ارشاد المرشد

ارشاد المرشد

علامہ مفتی محمد مجیب اشرف

ارشاد المرشد یعنی بیعت کی حقیقت

نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُولِهِ الْكَرِيمِ
اما بعد !

فَاعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ.
إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ.صَدَقَ اللهُ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ.
إِنَّ اللهَ وَمَلٰئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْليماً . اللّٰهُمَّ صَلَّ عَلَى سَيِّدِنَا وَ مَوْلٰینَا مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِهٖ وَأَصْحَابِهٖ وَبَارِكْ وَسَلِّمْ صَلوةً وَسَلٰمًا عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمْ.
میرے عزیز و اور بھائیو! اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو چیزوں سے بنایا ہے ان میں سے ایک ظاہر ہے، دوسری باطن بظاہر نظر آنے والی اور باطن چھپی ہوئی چیز جو نظر نہیں آتی ان میں جو نظر آنے والی چیز ہے وہ بدن ہے جسکو انگریزی میں باڈی کہتے ہیں میں اور جو چیز چھپی ہوئی ہے نظر نہیں آتی اسکو روح کہتے ہیں، جب نظر آنیوالی چیز بدن سے نظر نہ آنے والی روح سے جڑجاتی ہے، یعنی روح کا تعلق بدن سے ہو جاتا ہے تو یہ مٹی سے بنا ہوا بدن زندہ ہو جاتا ہے اب وہ چلتا پھرتا ، کھاتا پیتا، ہنستا بولتا ، سوتا جاگتا ، لکھتا پڑھتا ایک سمجھدارصاحب شعور وجود بن جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس بدن اور باڈی کے اندر رہنے والی روح جو نظر نہیں آتی وہی اصلی انسان ہے، بدن کے انگ انگ اور بال بال میں اس کی جلوہ گری ہےہی سے زندگی اور حیات کی بہار قائم ہے۔
خیال رہے یہ بدن روح کا مکان ہے اور روح اس مکان کی مکین ہے، ظاہر ہے مکان کی رونق مکین ہی سے ہوتی ہے، جس مکان میں کوئی رہنے والا نہ ہو وہ سنسان اور ویران ہو جاتا ہے، یہ آنکھ، ناک، اور کان وغیرہ سب کے سب اس مکان کے دروازے اور کھڑکیاں ہیں، انہیں دروازوں اور جھروکوں سے روح دیکھتی اور سنتی ہے آنکھ نہیں دیکھتی آنکھ میں جو روح ہے وہ دیکھتی ہے ، کان نہیں سنتا، کان ایک کھڑکی ہے اس سے جو آواز ٹکراتی ہے اسکو روح سنتی ہے، یہ ہاتھ پاؤں جو چل رہے ہیں یہ خود نہیں چلتے ان کے اندر اتنی طاقت وانر جی ہے ہی نہیں کہ وہ چل سکیں یہ روح کی کرشمہ سازی ہے جو انہیں چلا رہی ہے، زبان بولتی ہے، نعت پڑھتی ہے، قرآن کی تلاوت کرتی ہے یہ سب اسی روح کی نغمہ سنجیاں ہیں، ورنہ کہاں یہ مشت خاک اور کہاں یہ ہنگامہ روز و شب ، یہ سب روح کی تماشہ آرائیاں ہیں۔
آپ دیکھتے ہیں کہ سائنسدانوں نے ایک ایساریموٹ کنٹرول ایجاد کیا ہے جس کی مدد سے پلاسٹک ، لو ہے اور ایلومینیم سے بنے ہوئے کھلونے، گڑیاں، کار، ہوائی جہاز وغیرہ کس طرح چلتے پھرتے ناچتے کودتے ، آگے، پیچھے ہوتے نظر آتے ہیں۔ بلاتمثیل اللہ نے تعالی نے اپنی قدرت اور حکمت بالغہ سے مٹی کے بے جان بدن میں روح کا پاور فل ریموٹ کنٹرول رکھ دیا۔ ہے جسکی وجہ سے یہ بدن چلتا پھرتا اور اپنے دائرہ عمل میں ہر وہ کام کر لیتا ہے جو وہ چاہتا ہے ورنہ بدن کی حیثیت سوکھی مٹی کے کھنکھناتے برتن سے زیادہ نہیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے خلق الإنسان مِن صَلْصَالٍ كَالْفَخار ، یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فر مایا ٹھیکری کی طرح کھنکھناتی مٹی سے۔
خیال رہے اللہ تعالی نے جسم کو باقی و سلامت رکھنے کے لئے اس دنیا میں کھانے پینے کی چیز یں اناج پانی وغیرہ ہزاروں قسم کی نعمتیں پیدا کی ہیں اسی طرح روح کی صحت و توانائی کے لئے روحانی سامان و اسباب بنائے ہیں جن کو جاننا اور سمجھنا ہر ایک کے لئے ضروری ہے تا کہ روح کی طلب اور ضروریات کو پورا کر سکے روح بھی بھوکی پیاسی ہوتی ہے اسکو کھلانا پلانا بھی ہے، پاک و صاف رکھنا بھی ہے، زیور علم وعمل سے آراستہ کرنا بھی ہے اور زہد و تقویٰ کےلباس سے اسکو سجانا بھی ہے تا کہ آخرت کی کامیابی حاصل ہو سکے۔ بدن نظر آتا ہے اس لئے اسکی ضروریات کے سامان نظر آتے ہیں بازاروں میں بکتے ہیں اور دوکانوں سے خریدے جاتے ہیں، مگر چونکہ روح نظر نہیں آتی اس لئے اسکی ضروریات کے ساز و سامان بھی نظر نہیں آتے نہ ہی لوگوں کو روحانی دوکان و بازار کا علم ہے انہیں چیزوں کی جانکاری اور واقفیت کے لئے جانکار شیخ کی ضرورت پڑتی ہے جو مرید کا ہاتھ پکڑ کر طریقت کی منڈی میں گھمائے پھرائے ، ضروریات روح کو پورا کرنے والی چیز یں کن دوکانوں سے حاصل کر سکتے ہیں ان کی نشان دہی کروائے ، اور کن دوکانداروں سے خرید و فروخت کرنا چاہئے اور کن سے بچنا چاہنے مریدوں کو اچھی طرح سمجھا ئے تا کہ دھوکا نہ کھا ئیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ مرید اپنے پیر کے سامنے ایک بے بس چھوٹے کمزور بچے کی طرح ہوتا ہے، جس کی پرورش اور دیکھ بھال کے لئے اللہ رب العزت جل مجدہ نے ماں باپ کو مقرر فرمایا ہے اس طرح مرید کی روحانی دیکھ بھال اور پرورش کے لئے شیخ کامل کو متعین کیا ہے۔
ماں باپ اور شیخ طریقت دونوں کے انداز پرورش میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے، ماں باپ کے عادات و اطوار کی چھاپ ان کی گود میں پلنے والے بچے پر پڑتی ہے ، ماں باپ اگر آوارہ مزاج ، بد چلن ہوں گے تو بچہ بھی ویسا ہی بنے گا الا ماشاء اللہ ماں باپ نیک، پر ہیز گار ہیں تو بچہ بھی نیک ہی ہوگا الا ماشاء اللہ اسی طرح شیخ اگر فاسق و فاجر ، خلاف شرع کاموں کا ارتکاب کرنے والا آزاد خیال ہو گا تو اسکی صحبت میں رہنے والا مرید بھی اسی کی طرح بے راہ رو ہو جائیگا اور اسکی آخرت تباہ برباد ہو کر رہ جائینگی مثل مشہور ہے۔ دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا ۔
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے
اس لئے پیر ایسا ہو جو مرید ان کے حق میں ماں باپ سے زیادہ شفیق و مہر بان ہو، با اخلاق و خوش گفتار ہو، پابند شریعت اور متقی و پرہیز گار ہو، تا کہ مریدوں میں پیر کی خوبیاں پیدا ہو جا ئیں اور مرید کی آخرت کامیاب ہو جائے، اور پیری مریدی کا یہی اصل مقصد ہے کہ آخرت سنور جائے ۔ اسی لئے روحانی پرورش ماں باپ کے ذمہ نہیں رکھی گئی ہے اسکے لئے اللہ جل مجدہ نے اپنے فضل سے ایک مقدس روحانی سلسلہ قائم فرمادیا ہے جس طرح انسان کا جسمانی سلسلہ سیدنا ابو البشر آدم علیہ السلام سے جاملتا ہے اور انہی پر جا کر ختم ہو جاتا ، اسی لئے حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سب سے پہلے ہوئی ، ان کے بعد انسانی سلسلہ شروع ہوا، اسی طرح روح کا روحانی سلسلہ حضور سیدا کرم جان عالم ﷺ سے ملتا ہے اسی لئے اللہ تعالی نے سب سے پہلے وجود کے روحانی سلسلوں کو اصل یعنی حضور اکرم سید عالم ﷺ کے نور کو پیدا فر مایا چونکہ آدم علیہ السلام کا سلسلہ بھی حضور ہی سے ملتا ہے۔ اس لئے آدم علیہ السلام سے بھی پہلے حضور انور سے لے کے نور کو اللہ تعالی نے پیدا فرمایا حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ، كُنتُ نَبیا وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ و الجسد ، یعنی میں اس وقت بھی نبی تھا جبکہ آدم علیہ السلام کے بدن سے روح کا تعلق بھی پیدا نہیں ہوا تھا. دوسری جگہ ارشاد ہے ” أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللَّهُ نُوْرِى وَكُلُّ الْخَلَائِقِ مِنْ نُوْرِى وَ أَنَا مِنْ نُّورِ اللهِ ، یعنی سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے نور سے میرے نور کو پیدا فرمایا اور پھر میرے نور سے تمام مخلوق کو وجود بخشا۔

سلسلہ طریقت

: – جس طرح بدن کی بقاء اور اسکی طاقت و توانائی کے لئے اسکو کھلایا پلایا جاتا ہے، اسکے آرام و راحت کا بھر پور خیال رکھا جاتا ہے اور اسکے دکھ درد کو دور کرنے کی فکر کی جاتی ہے اسی طرح آپ کو اپنی روح کی بھی حفاظت کرنی ہے، طریقت کا سلسلہ در اصل روحانی تربیت اور روح کی طاقت وقوت کی حفاظت و بالیدگی کا ایک پاکیزہ مقدس سلسلہ ہے، جس سے جڑ جانے کے بعد روح انسانی کی پوشیدہ انرجی ا بھر نے لگتی ہے اور روٹ اسٹرانگ اور طاقتو راو ر مضبوط ہو جاتی ہے، اس وقت شیطان جیسے طاقتور شمن سے لڑنے اور اسکے شر سے بچنے کی اس میں طاقت اور حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے۔
جس طرح آدمی ورزش اور کسرت کر کے باڈی بلڈر اور طاقتور بن جاتا ہے تو اسکا دشمن اس سے ڈرنے لگتا ہے اسی طرح جب مومن ایمان و عقیدے کی سلامتی کے ساتھ اچھے عمل ، ذکر و اذ کار اور ریاضت و مجاہدہ کر کے روح کو طاقتور بنا لیتا ہے تو شیطان اس سے ڈرنے لگتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ شیطان جیسے ازلی دشمن کی شرارتوں سے بچنے اور بچانے کے لئے باڈی بلڈر کی طرح تم بھی روحانی بلڈر بن جاؤ ، شریعت کی پابندی ، اپنے سلسلہ کے اور ادو ظائف اور ذکر و اذ کار کو اپنے اوپر لازم کر لو، کھیل تماشوں اور دوسری بیہودگیوں سے بچو، اور نیک کاموں کی طرف توجہ دو اسی میں بھلائی اور آخرت کی کامیابی ہے۔ جس طرح پہلوان اور باڈی بلڈر بننے کے لئے اکھاڑے، جم خانے ہوتے ہیں جہاں ورزش کے تمام ساز و سامان ہوتے ہیں اور سکھانے والا استاد ہوتا ہے جو اپنے شاگردوں کو ڈنڈ بیٹھک ، اور ورزش کے طور طریقے سکھاتا ہے اس طرح روحانی بلڈر بنے کے لئے اچھے شیخ طریقت اور اسکی خانقاہ کی حاضری ضروری ہے، جہاں شیخ اپنے سعادت مند مریدوں کو ذکرو اذ کار اور ریاضت و مجاہدہ کی تعلیم دیگر روحانی تربیت کرتا ہے اور سعادت مند مرید اپنے مرشد برحق کی ہدایتوں پر دل و جان سے عمل پیرا ہوتا ہے۔ جب مرید اپنے شیخ کی رہنمائی میں اسکی ہدایتوں پر عمل کرتا ہے تو آہستہ آہستہ اسکی روح پاور فل اور توانا ہو جاتی ہے اسکا بدن اگر چہ دیکھنے میں دبلا پتلا کمزور ہوتا ہے مگر وہ خود پاور فل ہوتا ہے اسکی نگاہ میں روحانیت کی چمک، پیشانی سے ایمان کا نور ظاہر اور زبان میں بڑی تاثیر ہوتی ہے اسکی برکتوں سے بڑے بڑے کام چشم زدن میں انجام پاتے ہیں اور سخت سے سخت مشکل آسان ہو جاتی ہے۔
سید نا علی (رضی اللہ عنہ) کی طاقت : سید نا علی مرتضی کرم اللہ تعالی وجہ جو پستہ قد اور دیکھنے میں دبلے پتلے تھے آپ کی بہ نسبت بہت سے صحابہ کرام قد آور تھے باوجود اسکے خیبر کی جنگ میں حضور اقدس ﷺ نے فتح خیبر کے لئے کسی دوسرے کو منتخب نہیں فرمایا ، سرکار نے سیدنا علی کرم اللہ تعالی وجہ سے فرمایا کہ جاؤ خیبر کا قلعہ فتح کرد، حضرت علی کرم اللہ تعالی و جہ میدان میں گئے اور لڑتے لڑتے خیبر کے قلعہ کے دروازے پر پہنچ گئے، قلعہ کے بھاری بھر کم لو ہے کے دروازے کو پکڑا اور اسے یوں اکھاڑ پھینکا جیسے طاق پر رکھی ہوئی ماچس کی ڈبی کو اتار کر پھینک دیا جائے دروازہ اتنا وزنی تھا کہ ستر پہلوانوں سے بھی نہیں اٹھایا جاتا۔
میرے عزیز و! یہ جسم کی طاقت نہیں تھی روحانی طاقت تھی جو حضرت علی کو انکے مرشد اعظم ، شیخ اکبر ، حضور اکرم سید عالم ﷺ کی بارگاہ خیر و برکت سے عطا ہوئی تھی اس لئے روحانی تربیت کے لئے شیخ کامل کی بہر حال ضرورت ہے۔ روحانی تربیت کے بعد آدمی اگر چہ بظاہر دبلا پتلا دکھائی دیتا ہے مگر ہوتا ہے بڑا پاور فل اسکے اشارہ میں وہ طاقت ہوتی ہے جو بڑے بڑے ٹینکوں اور راکٹوں میں نہیں ہوتی۔ اس لئے ہر مرید کو روحانی تربیت کے لئے اپنے اوقات میں سے تھوڑا بہت وقت نکالنا چاہئے ، جس کی شروعات ذکر و فکر سے کرنی چاہئے اور شیخ کی ہدایتوں کے مطابق ہونا چاہئے ۔

بیعت کیا ہے

:۔ خیال رہے روحانی تربیت اور روح کی قوت بڑھانے اور ڈیولپ کرنے کے لئے اہل نظر ، صاحب دل متبع شریعت شیخ سے بیعت ہونا ضروری ہے۔ بغیر بیعت و ارادت سلوک کا راستہ طے کر نا سخت دشوار بلکہ ناممکن ہے۔
بیعت کا لفظ عربی زبان کا لفظ ہے جو بیع سے بنا ہے اور بیع کا معنی بیچنا ہے ، خرید و فروخت کے بعد بیچی ہوئی چیز خریدار کی ملکیت میں آجاتی ہے، خرید نے والا اس چیز کو اپنی حیثیت کے مطابق اپنے طور پر استعمال کرتا ہے، اسکی حفاظت کا انتظام کرتا ہے اور اسکو ڈویلپ کرتا ہے۔ مثلاً ایک ویران بنجر زمین کہیں پڑی ہوئی تھی جہاں لوگ جا کر گندگی کرتے ، گندے نالوں کا پانی اسکے اوپر سے دن رات بہتا ہے، ہر طرف خودرو خاردار جھاڑیاں بد جانور اور سانپ بچھو کا مسکن تھی لیکن اس خراب زمین کے دن پھرے ، قسمت بدلی، ایک بہت بڑے بلڈر نے اسکو خرید لیا اور مشین، ٹریکٹر ، اور بلڈوزر منگوایا ، تمام گڑھوں ، نالوں کو پٹوا کر ہموار بنایا جتنے خودرو ، جھاڑ جھنکاڑ تھے سب کو کٹوا کر صاف کر دیا ، پھر پلاننگ کر کے اس زمین پر خوبصورت ائر کنڈیشن بنگلے اور فلیٹ تعمیر کروائے ، گارڈن اور پلے گراؤنڈ بنوائے اب وہی ویران ، بد بودار زمین چمن زار بن گئی جہاں لوگ جانا پسند نہیں کرتے تھے وہاں شہر کی بڑی بڑی شخصیتیں آکر آباد ہونا پسند کرتی ہیں، ہر طرف چہل پہل اور رونق ہی رونق نظر آرہی ہے، آخر ایسا کیوں؟ صرف اس لئے کہ ایک اچھے مالدار قابل بلڈر کے ہاتھ زمین بیع کی گئی اور اس نے اسکو ڈویلپ کیا۔ اگر یہی زمین کسی فقیر گداگر کے ہاتھ بیچ دی جاتی یادیدی جاتی تو یقین جانیے اس زمین کے دن نہ پھرتے قسمت نہ بدلتی ، وہاں کی گندگی دور نہ ہوتی جوں کی توں رہ جاتی، بلکہ اور بھی خراب اور گندی ہو جاتی کیونکہ جس کے ہاتھ میں زمین دی گئی ہے وہ بیچارہ خود مفلس و قلاش ہے۔ ، جو اپنے گھر اور حالات کو سنوار نہیں سکتا وہ اتنی بڑی زمین کو کیا سنوار سکتا ہے۔ جو کنواں خود سوکھا پڑا ہے وہ دوسروں کی پیاس کو کیا بجھائے گا، جو خود محتاج ہے دوسرے کی جھولی کو کیا بھریگا ، وہ تو موقع پا کر دوسروں کی جیب خالی کر دیگا۔
میرے عزیزو ! ہمارا وجود ایک سنسان ویران بنجر زمین کی طرح تباہ حال پڑا ہوا ہے، دل کے پلاٹ پر خواہشات نفس اور گناہوں کی خاردار جھاڑیاں اُگی ہوئی ہیں، گندے خیالات اور برے وسوسوں کی گندی نالیاں شب و روز رو اں دواں ہیں ، شیطان جیسا خبیث بد جانور وہاں سے آتا جاتا ہے، رنج والم کے سانپ بچھو اپنا بسیرا بنائے ہوئے ہیں، ان تمام خرابیوں اور کرب نا کیوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے وہ ہے کسی صاحب دل شیخ کامل سے بیعت کر کے اپنے آپکو مرشد کے حوالے کر دینا . جب شیخ طریقت کامل ہوگا تو اس کے پاس عقیدے کی توانائی، علم کا پاورفل بلڈوزر، اعمال صالحہ کا رولر اور حسن اخلاق کی پلاننگ ہوگی، جس کے ذریعہ مرید کے دل کی ناہمواری کو ہموار بنائے گا خواہشات نفس کے کانٹوں سے دل کو صاف کریگا، ذکر و فکر کے ذریعہ تمام گندے وسوسوں سے دل کو پاک بنائیگا اور رنج والم کی کر بنا کیوں سے چھڑا کر نفس مطمئنہ سے ہمکنار کریگا ، یہی بیعت کا مقصد اصلی ہے جب مرید اس مقام پر پہنچ کر تمام باطنی گندگیوں سے پاک وصاف ہو جاتا ہے تو غوث و خواجہ کا پسندیدہ ، اعلیٰ حضرت کا نور دیده، ولیوں کا دلارا اور اللہ و رسول کا پیارا ہو جاتا ہے اور دونوں جہاں میں اسکو عزت و عظمت حاصل ہو جاتی ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُو الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا ، بیشک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کئے عنقریب اللہ ان کے لئے محبت کرنے والوں کو تیار کر دیگا۔ اب مرید کا دل خراب ویران نہیں رہیگا شاد آباد اور پر نور ہو جائیگا ، اس میں رسول اکرم سید عالم ﷺ کی عقیدت و محبت کا حسین تاج محل بنے گا کیونکہ اب اس پر شیخ با کمال کا کنٹرول ہے، یہاں نہ شیطانی خیالات و وسوسے کی گندی نالیاں بہتی نظر آئیں گی۔ نہ ہی فسق و فجور کی خاردار جھاڑیاں اگتی دکھائی دیں گی۔ جب شیخ معظم کا روحانی بلڈوزر چلے گا تو سب صاف ہو جائیں گے ہر سواللہ اللہ کی گونج ، تلاوت قرآن پاک کا نور اور اعمال صالحہ کی پہچل سنائی دیگی سبحان اللہ کیا فائدہ ہے بیعت کا بیعت کوئی رسم و رواج نہیں ہے۔

تکمیل بیعت

: – شریعت میں بیع (خرید و فروخت ) جب ہی مکمل ہے کہ بائع ( بیچنے والا ) بچی ہوئی چیز کو مشتری ( خرید نے والے) کے قبضہ میں دیدے اگر خریدار کو پورا قبضہ نہیں دلایا تو بیع نا تمام اور ناقص ہوتی ہے اس طرح خرید و فروخت کا جو مقصد ہے وہ حاصل نہیں ہوتا ۔ اسی طر ح بیعت کا مطلب ہے مکمل طور پر خود سپردگی یعنی مرید اپنے آپکو پورے طور پر مرشد کے حوالے کر دے. چون و چرا کی قطعا کوئی گنجائش باقی نہ رہے ورنہ بیعت ناقص ہوگی ، جسکا کوئی فیض اور فائدہ مرید کو نہ مل سکے گا۔
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے
دیکھئے جب کوئی کسی چیز کوخرید لیتا ہے تو وہ چیز ا سکی ہو جاتی ہے، خریداراپنی مرضی سے اس چیز کو چاہے جس طرح رکھے ، مثلا کسی نے بکری خریدی تو وہ بکری کا مالک ہو گیا ، مرضی مالک کی چلے کی بکری کی نہیں اسکو اب ہر چراگاہ اور کھیت میں چرنے کی اجازت نہیں ہے، اب آوارہ گھومنے پھرنے نہیں دیا جائیگا، مالک جہاں چرائے چرنا پڑیگا، جہاں باندھے وہیں رہنا ہوگا ، جدھر لیجائے جانا ہوگا، اگر نہ جائے شرارت کرے رسی تڑائے تو کھینچ کھانچ کر مار پیٹ کر لیجایا جائیگا۔ زیادہ سرکشی کرے تو ایسے جانور کو قصائی کے حوالے کر دیا جاتا ہے سکھ چین سے وہی جانور رہتا ہے جو مالک کے قابو میں رہ کر مالک کی مرضی کے مطابق زندگی گزارے۔ اسی طرح مرید ہو جانے کے بعد سمجھ لینا چاہئے کہ ہم نے اپنے آپکو مرشد کے ہاتھ پر بیچ دیا ہے، شیخ جو کہے اس کے مطابق عمل کرنا پڑیگا
سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے۔
اس لئے صوفیائے کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین فرماتے ہیں کہ مرید کی مثال مردے کی طرح ہے اور شیخ کی مثال غسال یعنی مردے نہلانے والے کی طرح ہے ۔ میت غسال کے ہاتھ میں بے بس ہوتی ہے، وہ جس رخ کو لٹائے لیٹ جاتی ہے جس کروٹ گھمائے گھوم جاتی ہے، گرم یا ٹھنڈے پانی سے نہلائے نہا لیتی ہے، جیسا کفن پہنائے پہن لیتی ہے۔ اسی طرح مرید پیر کے ہاتھ میں مردہ بدست زندہ “ ہونا چاہئے ، پیر کی خواہش مرید کی خواہش پیر کی مرضی مرید کی مرضی ہونی چاہئے تب جا کے فیض حاصل ہوتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ شیخ بھی پابند شریعت ہو، اور وہ اپنے شیخ کا مطیع وفرمابردار ہو پھرشیخ کا شیخ اپنے شیخ کا یہ سلسلہ چل کر آخری شیخ ،شیخ الشیوخ سید عالمﷺ پر ہو، اس طرح شیخ کا سلسلہ حضور اکرم ﷺ تک منتہی ہو، تو حضور اکرم ﷺ کی شریعت کی پابندی اور پاسداری جس پیر میں پائی جائے وہی شیخ اور مرشد برحق ہے، باقی نفس کا دھو کہ شیطانی فریب اور اغوا ہے اللہ تعالیٰ سب کو محفوظ رکھے شیطان کے شرسے۔
فرمان غوثیہ: – پیر پیراں ، میر میراں، سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا قیمتی ارشاد ہے، آپ فرماتے ہیں کہ کوئی ہوا میں اڑتا ہے ، اور پانی پر چلتا ہے مگر شریعت کا پابند نہیں ہے تو وہ شیطان ہے، چیل کوؤں اور مچھلیوں سے آگے نہ بڑھ سکا بر خلاف اسکے ہوا میں نہیں اڑتا، پانی پر نہیں چلتا مگر ہے شریعت کا پابند تو وہ مقبول بارگاہ الہی ہے ، شریعت اور دین پر استقامت ہر کرامت سے بڑھ کر کرامت ہے ” الاستقامة فوق الكرامة ” عقیدے کی سلامتی اور شریعت کی پابندی کے بغیر ولایت کے مقام بلند تک رسائی نہیں ہو سکتی. اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے ” إِنْ أَوْلِيَانُهُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ “ یعنی اللہ کے دوست متقی ہی لوگ ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ شیخ وہی شیخ ہے جو شریعت کا پابند ہو چاہے اس سے کرامت ظاہر ہو یا نہ ہو، سب سے بڑی کرامت شریعت کی پابندی ہے، بر خلاف اس کے کچھ لوگ مریدوں کو یہ بتاتے ہیں کہ طریقت الگ ہے ، شریعت الگ ( معاذ اللہ ) ایسا کہنا کھلی گمراہی اور آزاد خیالی ہے، شریعت ایک دریائے نا پیدا کنار ہے اس کا ایک حصہ طریقت ہے کل سے جز ہے کل نہیں تو جز کہاں ۔
سیدنا جنید بغدادی کا ارشاد : کسی صاحب نے سید الطائفہ حضور جنید بغدادی رضی اللہ تعالی عنہ سے عرض کی کہ حضور ! کچھ لوگ کہتے ہیں کہ شریعت الگ اور طریقت الگ ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ شریعت سر کے بال کی طرح ہے اور طریقت اسکی مانگ کی طرح ہے. اگر سر میں بال نہ ہوں تو مانگ کیسے نکالی جاسکتی ہے گنجے اورٹکلے کے سر میں مانگ کی آرزو ہوس ہی ہوس ہے، اسی طرح بے شرع سے طریقت کے فیضان کی تمنا خیال خام ہے
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی “۔
سرکار مفتی اعظم ہند کا تقوی :- میرے پیرو مرشد مفتی اعظم بھی تھے اور متقی اعظم بھی عالم اجل بھی تھے اور ولی اکمل بھی۔ آپ کا وجود مسعود اپنے زمانہ میں شریعت و طریقت کا سنگم علم و عرفان کا مجمع البحرین تھا، ان کی ہر ادا سے زہد و تقوی ٹپکتا تھا، ایک واقعہ بتاتا ہوں جو بظاہر بہت معمولی ہے مگر اس سے تقوی اور خشیت الہی کا ایک آبشار چھنتا نظر آئیگا، ملاحظہ ہو۔
حضرت سیدی و مرشدی حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ ایک روز ظہر کی نماز کے لئے مسجد رضا محلہ سوداگران، بریلی شریف میں تشریف لائے دیکھا کہ ایک نل سے پانی کے قطرات ٹپک رہے ہیں، کسی نے نل کو ٹھیک سے بند نہیں کیا تھا اس لئے آہستہ آہستہ وہ نل ٹپک رہا تھا اس پر حضرت والا کی نظر پڑی اور جا کرنل کو خود اپنے ہاتھوں سے بند کر دیا پھر مغرب میں تشریف لائے دیکھا کہ دوسرانل اسی طرح ٹپک رہا ہے ، آپ نل کے پاس تشریف لے گئے اور ناراضگی کے انداز میں فرما یامعاذ اللہ کیا کیا جائے لوگوں کو اتنا بھی خیال نہیں کہ پانی رائگاں جائیگا نل کو اچھی طرح بند کر دیں، پانی اللہ تعالی کی بیش بہا نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے، بلاضرورت اسکو ضائع کرنا گناہ ہے، اسکا بھی بروز حشر حساب دینا ہوگا کسی آنے والے کو سجھائی نہیں دیتا کہ نل ٹپک رہا ہے، پانی بر باد جا رہا ہے اسکو بند کردے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون یہ فرما کر آپ وضو کے لئے بیٹھ گئے۔ جب حضرت والا نے فرمایا کہ کسی کو سجھائی نہیں دیتا کہ نل ٹپک رہا ہے اسکو بند کر دے اس وقت میرے دل نے کہا کہ حضور والا دوسروں کی نگاہ میں خشیت ربانی اور تقوی کی وہ روشنی کہاں جو آپ کی نگاہ کرامت میں ہے ، چند قطرات کی اضاعت کا احساس کیا معنی رکھتا ہے بالٹی کا بالٹی پانی بلاضرورت لوگ بہاڈالتے ہیں اور کان پر جوں تک نہیں رینگتی ، پاس شریعت اور احساس خشیت آپ جیسے اہل نظر کا حصہ ہے۔
میرے عزیز و!بات کتنی چھوٹی اور معمولی ہے مگر کس کے لئے ، ہم جیسے عام لوگوں کے لئے لوگوں نے تو اس پانی کے چند قطروں کو بےقدری کی نگاہ سے دیکھا اور اسکو ضائع ہونے سے بچانے کی طرف کوئی توجہ نہیں کی لیکن سرکار مفتی اعظم علیہ الرحمہ جن کی پوری زندگی تقوی شعاری میں گزری وہ بھلا نعمت الہی کو رائگاں ہوتے ہوئے کیسے گوارہ کر لیتے ، جبکہ ان کی نگاہ ولایت پانی کے ہر قطرے میں اللہ تعالی کی ہزاروں نعمتوں کا مشاہدہ کرتی ہے۔ اس لئے وہ اسکی حفاظت کے لئے بیقرار نظر آئے
” خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را –
کرامت کیا ہے ؟ : کسی مومن پابند شریعت سے ایسی بات کا ظاہر ہونا جو عقل اور عادت کے خلاف ہو اسکو کرامت کہتے ہیں، تمام اہلسنت کے علماء ، فقہا اور صوفیا ، کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اولیاء کی کرامت حق ہے جو اس کا انکار کرے اور نہ مانے وہ گمراہ اور اہل سنت سےخارج ہے۔
غوث اعظم کی کرامت : ایک شخص تھا جس نے سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالی ولایت و کرامت کا شہرہ سن رکھا تھا وہ شخص مرید ہونے کی غرض سے آپکی خدمت میں حاضر ہوا، اس کا ارادہ یہ تھا کہ پہلے کر امت دیکھوں گا پھر مرید ہو جاؤنگا، خانقاہ غوثیہ میں ایک عرصہ تک ٹھہرا رہا مگر اسکو اس عرصہ میں کوئی کرامت نظر نہ آئی ایک روز بلا مرید ہوئے واپس جانے لگا حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیر روشن ضمیر تھے، آپ نے دریافت فرمایا کس لئے آئے تھے اب واپس کیوں جار ہے ہو ؟ عرض کی حضور مرید ہونے آیا تھا فرمایا پھر مرید کیوں نہیں ہوئے؟ کہنے لگا کہ میں یہ سوچ کر آیا تھا کہ پہلے کوئی کرامت دیکھ لونگا پھر مرید ہو جاؤنگا، آپ نے فرمایا کہ اچھا یہ بتاؤ کہ تم نے میرا کوئی کام شریعت کے خلاف دیکھا ؟ بولا نہیں ، آپ کا ہر قدم شریعت کے مطابق آپکی ہر سانس کو سنت کا پابند پایا . آپ نے فرمایا سن لے الاستقامة فوق الكرامة ، ہر کرامت سے بڑھ کر کرامت دین وشریعت پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنا ہے۔ یہ فرما کر اپنے عصاء مبارک کی طرف اشارہ فرمایا جو خانقاہ کے ایک گوشہ میں رکھا ہوا تھا اشارہ غوثیہ پاتے ہی وہ عصا روشن ہو گیا جیسا کہ ٹیوب لائٹ روشن ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تم ابھی یہی تو دل میں سوچ رہے تھے کہ اس لکڑی سے عبد القادر کوئی کرامت دکھائے ، بولا ہاں یہی سوچ رہا تھا یہ کہہ کر قدموں پر گر گیا اور اپنی کم فہمی سے تو بہ کر کے مرید ہو گیا۔ سبحان الله ! سید نا غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو جب یہ معلوم ہو گیا کہ آنے والا کیا سوچ رہا ہے اور یہ بھی پہلے ہی معلوم تھا کہ یہ شخص خانقاہ میں کس ارادے سے آیا تھا اور کیوں واپس جا رہا ہے، سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود آپ کا ابتک کچھ نہ فرمانا اس شخص کے خیال فاسد پر تنبیہ کرنے کے لئے تھا کہ کرامت دیکھ کر مرید ہونیکا خیال فاسد اور ارادت و سلوک کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

ارادت کے لئے دین وایمان کی سلامتی اور شریعت محمدی کی پابندی بنیادی شرط ہے۔
خلاف پیمبر کسے رہ گزید که هرگز بمنزل نه خواهد رسید
آج لوگ کہتے ہیں کہ لاٹھی کا روشن ہو جانا کرامت ہے، ہوا میں اڑ نا کرامت ہے، پانی پر چلنا کرامت ہے، آگ کا انگارہ کھانا کرامت ہے بلاشبہ مومن صادق اللہ والے سے ان باتوں کا ظہور کرامت ہے ، مگر یہ سب چھوٹی چھوٹی کرامتیں ہیں، دین پر استقامت اور پابندی شریعت سب سے بڑی کرامت ہے ، کسی سے کچھ کرامت ظاہر نہ ہو صرف اس میں یہی پاسداری شریعت اور دین پر استقامت ہو وہ سب سے بڑا با کرامت ہے، ایسے ہی کو مرد خوش اوقات اہل اللہ اور جوانمرد کہتے ہیں. ایسے ہی لوگوں سے رجوع کرو ان سے فیض حاصل کرنے کے لئے پوری عقیدت رکھو، ایسے لوگوں کی طرف سے بدگمانی کو راہ نہ دور نہ ہلاک و بر باد ہو جاؤ گے۔ شرائط پیری :- جس طرح نماز کے لئے قبلہ کی طرف منہ کرنا، کپڑے ، بدن ، اور جگہ کا پاک ہونا اور باوضو ہونا شرط ہے اگر ان میں سے ایک شرط بھی نہ پائی جائے نماز ہرگز درست نہیں ہوگی، اسی طرح پیر کے لئے کچھ شرطیں ہیں، پیر میں ان تمام شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے بغیر ان شرطوں کے پیر بننا اور اس سے مرید ہونا جائز نہیں ہے۔ علماء کرام اور صوفیاء عظام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین فرماتے ہیں کہ صحیح پیر میں چار بنیادی شرطوں کا یا یا جانا ضروری ہے، بغیر ان کے مشخیت کی گدی پر بیٹھنا جائز نہیں
(1) مومن سنی صحیح العقیدہ ہونا کہ سب سے بنیادی اور اہم شرط ہے تمام شرائط و اعمال کی صحت کا اس پر دارو مدار ہے
(2) عالم ہونا یعنی اسکے پاس اتنا علم ہو کہ اپنی ضروریات کے تمام مسائل کو خود حل کرے یا کتابوں سے اس کا حل نکال سکے
(3) فاسق معلن نہ ہو یعنی خلاف شرع باتوں سے بچتا ہو، اسکا ظاہری حال شریعت کے مطابق ہو ۔
(4) اس کا سلسلہ حضور اکرم سید عالم ﷺ سے متصل ہو، سلسلہ میں کہیں کوئی ایسا پیر نہ پایا جائے جو بد عقیدہ اور فاسق و فاجر ہوا گر ہے تو وہ سلسلہ متصل نہیں ہوگا منقطع ہوگا اگر چہ اپنا پیر ٹھیک ہو یا بغیر پیر سے خلافت حاصل کئے ہوئے پیری مریدی شروع کردی ہو تو اس صورت میں بھی سلسلہ منقطع مانا جائیگا ایسے سلسلہ میں مرید ہونا درست نہیں۔
اس لئے بیعت سے پہلے ان چار باتوں کی تحقیق کر لینی چاہئے صرف ذکر فکر اور چلوں سے کام نہیں چلے گا پیری مریدی برائے نام ایک رسمی چیز ہو کر رہ جائیگی، پیر اور اس سلسلہ کے تمام مشائخ کرام میں اگر مذکورہ چاروں باتیں پائی جاتی ہیں تو پھر مرید کی استعداد اور حو صلے کے اعتبار سے سلسلہ کا فیض ملنا یقینی ہے اور مرشد کی طرف سے جو ذکر وفکر اورا ورادو وظائف مرید کو تلقین کئے جائیں گے ان کے روحانی اثرات مرید سعید کے قلب پر پڑیں گے، جس سے زندگی میں دینی اور روحانی انقلاب رونما ہوتا محسوس ہوگا۔
میرے عزیزو ! میں تو اہلسنت کا ایک معمولی سا خدمت گزار ہوں مجھ میں کوئی خوبی اور لیاقت نہیں، میں تو سچا مرید ہونے کے بھی لائق نہیں ہوں چہ جائیکہ لوگوں کو مرید کروں، پھر بھی آپ لوگوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کیا ہے یہ آپ کا حسن ظن ہے، ایک مومن سے حسن ظن رکھنے کا انشاء اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو ثواب ملے گا۔ حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے ظنوا المومنین خیرا یعنی مسلمانوں کے بارے میں اچھا خیال رکھا کرو۔
بھائیو ! ہم لوگ الیکٹریشن کی طرح ہیں، الیکٹریشن کا کام کنکشن جوڑ دینا ہے، کرنٹ پیدا کرنا نہیں ، کرنٹ پیدا کرنا تھرمل پاور ہاؤس کا کام ہے ، اور سپلائی کرنا سب اسٹیشن کی ذمہ داری ہے، گنبد خضرا ء روحانیت کا پاور ہاؤس ہے، بغداد معلی میں اسکا مین اسٹیشن ہے باقی مشائخ کرام چھوٹے بڑے سب اسٹیشن اور دوسری روحانی تنصیبات ہیں جن کے واسطوں اور وسیلوں سے سلسلہ سے منسلک لوگوں تک روحانی عرفانی کرنٹ پہنچتا ہے آپ لوگوں کا کنکشن جوڑ دیا گیا ہے ، اللہ تعالیٰ اسکو تادم زیست سلامت رکھے اور اسکی آبرو بچانے کا شعور، طافرمائے ،آمین آمین یا رب العالمین ۔
سلسلہ کی آبرو کیسے بچے گی ؟ :- جیسے بجلی کے بلب کے اندر بیچ میں ایک بار یک نازک تار ہوتا ہے جہاں کرنٹ پہنچ کر روشنی دیتا ہے، اگر اسکو زور سے جھٹکا لگ جاتا ہے تو وہ نازک تار ٹوٹ جاتا ہے اور شارٹ اور فیوز ہو جاتا ہے، روشنی دینا بند کر دیتا ہے، میں سویچ سے لیکر پاور ہاؤس تک تمام تنصیبات (سسٹم) بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں، مگر بلب میں روشنی نہیں، اسی طرح ہر مومن کے دل میں بلب کی طرح محبت رسول کا بہت بار یک نازک تار ہے جس کی وجہ سے انسان مومن کا باطن جگمگاتا رہتا ہے ، ہر مومن پر فرض ہے کہ اسکی حفاظت کرے، گستاخ رسول، بددین کی صحبت سے دور بھاگے، ورنہ اسکی بد عقیدگی کے جھٹکے سے محبت رسول کا نازک تار ٹوٹ جائیگا، اور باطن کے نہانخانہ میں اندھیرا پھیل جائیگا تسبیح و مصلی، داڑھی جبہ ، چلی چلا سب دھرا کا دھرا رہ جائیگا کچھ کام نہ آئیگا۔ اس لئے ضروری ہے کہ کنکشن بھی ہو اور فیوز بھی سلامت ہو تب جا کر روشنی ملیگی ، اسکی تائید حضور اکرم ﷺ کے اس ارشاد سے ہوتی ہے آپ فرماتے ہیں لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ، یعنی تم میں کا کوئی شخص اس وقت تک مؤمن کامل ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ میری محبت اس کے دل میں اس کے ماں باپ اور آل و اولا د سب لوگوں سے زیادہ نہ ہو۔ دوسری حدیث میں ہے محبت کے اس نازک رشتہ کی حفاظت کی خاطر ارشاد فرمایا کہ بد عقیدوں اور گمراہوں سے اس طرح دور رہو کہ لا تُوَاكِلُوهُمْ وَلَا تُشَارِبُوهُمْ وَلَا تُجَالِسُوهُمْ وَلَا تُنَاكِحُوهُمْ وَلَا تُصَلُّوا مَعَهُمْ وَلَا تُصَلُّوْا عَلَيْهِمْ لَا يُضِلُّونَكُمْ وَلَا يُفْتِنُونَكُمْ (اوکما قال ) یعنی نہ ان کے ساتھ مل جل کر کھاؤ پیو، نہ ان کی صحبتوں میں بیٹھو، نہ ان سے شادی بیاہ کرد ، نہ ان کے پیچھے نماز پڑھو ، اور نہ ہی ان کی نماز جنازہ پڑھو، کہیں تم کو وہ گمراہ نہ کردیں تم کو فتنے میں مبتلا نہ کر دیں ، ایا کم وا یاھم اپنے آپکو ان سے ہر طرح بچانا ، اگر وہ تمہارے پاس آئیں تو سختی سے ان کو بھگا دینا اس دور پرفتن میں جو اس حدیث پر عمل کرتے ہیں وہی محفوظ ہیں اور جو لوگ اعتدال کی روش پر چلے وہ بہک گئے اللہ تعالی محفوظ رکھے اس لئے میرے بھائیو! سید عالم کی محبت سے دل کو آباد رکھو، اولیاء اللہ کی عقیدت کا دامن مضبوطی سے تھامے رہو اور اپنے شیخ کے مطیع و فرمانبردار ہو کر رہو تمہارا کنکشن اور فیوز سلامت رہیگا دل کا گھر ، قبر اور حشر ہر جگہ اجالا ہی اجالا ہو گا، سچے جذبے اور خیر کا ارادہ لیکر آپ مرید ہوں، خدار اسکو رسم نہ بنائیں۔

ذکر کے فائدے

-:- قلب و روح کی صفائی اور نفس امارہ کی پٹائی کے لئے صوفیاء کرام نے قرآن وحدیث اور صحابہ کرام کے اقوال کی روشنی میں ذکر کے مختلف طریقے مقرر فرمائے ہیں ذکر کے طریقے اگر چہ مختلف ہیں مگر مقصد سب کا ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی بدن کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے چھ بڑے اہم اعضاء بنائے ہیں۔ ہاتھ ، پاؤں، کان، ناک، آنکھ، اور منہ تمام کام انہی اعضاء سے انجام پاتے ہیں اگر ان میں کسی عضو کو لقوہ یا فالج کی بیماری لگ جائے تو وہ عضو بدن کے لئے بیکار بلکہ بسا اوقات وبال جان بن جاتا ہے یہ اعضاء صحت مند اور سلامت ہیں تو زندگی کا مزا اور بدن کی ایکٹویٹی سلامت رہتی ہے، زندگی خوش و خرم کے ساتھ گزرتی ہے اسی طرح روح کے لئے لطائف ستہ چھ لطیفے ہیں یعنی قدرت نے روح کے لئے چھ پوائنٹ مقرر فرماتے ہیں، صوفیائے کرام نے ان کی اس طرح تعیین وتشخیص فرمائی ہے پھر ان کے کام کی مناسبت سے ان کے الگ الگ نام رکھ دیئے ہیں جب تک یہ لطائف زندہ و بیدار رہتے ہیں تو تمام روحانی ایکٹیوٹیز جاری وساری رہتی ہیں اور روحانی زندگی میں بہارہی بہار ہوتی ہے ۔ لطائف ستہ ( چھ لطیفے یہ ہیں )(1) لطیفہ نفس (2) لطیفہ قلب (3) لطیفہ روح (4) لطیفہ سر (5) لطیفہ خفی (6) لطیفہ اخفی ، ان چھ کے پائے جانے کی جگہیں بھی الگ الگ ہیں ۔ لطیفہ نفس ناف کے نیچے ہوتا ہے، لطیفہ قلب کا مقام بائیں چھاتی سے دو انگل نیچے قلب کے پاس ہوتا ہے ، لطیفہ روح کی جگہ داہنے چھاتی سے دو انگل نیچے ہے، لطیفہ سر لطیفہ قلب وروح کے بیچ سینے کے نیچے اور پیٹ کے اوپر پایا جاتا ہے، لطیفہ خفی وسط پیشانی ٹھیک سجدہ گاہ کے پاس ہے اور الطیفہ اخفی بیچ سر بھیجے میں پایا جاتا ہے۔ اگر آپ ان کی تفصیلات جانا چاہتے ہیں تو تصوف کی کتابوں کا مطالعہ کریں(سلسلہ نقشبندیہ میں ان کے مقامامات مختلف ہیں) یہاں صرف لطیفہ نفس کے بارے میں ضرورت کے پیش نظر تھوڑی وضاحت کر دینا ضروری ہے۔

لطیفہ نفس : صوفیائے کرام رضوان اللہ تعالی علیہم کے نزد یک لطیفہ نفس کا مقام ناف ہے شیطان ناف کے راستہ سے انسان کے بدن میں داخل ہوتا ہے پھر رگوں میں خون کے ساتھ گردش کرتا ہے دل میں وسوسے ڈالتا ہے پھر نفس اعضاء کو گناہوں پر اکسا کر حرام کاری کا مرتکب بناتا ہے گویا ناف ” گیٹ آف شیطان ” ہے فقہائے کرام اور صوفیائے عظام فرماتے ہیں نمازی ناف کے نیچے ہاتھ باندھے تو ہاتھوں کو ڈھیلا نہ رکھے بلکہ دبا کر رکھے ، اس عمل سے انشاء اللہ تعالی وسو سے آنا آہستہ آہستہ بند ہو جائینگے۔

نفس کی حالتیں

: – نفس کی تین حالتیں ہوتی ہیں ، اماراہ، لوامہ اور مطمئنہ نفس جب سرکشی کرتا ہے آدمی کو برائیوں سے رغبت اور بھلائیوں سے نفرت دلاتا ہے تو اسکو “امارہ” کہتے ہیں اور گناہ پر ملامت کرتا ہے، یا گناہ کے بعد نادم ہو کر پچھتاتا ہے تو اسکو” لوامہ ” کہتے ہیں اور جب ذکر و فکر ، عبادت ریاضت سے اسکو اطمینان کلی مل جاتا ہے تو اسکو نفس “مطمئنہ “ کہتے ہیں ان تینوں کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔ چونکہ نفس امارہ شیطان کی سواری ہے یہی آدمی کو برائیوں پر ا بھارتا ہے شراب پلاتا ہے جوا کھلاتا ہے زنا کرواتا ہے سینماد کھلاتا ہے ، ٹی وی پر دن بھر بیٹھا رکھتا ہے اور نماز چھڑاتا ہے غرض برائیوں کی ہر وقت ترغیب دلاتا رہتا ہے ۔ اس لئے صوفیائے کرام کی پہلی توجہ نفس امارہ کو کمزور بنانے اور مارنے کی طرف ہوتی ہے اس کو ان کی اصطلاح میں نفس کشی کہا جاتا ہے ۔ جب آدمی کا نفس امارہ کمزور پڑنے لگتا ہے تو اس وقت نفس لوامہ کو قوت اور حوصلہ ملتا ہے یہاں تک کہ برائیوں سے نفرت اور نیکیوں سے رغبت پیدا ہو جاتی ہے آہستہ آہستہ یہ جذبہ خیر اتنا ترقی کر جاتا ہے کہ آدمی نیکیوں کو زندگی اور برائیوں کو موت جانتا ہے یہاں تک کہ صرف خیری سے نفس کو اطمینان وسکون ملتا ہے جب اس مقام پر آدمی پہنچ جاتا ہے تو اسکو نفس مطمئنہ حاصل ہو جاتا ہے نفس مطمئنہ حاصل ہو جانے کے بعد صراط مستقیم پر چلتے ہوئے نفسانی اور شیطانی رکاوٹیں دور ہو جاتی ہے اور اسپر عنایت ربانی سےوہ وہ نوازشات ہونا شروع ہو جاتی ہیں کہ جن کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا، اللہ تعالی سب کو نفس مطمئنہ کی دولت بخشے اور اپنے ذکر کی لذتوں سے آشنائی عطا فرمائے آمین آمین۔

شیخ کے آداب

انکا سایہ اک تجلی انکا نقش پا چراغ یہ جدھر گزرے ادھر ہی روشنی ہوتی گئی
امام احمد رضا علیہ الرحمہ والرضوان فتاوی رضویہ جلد باره 12 صفحہ نمبر 152پر مرشد کے آداب و احترام کے سلسلہ میں فرماتے ہیں۔ پیر صادق حضور سید المرسلین ﷺ کا نائب ہے ، اس کے حقوق حضور سید عالم ﷺ کے حقوق کے پر تو ہیں، آئمہ دین نے تصریح فرمائی ہے کہ مرشد کا حق باپ سے زائد ہے اور فرمایا کہ باپ مٹی کے جسم کا باپ ہے اور پیر روح کا اور فرمایا کوئی کام اسکی مرضی کے خلاف مرید کو کرنا جائز نہیں اس کے سامنے ہنسنا منع ہے اسکی اجازت کے بغیر بات کرنا منع ہے اسکی مجلس میں دوسرے کی طرف متوجہ ہونا منع ہے اسکی غیبت ( غیر موجودگی ) میں اس کے بیٹھنے کی جگہ بیٹھنامنع ہے اسکی اولاد کی تعظیم لازم ہے اسکے کپڑوں کی تعظیم ضروری ہے اسکے بچھونے کی تعظیم واجب ہے اسکی چوکھٹ کی تعظیم فرض ہے اس سے اپنا کوئی حال چھپانے کی اجازت نہیں اپنی جان و مال کو اس کا سمجھے خلاصہ کلام یہ ہے کہ اپنے کو اسکی ملک اور بندہ بے دام جانے اسکے حکم کو جہاں تک بلا تاویل صریح خلاف خدا نہ ہو حکم خدا اور سول جانے۔
ان تصریحات کے بعد سید نا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رضی اللہ تعالی عنہ نے مرید پر اس کے مرشد صادق کے جو حقوق و آداب ہیں ان کو تفصیل سے نمبروار بیان فرمائے ہیں ۔فرماتے ہیں
(1) مرید یہ اعتقاد کرے کہ میرا مطلب اسی مرشد سے حاصل ہوگا، اور اگر دوسری طرف توجہ کریگا تو مرشد کے فیوض و برکات سے محروم رہیگا ۔
(2) ہر طرح مرشد کا مطیع : فرمانبردار ہو اور جان و مال سے اسکی خدمت کرے کیونکہ بغیر پیر کی محبت کے کچھ نہیں ہوتا اور محبت کی پہچان یہی ہے۔
(3) مرشد جو کچھ کہے اس کو فورا بجالائے اور بغیر اسکی اجازت اس کے فعل (کام) کی اقتداء نہ کرے، کیونکہ مرشد بعض اوقات اپنے حال و مقام کی مناسبت سے کام کرتا ہے کہ مرید کو اسکا کرنا زہر قاتل ( سخت نقصان دہ ) ہے۔
(4) جو ورد وظیفہ مرشد تعلیم کرے اسکو پڑھے اور تمام وظیفے چھوڑ دے ، خواہ اس نے اپنی طرف سے پڑھنا شروع کیا ہو یا کسی دوسرے نے بتایا ہو۔
(5) مرشد کی موجودگی میں ہمہ تن اسکی طرف متوجہ رہنا چاہئے یہاں تک کہ سوائے فرض ، واجب اور سنتوں کے کوئی نفل اور وظیفہ اسکی اجازت کے بغیر نہ پڑھے ۔
(6) حتی الامکان ایسی جگہ نہ کھڑا ہو کہ اسکا سایہ مرشد کے سایہ اور اسکے کپڑوں پر پڑے۔
(7) اسکے مصلے پر پیر نہ رکھے ۔
(8) اسکی طہارت یا وضوء کی جگہ طہارت یا وضو نہ کرے۔
(9) مرشد کے برتنوں کو اسکی اجازت کے بغیر استعمال نہ کرے ۔
(10) اسکی اجازت کے بغیر اسکے سامنے نہ کھائے نہ پیئے اور نہ وضو کرے ، اجازت کے بعد مضائقہ نہیں ۔
(11) اسکے رو بروکسی سے بات نہ کرے بلکہ کسی دوسرے کی طرف متوجہ بھی نہ ہو۔
(12) جس جگہ مرشد بیٹھتا ہے اس طرف پیر نہ پھیلائے اگر یہ سامنے نہ ہو۔
(13) اور نہ اس طرف تھو کے ۔
(14) جو کچھ مرشد کرے اس پر اعتراض نہ کرے، کیونکہ وہ جو کچھ کرتا ہے اس میں حکمت ہے، ہاں اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو حضرت موسیٰ اور حضرت خضر کا قصہ یاد کرے ۔
(15) اپنے مرشد سےکرامت کی خواہش نہ کرے ۔
(16) اگر کوئی شبہ دل میں گزرے تو فورا عرض کرے اگر شبہ حل نہ ہو تو اپنی سمجھ کا نقصان جانے اور اگر مرشد جواب نہ دے تو سمجھ لے میں اس جواب کے لائق نہ تھا ۔
(17) مرشد کی اجازت کے بغیر بے ضرورت اس سے علیحدہ نہ ہو۔
(18) مرشد کی آواز پر اپنی آواز کو بلند نہ کرے اور بلند آواز سے اس سے بات نہ کرے اور بوقت ضرورت مختصر بات کرے اور نہایت توجہ کے ساتھ جواب کا منتظر رہے ۔
(19) مرشد کے کلام کو دوسرے سے اس قدر بیان کرے جس قدر لوگ سمجھ سکیں اور اگر جس بات کو یہ سمجھ گیا دوسرے لوگ نہ سمجھیں گے تو اسکو نہ بیان کرے۔
(20) مرشد کے کلام کو رد نہ کرے اگر چہ حق مرید کی جانب سمجھ میں آرہا ہو بلکہ اعتقاد کرے کہ شیخ کی خطا میرے صواب سے بہتر ہے۔
(21) جو کچھ اس کا حال برا ہو یا اچھا اسے مرشد سے عرض کرے کیونکہ مرشد طبیب قلبی ہے اطلاع کے بعد اسکی اصلاح کرے مرشد کے کشف پر اعتماد کرے سکوت نہ کرے۔
(22) مرشد کے پاس بیٹھ کر وظیفہ میں مشغول نہ ہو اگر کچھ پڑھنا ہو تو اسکی نظر سے پوشیدہ بیٹھ کر پڑھے ۔
(23) جو کچھ فیض باطنی اسکو ملے اسے مرشد کا طفیل سمجھے، خواب یا مراقبہ میں اگر دیکھے کہ کسی دوسرے بزرگ سے فیض پہنچا تو یہ جانے کہ مرشد کا لطیفہ اس بزرگ کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔
مذکورہ بالا مرشد کے جملہ حقوق و آداب کو ہر مرید اچھی طرح یاد کر لے اور اس پر جہاں تک ہو عمل کرنے کی کوشش کرے انشاء اللہ مرید کو اپنی استعداد اور صلاحیت کے مطابق فیض پہنچے کا خیال رہے مذکورہ بالا حقوق سے متبع شریعت مرشد کے ہیں فاسق و فاجر خلاف شرع حرکتوں کا ارتکاب کرنے والے نام نہاد پیروں کے نہیں ہیں ایسوں سے اجتناب و احتر از لازم و واجب ہے اللہ تعالی سب مسلمانوں کو حق سمجھنے جن کو قبول کرنے کی توفیق رفیق بخشے آمین۔
نفس امارہ کو کیسے ماریں : – نفس کشی کے بغیر طریقت کے راستے پر ایک قدم چلنا ناممکن ہے کیونکہ نفس امارہ گھر کا بھیدی اور گھر کے اندر کا دشمن ہےنفس امارہ شیطان کی سواری اور اسکا سب سے بڑا مددگار ہے ، شیطان جو باہر کا دشمن ہے اس کے ذریعہ سے آدمی کے بدن میں داخل ہو کر وسو سے ڈالتا ہے نفس امارہ کو اگر کچل دیا جائے تو شیطان کی آدھی طاقت ختم ہو جاتی ہے۔ اسکے بعد شیطان کے شر کو رفع کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ خیال رہے کہ نفس امارہ لاٹھی ، ڈنڈے، بندوق ، ریوالور اور گولے بارود سے نہیں مرتا اور نہ ہی ان چیزوں کا اسپر کوئی اثر ہوتا ہے اسکو مارنے کے لئے اہل طریقت صوفیائے کرام نے ذکر وفکر ، ریاضت و مجاہدے کے مختلف طریقے مقرر کئے ہیں جو قرآن وحدیث اور صحابہ و تابعین کے اقوال سے ماخوذ ہیں ، ہر سلسلہ کے طریقوں میں اگر چہ اختلاف نظر آئیگا مگر سب کا مقصود ایک ہے وہ ہے نفس امارہ کو مارنا۔
(1) نفس جب خلاف شرع کام کرنے کی خواہش کرے تو آپ اس کام کو نہ کر نیکا پختہ ارادہ اورکثرت سے توبہ و استغفار اور لا حول ولاقوة الا باللہ علی العظیم پڑھنا شروع کردیں اگر مکروہ وقت نہیں تو وضو کر کے کم از کم چار رکعت نفل نماز پڑھ لیں اگر آپ کے ذمہ کچھ چھوٹی ہوئی نمازیں باقی ہیں تو بجائے نفل کے اس کو ادا کریں یہ زیادہ بہتر ہے نماز سے فارغ ہو کر دعا مانگیں اور اپنے گناہوں سے توبہ کریں اس طرح بار بار کرنے سے نفس ڈھیلا پڑنے لگے گا۔
(2) رات کو سونے سے پہلے تمام ضروریات سے فارغ ہو کر تازہ وضو کریں ، پھر دو رکعت نماز نفل پڑھیں اس کے بعد سورہ واقعہ، سورہ یس اور سورہ ملک بلا ناغہ روزانہ پڑھا کریں، پھر بستر پر لیٹ کر الحمد شریف الم سے مفلحون تک ، آیتہ الکرسی ، اور سورہ بقرہ کا آخری حصہ امن الرسول سے آخر سورہ تک اس کے بعد درود شریف پڑھیں، انشاء اللہ تعالیٰ نفس اور شیطان کے شرسےمحفوظ رہیں گے۔
(3) ذکر نفی و اثبات نفس امارہ کو کمزور اور دل کو پر نور بنانے کے لئے بہت موثر ہے چاہئے کہ روز رات میں تمام ضروریات سے فارغ ہو کر ایسی جگہ بیٹھے جہاں نہ شور و غل اور ایسی آوازیں نہ آئیں جس سے دل ہٹے با وضو قبلہ رو چارزانو بیٹھ کر مندرجہ ذیل ذکر شروع کریں۔

ذکر نفی و اثبات

اس ذکر کونفی واثبات اس لئے کہتے ہیں کہ لا الہ سے تمام معبودان باطل کی مکمل طور پر نفی ( انکار ) کیا جاتا ہے پھر لفظ الا اللہ سے اللہ تعالی جل مجدہ کی الوہیت (معبودیت) کا اثبات (اقرار) کیا جاتا ہے جب یہ ذکر پست آواز سے ہو تو اسکو ذکر سری یا ذکر بالسر کہتے ہیں اوربلند آواز سے ذکر کرنے کو ذکر جہری یا ذکر بالجہر کہتے ہیں۔ لا إله إلا الله 200 بار ، الا الله – 200 بار الله – ۲۰۰ بار اول آخر درود شریف تین تین بار

ترکیب ذکر جہری

ذکر جہر سے پہلے دس بار درود شریف ، دس بار استَغْفِرُ اللَّهَ تین بار . فَا ذُكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ پڑھ کر اپنے اوپر دم کرے پھر ذکر جہر شروع کرے. لا إله إلا الله ۲۰۰ بار، إلا الله ۲۰۰ بار الله ۱۰ بار، یہ ذکر و از وہ صبیح (بارہ تسبیح ) ہوا اس کے بعد حق سوبار یا کم و بیش بطور سه ضربی ۔ سہ ضربی کا مطلب یہ ہے لفظ حق حق حق کی تین بار ضرب لگانا ضرب دل پر مارے پھر سانس تو ڑ دے پھر اسی طرح حق حق حق کی تین ضربیں دل پر مارے۔
تنبیہ : اگر ذکر کے درمیان دل میں سوزش ( گرمی ) معلوم ہو تو فورا 11باردرود غوثیہ  پڑھ لیں۔

درود غوثیہ

اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى سَيِّدِنَا وَمَوْلٰنَا مُحَمَّدٍ مَّعْدَنِ الْجُودِ وَالْكَرَمِ وَاٰلِهِ وَأَصْحَابِهِ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ
(2) ذکرے پہلے حصار ضرور کر لیں

دعاء حصار

وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٌ بِأَمْرِهِ أَلَا لَهُ الْخَلَقَ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ گَرَدِ مَنْ وَگردِ خَانَهُ مَنْ وَ گِردِ زَنَ وَ فَرُزَندَانِ مَنْ وَگَرْدِ مَالَ وَ دوستَانِ مَنْ حِصَارِ حَفَاظَتْ تُو شَوَ دُتُونِكَهْدَارُ بَاشِي يَا اللَّهُ بِحَقِّ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ عَلَيْهِمَا السَّلَامُ وَ بِحَقِ اهياً اشراهياً وبحق عليقاً مليقاً تليقاً أَنْتَ تَعْلَمُ مَا فِي الْقُلُوبِ وَ بِحَقِّ لَا إِلَهُ إلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَ بِحَقِّ يَا مُؤْمِنُ يَا مُهَيْمِنُ وَ صَلَّى اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِهِ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ
یہ دعا پڑھکر شہادت کی انگلی پر دم کریں اور اپنے داہنے (سیدھے ) کان کے ارد گرد تین بار حصار کی نیت سے گول گول گھوما ئیں اگر لوگ موجود ہیں جو ذکر میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ان کی طرف منہ کر کے ان پر بھی دم کریں۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں