مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنے کیلئے اکثر سوالات جنم لیتے ہیں مفتیان کرام کے فتوی کی روشنی میں جوابات کا خلاصہ پیش خدمت ہے

اصل سنت اور فقہ حنفی

نبی کریم ﷺ کی سنت اورفقہ حنفی کے مطابق نماز جنازہ مسجد میں ادا کرنا مکروہ ہے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے زمانے میں معمول یہی تھا کہ
مَا كَانَتِ الْجَنَائِزُ يُدْخَلُ بِهَا الْمَسْجِدَ (صحیح مسلم کتاب الجنائز)
جنازوں کو مسجد میں نہیں لایا جاتا تھا۔
اہلِ علاقہ کو چاہیئے کہ وہ مسجد کے علاوہ، جنازہ کے لیے کسی جگہ کا انتظام کریں، اگر مستقل جنازہ گاہ کی گنجائش نہ ہو تو کسی بھی کھلی اور پاک جگہ پر نمازِ جنازہ ادا کی جاسکتی ہے، مثلًا: کسی کمیونٹی ہال یا کھیل کے میدان وغیرہ میں۔ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کا مستقل معمول کھلے میدان (عیدگاہ/ جنازہ گاہ) میں نمازِ جنازہ ادا کرنے کا تھا، اس لیے سنت اور افضل یہ ہے کہ جنازہ مسجد سے باہر ادا کیا جائے۔

سڑکوں یا ناپاک جگہوں کی صورت میں

اگر کوئی مناسب مخصوص جگہ ہو تو لازم ہے کہ نماز جنازہ وہاں ادا کیا جائے مسجد میں نہ ادا کیا جائے لیکن مخصوص جگہ نہ ہونے یا سڑک وغیرہ پر ادا کرنے،،اور بیان کردہ عذر شرعیہ کی صورت میں مسجد میں نہ صرف نماز جنازہ جائز بلکہ افضل ہے اس میں ایک بہتر صورت تو یہ ہے کہ میت (چارپائی)مسجد سے باہر ہو اگر میت مسجد میں بھی ہو پھر بھی نماز جنازہ راستے یا سڑک کے مقابلے میں مسجد میں پڑھناافضل ہے ۔

سڑک یا شاہرہ کا حکم

سڑک یا شاہراہ پر نماز جنازہ ادا کرنا چاہےعذر ہو یا نہ ہو مکروہ تحریمی ہےبالفرض شاہراہ پاک ہو اور بغیر جوتوں کے نماز پڑھی جائے تو بھی مکروہ تحریمی ہے۔حدیث شریف میں ہے:
عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى أَنْ يُصَلَّى فِي سَبْعَةِ مَوَاطِنَ فِي الْمَزْبَلَةِ، وَالْمَجْزَرَةِ، وَالْمَقْبَرَةِ، وَقَارِعَةِ الطَّرِيقِ، وَفِي الْحَمَّامِ، وَفِي مَعَاطِنِ الإِبِلِ، وَفَوْقَ ظَهْرِ بَيْتِ اللَّهِ (جامع الترمذی ،ابوب الصلاۃ )
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے سات مقامات میں صلاۃ پڑھنے سے منع فرمایا ہے: کوڑا کرکٹ ڈالنے کی جگہ میں ، مذبح میں، قبرستان میں ، عام راستوں پر،حمام (غسل خانہ )میں اونٹ باندھنے کی جگہ میں اور بیت اللہ کی چھت پر۔
فتاوی شامی میں ہے
وَتُكْرَهُ أَيْضًا ‌فِي ‌الشَّارِعِ وَأَرْضُ النَّاسِ حاشیۃ ابن عابدين جلد2 صفحہ 225
نماز جنازہ شارع عام اور عام لوگوں کی زمین پر مکروہ ہے۔
علامہ شامی نے کتاب الجنائز تتمہ میں بیان کیا ہے کہ ہمارے شہروں میں لوگ نماز جنازہ مسجد میں پڑھتے ہیں اس لئے کہ جنازہ گا ہیں ختم ہو گئیں۔ مسجد کے علاوہ جگہ کا میسر ہونا مشکل ہے یا ناممکن لیکن بعض جگہ نماز جنازہ شاہراہ پر پڑھی جاتی ہے، جس سے نماز کا فاسد ہونا لازم آتا ہے۔ عموم نجاست کی وجہ سے سڑکیں نجس ہیں اور نجس جوتے اتارے نہیں جاتے ، ویسے بھی شاہراہ پر نماز جنازہ مطلقا مکروہ تحریمی ہے ۔ کسی بھی مسئلہ میں تنگی کے وقت وسعت دی جاتی ہے۔ اور اگر نماز جنازہ کیلئے جگہ کا نہ ہونایا مشکل ہونا عذر شمار کیا جائے تو (مسجد میں)بالکل کراہت نہیں نہ تحریمی نہ تنزیہی لہذا مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا بلا کراہت جائز ہے۔( حاشيۃابن عابدين جلد2/صفحہ226)

فرائض نماز اور نماز جنازہ میں فرق

نمازِ جنازہ ادا کرنے کیلئے وہی شرطیں ہیں جو مطلق نماز کی ہیں ان میں سے بدن کپڑے اور جگہ کا پاک ہونا بھی شرائط ہیں ان شرائط کیلئے سڑک کے مقابلے میں مسجد افضل و اولی ہے کیونکہ سڑکیں دکھائی دینے اور نہ دکھائی دی جانے نجاست کی وجہ سے نجس ہوتی ہیں اور نماز جنازہ کی شرائط میں سے ہے کہ قد موں کی جگہ پاک ہو
وَإِنْ كَانَتْ النَّجَاسَةُ ‌فِي ‌مَوْضِعِ ‌قِيَامِهِ فَصَلَاتُهُ فَاسِدَةٌ(المبسوط للسرخسي۔1/ 204)
اگر قیام کی جگہ میں نجاست ہو تو نماز فاسد ہو جائے گی۔
اسی طرح اگر جوتوں کے ساتھ نماز جنازہ ادا کی جائے تو مکمل طہارت نہ ہونے کی وجہ سے بھی نماز فاسد ہوگی۔
اگر وہ جگہ پیشاب وغیرہ سے ناپاک تھی یا جن کے جوتوں کے تَلے ناپاک تھے اور اس حالت میں جوتا پہنے ہوئے نماز پڑھی تو ان کی نماز نہ ہوئی۔ احتیاط یہی ہے کہ جوتا اتار کر اس پر پاؤں رکھ کر نماز پڑھی جائے کہ زمین یا تَلا اگر ناپاک ہو تو نماز میں خَلل نہ آئے۔(فتاویٰ رضویہ،ج 9،ص188)(جن گلیوں میں پیشاب لید گٹر اورلیٹرین کا پانی ہو وہاں چلنے والے کا جوتا ناپاک ہی تصور ہوگا ) غیر مذبوحہ( انسان ،کتے، بلی) کا پیشاب نجاست شمار ہوتا ہےاور نجاست نماز کو فاسد کرتی ہے
وإن لم تكن مذبوحة ‌فصلاته ‌فاسدة۔(خزانۃ المفتين – قسم العبادات،ص208 )

بارش اور غیر لوگوں کی زمین

فقہ حنفی کی مشہور کتاب میں ہے
بارش وغیرہ کے عذر سے مسجد میں نماز پڑھنا مکروہ نہیں ۔ راستہ میں اور غیر لوگوں کی زمین میں جنازہ پڑھنا مکروہ ہے لیکن جو مسجد کہ جنازہ کی نماز کی واسطے بنائی جائے اس میں نماز پڑھنا مکروہ نہیں(فتاوی عالمگیری کتاب الصلاۃ جلد 1 صفحہ 409)

مسجد میں کراہت کی وجہ

ایسے فتاوی بھی موجود ہیں جن میں کہا گیا کہ میت مسجد سے باہر ہو یا اندردونوں صورتوں میں نماز جنازہ مکروہ ہے جو اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا بریلوی اور دیگر احناف کی کتب میں مذکور ہیں ان کا تعلق ایسی صورتوں کے ساتھ ہے، جہاں مساجد کے علاوہ پاک جگہیں نماز جنازہ پڑھنے کے لئے میسر ہوں ایسی صورت میں اکثر احناف کے نزدیک مسجد میں نماز جنازہ مکروہ ہے۔ مگر ایسی صورت میں بھی علامہ شامی اور ابن ہمام کے نزدیک نماز جنازہ مکروہ تحریمی نہیں بلکہ مکروہ تنز یہی ہے جس کو ہم خلاف اولیٰ کہیں گے۔
واضح ہو کہ مکروہ یا غیر مکروہ کا اختلاف مسجد میں بلا عذرنماز جنازہ پڑھنے میں ہے۔ عذر کی حالت میں بالا تفاق کوئی کراہت نہیں ۔
احناف کے نزدیک میت اگر مسجد میں ہو، نماز جنازہ مسجد میں پڑھی جائے۔ امام اور قوم مسجد میں ہوں تو نماز مکروہ ہے۔ اس کی وجہ کہ کوئی عذر نہ ہو ۔ اس میں احناف کے دو قول ہیں۔ اکثر کے نزدیک مکروہ تحریمی ہے۔ محققین کے نزدیک مکروہ تنزیہی ہے۔ جس کا مطلب خلاف اولی ہے۔
علامہ شامی فرماتے ہیں مناسب یہی ہے کہ فتوی (مکروہ تنزیہی) پر دیا جائے
اورعلامہ ابن ہمام فرماتے ہیں ۔
ثُمَّ هِيَ كَرَاهَةُ ‌تَحْرِيمٍ ‌أَوْ ‌تَنْزِيهٍ رِوَايَتَانِ، وَيَظْهَرُ لِي أَنَّ الْأَوْلَى كَوْنُهَا تَنْزِيهِيَّةً (فتح القدير للكمال ابن الهمام وتكملته جلد2صفحہ 128)
پھر یہ کراہت تحریمی ہے یا تنزیہی اس میں دو روایتیں ہیں میرے لئے ظاہر یہ ہے کہ بہتر کرا ہت تنزیہی ہے۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اشعۃ اللمعات جلد دوم صفحہ 846 میں لکھا ہے کہ مسجد میں جنازہ مکروہ تنزیہی ہے۔

عذر اورغیر عذر کی صورت

علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ احناف اور شوافع کا اختلاف اگر سنت میں ہے تو صحیح یہ ہے کہ میت کو مسجد میں رکھ کر جنازہ کی نماز پڑھنا سنت نہیں یعنی سنت دائمہ مستمر ہ (ہمیشگی)نہیں۔ بے شمار مسلمانوں کے جنازے حضور نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ نے مسجد سے باہر پڑھے۔ لہذا افضل یہ ہے کہ بلا عذر شرعی نماز جنازہ مسجد میں نہ پڑھی جائے اور اگر اختلاف مباح اور عدم مباح میں ہے کہ شوافع کے نزدیک مسجد میں نماز جنازہ مباح ہے اور احناف کے نزدیک مکروہ ہے۔ اگر کراہت تحریمی مراد ہے تو حق اس کے خلاف ہے لہذا حق یہ ہے مسجد میں نماز جنازہ جبکہ میت مسجد میں ہومکروہ تنزیہی ہے اگر عذر ہو تو یہ کراہت بھی نہیں ہے۔ واضح ہوا اگر میت مسجد سے خارج ہو تو مطلقاً کراہت نہیں ہے یہیں ہمار ا فتوی ہے۔ملخص از (فتح القدیر باب الجنائز)

تلویث مسجد

میت کو مسجد سے باہر اس لئے رکھتے ہیں کہ مسجد میں تلویت(آلودگی) نہ ہو۔ اگر تلویث مسجد کا خطرہ نہیں میت صحیح حالت میں ہے تو مسجد میں میت رکھ کر نماز جنازہ ادا کرنا بھی جائز ہے اور سنت سے ثابت ہے۔
اگرتلویث مسجد کا کوئی امکان نہ ہو تو نماز جنازہ بلا کراہت مسجد میں جائز ہے۔ مسلمان قابل احترام ہے زندہ ہو یا مردہ۔ اگر اس کا جسم صاف نہ ہو تو مسجد اس کا آنا جائز نہیں خواہ زندہ ہو جیسے جنبی، حائض، نفساء یا وہ میت جس کے جسم سے کچھ نکلتا ہو یا بدبو آنے لگے۔

مسجد میں نماز جنازہ کی احادیث

أَنَّ عَائِشَةَ لَمَّا تُوُفِّيَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَتِ: ادْخُلُوا بِهِ الْمَسْجِدَ حَتَّى أُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَأُنْكِرَ ذَلِكَ عَلَيْهَا فَقَالَتْ: وَاللهِ لَقَدْ صَلَّى رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى ‌ابْنَيْ ‌بَيْضَاءَ فِي الْمَسْجِدِ سُهَيْلٍ وَأَخِيهِ (صحيح مسلم کتاب الجنائزوباب الصلاة على الجنازة في المسجد)
جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا انہیں مسجد میں لاؤ تاکہ میں بھی ان پر نمازِ جنازہ پڑھ سکوں۔ اس پر تامل کیا گیا۔ آپ نے فرمایا، خدا کی قسم رسول اﷲ ﷺ نے بیضاء کے دو بیٹوں سہیل اور ان کے بھائی پر مسجد میں نمازِ جنازه پڑھی ہے۔
دوسری روایت میں ہے کہ تمام ازواج مطہرات کے مطالبہ پر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا جنازہ مسجد میں ادا کیا گیا، ان عصمت مابوں کو جب خبر پہنچی کہ لوگوں نے اسےبرا کہا اور کہا کہ جنازے مسجدوں میں داخل نہیں کیے جاتے، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کو یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا:
‌مَا ‌أَسْرَعَ ‌النَّاسَ إِلَى أَنْ يَعِيبُوا مَا لَا عِلْمَ لَهُمْ بِهِ، عَابُوا عَلَيْنَا أَنْ يُمَرَّ بِجِنَازَةٍ فِي الْمَسْجِدِ، وَمَا صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سُهَيْلِ ابْنِ بَيْضَاءَ إِلَّا فِي جَوْفِ الْمَسْجِدِ(صحيح مسلم کتاب الجنائزباب الصلاة على الجنازة في المسجد)
لوگ جس بات کو جانتے نہیں کتنی جلدی اس پر عیب لگا دیتے ہیں۔ ہم پر عیب لگا کہ مسجد میں جنازہ لایا گیا ہے۔ حالانکہ سہیل بن بیضاء پر رسول اﷲ ﷺ نے مسجد میں ہی تو نماز جنازہ ادا فرمایا تھا۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں