استقامتہ في الشريعۃ بطريق الحقيقت از سید محمد حسینی گیسو دراز خواجہ بندہ نواز

استقامتہ في الشريعۃ بطريق الحقيقت

تصنیف
حضرت سلطان العارفین امام الواصلین سید محمد حسینی خواجہ بندہ نواز رحمتہ اللہ علیہ
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ
شروع نام سے اللہ کے جو بڑا مہربان بخشنے والا ہے۔
من الله العناية به نستعين
(عنایت اللہ ہی کی طرف سے ہے اس سے ہم مدد مانگتے اور چاہتے ہیں )
الحمد لله المتجلى على المطيع والعاصي القريب من الداني والقاضى الواحد لا بحساب الثالث والثانى الظاهر على التاني والباطن على الداني ليس ظهوره خلاف بطونه ولا بطونه ضد ظهوره حضوره غيبه غيبه حضوره ظهوره بطونه بطونه ظهوره وجوده شهوده كونه وجوده اللهم انت انت لست انت الا انت والمدح بالاطراءوالصلوة و الثناء بالربا والنما على محمد ن المصطفى المختص المجتبى بالقرب والدنى الذى ربه تعالى عنه حكى فكان قاب قوسين او ادنى وعلى آله اهل الزهد والتقى وصحبه منازلة الظلام و مصابيح الدجى وعترته الذين طهر هو الله تطهيرا.

سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو جلوہ فرما ہے فرمانبردار، نا فرمانبردار ،نیک ،گنہگار پر ۔ وہ قریب ہے نزدیک والے اور دور والے سے۔ وہ ایسا ایک ہے جو دوسرے تیسرے کی گنتی میں نہیں آتا ۔ وہ ظاہر ہے دور والے پر اور باطن ہے نزدیک والے پر۔ اس کا ظہور اس کے بطون کے خلاف نہیں ۔ اس کا بطون اس کے ظہور کا ضد نہیں ۔ اس کا حضور اس کا غیب ہے اس کا غیب اس کا حضور ہے اس کا ظہور اس کا بطون ہے۔ اس کا بطون اس کا ظہور ہے اس کا وجود اس کا شہود ہے۔ اس کا ہونا ہو جانا ہست ہونا ہی اس کا وجود ہے۔ اے اللہ تو تو ہے تیرے سوا کوئی نہیں تو ہی تو ہے۔ انتہائی تعریف طراء کے ساتھ مبالغہ کے ساتھ اور مدح و ثناء (توصیف و خوبی ) درود و سلام ربا ونما کے ساتھ بہت ہی بلند فائدہ مند ( فوائد عطا فرمانے والے) حضرت محمد مصطفی پر کہ آپ مخصوص ہیں، برگزیدگی نزدیکی اور تقرب خاص سے کہ آپ کی شان میں پروردگار تعالی و تبارک فرماتا ہے کہ قاب قوسین الخ مل گئیں دونوں کمانیں بلکہ قریب تر سے بھی قریب ہو گئیں ۔ آپ پر آپ کی آل پر جو صاحبان زہد و تقویٰ ہیں اور آپ کے اصحاب پر کہ دور کرنے والے ضلالت ( گمراہی) کے اور روشن ستارے ہیں ہدایت ( صحیح راستہ پانے) کے ۔ آپ کی عترت پر جن کو اللہ تعالی نے پوری طرح سے پاک کیا پاکی کے ساتھ پاک و مظہر ہیں۔
اما بعد ( مدح و ثنا کے بعد ) کہنا یہ ہے کہ اس زمانے میں جب کہ ہجرت سے سات سو بیانوے (792 ہجری) سال گزر چکے ہیں۔ سمجھو کہ آٹھ سو 800 کے قریب پہنچ گئے ہیں آفات (دکھ۔ مصیبت) بلیات ( بلائیں ) فتن ( فتنے ۔ آزمائشیں ) مصائب ( تکالیف) گناہ (بدکاریاں) ملکوں شہروں میں ہر طرف سے امڈ آئے ہیں۔ چھوٹے بڑے لکھے پڑھے ، ان پڑھ عالم جاہل سب کو جھوٹ سے مالا مال (بھر پور ) پاؤ گے۔ جنہیں کچھ بھی نہیں آتا انہوں نے بھی اہل تحقیق کی طرح زبان کھول رکھی ہے۔ ثابت و استوار قدم گمراہی میں ڈالے ہوئے ہیں یعنی گمراہی کو ہدایت سمجھے ہوئے ہیں اور اسی پر ایقان بھی رکھتے ہیں۔ نعوذ بالله من شرور زماننا نعوذ بالله من شرور انفسنا و من سئیات اعمالنا ( پناہ مانگتا ہوں اللہ کی اپنے زمانے کی برائیوں سے اور اس زمانے والوں سے پناہ مانگتا ہوں اللہ کی اپنے نفوس کی برائیوں اور عمل کی خرابیوں سے ) جتنا دیکھتے جائیں اور زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ اس زمانے میں بہت کم آدمی ایسے ہیں جو گھاٹے میں نہ ہوں ۔ دشمن کے شکار نہ ہو گئے ہوں۔ شاید ہی کوئی ایسا دل ہو جو دنیا میں مبتلا نہ ہو ۔ اس لئے سلوک میں گفتگو کرتے ہوئے اس کے بارے میں کچھ کہنے سے شرم آتی ہے ۔ حیا روکتی ہے اور یہ کہتی ہے کہ کسی طالب نے شریعت کی داد دی (جیسا کہ بجا لاتا ہے کہاں بجا لایا ) کہ تم زاہدوں عابدوں کے رمز ( راز ) محبت و طلب والوں کے معاملات و اسرار بیان کرنے بیٹھ گئے ہو ۔ ثابت کرنے ثبوت دینے سندیں، دلیلیں پیش کرنے ایسی باتیں سنانے لگے ۔ سچ ہے ارے بھائی ذهب العلم واهله ( علم چل دیا۔ اس کے اہل گزر گئے ۔ )
عجیب تر بات یہ ہے کہ انسان کے وجود میں آنے کا موقع ہی نہیں آیا۔ انسانیت میں نہ آیا۔ ابھی نطفہ باپ کی پیٹھ تک نہیں آیا۔ ماں کے رحم میں اس کے ٹھہرنے کی جگہ ابھی بنائی نہیں گئی کہ آپس میں جمع ہو جائیں۔ دونوں کی صلاحیت آپس میں مل کر ضم ہو کر باہر کی طرف رخ کرے۔ ماں کا رحم اس خلقت و قابلیت کو اپنے میں لینے کے بعد جذب کر کے نطفہ کو ٹھہرا لے) بندہ خدا۔ اتنا تو ہو کہ الى ان يبلغ المرء حد الاربعین (کم از کم مرد چالیس سال کو تو پہنچ جائے ) شاید اس عمر میں اس جہاں کا شعور اس کا نقد وقت ہو سکے (ہاتھ آ جائے ) وہ خالی خولی حکایتیں جو صرف سنی ہوئی اہل تحقیق کی کتابوں میں لکھی ہوئی دیکھی جاتی ہیں ان کو خدا کی قسم خدا ہی جانے۔ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ جو تم نے سنا یا دیکھا وہ سمجھ نہ سکے اور جو تم نے پڑھا اس کو جان نہ سکے۔ ذرا غور کرو کہ تم ایسے ہوتے ہوئے بھی تمہاری یہ حالت ہے کہ تم معارف و حقائق میں جو سب بیانات میں نازک تر ہے بلکہ باریک تر ہے زبان چلاتے ہو۔ زبان درازی کرتے ہو۔ تم یہ تو اچھی طرح سے جانتے ہو کہ نا جائز کا جائز رکھنا کھلی گمراہی ہے بے دینی ہے گناہ کبیرہ ہے۔ ان صورتوں ان حالات کو دیکھ کر میں نے ارادہ کیا کہ چند باتیں اشارتاً اقصاف صفات تعزز ذات میں لکھوا دوں تا کہ وفادار دوستوں بچے بھائیوں کو قیاس صحیح کے ساتھ حق کی ٹھیک سوچ اور راہ حق کا صحیح طریقہ آ جائے اور ان ملاحدہ الحاد میں پھنسے ہوئے بے دینوں کی گفتگو جو اپنی تحریر و تقریر و بیان میں نزاکت خیال باریکی بیان کی شہرت رکھتے ہیں اس میں جو بدعت (نئی بات خلاف سلف ) کدورت ( گدلا پن ) اندھیر راستہ سے بھٹکے ہوئے ہونا اور گمراہی انحراف و انکار ہے جس سے وہ بے خبر ہیں اپنی ہوا میں آپ ہی بہہ گئے ہیں پوری طرح سے سمجھ میں آ جائے ۔ سب کچھ سمجھ جائیں۔ اس کو ہم اچھی طرح سے تفصیل کے ساتھ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ تاکہ سالک ایسے دینداروں کی اقتداء ( پیروی) کریں جن کی شان میں، جن کے بارے میں المرء علی دین خلیله مرد اپنے دوست کے راستے پر ہوتا ہے) کہا گیا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ ساتھیوں کو سیدھے راستہ پر لے جانے منزل تک پہنچنے کا راستہ بتلانے کے لئے شرائط موافقت (برابری و یکسانیت کی شرطیں ) ومصادقت ( دلی دوستی ) کا جاننا ضروری ہے۔ دین کی حمیت اور اس کا اقتضا بھی یہی ہے کہ حق چھپا نہ رہے۔ دین اسلام کی راہ ٹیڑھی نہ ہو جائے ۔ جو خدا رسیدہ حضرات ہوتے ہیں وہ کسی کے لئے یہ روا نہیں رکھتے کہ وہ حرمان ( دوری محرومی ) میں پڑ جائے یا رہ جائے ۔ دستگیری (مدد دینا۔ ہاتھ پکڑنا ) ثابت قدم حضرات ہی کا کام ہے۔ مردان حق کام کی حقیقت کی تحقیق رکھتے ہیں۔ انہی کا یہ حوصلہ ہے۔ ہم نے اس رسالہ کا نام استقامت فی الشریعت بطریق الحقیقت رکھا ہے تا کہ یہ اسم باسمی ہو جائے (جیسا کہ اس کا نام ہے یہ ویسا ہی نامزد ہو جائے ) وبالله التوفیق ( راستہ دکھلانا اللہ کا کام ہے )۔
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ منه استعانة
( شروع کرتا ہوں نام سے اللہ کے جو رحمن و رحیم ہے۔ اس کی مدد و یاوری ہے)
قال الله تعالى : قُلِ ادْعُوا الله أَوَادْعُوا الرَّحْمَنِ ايَّامًا تَدَعُوا فَلَهُ الأَسْمَاءُ الْحُسنی ( اللہ تعالی فرماتا ہے (اے محمد ﷺ کہہ دیجئے کہ اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن ، جو بھی نام سے پکارو سب اس کے اچھے نام ہیں)
قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ان لله تسعة تسعين اسماً مائة غير واحد ( رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نام ننانوے ہیں۔ سواں نام ایک اور بھی ہے ) بعضوں نے اسم کو عین مسمی کہا اور بعضوں نے غیر مسمی دونوں نے جو کچھ کہا وہ ایک اعتبار اور اس کی نسبت سے کہا۔ مثلاً ایک شخص ہے جس کا نام زید ہے۔ اگر تم یہ کہو کہ زید کا نام اس کا عین نہیں’ نام ہی نام ہے تو یہ بات بھی درست ہے۔ اگر تم یہ کہو کہ زید آیا زید گیا تو زید جو نام ہے اس سے زید ہی مراد ہوتا ہے۔ یعنی اسم ہی عین مسمی ہے۔ اس لحاظ سے جس کو تم نے زید کہا وہی شخص اس اسم کا مسمی ہوا۔ یہ سب جانتے ہیں کہ ہر نام کا ایک منشاء ایک صفت ہوا کرتی ہے۔ اللہ جل شانہ الوہیت صفات کے ساتھ ہے اس لئے اس کا نام اللہ ہوا۔ اس کی صفت رحمت ہونے سے وہ رحمن سے موسوم ہوا اور جس قدر صفات ہیں ان کو اسی پر سے قیاس کر لو۔ بعض صفات کو عین ذات کہتے ہیں اور بعض صفات کی نفی کر کے یہ کہتے ہیں کہ رحمت کا ظہور اس سے ہوا اس لئے اس کو رحمن و رحیم کہتے ہیں۔ قہر ظاہر ہونے سے اس کو قہار کہا گیا ہے۔ صفات کو عین ذات ماننے والوں میں سے بعض وہ ہیں جو صفات کو اضافی کہتے ہیں۔ اضافی کہنے والوں کے لئے صفت حیات صفت علم کی نفی کو ثابت کرنا دشوار ہو جاتا ہے لیکن تاویل و تکمیل ( ٹال مٹول) کر کے باتیں بنانے لگتے ہیں۔ وہ جو صفات کو غیر ذات کہتے ہیں ان کے لئے حیات اور وجود کو غیر کہنا مشکل تر ہو جاتا ہے۔ اس طرح کہنے سے قدیمات ثابت ہو جاتے ہیں ۔ بعض وہ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ صفات عین ذات ہیں نہ غیر ذات بلکہ ایک لحاظ سے عین ذات ایک اعتبار سے غیر ذات ہیں۔ بعض یہ کہتے ہیں کہ بعض صفات عین ذات ہیں جیسے کہ وجود حیات بقاء بعض غیر ذات جیسے کہ خلق رزق احیاء سب اسی کو پکڑے ہوئے ہیں۔ اس کے ایک ایک طرف کو کہ حق ہی حق ہے جو گرمی و نرمی کرتا ہے پنجہ مارتا ہے قابو میں کر لیتا، چھوڑ دیتا ہے رحم کرتا ہے۔ بنیادی خوبیوں ( امہات صفات کو بعض نے نو بعض نے سات بعض نے چار کہا ہے۔ ابو الحسن اشعری رحمتہ اللہ علیہ وہ ہیں جو متکلمین کے امام و پیشوا ہیں ہاتھ منہ استواء کو بھی ثابت کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ حقیقی ہیں۔ ہاتھ قدرت کے معنی میں نہیں ہے۔ وجہ ذات کے معنی میں نہیں۔ استوی بمعنی استیلا نہیں ۔
اللهم (اے ہمارے پروردگار ) یہ مرد متکلم دلیل و برہان (حجت و سند ) کے ساتھ ہے لیکن دو عین عیان (کھلی حقیقت ) کی خبر نہیں رکھتا ۔ اگر ہاتھ منہ استوی کو از قبیل تمثل کہا جاتا تو وہ ایک توجیہ کی صورت ہو سکتی تھی کیونکہ صورت جیسی کہ ہے،ہے۔ تمثل، تشکل میں جو کچھ دکھلائی دیتا ہے وہ ایسا نہیں ہوتا۔ لیکن ویسا ضرور دکھلائی دیتا ہے۔ جبرئیل علیہ السلام حضرت محمد مصطفی ﷺ کے پاس دحیہ کلبی کی صورت میں آیا کرتے تھے۔ جبرئیل علیہ السلام کی صورت نہ تو دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی صورت کے جیسی ہے نہ جبرئیل علیہ السلام نے دحیہ کلبی کی صورت کی مطلب یہ کہ وہ ویسے ان کے جیسے ضرور دکھلائی دیتے تھے۔ لیکن وہ ویسے نہ تھے نہ ہیں۔ اگر یہ کہیں کہ ذات کے ہاتھ ہیں تو کیا وہ ہاتھ ویسے ہی ہیں جیسے کو محبوب کے ہوتے ہیں۔ محبوب کے ہاتھ میں (اعصاب رگ پٹھے ) ہڈیاں گوشت پوست خون چمڑا ہوتے ہیں۔ گھٹتے بڑھتے کھلتے بند ہوتے ہیں۔ ایسی باتوں سے جو کہی گئی ہیں ہم اللہ کی پناہ میں آتے اور استغفار کرتے ہیں اور سختی کے ساتھ انکار کرتے ہیں کہ یہ سب اس کو جیسا کہ سمجھنا چاہیے نہ سمجھے۔ کچھ کا کچھ کہہ گئے۔ بعض یہ کہتے ہیں کہ قاضی عین القضاة ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ نے لمس ( چھونا )شم (سونگھنا) ذوق ( چکھنا (اللہ) کا اس میں ہونا ثابت کیا ہے۔ اس بارہ میں ہم یہ کہتے ہیں کہ ان کی مراد یہ ہے کہ جب میٹھا کھاتے اور اس کو چباتے ہیں، منہ میں گھولتے پھراتے اور نگل جاتے ہیں تو وہ حلاوت جو حلق میں محسوس ہوتی ہے وہی اس کو بھی ہوتی ہے مگر بغیر آلات کے فالله الكبير المتعال عن هذه المقال الله تعالی بزرگ و برتر ایسی باتوں سے پاک و منزہ ہے) قربت و معیت کے اعتبار کرتے وهو معكم اینما کنتم وہ تمہارے ساتھ ہے۔ جہاں کہیں بھی تم ہو ) و نحن اقرب اليه من حبل الورید (ہم شہ رگ سے بھی نزدیک تر ہیں) و نحن اقرب اليه منكم ولكن لا تبصرون ( ہم تم سے بھی تمہارے نزدیک تر ہیں لیکن تم نہیں دیکھ پاتے) کا اشارہ تمہارے ساتھ ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ جو ذرہ بھی ذرات وجود سے ہے وہ اس کے ساتھ ہے۔ اگر تم یہ کہو کہ وہ علم و قدرت کے ساتھ ہے تو علم و قدرت صفات ذات ہیں۔ صفات غیر ذات نہیں اسی صورت میں وہ ذات ہی کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ نحن (ہم) اور انا (میں) کے بارے میں گفتگو کرنے والوں کی بے تکی باتیں ان کی پہنچ اور سمجھ کی حکایت کرتی ہیں۔ اس کے سوا جو معنی بھی کرو گے یا کہو گے وہ کوئی تاویل ہوگی یا تحمیل (کسی چیز کو ظاہر معنی سے پھیرنا اور ہی معنی بیان کرنا مگر مناسبت کے ساتھ ) خیالی گدے لگانا ہوگا ۔
جب تم یہ جان گئے سمجھ چکے تو اس کو یہی سمجھ لو کہ لمس ذوق، شم ظاہری حواس اجزائے انسانی سے متعلق و منسوب ہیں۔ اللہ تعالیٰ جل شانہ ”جز کے ساتھ ضرور ہے۔ اگر وہ کسی جز کے ساتھ نہ ہو تو وہ ” جز جز ہی نہیں ۔ میٹھی کڑوی بدمزہ جس کا احساس بلحاظ حس ہر انسان کرتا ہے وہ ہرگز نہ کر سکے گا کیونکہ سب کی حیات سب کا قیام اللہ تعالی سبحانہ ہی سے ہے۔ اس لئے مناسب یہ ہے کہ تم ان اجزا کا تجزیہ کرتے چلے جاؤ۔ یہاں تک کہ ایسا حصہ رہ جائے جو قابل تقسیم قابل تجزیہ نہ ہو۔ اس سے تم اس نتیجہ پر پہنچ جاؤ گے کہ وہ جز لا تجزی ہی ہے جو لذت پائی ہوئی سونگھی ہوئی، چھوئی ہوئی چکھی ہوئی کا احساس کرتا ہے اس لئے یہ اسی سے ہے۔ اس سے یہ ثابت ہو گیا۔ احساس اس کے جزو نہیں کرتے بلکہ وہی کیا کرتا ہے جس سے یہ اجزاء قائم ہیں۔ کیونکہ در اصل حی (زنده) متحرک ( حرکت کرنے والا ) واجد ( مزہ لینے پانے والا ) وہی ہے۔ اس سے اس نے یہ وجدان (یافت ) پایا ہے۔ اس سے یہ سمجھ میں آ جاتا ہے اور ثابت ہو جاتا ہے کہ چھونے سونگھنے مزہ پانے لینے کی تعریف و حکایت کسی درمیانی واسطہ کے بغیر اسی کے لئے ہے۔ اگر کسی قسم کی تشویش کسی کے دل و جان میں آئے الحاد و اباحت کی صورت کا نقش بنائے اور یہ دکھلائے کہ جب لذت لینے پانے والا چھونے والا سونگھنے والا وہی ہے تو پھر حلال کیا اور حرام کیا ۔ سب ایک ہی درجہ میں آجاتے ہیں ایک ہی تار میں بندھ جاتے منسلک ہو جاتے ہیں۔
نعوذ بالله من شر الشيطان و من شر هذا الظان (پناہ میں آتا ہوں اللہ کی شیطان کے برائی ڈالنے سے اور ایسے برے وہم و گمان کے آجانے سے ) وہی اشکال جو کہ قضا و قدر میں رونما ہوئے تھے وہی اس وجہ میں روشن تر زیادہ کھلے ) دیکھے گئے ۔ قدری ،سنی ،اشعری ،جبری سب یہی کہتے ہیں کہ اِنَّ اللهَ لَيْسَ بِظَلام اللعبید اللہ اپنے بندوں پر ظالم نہیں، ظلم نہیں کرتا ۔)
اس نے ایک تقدیر ٹھہرا دی، ایک قضا جاری کی افعال و حرکات کو پیدا کیا۔ و ہی اپنے پیدا کئے ہوئے پر عذاب کرتا ہے۔ اس سوال کا جواب اس مشکل مسئلہ کا حل ان اشکال کی صورت پذیری صورت نمائی ان کا سمجھنا لوگوں کے لئے ایک پہاڑ ساسخت اور مشکل کام بلکہ محال کے مرتبہ کو پہنچ گیا ہے۔ اگر چہ ان میں بیان کرنے کی طاقت کہنے کی قوت کافی ہے لیکن اس کے بیان کرنے ان گتھیوں کو سلجھانے میں سب کا منہ بند ہے۔ زبان خشک ہو کر رہ گئی ہے۔ ان کا جو کچھ بیان ہوتا ہے وہ مٹکے (مٹی کا برتن ) اور مٹکے کے بنانے والے کی تعریف کا سا ہو کر رہ گیا ہے۔ صاحب شرع علیہ السلام نے فرما دیا کہ اذا ذكر القدر فاسكتوا ( جب مسئلہ قدر کا ذکر آ جائے تو خاموش ہو جاؤ ) بعض یہ کہتے ہیں کہ ہم یہ خوب جانتے ہیں کہ ہر چیز کو خود پیدا کیا، ہر کام خود کیا خود ہی عذاب کرتا ہے۔ یہ ظلم نہیں تو کیا ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ تم اس بھید سے واقف نہیں ہو۔
چاہے تم “جبر” پر اعتقاد رکھو یا “قدر” پر ۔ یہ دونوں معتقدات جان کا جنجال اور وہال ہیں۔ عذاب و مصیبت ہیں۔
محمد حسینی جو شیخ الاسلام نصیر الدین محمود اودھی رحمتہ اللہ علیہ کے مریدوں میں سب سے کم درجہ کا مرید اور آپ کے شاگردوں میں بہت کم مرتبہ کا شاگرد پردہ میں چھپی ہوئی کو باہر لایا۔ منہ ڈھانکی ہوئی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ علمائے باللہ کی جوانمردی ” ان کی انتہائی جستجو نے ہر ایک معنی کو کھول دیا ہے ہر ایک بات ان کے قابو و اختیار و بیان میں آگئی ہے انہوں نے ہر چیز کو اچھی طرح سے ظاہر کر دیا ہے۔ لیکن اس گفتگو اس بارہ میں خود کام (اپنے کو کچھ سمجھے ہوؤں) کے جگر خون اور سر نیچے ہو گئے ۔ کوئی جواب ہاتھ نہ آیا۔ جواب دینے پر قادر نہ ہو سکے۔ اگر تم مرد ہو تم میں جوانمردی ہو تو ذرا دل کی گہرائیوں سے اچھی طرح سے کان لگا کر سنو ۔ جب تک ہمہ تن جان (پورے طور سے روح) اور سراپا بصر (سر سے پاؤں تک آنکھ ) بالکلیہ فواد (دل کا مخصوص اندرونی حصہ ) یعنی تہہ دل سے نہ سنو گے اس چھپی ہوئی بات کی تہہ تک نہ پہنچ سکو گے۔ ہماری بات کو پا نہ سکو گے تمہارے لئے عزت و حیا والے معشوق کا خوبصورت حسن دیکھنا مشکل ہوگا ۔

بسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ بالله التوفيق
( شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان انتہائی بخش کرنے والا ہے۔اللہ ہی کا کام راستہ بتانا ہدایت دینا ہے۔(
اللہ جل شانہ عناصر کو عالم غیب سے عالم جسم و جسمانیت میں لے آیا ان کو نہ تو مادہ سے نہ اس کے جیسے سے لے آیا۔ فلسفہ کے ماہر جنہیں ہم شیطان کہتے ہیں وہ ہیولی (مادہ اصلی) کو قدیم کہتے ہیں۔ صورت کو حادث (نو پیدا) بتاتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر ایسا نہ ہو تو تقذر و استحالہ ( پلید رہنا محال کی طلب ) رونما ہو کر ایک دور تسلسل ( گردش سلسلہ بندی) کا مرحلہ پیش آ جاتا ہے۔ بخلاف اس کے محققین یہ کہتے ہیں کہ الله مصدر الموجودات اى مبدها و مرجعها لا شاحته في الالفاظ اللہ پیدا و ظاہر کرنے والا ہے کا ئنات کا بلکہ اس کی ابتداء و انتہاء اور اس کا لوٹنا۔ کوئی کسر الفاظ میں نہیں) وہ اس مشکل کے دور ہونے کے لئے کہا کرتے ہیں کہ یہی ہیولی ہے۔ یہ سب کچھ جو کہا جاتا ہے وہ بطور انکار کہا جاتا ہے۔ اذا اراد الله شيئا ان يقول له كن فيكون ( الله جب ارادہ کرتا ہے کسی چیز کا تو کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے ) کن کو ہیولی تصور کر لو قدیم سمجھ لو۔ فیکون کو صورت تصور کر لو حادث جان لو ۔ اللہ تعالیٰ نے چاروں عناصر کو ایک دوسرے کی ضد بنایا۔ ہر ایک کی ایک طبیعت ٹھہرائی ۔ ان کی خاصیتوں میں ایک نسبت خاصہ رکھ کر ان کو ظاہر کیا تا کہ ان کا آپس میں میل ہو جائے وہ یکساں ہو کر آپس میں مل جائیں ان میں امتزاج طبعی حاصل و پیدا ہو جائے۔ خود اس نے ان کو آپس میں ملا دیا۔ اس نے آگ کو گرم و خشک مٹی کو سرد و خشک، خشکی کی وجہ سے مٹی اور آگ میں ایک مناسبت ونسبت ہو گئی۔ پانی سرد و تر ہے۔ مٹی و پانی میں سردی ہونے سے ایک مناسبت نسبت ان میں پیدا ہو گئی ہوا گرم و تر پانی اور ہوا میں تری ہونے سے پانی اور ہوا میں ایک مناسبت و نسبت پیدا ہو گئی اور گرمی کی نسبت سے آگ سے مناسبت و نسبت ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو آپس میں جوڑ دیا ان کو آپس میں ملا کر نتائج کو ظاہر کر دیا۔ بعض لوگ عناصر کو امہات یعنی اصل و ماہیت کہتے ہیں اور نتائج کو موالید ( پیدا شدہ) کہتے ہیں۔ ان ہی پیدا کئے گئے ہوؤں میں سے ایک آدم علیہ السلام کا ہونا بھی بتلاتے ہیں۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ صفرا آگ سے سودامٹی سے بلغم پانی سے خون ہوا سے نسبت رکھتا ہے۔ غور سے سنو۔ اللہ تعالیٰ نے دو قسم کے آدمی پیدا کئے ہیں۔ (1) موحد ( خدا کو ایک جاننے ماننے والا) (2) مشرک (خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے والا ) مشرک کو اور اس کے شرک کو پیدا کیا شرک میں رہنے کو پیدا کیا۔ مشرک کو شرک پر ثبوت دیا یعنی قیام و ثبات دیا الی ان يتم امره علیه( اس وقت تک جب تک کہ اس کا حکم پورا ہو گیا ) یعنی موت آ گئی۔ پانی، مٹی، آگ ،ہوا کے جو اجزاء ان کے ساتھ تھے وہ متفرق ہو گئے ۔ ہر چیز نے اپنے کل کے ساتھ میل کلی کیا، پورا میل کھایا۔ پھر ان کے اجزائے متعینہ (ٹھہرائے ہوئے حصے) متشخصہ ( تشخص شخصیت دی ہوئی صورتوں) کو اس نفس معین ( ٹھہرائی ہوئی جنس میں وقت میں ) کہ صفت تعین ( اعتبار ایک قسم کا ) لے لیا تھا پھر جمع و یکجا کر دیا کہ وہ ایک ترکیب ایک صفت لے چکی تھی۔ چونکہ اس سے پہلے بھی اس کی غیر تھی اس لئے اس کو کلیت کے ساتھ بازگشت میسر نہ ہوئی کیونکہ وہ تعین و تشخص ایک اعتبار سے زیادہ نہ تھا۔ اس کا غیر ہو گیا تھا اس لئے اس کے لئے جس طرف سے وہ گیا تھا اس کے سوا اس کے لئے کوئی اور راستہ واپسی کا نہ رہا۔ یہ اس لئے کہ ہر ایک کی رجوع (واپسی ) بلحاظ نسبت اس کے ساتھ ہے۔ اس کو جب دوبارہ پیدا کیا تو اس شرک کے ساتھ پیدا کیا۔ یہ دوبارہ زندہ ہوتا ہے۔ جو اس کے شرک کے ساتھ ہے جس کے بارے ميں كما تعيشون تموتون كما تموتون تبعثون (جیسے جیں گے ویسے مریں گے جیسے مریں کے ایسے ہی دوبارہ زندہ کئے جائیں گے ) فرمایاگیا۔ دوزخ کو بھی اسی نے پیدا کیا۔ دوزخ میں جو دکھ تکلیف رنج دینے والے امور ہیں یا چیزیں ہیں ان سب کو اسی نے پیدا کیا۔ آگ کے قبول کرنے کے لئے مشرک کے جسم کو اسی نے پیدا کیا۔ مشرک میں تکلیف رنج کے پانے کو بھی اس نے پیدا کیا۔ مشرک کے چلانے پکار نے فریاد کرنے تکلیف دکھ درد اٹھانے رونے چلانے کو بھی اس نے پیدا کیا ایسی تکالیف اٹھانے کو بھی اسی نے پیدا کیا۔ اب کہو کہ تمہارے کون سے سوال کا جواب باقی رہا ہمارے کہے ہوئے میں غور کرو گے تو ظاہر ہو جائے گا کہ ظلم ہوا ہی نہیں ہوتا ہی نہیں جب یہ بات ہو تو تم ہی کہو کہ جبر ( دباؤ ) کہاں ہے۔ کون سی کھڑکی سے سر نکالا ہے کیسے ہوا اس کو جبر کیسے کہہ سکتے ہیں۔ وہ اپنے ساتھ آپ ہی کھیل رہا ہے۔ اپنے آپ سے آپ ہی مشغول ہے۔ غیر کے ساتھ وہ مشغول ہی نہیں۔ ظلم اس وقت ہوتا جبکہ ہماری خدا کے ساتھ وہی نسبت ہوتی جو بادشاہ کے ساتھ رعایا کو ۔ مالک کے ساتھ غلام کو کہ ایک آقا ایک بندہ ایک مالک ایک مملوک ہوتا ہے۔ ہم ہم اور سلطان سلطان۔ جو کچھ وہ کہے ویسا کریں۔ مامور و مفعول اس کے کہے ہوئے کے مطابق کرنے پر بھی عذاب ہو تو کہہ سکتے ہیں کہ ظلم ہوا۔ اللہ تعالی ۔ خود بنایا۔ خود کیا۔ خود فرمایا۔ خود عذاب کیا تو اس کو ظلم کیسے کہہ سکتے ہیں۔ ظلم کا گزر کیسے ہو سکتا ہے۔ ہمارے اس بیان سے قضا و قدر کے اشکال کمزور ہو گئے ۔ وہم و خیال قدری جبری نا تواں ہو گیا۔ ہماری بحث سے جیسا کہ چاہئے مقصد و مطلب مل گیا ثابت ہو گیا ۔
حکماء و فلاسفہ نے ہیولی و صورت میں جو بحث کی ہے وہ بیان ہی بیان ہے اس کے سوا کچھ نہیں۔ اس حقیقت کو وہ جان نہ سکے پراگندہ و پریشان ہو گئے ۔ ذرات کی طرح ہوا میں اڑ گئے ۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر غلبہ پا گئے تحقیق کے میدان میں بازی لے گئے ۔ مرکر اٹھنا سچ ہے دوزخ کا ہونا سچ ہے اللہ تعالیٰ کو ظلم و ستم کے ساتھ نسبت نہیں دی جاسکتی اللہ جب چاہتا ہے کرتا ہے اور اختیار کرتا ہے تمہارے لئے اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تم کو پیدا کیا۔ تمہارے افعال کو بھی پیدا کیا۔ یعنی جو تم کرتے ہو اس کو بھی پیدا کیا۔ اللہ ہی کے لئے بہترین دلیل ہے۔ اب ہم ابتدائی کلام کی طرف لوٹتے ہیں۔ ہم نے جو کچھ کہا وہ تم سمجھ گئے ہو گے۔ لذت راحت نفرت کراہیت کا پانے والا اس سے مزے لینے والا وہی ہے۔ جنت ،حور، باغ، جنگل میدان دوزخ آگ جلنا بھوک وہی ہے۔ یہ سمجھ لو کہ مطیع و فرمانبردار کے لئے جنت حور تعریف شاباشی واہ واہ ہے۔ کافر مشرک، گنہگار حکم نہ ماننے والے کے لئے دوزخ آگ میں جلنا، تھو تھو تھوتڑ لۂ لعنت ملامت۔ مومن، مطیع لطف سے نسبت رکھتا ہے۔ مشرک بد بخت قہر سے نسبت رکھتا ہے۔ جنت کو صفت لطف ۔ دوزخ کو صفت قہر سے پیدا کیا۔ جس کی جو نسبت یا مناسبت ہوتی ہے وہ اسی طرف جاتا ہے نہ جائے تو لے جایا جاتا ہے۔ جنسیت کا رابطہ (ایک قسم میں سے ہونے کا لگاؤ) اس کو کھینچ کھانچ کر اسی طرف کھینچ لے جاتا ہے۔ یہ جو فرمایا گیا کہ بعض خدا کے دوستوں کے گلے میں نور کی زنجیریں ڈال کر انہیں کھینچ کر جنت میں لے جائیں گے۔ یہ زنجیریں وہی رابطہ ہے۔ اللہ کے دشمنوں کو جنہوں نے اس کے ساتھ دوسرے کو شریک کیا اس کے غیر کی پرستش کی اس سے غفلت برتی ۔ ان کی حالت کو یوخذ بالنواصي والاقدام (پیشانی کے بال اور چوٹی سے ان کو پکڑتا ہے ) سے بیان کرتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ دوزخ میں دوزخی اسی طرح رہیں گے جیسے کہ آگ کا کیڑا آگ میں رہا کرتا ہے اور پانی میں مچھلی۔ بعض وقت ہیرپیچ کی باتیں بگٹ (ہٹ دھرمی ) کے سوال پیدا ہو جاتے ہیں۔ جہاں سب کی زبانیں گونگی اور خاموش ہو جاتی ہیں۔ راہ تحقیق میں چلنے والوں کے قدم کٹ جاتے ہیں۔ جب شرک کو آگ سے بنایا گیا وہ دوزخی ہے تو اس کو دوزخ میں و ہی راحت ملنی چاہئے جو آگ کے کیڑے کو آگ میں،مچھلی کو پانی میں ملتی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آگ کا کیڑا آگ میں اورمچھلی پانی میں پیدا ہوئی۔ یہ آگ و پانی سے نکلے اس میں رہتے ہیں ان کا قوام (اصلی بناوٹ ) اس سے ہے بخلاف اس کے مشرک صرف آگ ہی سے بنا ہوا نہیں ہے۔ اس لئے اس کو دوزخ میں راحت نہیں مل سکتی ۔ دوزخی کے متعلق ایسا قیاس انبیاء علیہم السلام کی تبلیغ ، ان کے اقوال و تعلیم کے بالکل خلاف ہے۔ انبیاء علیہم السلام سب کو خدا کی طرف بلائے اس کا پیغام پہنچانے کے لئے آئے ۔ سب نے یہ خبر دی کہ دوزخ میں دکھ ہو گا ۔ دوزخی کو عذاب پہنچائے جانے کا ذکر کیا اور تکرار کے ساتھ فرمایا کہ دوزخ میں عذاب دیا جائے گا، دکھ پہنچایا جائے گا۔ ہر نبی علیہ السلام کے فرمائے ہوئے کو لکھوں تو طوالت ہو جائے گی۔ جتنے بھی اہل کتاب ہیں، انہیں یہ معلوم ہے۔ سب کا متفقہ اعتقاد یہ ہے کہ دوزخ تکلیف دہ مقام ہے۔ محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ دفع اعتراض قرآنی کے لئے کہتے ہیں کہ عذاب مشتق ہے۔ عذابة الماء سے یعنی تکلیف نہ ہو گی رنج نہ ہوگا لیکن قرآن شریف میں عذاب جس معنی میں آیا ہے وہ اس معنی میں نہیں، ہرگز ایسا نہیں۔ ایسی تاویل لائق بھروسہ نہیں۔ اعتبار کے لائق نہیں۔ کیونکہ جتنے دین حق آئے جو کچھ اس میں بتلایا گیا وہ اس کے خلاف ہے اور سچی خبر جو انبیا علیہم السلام نے دی اورسچے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دی ہوئی خبر کے بھی بالکل خلاف اس سے ہٹی ہوئی اور علیحدہ ہے۔ قرآن شریف میں جن جن آیات میں عذاب کا لفظ آیا ہے۔ وہاں الم، ایذا ،رنج دکھ تکلیف کو صاف عبارت صریح بیان کے ساتھ فرمایا گیا ہے۔ جس کی اہل تفسیر اہل فقہ نے نہایت خوبی کے ساتھ تشریح و تفسیر و تفہیم کی ہے۔ جس میں تاویل و تحویل کی ذرا بھی گنجائش نہیں ۔ نعوذ بالله منه ( پناہ مانگتا ہوں اللہ سے ایسے کہنے سے ) محمد حسینی ۔ انی انا اللہ (میں ہی اللہ ہوں) کی آگ سے ایک چنگاری لے کر مشکوۃ مصطفوی ( فانوس چراغ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چراغ روشن کیا ہے اور زجاجه مرتضوی (قندیل علی مرتضی رضی اللہ عنہ) سے جلا ( صفائی روشنی ) پا کر روشن تر ہو گیا۔ وہ یہ کہتا ہے کہ اگر انسان آگ میں آگ کے کیڑے کے جیسا یا پانی میں مچھلی کی طرح ہوتا تو نتیجہ وہی ہوتا جو وہم کرنے والے ( کا وہم مزاحمت بن کر) وہم کرنے والے کے لئے مشکل و مانع ہو جانے کی وجہ و سبب ہو کر اس کی قوت واہمہ کو (تحقیق) جانچ پڑتال کے حدود اور قیاس صحیح کے دائرہ سے باہر لے گئی۔ سنو! انسان اگر صرف آگ ہی کے میدان میں پھولتا پھلتا پروان چڑھتا وہیں سے سر نکالتا۔ آگ ہی میں سے یا آگ سے پیدا ہوتا تو یہ اعتراض ٹھیک ہوتا ۔ ظاہر ہے کہ انسان کئی اجزاء سے مرکب ہے جس میں ایک جز آگ بھی ہے اس کے ہاتی اجزاء دوسرے ہیں۔ یہ بھی سن لو لو کہ ایلام‘ عبارت ہے ایصال غیر موافق اور اتصال غیر ملائم سے دکھ پہنچانا مراد ہے نا موافق چیز کے پہنچائے اور ایسے کے ساتھ ملا دینے سے جو مزاج و طبیعت کے خلاف ہو ) اس سے اور سابقہ بیان سے تم نے فیض کی معیت، علم و قدرت کی قربت کو جان پہچان لیا اور یہ سمجھ چکے کہ اللہ تعالی تمام اشیاء کے ساتھ علم و قدرت کے ساتھ ہے۔ وہ نہ تو خارج ہے نہ داخل نہ قریب ہے نہ بعید ۔ ( نہ اندر ہے نہ باہر ۔ نہ نزدیک ہے نہ دور ) نہ متصل ہے نہ منفصل ( نہ ملا ہوا ہے نہ جدا) چنانچہ علی مرتضی کرم اللہ وجبہ رضی اللہ عنہ اسی مکاشفہ کی بناء پر فرماتے ہیں۔ انه مع كل شئ لا مقارنة و غير كل شئ لا بمزائلة (وہ ہر چیز کے ساتھ ہے لیکن باہم نزدیک ہونے کی طرح نہیں۔ وہ ہر چیز کا غیر ہے لیکن باہم دور ہونے کی طرح نہیں ) یہ قرب (نزدیکی) بعد ( دوری) اجسام کی دوری و نزد یکی کے جیسی نہیں یعنی گھاٹا پائی ہوئی یا کم کی گئی ہوئی نہیں پائی جاتی ۔ ارباب معنی ( علم و ادب کے جاننے والے ) نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصی رضی اللہ عنہ نے لا جواب نا در تعریف فرمائی ۔ یہ سب جانتے ہیں کہ کسی بات کو علم نحو یا اسم و رسم علم صرف کے مشتقات سے بیان میں نہیں لا سکتے ۔ اللہ تعالیٰ کے افعال کو صرف ونحو کے کلمہ سے ادا کیا تو کرتے ہیں لیکن یہ صورتیں وہ نہیں جن کو بغیر لپٹ جانے اور ملنے کے کہا کرتے ہوں۔ ابو علی فارمدی رحمتہ اللہ علیہ نے گرگانی رحمتہ اللہ علیہ سے جو روایت کی ہے اس کے لحاظ سے کوئی مشکل یا شبہ کی صورت باقی نہیں رہتی کہ ان الاسماء التسعۃ والتسعين تصير اوصاف العبد السالك وهو بعيد في السلوك غير واصل ( نام ننانوے ہیں بندہ سالک کے اوصاف کی صراحت کرتے ہیں کہ وہ سلوک میں دور ہے۔ ملا ہوا نہیں ) گرگانی رحمتہ اللہ علیہ کو سلوک کے جنگل و بیابان کا ایک شیر سمجھو کہ جس کے دام میں ہر شکار آیا ہے۔ ان کے شکار بند سے ہر شکار کو باندھ دیا گیا ہے۔ اس کے باوجو د بھی وہ گھوڑ اسوار اپنا گھوڑا اڑاتا رہا۔ اسی دوڑ و دھوپ میں رہا۔ کسی جگہ اپنے آپ کو نہیں ٹھہرایا تم وہ ہو کہ تم نے ان کی گرد بھی نہیں دیکھی کی مرد کازین پوش ( خوگیر کے اوپر کا کپڑا) تک نہیں تھاما۔ تو ان کی بات کو کیا پا سکو گے کہ اب تک تم نے تھوڑا سا غبار بھی اس میدان کا نہ پایا۔ اس لئے ہم زیادہ وضاحت کے ساتھ کہتے اور شرح کرنے کی ضرورت پاتے ہیں۔ ایسا کھلا بیان کرنا چاہتے ہیں جس سے تمہارا دل کھل جائے اور پوری طرح سے تمہاری سمجھ میں آجائے ۔ سنو! ملک یعنی ناسوت (عالم اجسام) ملکوت (عالم فرشتگان – روح ) لاہوت یعنی عالم الہی (غیب الغیب) جبروت مجموعہ ناسوت ملکوت و لاہوت) ” ملک ،عالم شاہد ( حاضر موجود ) کو کہتے ہیں۔ جس کا نام ناسوت (عالم اجسام) بھی ہے۔ ملکوت عالم شہود کے باطن کو کہتے ہیں کیونکہ روح الروح جس سے عالم شہود قائم ہے یہ اس کا خلاصہ ہے لاہوت“ وہ عالم ہے جس سے عالم ملکوت قائم ہے یہ خلاصہ کا خلاصہ ہے۔ جبروت وہ عالم ہے جہاں ملک ملکوت لاہوت جمع ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر یوں سمجھو کہ جوز کا پوست عالم ناسوت جوز کا مغز – عالم ملکوت ۔ جوز کے مغز کا مغز عالم لاہوت ۔ جوز کو پوست ۔ مغز مغز کے مغز کے ساتھ اعتبار دیا جائے تو اس کو جبروت یعنی سب کا مجموعہ خلاصہ کا خلاصہ اور نچوڑ کہتے ہیں۔ یہ چاروں کے چاروں انسان میں بالفعل موجود ہیں ۔ جسم بمنزلہ ملک ۔ روح – ہو کہ انسان کا باطن ہے خلاصہ ہے یہی اس کا قیام قرار اور اصل ہے وہ بمنزلہ ملکوت ہے۔ روح الروح جو خلاصہ کا خلاصہ باطن کا باطن ہے جس سے روح کا قیام و قرار ہے اس کی جو اصل ہے وہ بمنزلہ لاہوت ہے۔ اب اس کو جب اعتبار دیا جاتا ہے تو اس کو جبروت کہتے ہیں۔
فیض قدسی قدیم ہے۔ اس کو حکماء نفس جُزی کہتے ہیں۔ ہر بشر (آدمی) کی اصل کے ساتھ اس کو اس طرح متعلق تصور کر لو كتعلق الملك بالمدينة والعاشق بالمعشوق ( جیسا کہ بادشاہ کا تعلق شہر کے ساتھ اور عاشق کا معشوق کے ساتھ ) یہ تعلق یہ نزدیکی ایسی نہیں ہے جیسی کہ اجسام کی نزد یکی ہوا کرتی ہے یا ان کا تعلق اور دوری بھی ویسی نہیں جیسی کہ اجسام کی ہوتی ہے یا اس کا تعلق اس مطلب کو اس طرح ادا کرتے ہیں کہ وہ نزدیک بھی نہیں دور بھی نہیں ۔ ملا ہوا بھی نہیں الگ بھی نہیں ۔ اندر بھی نہیں باہر بھی نہیں ۔ فیض قدسی جسمانی نزد یکی دوری۔ ملنا جدا ہونے کے جیسا ہونے سے بالکلیہ پاک و منزہ ہے۔ پاک و منزہ ہوتے ہوئے بھی ہر شخص کی گردن کی رگ سے ہر اس چیز سے جو انسان کے ساتھ ہوتی ہے وہ فیض اس سے بھی زیادہ نزدیک ہے آنکھ میں ،آنکھ کی پتلی میں۔ ہر ایک کے ساتھ کہ وہ اپنے ساتھ آپ ہوتا ہے اس سے بھی زیادہ نزدیک اور ساتھ ہے۔ وہ فیض قدیم ایک خاص پردہ میں جس کو تتق عزت کبریائی کہتے ہیں، چھپا ہوا۔ پردہ کیا ہوا۔ ڈھکا ہوا ہے۔ استتار تفرد (اکائی کا چھپانا ) حجب استعلا(بلندی کے پردوں ) میں ہے۔ یہ پردے ،روک جو کچھ بھی ہیں اس کی نسبت سے روک بنے ہوئے ہیں۔ چنانچہ کہتے ہیں۔ حجابہ النور لو كشف لا حترقت سبحان وجهه ما انتهى اليه بصره من خلفه (نور اس کا پردہ ہے۔ اگر اٹھ جائے تو چہرے جھلس جائیں انتہا اس کی ہے وہ نور پردوں کے پیچھے سے دیکھتا ہے) جو پردہ ،جوحجاب بھی ہے وہ اسی جہت اور اس جانب سے ہے جیسے کہ سبھی (درندگی) بہیمی (حیوانیت ) شیطانی ( شیطانیت ) ملکی (فرشتگی ) بہت سخت پر دہ ہے اس کا کھلنا سخت مشکل ہے اور وہ ہمیشہ کا چھپا رہتا ہے۔ یہی اس کا اثبات ہے۔ یہ وہم دوئی ( دو ہونے کا مغالطہ (وہم ) خیال نیستی ( نہ ہونے کا گمان ) تیرا اپنا گمان ہے۔ جب وہ دوام توجہ (ہمیشہ اسی طرف لگے رہنے ) و پا کی نفس ( جسم و دل کی صفائی ) یعنی مجاہدات ( عبادات و ریاضات سے ٹھیک ہو جاتا ہے تو یہ اندھیرے پردے جن کی نسبت مالک سے اور نورانی پر دے جن کی نسبت الہی و ملکی ( خدائی فرشتگی ) سے ہم نے دی ہے۔ جن کی نسبت ہم اس سے پہلے کہہ چکے ہیں کہ جب سالک کے سامنے سے یہ ظلماتی ( اندھیرے) پردے پھاڑ دیئے چاک کر دیئے جاتے ہیں یا اٹھ جاتے اٹھا دیئے جاتے ہیں تو غیر و غیریت اس کے سامنے نہیں آتی ۔ اس طرح جب سالک کے دل کے سامنے سے نورانی پردے اٹھ جاتے ہیں تو وہ فیض قدیم جو ہمیشہ سے اس کے ساتھ ہے اس پر مکشوف ہو جاتا ہے ( کھل جاتا دکھ جاتا ہے ) تو خود بخود یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ ہر ظہوریت میں وہ ایک صفت کے ساتھ ہے۔ اپنی صفت میں آپ ہی تجلی کیا کرتا ہے (جلوہ نما ہوتا ہے) تجلی لطف کی قہر کی (مہربانی کی غصہ کی بزرگی کی کبریائی کی بڑائی کی ہوا کرتی ہے۔ صورت کی مناسبت کے ساتھ ایک لطیف تجلی میں عجیب صورت کے ساتھ آنا متجلی ہوتا ہے۔ اس کہنے سے شاید تم یہ گمان کرنے لگ جاؤ کہ یہ لطیف صورت وہاں کیونکر نقش پاتی ( ٹھہر سکتی ہے کس طرح رنگ آمیزی ( کھیل تماشے ) کرتی ہے کیسے منہ دکھلاتی ہے۔ یہ پیکر ( تن شکل ۔ جسم ڈھانچہ ) عالم بے چون ( نرا عالم خدائی بے مانند جس کا کوئی ہمسر نہ ہو غیب) سے چگونگی ( ہونا جسمانیت، شہادت ) میں یعنی بے صورتی سے صورت میں آیا۔ تو اس کے لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سالک میں ابھی وہ استعداد پیدا نہیں ہوئی کہ وہ اس کے اپنے اعیان عیاں (ظاہری آنکھوں ) سے معائنہ کرے۔ عین بعین ہو جائے اسی عین میں ایسا محو اور گم ہو جائے کہ اس سے اس کا اس میں کچھ اثر نہ رہے۔
یاد رکھو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے چاہا کہ قبول بندگی کی ایک صورت ایسی پیدا کرے جو احسن الصور ( سب صورتوں میں بہترین صورت ) اجمل النقوش ( سب نقوش میں بہترین نقش ) املح الاشکال ( ساری شکلوں میں خوب ترین نمکین، دل پذیر و دل پسند ) ہوتے ہوئے مجلی و مصفیٰ بھی ہو۔ تا کہ جمال لایزالی کی صورت میں اس کے عکس کو قبولے ( قبول کرے) جس میں وہ اس وجود کو دیکھ سکے جس کو ذات قدیم کہتے ہیں۔ جب وہ ذات” سالک پر تجلی کرتی ہے تو سالک اس عکس (سایہ) کے عکس سے محفوظ رہتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے کہ وہ اس حال میں بصیر (بینا) کو دیکھتا ہے۔ تو اس کی بصر ( بینائی) جو ذات پاک سے نسبت رکھتی ہے مشاہدہ (دیکھنے) میں آ جاتی ہے شہود پا جاتی ہے۔ ہم کہہ چکے ہیں کہ وہ اس سے جدا نہیں۔ فیض قدیم اس شبنم کے جیسا ہے جو سات دریا کا سامنا رکھتا ہو یا اس ذرہ کے جیسا ہے جو آفتاب کے مقابل ہو گیا ہو۔ اس کے سامنے ہونے اس کے مقابل ہو جانے سے اس کے صفات سے متصف ہوگیاہو۔
من له الكل بالكلية وهو الكل و كل الكل وكلية الكل (جس کے لئے کل کلیت کے ساتھ ہو اور کل کا کل ہو گیا ہو۔ وہ کل ہے کل کا کل ہے۔ بالکلیہ کل ہے ۔ ) انسان جو انسان ہے وہ آنکھوں کی پتلی، یعنی حقیقت انسانیت میں چھپا ہوا ہے۔ اس لئے جو یہ ہے وہ وہی وہ ہے۔ گرگانی رحمتہ اللہ علیہ کا قول اب بھی تمہاری سمجھ میں اچھی طرح سے پورے طور سے آ گیا یا نہیں۔ ننانوے نام سالک کے صفات ہو جانے کے باوجود بھی سالک کامل نہیں ہوتا۔ اس کی سیر مکمل نہیں ہوتی ۔ ان کا قول و هو بعيد في السلوك (وہ ابھی سلوک میں دور ہے ) دو معنی کا احتمال رکھتا ہے۔ اس کے دو معنی لئے جا سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ اس کے ننانوے ناموں اور صفات سے متصف ہو گیا، لیکن ان صفات کے تجلیات کی کوئی انتہاء نہیں اور وہ ایسا ہے کہ جس کی کوئی انتہاء نہیں۔ صور غیر منحصر (صورتیں لاکھوں ہیں حد و حساب نہیں رکھتیں) ہیں۔ لا يتجلى في صورة مرتين ولا يتجلى فى صورة لاثنين (وہ تجلی نہیں ہوتا۔ ایک صورت میں دوبارہ نہ رونما ہوتا ہے ایک صورت میں دو دفعہ ) ابو طالب مکی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف جس کا نام قوت القلوب ہے۔ اس کا یہی پتہ دیا ہے۔ اے عزیز) جب تم اس مرتبہ میں پہنچ جاؤ گے تو جان لو گے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ میری مراد کیا ہے۔ مزہ پاؤ گے اور مزہ پائے ہوئے ہو جاؤ گے تو پہچان لو گے کہ ہم کس مرتبہ کی گفتگو میں ہیں۔ کیا کہہ رہے ہیں ۔ سمجھ سکو گے۔ اگر کسی سالک پر ایک ہی دن میں ہزاروں قسم کی تجلیات بھی ہوں تو اس ہونے کو بھی فرضی و تصوری (من گڑھت۔ خیالی۔ یوں ہی) ہرگز نہ سمجھو۔ یہ واقعی حقیقی ہیں۔ ہوا کرتی ہیں۔ بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ایک گھڑی میں ان پر کئی ہزار تجلیاں ہوتی ہیں۔ جو ایک دوسرے کے برابر مقابل یکساں عین بعین ایک سے نہیں ہوتے۔ ہائے رے ہائے۔ عجیب تریہ ہے که سالک پر ایسی جلی ہوتی ہے کہ وہ کہتے سنے میں نہیں آسکتی وہ تعریف میں نہیں لائی جا سکتی اس کو نہ تو بیان میں لایا جا سکتا ہے نہ وہ ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ سبحان من له كل يوم شان ولا يشغله شان عن شان كل يوم هو في شان پاک ذات جس کے لئے ہر دن میں ایک شان اور نہیں مشغول ہوتا ایک شان سے دوسری شان میں ۔ ہر روز وہ ایک اور ہی شان میں ہے۔ ( جب سالک چاہتا ہے کہ اس کو پائے اس کا محیط و مدر (گھیر نے والا ۔ خوب جاننے والا) ہو جائے تو دیکھتا ہے کہ وہ کچھ اور ہی ہے۔ جب تک اپنے آپ میں نہ آئے دیکھنے والا یہ نہیں جانتا کہ یہ کیا اور کس قدر تجلیات و مکاشفات تھے ہاں یہ کہ صرف بتلانے والا جانتا ہے کہ وہ کیا ہیں۔ کیسے ہیں کس قدر ہیں ۔ انه عالم بالجزئيات والكليات (وہ جاننے والا ہے جزئیات و کلیات کا ) یا ایسا ہے کہ وہی وہ ہے جو اپنی اضداد ( بر خلاف بر عکس مخالف ) کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ دوسرے صفات میں دوسری صورتوں میں ہو کر کسی ایک صورت میں تجلی کر کے اس کو اپنا عاشق و مبتلا دیوانہ ووالہ بنا دیتا ہے۔ ابد الآباد (ایک کافی مدت ) گزر جاتی ہے اور وہ مرد اس سوز درد ہی میں رہتا ہے۔ اس کا دماغ پگھل جاتا ہے۔ وہ سوختہ نا ساختہ ( جلا ہوا۔ آراستہ نہ کیا ہوا) افروخته تا دوختہ (روشن کیا ہوا ۔ نہ ملایا ہوا) دردمند و امانده (درد والا عاجز آیا ہوا) در مانده ( مجبور لا چار ) درویش بے خویش ( بیچارہ جو اپنے میں نہ ہو۔ کوئی اس کا سہارا نہ ہو ) بے بس ( لا چار ) بے ہنر ( بغیر کسی پیشہ کے ) رہ جاتا ہے۔ مراد یعنی مطلوب کو اپنے دام ( قابو ) میں نہیں پاتا۔ کسی ہمیشہ درد میں رہنے والے گرے بڑے ہوئے سے اگر پوچھو تو تمہیں یہ بات معلوم ہو جائے اور سمجھ سکو کہ یہ بات کیا اور اس میں کیا خوبی ہے۔ ایسے شخص کو رسیدہ کہیں تو یہ ہو سکتا ہے اور نایافتہ کہیں تو بھی ہو سکتا ہے۔ یہ وہ ہے جو مار ڈالا ہوا پہنچا ہوا ہے۔ یہ وہ صاحب ذوق و شوق ہے جو سوکھ کر کانٹا ہو گیا ہے مراد و مقصود کو پہنچا ہوا ہے۔ لیکن اس میں یہ ندرت ہے کہ وہ اس کا منہ ابھی تک نہیں دیکھا۔ یہ وہ ہے کہ جس نے طلب کی عصا (سہارے کو) ہاتھ سے ڈال دیا ہو۔ مسافرت کے جوتے (اسباب) پاؤں سے اتار چکا ہو۔ سعی کوشش، محنت، جستجو کا کمر بند عزیمت (بلند ارادہ) کی کمر سے کھول دیا ہوا ۔ مسافرت میں کام آنے کا توشہ سب کو بانٹ دیا ہو اپنے پاؤں پھیلا کر ایک گوشہ میں بے فکری کا تکیہ پیٹھ سے لگائے ہوئے بیٹھا ہوا ہے۔ جس سفر میں وہ اب ہے وہ صورت سقر (دوزخ کا منہ۔ نمونہ ) ہے اس سے پہلے وہ پاؤں سے چلتا تھا اب سر کے بل چل رہا ہے۔ جس کے پاؤں کاٹ دیئے گئے ہیں اب وہ جوتے پہنے تو کس طرح کیسے پہنے۔ جس کی کمر توڑ دی گئی ہو وہ کمر بند کہاں باندھے۔ جس کے اختیارات کم کر دیئے گئے ہوں وہ عصا ہاتھ میں ۔ کیونکر اور کیسے لے۔ جس کے راستہ کا خرچ اڑا دیا گیا ہو وہ جمع کرے تو کیا کرے۔ جس کا ٹھکانہ خلوت کی جگہ ویران بر باد کر دی گئی ہو وہ ٹکے ٹھہرے تو کہاں ٹکے اور ٹھہرے۔ کس جگہ قرار و قیام پائے۔ جس کا دماغ سودا زده ( پریشان – مخبوط ) ہو گیا ہو وہ خواب میں آئینہ خیال میں چہرے کا جمال دیکھے تو کیسے دیکھے۔ اس سے پہلے جس سفر میں وہ تھا وہ سفر ختم ہو گیا ۔ جو کچھ مجاہدہ (ریاضت) مشقت (محنت کوشش ) تھی وہ اس سفر میں اس کو چھوڑ دینی پڑی۔ اب کچھ ایسا راستہ اس کے سامنے ہے جس میں نہ کوئی راستہ بتانے والا ہے نہ ساتھ چلنے والا ہے کوچ کرنا منزلیں طے کرنا نہیں دیکھ پاتا۔ اترنے کی جگہ ٹھہرنے کے مقام کا نشان و پتہ نہیں پاتا۔ ایک لمحہ کے لئے بھی اس کا احساس قرار کے ساتھ نہیں رہتا۔ پہنچائے جائے امن والے مکان میں آجانے کی امید ٹوٹ گئی۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک گھڑی کے لئے بھی ٹھکانے سے اس کا دل نہیں رہتا اور تھوڑی دیر کے لئے بھی سیر سے نہیں ٹھہرتا۔ یہ اس کے امکان ہی میں نہیں ۔ اس کے اختیار و قابو سے یہ بات باہر ہے کہ وہ پہنچنے کی جگہ پہنچ جائے۔
تم سے اگر یہ پوچھیں کہ هل يعلم الله القهار عدد انفاس اهل الجنة والنار و عدد سنين اعمالهم و انواع ما فيها من الماكل والمشارب والانهار والاثمار فليقل أن الله لا يوصف بالمحال تعالى عن العجز والانحصار قال الله تعالى قل لو كان البحر مداداً لكلمت ربي لنفد البحر قبل أن تنفد كلمت ربى ولو جئنا بمثله مدداً ( کیا جانتا ہے اللہ ۔ ضابطہ ۔ جنت والوں ۔ دوزخ والوں اور سالوں کی گنتی اور ان کے گزر نے قسم قسم کے ہونے کو اور جو کچھ اس میں کھانے پینے کی چیزیں ہیں اور نہریں پھل ہیں تو تم اس کا یہ جواب دو کہ اللہ کی توصیف محال سے نہیں کی جاسکتی۔ اللہ تعالی بزرگ و برتر ہے عاجز آ جانے سے منحصر ہو جانے سے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہہ دیجئے کہ اگر سمندر سیاہی ہو جائے اس کے کلمات لکھنے کے لئے تو سمندر ختم ہو جائیں اور رب کے کلمات باقی رہ جائیں ۔ ہم لے آتے ہیں ایسی ہی مثالیں ) اتصاف اسماء ( ناموں کا خوبیاں اختیار کرنا ۔ اسم بامسمی ہو جانا ) تخلق با خلاق والصفات (اخلاق اور صفات کے خوگر ہونے ) ہے۔ سالک پر دو چیزیں متحقق ( ثابت تحقیق پائے ہوئے ) ہو جاتی ہیں۔ ایک بے انتہا دکھ۔ دوسرا دیکھنا ایسے سمندر کا جس کا کنارہ نہیں ۔ ابوالحسن نوری رحمتہ اللہ علیہ اسی راستہ کی دوری بے نہایتی کا پتہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ” جب میں ہوتا ہوں تو وہ نہیں ہوتا۔ جب وہ ہوتا ہے تو میں نہیں ہوتا ۔”
چنانچہ حکیم سنائی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں۔
بی من است او تا سنائی با من است با سنائی زیں قبل در مانده ام
وہ میرے بغیر ہے جب تک سنائی میرے ساتھ ہے سنائی سے اس طرح عاجز آ گیا ہوں)
اللہ سبحانہ فرماتا ہے کہ اگر سمندر کلمات رب لکھنے کی سیاہی ہو جائیں۔ اسی پر سے قلم کتاب کتابت کی صورت میں سورتوں کو قیاس کر لینا چاہئے ۔ آیات کو کلمات ربی کہنے سے اس کی کیا مراد ہے اس کو بھی جاننا ضروری’ اس نتیجہ پر پہنچنا بھی لازمی ہے ۔ کلمة القها الى مریم (ایک کلمہ جو ڈالا ہم نے مریم میں ) یہ مجموعہ مفرد ہے کہ اس نے اپنے فیض کی ” بلا ترکیب مادہ اور صورت جسمانی کے ملے بغیر ایک صورت آدم علیہ السلام کی صورت پر بنائی اس کا نام عیسی علیہ السلام رکھا۔ انہیں مسیح اس لئے کہتے ہیں کہ آدمیت کے صفات کے ملنے ایک ہونے سے کہ فیض قدیم جس سے متعلق تھا وہ اپنے آپ کو اس صورت میں یا جومسیح علیہ السلام کی صورت تھی دکھلایا۔ یوحنا کی انجیل: میں ہے کہ لقد كان مبتداء الكلمات لدى الله لتكون كلمة الله هي العلياء( البتہ وہ تھا ابتداء کرنے والا کلمات اللہ کا ہمارے لئے تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو جائے۔) کلام کلمہ میں کیا ہے۔ لا الله إلا الله لا إلہ نفی ما استحال وجودہ۔ (اللہ کے سوائے کسی اور کا وجود نہ ہوتا ) الا الله اثبات ما استحال عدمه ( ثابت کرنا ہے کہ اس کا وجود ہے ) ظہور کی ایک اور مثال “سراب” اور ” “ہوا “ہے۔ سراب ہوا کی صورت ہوا سراب کی معنی ہے۔ ہوا کا ظہور سراب کی صورت کے سوا کسی اور صورت نہیں ہوتا ۔ سراب کا قرار و قیام ہوا کے بغیر نہیں ہوتا۔ اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جو نازک ترین چیزوں میں سے ہو اس کا ظہور مثال ہی میں ہوا کرتا ہے۔ یہ عکوس و ظلال (سایہ سائے پر چھاؤں پر چھائیاں ) ہیں وہ اس مرتبہ میں عینی و مثالی (حقیقی اور مانند کا سا ) ہے۔ سالک اس مرتبہ میں کلمہ کی ملازمت ( ہمیشہ کی مداومت ۔ پابندی) کرتا ہے۔ تاکہ وہ کلمہ کی صورت (ظاہر ) سے کلمہ کی معنی (باطن) میں پہنچ جائے ۔ ظاہر ہے باطن میں اس کی نظر چلی جائے کلمہ اپنی حقیقت کے ساتھ اس پر متجلی (جلوہ نما) ہو جائے ۔ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلِكُم (البتہ میں تمہارے جیسا آدمی ہوں ) یعنی صورت عنصری کے ساتھ متحد ہوں ۔ (جسمانی لحاظ سے ملا ہوا ہوں ) يُوحَى إِلَی (وحی کی جاتی ہے مجھ پر ) یعنی فیض قدیم کا ظہور مجھ پر ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ جو کوئی اس سلوک میں آتا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کیا تھا تو وہ فیض قدیم سے ملاتا ہے اس کے کرنے سے اس کا دیدار ہوتا ہے۔ فمن كان يرجوا لقاء ربه فليعمل عملاً صالحاً ( جو کوئی ہم سے ملنے ہمارے دیکھنے کی تمنا میں ہو امید رکھتا ہو اس کو چاہئے کہ ( وہ نیک عمل کرے) جب تک شرط پوری نہ کی جائے ۔ اس جمال سے کوئی مراد ہاتھ نہیں آتی وہ کشف نہیں ہوتا یعنی نہیں کھلتا۔ اس کا کھوج نہیں ملتا۔ ولا يشرك بعبادة ربه احد (اس کی عبادت میں کسی اور کو شریک نہ کرو) سے عہد واثق (حتمی وعدہ) کی مضبوط گرہ ڈالی گئی۔ فاینما تولوا فثم وجهه الله (جس طرف منہ کرو اللہ ہی کی وجہ صورت اور سامنا ہے ) جس کسی کا یا جس وجود کا تصور کریں۔ اس کی دو صورتیں ہوں گی ۔ وجهه منه الى ربه وهو الفيض القديم الازلی الابدی ایک صورت اپنے پروردگار کی طرف اور وہ فيض قدیم ہے۔ ازلی ہے۔ ابدی ہے) وجهه منه الى نفسه وهو المبتداء والمصور المجهول المجعول ایک صورت اپنا نفس کی طرف وہ مبتدا اور مصور ہے۔ پیدا کیا گیا ہے بنایا گیا ہے ) ایسی دوئی (دو کا ہونا۔ پایا جانا) جو قدیم سے نسبت رکھتی ہے- يبقى على الاباد والازال كان ويكون وهو الان كما كان ويكون (وہ ہمیشہ ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ ازل ابد تھا اور ہے اور وہ جیسا کہ تھا ویسا ہی ہے ویسا ہی رہتا ہے ویسا ہی رہے گا ہاں اتنا ضرور ہے کہ جس قدر جس سے تعلق کیا ہوا ہے اس کے لحاظ سے یہ ایک دوسرے سے جدا اور غیر دکھلائی دیتے ہیں جیسا کہ زجاجہ شیشہ – آبگینہ کانچ) جو اپنے محاذی (سامنے ) و مقابل (برابر ) کے لحاظ و مناسبت سے اپنا نقش دکھلاتا ہے لیکن جیسا اور جو کچھ کہ وہ ہے۔ ویسا ہی ہے۔ جیسا کہ تھا ویسا ہی ہے- لا يتغير في ذاته ولا فى صفاته بحدوث الا كوان والموجود لا يصير معدوماً بل ينتقل من صورة الى صورة و من هئية الى هئية (وه تغیر نہیں پاتا ذات میں نہ صفات میں کونین کے پیدا کرنے ہونے سے جو موجود ہے وہ معدوم نہیں ہوتا بلکہ ایک صورت سے دوسری صورت میں ایک ہیئت سے دوسری ہیئت میں منتقل ہوتا ہے۔ ) مطلب یہ کہ فیض قدیم فانی نہیں ہوتا مٹ نہیں جاتا بلکہ وہ ایک تعلق پیدا کر لیتا ہے۔ ایک صورت کے بعد ایک صورت سے۔ ایک وضع سے ایک وضع میں آ جاتا ہے۔ العالم متغیر (دنیا کچھ سے کچھ ہونے والی ہے ) اس سے متعلق ہے نہ کہ اس سے۔ کیونکہ وہ فرماتا ہے۔ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَان وَ يَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الجلال وَالإِكْرَام ( جو بھی ہیں وہ مٹنے والے ہیں اور باقی رہنے والا تیرا پروردگار صاحب مرتبہ و بزرگی والا ہے۔ ) فاينما تولوا فثم وجهه الله ( جدھر دیکھو اللہ کی وجہ ہے) یہ مکان بشری (آدمیت کا محل ) لباس ملکی (فرشتگی کا لباس) ہو یا شیطانی زمین کا ہو یا آسمان کا ہو یا عرش کا سب فناو زوال کے راستہ پر لگے ہوئے ہیں سب کو فنا وزوال ہے۔ الا وجهه ( مگر اس کی وجہہ ) ہر موجودگی کی توجہ اس کی طرف ہے۔ جیسا کہ کہا گيا لا يقبل الفناء بل يستحيل (فنا قبول نہیں کرتا بلکہ ایک حال سے دوسرے حال میں ہو جاتا ہے)۔ اس بیان سے کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے گمان میں وہم میں یہ گزر جائے – كونه في مكان و حلوله في محل رہنا اس کا کسی مکان میں اور اتر نا اس کا کسی جگہ میں ) ہرگز ہرگز ایسا گمان نہ کرنا۔ اللہ تعالی ایسی باتوں سے پاک بزرگ و برتر ہے اگر تم یہ کہو کہ ظاہر معنی میں لفظ اینما اس کی دلیل ہے تو پھر وہی اللہ ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے کے معنی کیا ہوں گے۔ بلحاظ منقول هو الله فی السموت والارض کے جو مناسب معنی منقول سے سمجھے ہوئے ہو وہی معنی یہاں بھی سمجھ لو۔ اینما کو اس سے سمجھ جاؤ۔ جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ اجزائے لا يتجزی میں کوئی جز ایسا اور کوئی چیز ایسی نہیں جس کے ساتھ اللہ تعالی نہ ہو وہ ایسی صفت قربت (نزدیکی کی خوبی) کے ساتھ ہے جو اس کی بارگاہ کے لائق وسزاوار ہے۔ اس لحاظ سے اینما میں اگر چند اجزائے لا یتجزی کو تصور کر لیں تو اللہ تعالی ہر ایک کے ساتھ ہے ہوتا ہے۔ اس نسبت سے “اینما کو ظاہر جاننا مناسب نہیں۔ وہ اس لئے کہ حادث (نو پیدا) کا حلول قدیم میں نہیں ہوتا اس لئے ٹھیک نہیں پڑتا۔ قاضی عین القضاة رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف رسالہ مکانیہ میں جو کچھ لکھا ہے اس سے انہوں نے ایسے مکان کو ثابت کرنا چاہا ہے جو قدیم و لطیف کے لائق ہو۔ یہ بھی وہی بیان وہی بات ہو گئی جس کو ہم نے اترنے کی جگہ کے بارے میں اس سے پہلے کہہ دیا ہے کہ جو اللہ تعالی کی پاکیزگی کی بہترین اور اس کے مناسب ہے وہی صورت ٹھیک و مناسب ہے دوسرے معنی جو کہ اس مالک الاحوال صاحب تصرف و کیفیت ) سید الرجال (مردوں کے سردار ) سدید الفعال (راست و درست کام کرنے والا ) حمید الخصال ( بہترین خصلت والا ) المتخلق بأخلاق الله الكبير المتعال (جو اخلاق و خصائل بڑے بزرگ اللہ کے پایا ہوا) المحو (گم فنا شده) المطموس (گھس پس گیا ہوا) الفانی فی الآباد والازال الباقي الثابت بالله (ازل وابد میں ملیا میٹ شدہ بقا پایا ہوا اللہ لم یزل ویزال سے ) کے فرمائے ہوئے کی شرح جو ہو سکتی ہے وہ یہ کہ وہ دور ہے سلوک میں ملا ہوا نہیں ہے یعنی وہ سیر صفات و اسماء میں ہے۔ سالک کی بھی دنیا ہے۔ اس کے انصاف ان ناموں کے ساتھ نام پانے سے۔ اس میں یہ بات پوری ہو گئی اس قدر سمجھ لو کہ ذات میں محو ہونا ( گم ہونا ) ذات میں بقا پانا کہنے کا مطلب ملنے کے ابتدائی مرحلہ میں پہنچنے سے ہے۔ جس کو مقدمات وصول بھی کہتے ہیں یہ اس لئے کہ وہ سلوک میں اس طرح رہتا ہے جیسا کہ نہ پہنچا ہوا رہا کرتا ہے۔ وَإِنَّ إِلَى رَبِّكَ الْمُنْتَهَى (اور البتہ تیرے رب تک تیری انتہا کے لحاظ سے سیر الی الله (اللہ کی طرف سیر ) پوری ہو چکی ہے۔ السَّيْرُ لِلهِ (سیر اللہ کے لئے) السير في الله (سیر اللہ میں) السير بالله (سیر اللہ کے ساتھ ) السير من الله إلى الله (سیر اللہ سے اللہ کی طرف) انشاء اللہ العزیز (زبردست اللہ چاہے تو ) اگر خدا کی مرضی ہو گی تو شروع ہو گی۔ یہ وہ مرتبہ ہے جہاں زبان بند ہو جاتی ہے گفتگو کی نہیں جاسکتی۔ تقریر و تحریر عبارت کے لئے کوئی راستہ نہیں۔ اشارت کے لئے کوئی موقعہ نہیں۔ آنکھ کی روشنی کی تیزی رسائی دھندلی اور سمجھ کی روشنی ماند پڑ جاتی ہے۔ یعنی بے نور ہو جاتی ہے۔ ہائے ہائے حیرت ہی حیرت بے خودی ہی بے خودی ہے۔ وصول جس کو کہتے ہیں وہ ایک شعور خاص، یقین مختص کا آ جانا ہے کہ ہم نہیں وہی وہ ہے۔ ایک سے ایک کے سوا نہیں نکلتا ۔ وہ ایک ہے۔ ایک میں ایک ایک ہی ہوتا ہے۔ ایک سے ایک کو ضرب دیں تو ایک ہی نکلتا ہے۔ ایک ہی حاصل ہوتا ہے اس فہم کے ساتھ جب بیان کرنے پر آتا ہوں تو یہ وہ بیان عیان ہے جو عالم کثرت کا نشان ہے جو کائنات اور کائنات والوں کا پتہ بتلاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو عیان (کھلا ہوا) ہو وہ بیان ( کہنے ) میں نہیں آتا ۔سچ ہے بیان کے لئے عیان نہیں عیان کے لئے بیان نہیں یہ سمجھ جاؤ کہ ملنے والا وہی ہے جس میں جدائی کا تصور نہ ہو۔ جب جدا ہونا ہی نہ ہو تو ملنا کیسا – هو الاول هو الدائم هو الآخر ( وہ پہلا – وہی ہمیشہ ہمیش وہی پچھلا ) سارے جہان کو جو گھیرا ہوا ہے کوئی اس کا بیان کرے تو کیا کرے کس کا کیا بیان کرے کیونکر کرے۔ بات یہ ہے کہ اس میں ایک تصور ہوتا ہے جس کی وہ ایک مثال بناتا ہے۔ کچھ بیان میں آ جاتا ہے کچھ ایسا ہی رہ جاتا ہے۔ تھوڑا سا ایک اشارہ اس کی طرف ہو سکتا ہے۔ لا حَولَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ ( نہیں ہے حول وقوت کسی میں اللہ کے سوائے ) کیسا اشارہ کسی طرح کیونکر کیا جا سکتا ہے۔ من اشارا الى توحيد فهو عابد و ثن جس نے توحید کی طرف اشارہ یا وہ بت پرست ہے۔) من (جو) اور الی (طرف) دراصل عدم ہیں، یعنی حقیقتا غیب ہے۔ متی ( کب) اذا ( جب) بود نابود ہونے نہ ہونے) میں فی (میں) علی (اوپر) وہم و خیال میں گم ہیں – كونه وجوده هو هو لا هو الا هو (اس کی بتائی ہوئی اس کا وجود ہے۔ وہ وہ ہے ۔ نہیں وہ مگر وہی وہ (
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سبحان من لو يجعل للخلق سبيلا الى معرفته الا بالعجز من معرفته پاک ذات وہ جس نے نہیں بنایا لوگوں کے واسطے راستہ معرفت کی طرف بجز عاجز آ جانے کے معرفت سے ) یہ سب کچھ سہی۔ ہم یہ کہتے ہیں اس میں اِنِیَّت (میں پن) باقی اور اثنیت (دوئی) کا ہونا پایا جاتا ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو اس قدر گفتگو بھی نہ ہوتی ۔ جب دریا جوش میں آیا تو اس کا نام موج ہوا۔ جب بھاپ بن کر اڑ گیا تو اس کو بخار کہا گیا جمع ہو گیا تو ابر ۔ برسنے لگا تو بارش۔ جب بہنے لگا تو ندی۔ جب دریا میں مل گیا تو دریا ہی دریا ہو گیا۔
فالبحر بحر على ما كان فى قدم ان الحوادث امواج و انهار
دریا دریا ہے جیسا کہ پہلے سے تھا البتہ نئی پیدا شدہ موج اور ندیاں ہیں
لا يحجنك اشكال متشا كلها عمن تشكل فيها فهي استار
نہیں شکلوں میں ملتا جلتا پن ہے جس تشکل میں بھی ہو وہ اس میں چھپا ہوا ہے
حرکت میں آ جانا اڑ جانا جمع ہونا برس جانا بہہ جانا انیت کا ارتفاع ( میں پن کا اٹھ جانا جاتا رہنا) ہے۔
حضرت جنید رضی اللہ عنہ سے جب حقیقت کا سوال ہوا تو آپ نے یہ کہا کہ ایک گانے والا یہ گنگنا رہا تھا۔
و كنا حيث ما كانوا و كانوا حيث ما كنا
ہم وہیں ہیں جہاں ہم تھے ہم جہاں تھے وہیں ہم ہیں
نہ آنا ہے نہ جانا ہے نہ رہنا ہے نہ لوٹ جانا ۔
سہل عبداللہ رحمتہ اللہ علیہ اس کو آسان و سہل طریقہ سے کہتے ہیں کہ یا مسكين كان الله و لم تكن و يكون ولا تكون وهو الان كما كان ويكونفكن انت كما كنت و تكون (اے مسکین تھا اللہ اور نہ تھا کوئی ۔ وہ ہے اور نہیں ہے کوئی۔ وہ جیسا کہ تھا ویسا ہی ہے اور ویسا ہی رہے گا۔ پس تو ہو جا۔ جیسا کہ تو تھا اور ہے۔ انیت ہی انیت ( یکتائی ہی یکتائی ) اثنیت ہی اثنیت (دوئی ہی دوئی) ہے۔ ھو تعالى متكلم بكلام واحد ازلا و ابداً ( الله تعالی ازل سے ابد تک یعنی ابتداء سے انتہاء تک ایک ہی کلام میں ہے) اس کے کلام میں اس کے حکم کئے ہوئے منع کئے ہوئے میں فرق و تمیز کرنا کسی طرح سے بھی جائز نہیں۔ یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ایک حرف کے بجائے دوسرے حرف کے بدلنے کو جائز رکھا جائے ۔ وہ کبھی عربی کبھی عبرانی، کبھی سریانی میں کہتا ہے۔ وہ ایسا نہیں کہ کبھی بات کرتا کبھی چپ رہ جاتا ہو۔ اللہ تعالیٰ اس سے پاک و مبرا ہے۔ یہ باتیں مخلوق سے متعلق ہیں۔ ذرا سوچو کہ وہ لمن الملك اليوم الله الواحد القهار (کس کے لئے آج کا دن ہے۔ اللہ ہی کے لئے جو ایک اور ضابطہ ہے ) فرما رہا ہے ایک گھڑی ایک پل، تھوڑی دیر کے لئے بھی اس کہنے سے نہیں رکھتا۔ وہ منحصر نہیں ( ٹھہرا ہوا نہیں) وہ اپنے ساتھ آپ ہے۔ اپنے آپ سے آپ ہی کہتا ہے۔ اپنے آپ سے آپ ہی سنتا ہے۔ اپنے سوال کا جواب آپ ہی دیتا ہے۔ خود لمن الملك کہتا ہے جواب میں خودی الله الواحد القهار کہتا ازل سے ابد تک تک سب ہوتے ہوئے بھی نہ ہونے کے شمار میں ہیں۔ عین شہود ہوتے ہوئے بھی وجود کے بغیر ہیں۔ مہینے سال دن گھنٹے منٹ لمحے بلحاظ گردش آفتاب ہیں۔ نظام شمسی دور فلک سے ان کا رہا ہے- وليس عند الله صباح ولا مساء (اللہ کے پاس نہ صبح ہے نہ شام ) کلام مجید میں غائب حاضر ہو کر کہتا ہے منتظر کو واقع شدہ ( ہونے والے کو ہوا ہو ) جانتا ہے۔ حال کو بطریقہ ماضی لوٹا لاتا ہے۔ اس میں سے ایک فصل بیان کی گئی ہے۔ اگر ہر ایک باب کو بیان کرنے لگ جاؤں تو بات بڑھ جائے گی۔ ہمیں مختصر طور سے کہنا منظور ہے۔ مالِكِ يَوْمِ الدِّينِ (قیامت کے دن کے مالک) فَمَن يعمل مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يره ( جو کوئی ذرہ برابر عمل کرے وہ دیکھ لے اس کی بھلائی ) اس کتاب اور اس بارہ میں ہے۔ وما امرنا الا واحدة كلمع بالبصر ( نہیں تم کیا ہم نے مگر ایک پلک جھپکنے تک) سے ایک تلویح (اشارہ) اسی مراد کی بابت کی گئی ہے۔
امروز پری و دی و فروا ہر چار یکے بود تو فرد آ
آج پرسوں، کل گزرا ہو کل آنے والا چاروں ایک ہیں تو ایک ہو جا
خوب سمجھ لو کہ اثبات اثنیت (دوئی کا ثبوت ) ہوتے ہی انسیت ( یکتائی) کی تحقیق ہو جاتی ہے۔ تو پھر سیر و سلوک کیسے تمام ہوگا ۔ کیونکر پورا ہوگا کہ وهو بعيد في السلوك غير واصل (وہ دور ہے سلوک میں۔ ملا ہوا نہیں) کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک اعتبار سے اس کو آرام و قرار پایا ہوا۔ تصور کرے ایک لحاظ سے نہ پہنچا ہوا ۔ بے چین و مضطرب سمجھ لے۔ اللہ تعالی تک کسی کے لئے راستہ ہی نہیں اس تک پہنچ جانے سے رہ جانے کی بھی کوئی وجہ نہیں فیبقی بین وصل و فصل ( ملنے اور جدائی کے بیچوں بیچ رہتا ہے ) اور جو وصال کو پہنچا ہوا کہنے سے ایسا وصال مراد نہیں جس میں آ نے سے رک جانے کا سبب ہو جائے ۔ جانے سے کوئی بلا اور رنج باقی نہ رہے یا آگے جانے سے رک جانے کا سبب ہو جائے۔ واپس ہو جائے لوٹ جانے کی ہمت دلائے کہ آگے راستہ نہیں ہے۔ ٹھہر جانا مناسب ہے اور جو کچھ بھی امکانی ( مل سکتا) ہے اس پر بس کرے۔ بات ایسی نہیں بلکہ جو پہنچا ہوا ہوتا ہے وہ کبھی سیر (آسودہ ) نہیں ہوتا ہمیشہ ادھیڑ بن جستجو ہی میں رہتا ہے۔ اسی دروازہ پر سر مارتا رہتا ہے ساتھ ساتھ یہ بھی جانتا ہے کہ دھننے کی راہ نہیں گنجائش نہیں بلکہ باوجود اس کے دھنسا اس میں رہنا چاہتا ہے۔ اس کو سننا ہو تو عاشقوں سے سنو۔ چنانچہ ان ہی میں سے ایک یہ کہتا ہے۔
عجبے نیست که سرگشته شود طالب دوست عجب اینست که من واصل سر گردانم
(دوست کے طالب کا آوارہ پریشان ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں تعجب و حیرت کی بات تو یہ ہے کہ میں ملا ہوا ہو اور آوارہ پریشان ہوں)
ایک اور معنی وہ ہو سکتے ہیں جو مولانا محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے متبعین جیسے کہ عبدالرزاق رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ اور بہت سارے صوفیاء جنہوں نے توحید و تحقیق کا نعرہ لگایا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ هو سبحانه تعالى عين الاشياء پاک منزہ اللہ سب چیزوں کی عین یعنی حقیقت ہے ) مطلب یہ کہ ان وجودات کے سوا کوئی وجود نہیں۔ وہی ہے جو تمام صور و اشکال (صورتوں شکلوں ) میں ظاہر ہوا ہے ۔ ھو الظاهر هو الباطن وہی حاضر وهى كھلا ۔ وہی غائب وہی چھپا) یہ اس کے سوا نہیں جانتے۔ ان ہی میں ایک کہتا ہے۔
انکه برآمد به بزم مجلسیاں دوست دوست گرچه غلط می دهد نیست غلط اوست اوست
وہ جو مجلس میں آیا ہے وہ دوستوں کا دوست ہے اگر چہ کچھ اور دکھائی دے رہا ہے یہ غلط نہیں وہ وہی ہے
اس شعور کے ہاتھ آجانے کے بعد عارف محقق کا سلوک پورا ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وجود لا متناہی ہے۔ (جس کی کوئی انتہا نہیں ہے) اس کے ایسے ہونے سے نظارہ وقت میں وقتا فوقتا ایک سیر سے دوسری سیر میں آ جاتا ہے رہتا ہے اور کبھی سیر سے خالی نہیں رہتا۔ ہمیشہ سیر میں رہتا ہے پھر بھی یگانگی ( یکتائی ) جیسی کہ ہونی چاہئے اس کے ہاتھ نہیں آتی۔ ایسے جو ہوتے ہیں ان میں یکتائی دوئی ہاقی ہے جب وہ لامتناہی (جس کی انتہا نہ ہو) ہے تو ٹھہر جانا آرام پا جانا کیسے میسر ہو سکتا ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ بے وقوفی حماقت، خجالت ملامت ہاتھ آ سکتی ہے۔ منہ دکھلا سکتی ہے۔ ان کے پیرو یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کو اس طرح اس شکل کے سوا بیان کرنا نتیجہ خیز نہیں ۔ لا حول ولا قوة الا بالله نتیجه شکل – حد – وسط – اصغر – اکبر – صغری – کبری۔ رابطہ نسبت کی یہاں گنجائش کہاں۔ یہ ٹھیک ہے کہ دریا کا پانی دریا میں مل گیا۔ ایک ہو گیا۔ وہ دریا کا پانی جو مختلف صورتیں لے لیا تھا اپنے ساتھ اپنا نام لے گیا۔ مطلب یہ کہ اس کا نام ہی اس کی دوئی ہے۔ حلقہ مستوى الاطراف (دائرہ) کو اگر خط اور نقطہ وہمی سے آدھا آدھا کریں یا اس خط کو درمیان سے اگر تقسیم کر دیں تو وہ حلقہ ویسا نہیں رہتا۔ نہیں ہو جاتا جیسے کہ پہلے تھا۔ لیکن اس کا اثر ضرور باقی رہتا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جیسے کہ پہلے تھا لیکن اس کا اثر ضرور باقی رہتا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ قاب قوسین او ادنی ( مل گئیں دونوں کمانیں بلکہ اور قریب ہو گئیں ۔ اس کی حکایت ہے۔ سمجھو کہ وہ ایک درست دائرہ تھا۔ اس دائرہ احدی کو خط احمدی آدھا آدھا کر کے لوٹ گیا ۔ اصل دائرہ یہی ہو گیا۔ یاد رہے کہ دائرہ ویسا نہ رہا جیسا کہ تصور خط و نقطہ کے پہلے تھا۔ اصل اصل کے ساتھ لگائی کے ساتھ نہ ملے تو جز من الكل ( کل کے جز) کے جیسا ہو تو جاتا ہے لیکن کسی صورت میں جز کل کا محیط نہیں ہو سکتا۔ تعلم ما فی نفسي ولا اعلم ما في نفسك. ( جو کچھ میرے جی میں ہے وہ تو جانتا ہے۔ جو کچھ تیرے نفس میں جی میں (ذات میں ) ہے وہ میں نہیں جانتا ۔ ) جز کل سے کیسے آگاہ ہو سکتا ہے یا رہ سکتا ہے، قطرہ کو دریا کی کیا خبر ہو سکتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اس جز کو اس کل نے ایک ہمت ضرور بخشی ہے۔ اس لئے یہ چاہتا ہے کہ کل کے ساتھ کل ہو جائے یہ اس سے یا اس کے لئے ممکن نہیں اس لئے مٹ مٹا جا کر کل کے ساتھ ایک ہو کرعین بعین ہونے سے یعنی مل کر ایک ہو جانے سے ھو هو (وہی وہ) کا گمان (تصور) پیدا کر لیتا ہے چونکہ اب تک اطلاق ( با خبری) و اشراق (کھلنا) اس پر نہیں ہوا۔ اس لئے وہ ضرور تا سلوک سے نہیں ٹھہر جاتا اپنے آپ کو واصل تصور نہیں کرتا ۔ بایزید رحمتہ اللہ علیہ نے ایک قرآن پڑھنے والے سے وما قدر والله حق قدرہ (اللہ کی قدر جو جانتی تھی نہ جانی) سنتے ہی سر دیوار سے ٹکرا کر کہنے لگ گئے کہ جب تو یہ جانتا ہے کہ تجھ تک راہ نہیں تو پھر تو نے اس گدا (فقیر ) کے دل میں تیری طلب کیوں پیدا کی۔
حضرت شفیق بلخی رحمتہ اللہ علیہ سے حقیقت کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے تھوڑی سی شکر لی اور پوچھا کہ یہ کیا ہے۔ سب نے کہا کہ شکر ہے اس کے بعد آپ نے اسی شکر سے چند صورتیں بنائیں۔ شکر کی بنائی ہوئی صورتوں میں سے ایک ایک دکھا کر پوچھا کہ یہ کیا ہے تو جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ گھوڑا ہے۔ یہ ہاتھی ہے۔ یہ بیل ہے۔ یہ آدمی ہے۔ پھر آپ نے ان کو توڑ کر گولی بنائی بار یک کر دیا تو وہ پہلے کے جیسے شکر ہو گئی اس کو دکھا کر آپ نے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو جواب ملا کہ شکر ہے تو آپ نے فرما دیا کہ هذا بيان الحقیقت یہی حقیقت کی صراحت و بیان ہے) ہر ایک کی واپسی شکر ہی میں ہوئی کیونکہ ہر ایک کی اصل شکر تھی۔ لیکن ہر ایک اپنی صورت و شکل سے ایک نام پا گیا کہ یہ گھوڑا ہے۔ آدمی ہے فلاں ہے فلاں ہے۔ انیت و اثنیت کی خصوصیت بھی یہی ہے۔ اگر تم یہ کہو گے کہ یہ سب وہم وگمان ہے۔ اچھا وہم و گمان ہی سہی لیکن جیسے ہی وہ آیا۔ دو ہو گئے۔ دوئی آگئی۔ كما هو اتحاد بلحاظ ایک ہو جانا جیسا کہ چاہئے) متصور نہ ہوا (ہاتھ نہ آیا) ہر آدمی کے لئے یہ کہاں ممکن ہے کہ وہ ان تمام اشکال وصور پر کہ جس سے وہ متشکل ہے محیط و مدرک ہو جائے۔ اگر ایک لاکھ سال بھی سیر میں رہے انتہا کو نہیں پہنچتا۔سیر پوری نہیں ہوتی وصول جیسا کہ ہونا چاہئے ممکن نہیں ہوتا ۔
ابدال کی جماعت سے جو چالیس سے کچھ زیادہ تھی۔ میں نے ان سے شریعت کا ایک سوال کیا کہ آپ اہل سیر ہیں آپ کے سیر کرنے کی صورت یہ ہے کہ ساری زمین آپ کی سیر گاہ ہے۔ جہاں کہیں بھی آپ کے قدم پہنچے۔ مشرق میں ہوں تو مغرب اور اگر جنوب میں ہوں تو شمال اس طرف ہے۔ زمین کا ایک حصہ ایسا ہوتا ہے کہ جہاں صبح ہو رہی ہے۔ زمین کا ایک حصہ وہ ہوتا ہے جہاں شام ہو رہی ہے۔ مغرب کا وقت آ رہا ہے۔ کہیں ظہر کا کہیں عصر کا وقت ہوتا ہے۔ فرض کرو کہ آپ ایسی جگہ تھے۔ جہاں آپ نے صبح کی نماز ادا کی اور اڑتے ہوئے ایسی جگہ آگئے جہاں ابھی صبح نہیں ہوئی یا ایسے مقام میں پہنچ گئے کہ جہاں آفتاب غروب ہو رہا ہے تو آپ کی ظہر و عصر کی نماز کا قصہ کیا ہوا ایسی صورت میں آپ کیا کیا کرتے ہیں۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ ہم آپ سے مستفید ہونا چاہتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ اپنے میں کے ایک کو دوزخ میں لے جاتے ہیں تو دوزخ میں کھڑا کر دیتے ہیں۔ اس کے اسرار سے مطلع کرتے ہیں۔ جب وہ شخص وہاں سے لوٹ کر عالم ملک (دنیا) میں آتا ہے تو اس دنیا کی آگ جو اس دنیا کی آگ سے ستر 70درجہ کم اور ٹھنڈی ہے وہ آپ کو جلانی نہ چاہئے لیکن یہ دنیا کی آگ محققین عارفین اولیاء رحمہ اللہ علیہم انبیاء علیہم السلام سب کو جلاتی ہے۔ یہ بات بھی میں نے ان سے پوچھی کہ آپ دلوں کے حال لوگوں کے بھیدوں سے باخبر و مطلع ہوتے ہیں موجودہ آئندہ (حال استقبال) کی باتیں جانتے ہیں۔ ہر ایک کی ایک دیگ ڈھکی ہوئی جوش کھاتی رہتی ہے۔ جو رو بچے اور لوگ جن سے آپ کو نسبت ہے وہ جو کچھ چھپ چھپا کر کرتے ہیں ان کی کھلی اور چھپی باتیں آپ پر منکشف (کشف پائے ہوئے ) یعنی کھلی ہوئی ہوتی ہیں۔ ویسی صورت میں آپ اپنے نزدیک والوں کے ساتھ کس طرح پیش آتے ہیں کیا ان کو اسی حالت و کیفیت میں چھوڑتے رکھتے ہیں کہ وہ اس طرح رہیں۔ دین کے کام میں سست اور جائز و نا جائز کاموں میں پڑے رہیں یا کوئی ایسا سلوک و برتاؤ ان کے ساتھ کرتے ہیں جس کے وہ مستحق ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ حضرات کو یہ دونوں باتیں بھی میسر نہیں۔ ایک بات عالم حقیقت کی بھی میں نے ان سے دریافت کی کہ آپ حضرات ہمہ اوست ( سب وہی ہے) فرماتے ہیں۔ سب نے ایک زبان ہو کر کہا کہ ہاں۔ میں نے کہا ہمہ اوست (سب وہی) فرماتے تو ہیں لیکن یہ بھی تصور میں لایا ہے کہ ہمہ (سب) کا قرارداد (ٹھہراؤ) اس پر کیسے درست ہو سکتا ہے۔ اس کلام کی کیفیت کے ساتھ ساتھ ایک بیان بھی ہے یا نہیں ان سوالوں کا جواب دینے کے بجائے وہ اس عاجز مسکین درماندہ اور مضطرب گشته ( تنگ آئے ہوئے ) سے خفا اور رنجیدہ ہو گئے اور یہ سمجھے کہ ان کو ملزم ٹھہرانے لا جواب کرنے) بحث میں عاجز کر دینے کے لئے یہ سب کچھ کہا گیا ہے۔ جب تفصیل سنی غور کیا اور انصاف پر اتر آئے تو ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔لا جواب ہو جانے کے سوا کوئی اور صورت نہ تھی۔ تو خوش خوش واپس ہو گئے۔
میں نے ان سے جو گفتگو کی وہ یہ تھی کہ اگر وہ ایسا ہو تو سلوک وسیر کیسے پورا ہو سکتا ہے۔ اصل کی اعتبار میں ہوگا ہم نے تعین و تشخص اس لئے نہیں کیا کہ عارف ذائق ( مزہ پائے ہوئے جاننے والے) اور شاہد واجد ( دیکھے ہوئے پائے ہوئے ) سے یہ بات چھپی ہوئی نہیں۔ جو کوئی (ہم سے بات کرتے ہوئے ) ہمارے کلام میں مشاہدہ حال کے بغیر باتیں بناتا ہے وہ کام میں سست پڑ جاتا۔ ٹھیک راستہ پر نہیں چلتا۔ ہر ایک اپنی مجبوری کمزوری کو خوب سمجھتا اور جانتا ہے۔ اس لئے طالب ہو جاتا ہے۔ یہی وہ مرتبہ ہے جہاں سے من الله الی الله (اللہ سے اللہ کی طرف) سیر شروع ہو جاتی ہے۔ دوسرے معنی کا جو گرگانی رحمتہ اللہ علیہ کے کہے ہوئے ہیں امکان ہے اس کو بھی بیان کر دیا جاتا ہے حقیقت کے جنگل کا جوانمرد نزدیکی کے میدان کا تجربہ کار وحدت کے دریا کا پیراک صمدیت کی چوٹی کا چڑھنے والا مضبوط قدیم یہ اشارہ کر رہا ہے کہ اگر اس کی ذات کی تنزیہ ( ہر چیز سے پاک )تسبیح (پاکی سے خدا کو یاد کرنا) میں جیسی کہ کوشش کی جانی چاہئے اگر کی جائے تو وہاں پہنچ سکتے ہیں جہاں عبارت ایک ایسے نقطہ کی مثال کے سوانہیں ہو سکتی جو کسی وجہ سے یا کسی طرح سے بھی ٹکڑے کرنے بانٹ دینے کے قابل نہ ہو۔ یہ وہ مرتبہ ہے جہاں ذہنی تصور کے سوا رسائی نہیں۔ اگر کسی کو اس کی ابتداء و انتہا نہ ہونے کی سمجھ ہاتھ آ جائے اور وہ اس جہاں (دنیا) اس جہاں ( عقبی ) ہزاروں یہ اور وہ تصور میں لائے پھر بھی وہ سات دریا کی شبنم کے جیسا ہے جو دریائے محیط سے کم تر ہوتا ہے۔ کیا کیا جائے مثال دینے کے لئے ایسی بہت بڑی شبنم کے سوا کوئی ٹھیک مثال نہیں ملتی، اگر ہوتی تو ہم دوسری تمثیل بھی دے دیتے۔ جب تم نے اس کو سمجھ لیا۔ یہ جان لیا تو اس قول کا سمجھنا آسان ہو جاتا ہے جو محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے متبعین اور دوسرے محققین نے ”وجود ایک ہی ہے جو کہا ہے وہ اتنے وجودات سے متمثل ہے۔ اس جہاں اس جہاں کی ساری نعمتیں، جنت کی آرام دہ چیزیں دوزخ کی تکلیف و ایذا دینے والی چیزیں ثواب عذاب عرش ( سب سے اونچا مقام )ثریٰ (سب سے نچلامقام) سب چھوٹے بڑے عزیز ہوں یا ذلیل بزرگ ہوں یا حقیر ایک ہی وجود ہے۔ اس کے سوا کوئی وجود نہیں۔ لیکن محمد حسینی جو که نور مرتضوی سے روشن و جلا پایا ہوا ضیاء مصطفائی سے چمک دمک دیا گیا ہے یہ کہتا ہے کہ ان تمام وجودات کے ساتھ کہ جن کا ذکر آیا ہے اس کا فیض ہے جو سارے صور و اشکال میں متصور و متشکل ہے ( سب صورتوں میں ساری شکلوں میں اس کا فیض صورت و شکل لیا ہوا ہے ) اور وہ ان موجودات سے سوا ایک وجود ہے۔ یہ اس کا فیض اپنے سب صور و اشکال (اپنی صورتوں اور شکلوں) کے باوجود اس وجود کے سامنے حساب کے لحاظ سے اس ذات سے ایک لاکھ مرتبہ اس طرح کمتر ہے جیسے کہ دریائے محیط (سمندر ) یا ہفت قلزم ( سات سمندر ) کے مقابل میں شبنم ہوتی ہے۔ سالک پے در پے یکے بعد دیگرے بلکہ ہر گھڑی ہر پل اس وجود سے گزرتے اس سے پرے سے پرے کی سیر میں ہو جاتے ہیں ۔ اِلَّا مَا شَاءَ الله (البتہ تھوڑے) جس کا کوئی احساس نہ تھا کوئی فہم نہ تھی۔ ہاں ایک بات یہ کہ عین معین ہی ایک وہ شی ہے جو تھی اور ہے۔ جس کو باریک تر نازک تر احساس ہی سے محسوس کر سکتے اور انتہائی سمجھ سے سمجھ سکتے جان سکتے ہیں۔ حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی پیدائش کے دن جبرئیل علیہ السلام ایک فرشتہ کو مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے آئے اور کہا کہ اس فرشتہ نے ایک دن خدائے تعالیٰ کی جناب میں بے ادبی کی تھی۔ خدائے تعالیٰ سے اپنے اڑنے میں عرش کی انتہا پانا چاہتا تھا۔ خدائے تعالیٰ نے فرمایا کہ تیرا کام تو جان۔ اڑ ،اڑ کے دیکھ لے چنانچہ یہ فرشتہ ستر ہزار سال اڑتا رہا۔ اس کے پر چھڑ گئے دوسرے پروں کی اس نے دعا کی۔ اس کو پر مل گئے ۔ وہ اور ستر ہزار سال اڑتا رہا۔ پھر اس کے پر چھڑ گئے پھر اس نے دعا کی اس کو پرمل گئے ۔ تین دفعہ ایسا کیا آخر تھک گیا ۔ عاجز آ کر عرض کیا کہ خدایا تیرا عرش کتنی کشادگی ( پھیلاؤ ) رکھتا ہے۔ فرمان ہوا کہ ابھی تو عرش کے ایک کنگرہ سے دوسرے کنگرہ تک بھی نہیں آیا۔ اس فرشتہ نے اپنا عجز ظاہر کیا۔ خدائے تعالیٰ کو قہر و غلبہ کے ساتھ جان پہچان لیا۔ دوسرے پروں کی درخواست کی فرمان ہوا کہ تو نے بے ادبی کی ہے اس لئے پر نہیں مل سکتے ۔ جب حسین بن علی رضی اللہ عنہ پیدا ہوں گے اگر وہ تجھ پر ہاتھ پھیریں گے تو تجھ کو پر مل جائیں گے۔ حسین بن علی رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ اس پر پھیرا گیا اس کے پر آگئے۔ مخلوق، متصور و متشکل کے ساتھ جو فیض قدیم تھا وہ اس صورت وصفت کے ساتھ تھا۔ اس ذات کا فیض لاکھوں ہزار مرتبہ اس سے زیادہ ہے کیا کہوں کچھ کہنے میں نہیں آتا۔ فیض قدیم کے مقابلہ میں یہ بہت کم ہے کیونکہ اور کیسے برابر ہو۔ پھر خدا جانے یہ محروم یہ کیسے اور کس وہم کی بناء پر کہتے ہیں کہ ان وجودات کے سوا کوئی وجود ہی نہیں اس کی عزت اس کے جلال اس کی بزرگی کی قسم جس نے ایسا گمان رکھا وہ خدائے تعالیٰ کو نہ تو پہچانا اور نہ اس تک پہنچا، نہ معیت و قربت کی دولت سے روشناس ہوا ( نہ ساتھ ہونے نہ نزدیکی پانے کی سرفرازی اس کو منہ دکھلائی والله من ورائهم محیط (اور اللہ ان کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے) سب کے ساتھ۔ سب طرح سے سب کے ساتھ ۔ سب کے بغیر سب کے ساتھ ۔ سب کے اندر سب کے باہر وہی ہے۔ لطف یہ کہ نہ اندر ہے نہ باہر نہ نزدیک نہ دور۔ اس سے اس کے ساتھ کوئی آگاہ (باخبر ) نہیں۔ سب وہ نہیں ۔ وہ سب نہیں – هو الكل هو الكل اكل هو كلية الكل وكلية الكلى هو كل كل كل الكلى و كلك و كل كلك هو هو هو كلية الكل وكليه هو لا هو الا هو (وه كل ہے۔ كل كا كل ہے۔ وہ کل کی کلیت ہے اور کلیت کی کلیت ہے۔ وہ کل کا کل کل کا کلیہ اور تمہارا کل تمہارے کل کا کل وہی وہ ہے وہ نہیں وہ بلکہ وہی ہو ) من الله الی الله (اللہ سے اللہ کی طرف) کی سیر اس سے سمجھ میں آتی ہے کہ کیسی بے انتہا ہے اس کو خوب سمجھ لو۔ اس مرتبہ میں سالک کا یہ گمان ہوتا ہے کہ میں واصل ہو گیا ( مل گیا) میری سیر میرا سلوک پورا ہو گیا۔ ایسا نہیں ہے بلکہ شریعت ۔ طریقت حقیقت حق الحقیقت حقیقت الحق اور حق ہے۔ شریعت مراد ہے انسان کامل کے قول (کہے ہوئے) سے طریقت مراد انسان کامل کے فعل ( کئے ہوئے) ہے۔ حقیقت مراد انسان کامل کی دید (دیکھے ہوئے) سے۔ حقیقت الحقیقت مراد ہے انسان کامل کی بود ( ہونے) ہے۔ حقیقتہ الحق مراد ہے۔ انسان کامل کی بود بود ( ہونے میں ہونے) سے حق عبارت ہے ( مراد ہے) بود بود و بود نابود ہونا میں ہونا نہ ہونے میں ہوتا ہے۔
شریعت و طریقت میں بہت سی کتابیں لکھی گئیں۔ بیان و تحریر کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ ہزار ہا کتابیں لکھوکھہا اقوال ہیں۔ اس میں گفتگو کرنا بے ضرورت بات ہے۔ ہاں ہاں جو کچھ حقیقت ہے اس کی ایک دلیل اس کا ایک ثبوت ضرور ہوتا ہے جس کو کسی مثال و نظیر سے کہئے بات کرنے میں لے آتے ہیں وہ دیکھی ہوئی کا ایک بیان ہوتا ہے۔ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ كما ترون القمر ليلةالبدر ولا تضامون فى رويته شيئاً التمثيل بالنسبته الى الراى (جيسا کہ دیکھتے ہو تم چودہویں رات کے چاند کو کہ اس کے دیکھنے میں کوئی چیز مانع نہیں یہ مثال دیکھنے والے کی نسبت سے ہے۔ دکھنے میں آنے دکھائی دینے والے کی نہیں ) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ رائت ربى ليلة المعراج في احسن صورة ( دیکھا میں نے اپنے رب کو معراج کی رات میں اچھی صورت میں ) في صورة امرد شاب قططه (نوجوان سبزه آغاز گھنگھرو والے بال کی صورت میں) ایک صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رائت ربى فى صورة امی دیکھا میں نے اپنے پروردگار کو اپنی ماں کی صورت میں ) قرآن میں بھی اس بیان کا پتہ اس طرح ملتا ہے کہ ید الله فوق ایدیهم (اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ) و جاء ربك والملك صفا صفا (آیا تیرا پروردگار اور فرشتے جوق در جوق ) وجوه يومئذ ناضره الى ربها ناظره (اس دن چہرے تازہ ہوں گے اور اپنے رب کو دیکھتے ہوں گے ۔ ) حضرت امام احمد حنبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رائت ربی فی المنام الف الف مرة (دیکھا میں نے اپنے پروردگار کو خواب میں ہزار مرتبہ ہزار مرتبہ ) حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ الرویا الصالحة جز من النبوة ( سچا خواب ایک حصہ ہے نبوت کے حصوں میں سے ) رویاء ( خواب میں دیکھنا ) خدائے تعالیٰ کو خواب میں دیکھنا اہل سنت کے عقائد میں جائز ہے دیکھا جا سکتا ہے۔ خدا خواب میں دکھائی دیتا ہے۔ یہ ویسی بات نہیں کہ نیند میں خواب میں جو دیکھیں وہ اور ہو۔ جو کچھ بیداری ہوشیاری میں دیکھیں وہ کچھ اور ہو۔ دنیا میں کچھ اور ہو۔ آخرت میں کچھ اور ہو۔ تعالیٰ الله عن الحدوث والتغيرانه سبحانه لا يتغير بذاته ولا في اسمائه بحدوث الاکوان برتر ہے اللہ تعالی پیدا ہونے سے۔ بدل جانے سے وہ پاک ہے۔ بدلتا نہیں اپنی ذات سے نہ اپنے ناموں سے بدل جانے سے دنیا و عقبی کے بعض کتابوں میں خواب کو بیداری پر ترجیح دی گئی ہے مگر وہی بات وہی بیان ہے جو ہم لکھ آئے ہیں وہی بہت اچھا بیان ہے۔ ہمارا کہا ہوا۔استقامت۔ استحکام یافتہ ( ہمیشگی استواری مضبوطی پایا ہوا) ہے۔
محمد واسع رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں۔ ما رائت شيئاً الا رايت الله فيه نہیں دیکھی میں نے کوئی چیز مگر دیکھا میں نے اللہ کو اس میں ) نکرہ محل نفی میں عموم کا ۔ اقتضا کرتا ہے۔ (اسم نکرہ جب نہیں کے ساتھ لایا جاتا ہے تو اس سے عمومیت مراد ہوتی ہے ) اہل صفا و جلا کے نزدیک خلا ( کھلا پن ) کا وجود ہی نہیں اس لئے اس سے ہمیشہ کی دید کا اشارہ نہیں ہو سکتا۔ ایک بزرگ ما رائت شيئاً الا رايت الله قبله ( نہیں دیکھی میں نے کوئی چیز مگر دیکھا میں نے اللہ کو اس کے بعد ) کہتے ہیں ہر ایک نے اپنا ایک حال کہا ہے ہر ایک کا مقصود ایک ہی ہے اور ایک ہی کا پانا ہے۔ میں نے اپنے خواجہ سے سنا ہے۔ میرے خواجہ فرماتے تھے کہ ایک رات مجھ کو اقبال خادم شیخ کے سامنے لے گئے اور خود باہر چل دیئے شیخ نے طاقیہ (ٹوپی) میرے سر پر رکھی۔ ہزار میخی خرقہ مجھ کو پہنایا اور فرمایا کہ جاؤ مشغول رہو بہت مشغول رہو۔ (اپنے کام میں لگے رہو۔ اچھی طرح سے اس میں ڈوب جاؤ ) خواجہ کے سامنے سے دوگانہ ادا کرنے کے لئے اٹھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ حجرہ دروازہ دیوار جہت سب شیخ ہی شیخ تھے۔ میں نہیں جانتا کہ میں کیسے باہر آیا اور عجیب تر یہ کہ جب دوسری دفعہ گیا اور نظر کیا تو سب کچھ اسی حال پر ویسا ہی تھا جو میں نے پہلے دیکھا تھا۔ اسی طرح تیسری دفعہ بھی ہوا۔ میں آ گیا اور بہت زیادہ مشغول ہو گیا۔ اس رات میں میں نے جو کچھ دیکھنے کا تھا وہ سب کچھ دیکھ لیا۔ حضرت شیخ رحمتہ اللہ علیہ نے قیر بک کے گھر میں سماع سنا۔ گھر آنے کے بعد آپ کے ساتھ جو مرید تھے ان سے پوچھا کہ قیر بک کے گھر ہم گئے۔ سماع سننے ۔ لوگ ہمارے بارے میں کیا کہہ رہے تھے۔ محی الدین کا شانی نے عرض کیا کہ لوگ کچھ اچھی بات نہیں کہہ رہے تھے۔ شیخ نے فرمایا سبحان اللہ ہم پر قیر بک کے گھر میں کیا ہوا اور لوگوں نے کیا کہا۔ مولانا مذکور نے عرض کیا کہ کیا محل رویت تھا۔ رویت ہوئی تھی ۔ دیدار ہوا تھا ) اس کے جواب میں شیخ نے فرمایا کہ ہاں ہاں رویت نہ تھی تو پھر وہ کیا تھی۔
ابتدائے حال میں طالب کا مقصود اس کے سوا نہیں ہوتا اور اس صورت کے سوا اور کچھ دل میں نقش نہیں بناتی لیکن یاد رہے کہ یہ نگار خانہ رنگ آمیز ( یہ آئینہ خوشنما بھول بھلیاں ) ہے۔ عارف اس کو شرک کہتے ہیں اور یہ جو کہا کرتے ہیں دیکھنے والے کیا جانیں کہ وہ کیا تھا۔ وہی تھا یا اور کوئی چیز تھی۔ بردها فی قلبی (اس کی ٹھنڈک میرے دل میں ) کا فرمان اس وجدان ( پانے ) کو بخوبی ظاہر کر دیا۔ کھلا پتہ دے دیا ہے کہ دیکھنے والا جانتا ہے کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے۔ یہ جو کہا گیا ہے کہ دیکھنے والے کی پہچان و علامت یہ ہے کہ وہ بیان نہیں کر سکتا۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ وہ ایک چیز دیکھتا ہے جو ایسی ہوتی ہے کہ اس میں نہ رنگ ہے نہ کیفیت نہ جہت (سمت)نہ خلق نہ قدم ( نہ جدید نہ قدیم) نہ تحت ( نیچے ) نہ فوق (اوپر) نہ طول (لمبائی ) نہ عرض چوڑائی ) نہ عمق ( گہرائی ) نہ بسط (پھیلاؤ ) نہ قبض ( سمٹاؤ) نہ یمین (داہنا) نہ یسار (بائیاں ) اس کو بیان کرے تو کیا کرے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر کچھ کہتا ہے تو کافر ہو جاتا ہے۔ بت پرست کہلایا جاتا ہے اور حکم شرع میں موجب ملامت ( تھوتھڑلہ کا سبب ) قرار پاتا ہے ( ٹھہرایا جاتا ہے(
چند لڑ کے ایک شخص کو پتھر مار رہے تھے۔ ذوالنون رحمتہ اللہ علیہ نے ان لڑکوں کو منع کیا۔ ان لڑکوں نے کہا کہ وہ بات جو یہ کہتا ہے اگر آپ سن پائیں تو ہم سے زیادہ زور وقوت سے اس کے پتھر مارو گے ۔ پوچھا کہ یہ کیا کہتا ہے۔ لڑکوں نے جواب دیا کہ ہم ان الفاظ کو دہرا نہیں سکتے آپ ہی اس سے پوچھ لیں۔ ذوالنون علیہ الرحمتہ اس کے قریب گئے اور اس سے پوچھا کہ بات کیا ہے۔ تم نے ان لڑکوں سے کیا کہا۔ اس نے جواب دیا کہ ان آنکھوں سے خدا کو دیکھتا ہوں دیکھا کرتا ہوں۔ اے ذوالنون اگر نہ دیکھوں تو کیسے جیتا رہوں کیونکر جیوں ۔ ذوالنون رحمتہ اللہ علیہ نے لڑکوں سے کہا کہ اس کو خوب پتھر میں ٹکاؤ ڈھیلے مارو۔ نوجوان کے جواب کے بعد ذوالنون رحمتہ اللہ علیہ کے یہ کہنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ روح انسانی سالک پر تجلی کرتی ہے وہ ویسی ہی ہوتی ہے جس کی تعریف ہم کر چکے ہیں۔ یہ وہ تجلی ہے جس میں احیاء ( جلانا۔ زندہ کرنا ) اماتت مار ڈالنا موت دینا ہے ساری مخلوق کا سجدہ لینا بھی اس کو میسر حاصل ہو جاتا ہے۔ مالک کے لئے دونوں میں پروردگار تعالیٰ اور روح میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایک اور صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ تخیل نفسانی ( نفس کا خیال ) تصور شیطانی ( شیطان کا صورت بنایا ہوا) ہو حقیقت وہی ہے جو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا که وجدت بردها فی قلبی (میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے دل میں پائی ) مصرعہ۔
دل داند و من دانم من دانم و دل داند
دل جانتا ہے۔ میں جانتا ہوں اور دل جانتا ہے) شکر کے لکھنے والا کسی عبارت (الفاظ) میں بھی شکر کی مٹھاس کا مزہ بیان نہیں کر سکتا۔ یہ مزہ وہی جانتا ہے جس نے چکھا جس نے دیکھا جانا جس نے چکھا وہ پہچانا۔ موسیٰ علیہ السلام نے درخت اور آگ دیکھی ۔ اني انا اللہ (میں ہی ہوں اللہ ) کی آواز سنی۔ تجلی کی حقیقت اور علامت اور ایک چیز کو جونو پیدا مادہ و مثال کے بغیر تھی جب معائنہ و مشاہدہ کر لیا تھا تو پھر ارنی انظر اليك (دکھلا مجھ کو تاکہ میں تجھ کو دیکھوں ) کس بناء پر کس لئے کہا۔ لن ترانی (مجھ کو نہیں دیکھ سکتا) کا جواب کیوں ملا۔ جاننے پہچاننے والے۔ دیدار کے راز اور دید کے واقف کو دیکھی ہوئی آنکھوں کو دکھاوا نہیں ہو سکتا کی تنبیہ کیوں کی گئی۔ مجھ کو دیکھ نہیں سکتا کی جھڑ کی کیوں دی گئی اس کو بھی سن لو۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام نے یہ چاہا کہ تمثل کے پردہ (مثل و مانند کی روک ) کو درمیان سے ( بیچ میں سے) اٹھا دیا جائے تاکہ وہ عین بعین (آنکھوں سے آنکھیں ملا کر ) نظارہ کر لیں۔ (دیکھ لیں۔ چار آنکھ ہو جائیں ) تو انہیں یہ جواب دیا گیا کہ تمہاری دیدہ وری ( تیز نظری) ہماری عین کو دیکھ نہیں سکتی۔ ہماری وجہہ کی پاکی ہی ہماری وجہ (چہرہ) کو سب کی نظروں سے چھپائے ہوئے ہے۔ ہاں یہ کہ انظر الی الجبل ( دیکھ پہاڑ کی طرف) ہم اس سے پہلے کہہ چکے ہیں کہ درخت آگ کو مثال بنا کر اس کے پردے میں ( پیچھے سے ) عکس جمال قدمی کو ظاہر کیا گیا۔ عکس کا عکس مشاہدہ میں آیا۔ اب بھی اگر اس درخت کے پردہ سے (پیچھے سے) اس کو اپنے آپ میں لے لیا جائے تو میسر ہونا ممکن ہے (ہاتھ آنے کا امکان ہے ) مثال وہی تھی لیکن اس دفعہ وہی آگ آگ نہ تھی۔ درخت درخت نہ تھا۔ وہ کچھ اور ہی تھا موسیٰ علیہ السلام سے کہا گیا کہ تم اس کی تاب نہیں رکھتے تم رہو گے نہ پہاڑ رہے گا۔ پھر کون دیکھے گا کس کو دیکھے گا۔ کسی کھڑ کی یا دریچہ سے وہ رونما ہو گا۔ (منہ دکھلائے گا ) بشریت کا جو پہاڑ ہے اس میں ایسا کوئی محل و موقعہ نہیں ہاں یہ ہو سکتا ہے یہ ممکن ہے اس پر عکس کے عکس کی تجلی ہو سکتی ہے۔ اس پر یہ روشن و ظاہر ہو سکتا ہے۔ کوہ ستوہ ہستی (ہستی سے دیا ہوا پہاڑ ) غم و رنج کا مجموعہ ایک سرمایہ ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے دل کے سامنے ایک اور پہاڑ آ گیا روک ہو گیا۔ وہ کیسے اٹھتا، کیونکر دور ہوتا ۔ جس کے اٹھ جانے سے عین کو عین کے ساتھ مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے اس کا کہنا یہ ہے کہ ہم کو ہمارے سوا کوئی اور دیکھ نہیں سکتا۔ پہلا واقعہ حقیقت تھا۔ ہم نے جو کچھ کہا اس سے ہماری مراد دید تھی یعنی دیکھنا تھا۔ دوسرا معاملہ حق الحقیقت کی خواست یعنی خواہش ہے۔ جو مراد ہے بود ( ہونے) سے یہ ایسی خواست ہے کہ جس میں ایک حال سے ایک حال میں پہنچ جانے اور ممکن ہونے کا بیان میں لانا انہونی بات ہے۔ مطلب یہ کہ تم تم رہو حق الحقیقت تمہاری صفت ہو جائے ۔ تمہارا اپنے میں رہنا اپنے آپ سے اپنے بغیر رہ کر حقیقت کی بود (ہستی) میں نابود (گم ۔ ناپید) ہو جائے ۔ تو بود (ہستی ۔ ہونا ) تمہاری تعریف و توصیف ہو جاتی ہے
کسی صوفی نے جنید رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے الحمد للہ کہا۔ جنید رحمتہ اللہ علیہ نے اتمه (اس کو پورا کرو) کہا۔ تو صوفی نے کہا کیا کہوں آپ نے فرما یا رب العالمین کہو اس نے جواب دیا کہ دونوں عالم ایسے کیا ہیں کہ اس کے نام کے ساتھ ان کو یاد کروں۔ آپ نے فرمایا اس کو کہو کیونکہ جب نو پیدا قدیم کے متقابل و نزدیک ہو جاتا ہے تو اس کا اپنا کوئی اثر نہیں رہتا۔ جنت کا دیکھنا ملکوت کا دیکھنا جیسا کہ دیکھنا ضروری ہے۔ دیکھنا جو کچھ اس میں ہے اس کو اس میں جو نعمتیں لذتیں۔ حور – غلماں ۔ محلات ۔ پھل پھول – باغ – کیاریاں ۔ چمن شراب مستی و خوشی اسی طرح کی اور دوسری کھانے پینے کی چیزیں جو وہاں ایک کے بعد ایک کھائی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ دوزخ کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس میں جو جو تکلیف دینے والی چیز یں بچھو سانپ، قسم قسم کے عذاب تنگیاں اندھیرا وغیرہ۔ یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ لوگوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ایک توے پر رکھ کر تیل ڈال کر اس کے نیچے آگ جلائی گئی ہے ہر طرح سے یخنی کی طرح کیا گیا ہے۔ جان اور حس اور وجدان ہر ایک کا باقی ہے- كلما نضجت جاودهم بدلناهم جاوداً غيرها ( جب چمڑیاں جل جائیں گی تو ہم نئی چمڑی دوبارہ پیدا کر دیں گے) کا نظارہ کرنا ہوتا ہے۔ آگ کو دیکھتا ہے کہ وہ اس کے سر کی مانگ سے جلتی ہوئی پاؤں کے انگوٹھوں تک پہنچ رہی ہے لیکن واقعہ ایسا نہیں ہوتا بلکہ وہ آگ فورا ایک ہی دفعہ روشن اور تیز ہو کر سب کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ بلکہ جیسے جیسے جلتا جاتا ہے ویسے ویسے درست ہوتا چلا جاتا ہے یہی دور ایسا ہی چکر جاری رہتا ہے۔ پورا جسم اچھا ہو کر پھر جل کر خاک ہو جاتا ہے۔ پھر یہی عمل از سر نو شروع ہو جاتا ہے۔ سر سے پاؤں تک پاؤں سے سر تک اسی طرح ہوتا رہتا ہے ہر ایک کا نظارہ اگر کوئی سالک کرنا چاہے تو کر سکتا ہے چنانچہ وہ تھوڑی دیر کے لئے وہاں کھڑا ہو جاتا ہے۔ ان سب مشاہدات میں ظلمات (اندھیرا) کا مشاہدہ سب سے زیادہ کٹھن ہے۔ سالک اپنے آپ سے دوزخ میں جانا نہیں چاہتا لیکن لے جانے کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ اس کو بھی اس کے مشاہدہ میں لائے اس کو دکھلائے اس لئے اس کو زبر دستی دھکے دے کر دوزخ کے اندر گرا دیتا ہے اس سے اس کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ اس کو اس کی پوری اطلاع ہو جائے ۔ سالک حیران و پریشان وہاں سے لوٹ آتا ہے۔ اسی طرح صراط – میزان – حساب قیامت کا میدان۔ کرسی قضا پر جلوس ،سوال و جواب قبر کا مشاہدہ کرتا ہے۔ آسمانوں پر عروج۔ عرش مجید تک کی سیر بھی کرتا ہے لوح کو دیکھتا ہے کہ وہ ایک تختی کے جیسی ہے۔ جس کے دو پرت ہوتے ہیں۔ ایک فرشتہ اس کو بغل میں لیا ہوا دکھائی دیتا ہے جس کی لمبائی عرش سے ثریٰ تک تصور کرتا ہے لیکن وہ لوح کیسی ہے اس کی حقیقت اللہ ہی کو معلوم ہے۔ اسی طرح قلم کہ جس میں نہ تراش ہے نہ خط نہ طول نہ عرض نہ شکل لیکن وہ ہمیشہ چلتا رہتا اور چلنے ہی میں ہے۔ ایک دروازہ دیکھتا ہے جس پر قفل لگا ہوا ہوتا ہے۔ قفل پر مہر لگی ہوئی پاتا ہے۔ ایک چوکیدار کو دروازہ پر کھڑا ہوا دیکھتا ہے۔ ایک لکڑی اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ وہ چوکیدار نہ آدمی ہوتا ہے نہ فرشتہ۔ جو لکڑی اس کے ہاتھ میں ہے وہ نہ تو سونے کی ہے نہ چاندی کی نہ سونے کی نہ موتی کی۔ نہ اس کو طول ہے نہ عرض۔ ایک خیمہ دیکھتا ہے۔ وہ نہ تو دیبا کا ہوتا ہے نہ حریر کا ( مخمل کا ہوتا ہے نہ اطلس کا ) نہ لمبا ہے نہ چوڑا نہ بنا وا ہے نہ سلا ہوا۔ وہ مکان بھی نہیں اس کو مکان کہا بھی نہیں جا سکتا چونکہ اس کو وہاں کھڑا کیا گیا ہے اس لئے اس کو مکان ہی کہنا پڑتا ہے۔ وہاں مکان کہاں۔ اس خیمہ کے اندر کیا ہے اور کون ہے اس کو کہاں تک لے جاتے ہیں وہ وہاں کیا کیا دیکھتا اور کس کو دیکھتا ہے۔ کہنے میں نہیں آ سکتا۔ اس مرتبہ کے مالک کو یہاں تک لے جایا کرتے ہیں۔ اس کے بعد اس کے ساتھ کیا کیا ہوتا ہے یا ہوا وہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوتا ہے اس کو بھی اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ لے جانے والا وہ شیخ ہو یا مرشد یا رسول دروازہ ہی پر کھڑے رہتے ہیں۔ اندر کی انہیں خبر نہیں ہوتی کہ کیا ہو رہا ہے۔ ہاں جب وہ وہاں سے لوٹ آتا ہے تو اس سے پوچھا جاتا ہے کہ تم سے کیا معاملہ ہوا۔ اندر جانے والے کو جو بہتر و مناسب معلوم ہوتا ہے وہ کہتا ہے۔ جس کا کہنا مناسب نہیں سمجھتا وہ نہیں کہتا چھپائے رکھتا ہے۔ خِنْت (بخل ۔ کنجوسی ) کو کام میں لاتا۔ کوتاہی کرتا ہے۔ لے جانے والے کا اندر جانے والے سے پوچھنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ اس کو معلوم نہیں اس کا تھوڑا بہت علم ہو جائے اس کے ساتھ کیا ہوا معلوم ہو جائے ۔ اس سیر کے بعد سالک پر بہت ساری چیزیں کھل جاتی ہیں۔ یہ جو کچھ ہم نے لکھا ہے وہ حقیقت کے کھل جانے کے اقسام میں سے ہے۔
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک نوجوان ابو تراب بخشبی رحمتہ اللہ علیہ کی تربیت میں تھا۔ ابو تراب رحمتہ اللہ علیہ نے اس سے کہا کہ تیری استعداد کا لحاظ کرتے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تو بایزید رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچ جائے۔ اس کے جواب میں وہ نوجوان یہ کہنے لگا کہ ان کی خدمت میں کیا دیکھوں گا۔ انہیں دیکھ کر کیا کروں گا۔ میں یہاں بیٹھا ہوا بایزید کے خدا کو ستر مرتبہ دیکھا کرتا ہوں۔ اس کا انہوں نے یہ جواب دیا کہ ایک مرتبہ با یزید رحمتہ اللہ علیہ کا دیکھ لینا خدا کو ستر بار دیکھ لینے سے بہتر ہے۔ نوجوان نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ اس کا انہوں نے یہ جواب دیا کہ جو کچھ تو دیکھ رہا ہے۔ وہ تو اپنے حوصلہ و استعداد کے موافق دیکھ رہا ہے جو کچھ بایزید رحمتہ اللہ علیہ میں دیکھے گا بقدر و اندازه بایزید رحمتہ اللہ علیہ ہو گا ۔ واقعہ یہ ہے کہ ابو تراب رحمتہ اللہ علیہ اس نو جوان کو دید (دیکھنے) سے “بود” (ہونے) میں لے جانا چاہتے تھے۔ وہ دید میں پہنچ چکا تھا۔ لیکن بود کی اس کو خبر نہ تھی۔ دیدہی میں ٹھہرا ہوا آرام پایا ہوا تھا۔ بات یہ ہے کہ دید سے بود میں پہنچنے تک ہزاروں جنگل میدان وادیاں بیچ میں ہیں۔ اس کے علاوہ اور بہت ساری خندقیں پہاڑیاں ہیں۔ وہ بڑا ہی خوش نصیب ہے رب العزت کا پیارا چاہا ہوا ہے جو دید سے بود میں آ جائے۔ یہ بھی روایت کرتے ہیں کہ ابو عثمان مکی رحمتہ اللہ علیہ نے بغداد کے مشائخ کے نام ایک خط بھیجا جس کا مضمون یہ تھا کہ اے مشائخان بغداد صوفیان عراق، ہزاروں آگ کے پہاڑ خاردار خندقوں کا پار کرنا تمہارے لئے ضروری ہے اگر یہ مراحل طے نہ کر لئے۔ پار اتر نہ گئے ۔ سختیاں نہ اٹھا ئیں تو پھر کس کام میں ہو۔ کیا کر رہے ہو۔ جنید رحمتہ اللہ علیہ نے بغداد کے صوفیوں کو جمع کیا۔ ان کے سامنے وہ خط پڑھا۔ سب نے ایک رائے ہو کر یہ کہا کہ ان کی مراد آگ کے پہاڑ خاردار خندق سے خدا کے راستے میں مٹ جانا ہے۔ جب تک کئی ہزار بارمٹ نہ جائیں۔ مقصود کو نہیں پہنچتے۔ جنید رحمتہ اللہ علیہ رو پڑے۔ کہنے لگے کہ ان خندقوں ان پہاڑوں میں سے میں نے ایک بھی طے نہیں کیا۔ یہ سنتے ہی حریری رحمتہ اللہ علیہ رو پڑے اور کہا کہ اے جنید تم شیخ ہو۔ تم یہ کہتے ہو کہ تم نے ایک پہاڑ ایک خندق طے نہیں کیا مسکین (بیچارہ) حریری تین قدم بھی آگے نہیں گیا۔ یہ سنتے ہی شبلی رحمتہ اللہ علیہ نے نعرہ لگایا کہا کہ اے شیخ جنید تم نے ایک خندق ایک پہاڑ بھی پار نہ کیا اور شیخ حریری تین قدم بھی آگے نہیں گئے ۔ مسکین شبلی وہ ہے کہ جس نے اس راستہ کی گرد و غبار تک نہ دیکھی۔ یہ بات دید سے بود یعنی دیکھنے سے ہونے تک کی ہے۔ ہاں اتنا سمجھ لو کہ حق الحقیقت انسان کامل کے ہونے سے مراد ہے۔ جو کسی عبارت کسی نظیر و مثال میں یا کسی کے وہم و خیال میں نہیں آ سکتا۔ اشارے کنایہ سے بھی کسی کو خبر دار و ہو شیار نہیں کیا جا سکتا۔ تحریر و تقریر میں نہیں سماتا ۔ بایزید رحمتہ اللہ علیہ نے سبحانی ما اعظم شانی ( میں سبحان ۔مری کیسی بڑی شان ہے )
جنید رحمتہ اللہ علیہ نے لیس فی جبتی سوی الله” (میرے جبہ میں اللہ کے سوائے نہیں) حسین منصور رحمتہ الہ علیہ نے ”انا الحق “ (میں حق ہوں ) ابو الحسن خرقانی رحمتہ اللہ علیہ نے ” انا اقل من ربی بسنتین ” (میں اپنے پروردگار سے دو سال چھوٹا ہوں) کسی بزرگ نے ” لا فرق بيني و بين ربي الا افي تقدمت بالعبودية (مجھ میں اور میرے پروردگار میں کچھ فرق نہیں۔ اگر ہے تو یہی کہ میں نے سبقت پیش قدمی کی عبادت و بندگی میں کسی نے ” الصوفي هو الله (صوفی وہی اللہ ) حریری رحمتہ اللہ علیہ نے ” الفقير لا يقتقر الى نفسه ولا الى ربه “ فقیر نہ محتاج ہے اپنے نفس کا نہ اپنے پروردگار کا) ایک محقق ” اذا تم الفقر فهو الله ” ( جب پورا ہو جاتا ہے فقر تو وہ اللہ ہے۔ اور ایک نے انا ابن الاول ( میں ازل کا بیٹا ہوں) ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے ” ولدت امی اباها (میری ماں نے اپنے باپ کو جنا) کی بات اس قدر ہے کہ ایک کچھ نہیں۔ دوسرے کچھ نہیں کا گواہ ہوگا۔ شبلی رحمتہ اللہ علیہ نے انا اقول وانا اسمع و هل في الدارين غیری ( میں ہی کہتا میں ہی سنتا ہوں اور میرے سوائے دونوں جہان میں کون ہے ) یہ بزرگوں کی کہی ہوئی باتیں ہیں ۔ صوفیاء رحمہم اللہ کی باتوں میں ایک ہونے کا ملاپ کا و ہم پایا جائے تو اس کو حق الحقیقت کی حکایت سمجھ لو کیونکہ حقیقت الحق کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ “لا يحطى به نبى المرسل ولا ملك مقرب ولا ولى عارف ولا صدیق محقق (جس کا احاطہ کوئی نبی رسول نزد یکی پایا ہوا کوئی فرشتہ کوئی عارف ولی اور کوئی محقق صدیق نہ کر سکا ۔ ) اگر تم یہ کہو کہ خدا چاہے تو وہ کسی کو اپنی حقیقت سے آشنا کر سکتا ہے کر دیتا ہے۔ یا تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان الله لا يوصف بالمحال “ ( البتہ اللہ محال سے موصوف نہیں ) اصول یہ ہے کہ افعال سے صفات کی طرف جاتے ہیں اور صفات سے ذات کی طرف آتے ہیں ذات میں ذات کے ساتھ ہو جاتے ہیں۔ اس سے آگے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ مہم کام نہیں کرتی ۔ اعوذ بعفوك من عقابك ” ( تیری عفو و درگزر کی پناہ میں آتا ہوں تیری پکڑ سے ) کہہ کر فعل سے فعل میں گئے ۔ اعوذ برضاك من سخطك ( پناہ لیتا ہوں تیری خوشنودی کی تیری نا خوشی سے ) کہہ کر صفت سے صفت میں ہو گئے ۔ اعوذ بك منك ( پناہ لیتا ہوں تیری تجھ سے ) کہہ کر ذات میں ذات کے ساتھ آگئے ۔ جو کچھ نسبت (تعلق ) اضافت (لگاؤ) عبارت (مراد) اشارت (منشاء) فہم ( سمجھ ) شعور (پانے) میں آنے سے باہر تھا وہ نہیں آسکتا تھا۔ اس کو ما ابلغ مدحتك ( نہیں رسائی پاتا ہوں تیری مدح کی) اور لا احصي ثناء عليك انت كما اثنيت على نفسك ( تيرى تعريف کر نہیں سکتا مگر وہی کہ جو کچھ تو نے اپنی تعریف آپ کی ہے) کہہ کر ایک حصہ سے دوسرے حصہ کے ساتھ کفاف کر گیا۔ باقی کو طرح دے گیا (اڑا گیا) یہ بھی ہوتا ہے کہ فعل سے فعل میں صفت سے صفت میں اور ذات کے ساتھ رہا کرتے ہیں۔ اس کے بعد ور اءالوری (پرے سے پرے) ہے اس کی حکایت نہیں کی جاسکتی۔ اس کو تحریر میں لایا نہیں جاسکتا۔ گرگانی رحمتہ اللہ علیہ کی تیزی چالا کی سمجھ رسائی ان کو کہنے لکھنے سنانے میں لے آئی جس کا اشارہ کلام ربانی کی شرح کرتے ہوئے کر دیا گیا۔ جس کو علمائے ربانی جانتے ہیں۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ظلمات ( اندھیرے) میں ذرائع و اسباب کا پاس لحاظ کر کے بے چین و حیران سرگرداں رہ گئے ۔ مطلب یہ کہ مشاہدہ و معائنہ کے بغیر صرف دلیل و سند پر راضی نہ تھے۔ ملاقات تو صرف پلک مارنے یا لفظ بھر تک بھی نہیں ہوتی ۔ دل کو ان خطرات سے کون لوٹا لائے ۔ ہوا ہوس سے کون پھیر لائے۔ ہو سکتا ہے کہ ظاہر ہو جائے۔ ممکن ہے کہ عیاں ہو جائے۔
ایک ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ یہ سارے دکھ درد جلنا بھننا مرنا اس کے لئے اختیار کرتا ہے۔ شوق کا دریا جوش میں آتا جاتا ہے۔ شورش طلب میں لے آتی ہے۔
امن يجيب المضطر اذا دعاه ( کون ہے جو قبول کرتا ہے تڑپتے ہوئے کی دعا کو) مقدمہ جیت گیا۔ عذرات قبول ہو گئے ۔ مقصد حاصل کرنے کا علم (طریقہ ) اس پر کھل گیا۔ جس کا ارشاد ادعوني استجب لكم ( دعا کرو مجھ سے تاکہ میں قبول کروں تمہاری دعا میں استقبال کے لئے آتی ہے۔ فلما جن عليه الليل ( جب چھا گئی ان پر رات) سے مراد ان کی عاجزی بیچارگی کا ظاہر کرتا ہے۔ یہ ان کے ہائے وائے بیقراری تڑپ بے چینی ہے۔ راء کو کب دیکھنا ستارہ) سے مطلب یہ ہے کہ وہ میدان طلب طے کر کے مقصود کے شہر کے دروازہ پر پہنچ گئے ۔
معشوق بسامان شد تا باد چنین بادا کفرش ہمہ ایمان شد تا باد چنیں بادا
( معشوق موافق ہو گیا جب تک ہو ایسا ہی ہو اس کا کفر ایمان ہو گیا جب تک ہو ایسا ہی ہو
یہ مقصود وہ ہے جو سب مقاصد سے سوا اور نرالا ہے۔ انتہا کو پہنچا ہوا۔ دلیل راہ پایا ہوا۔ یہ جانا کہ وہ دل کو ایک طلب میں لگا دیتا ہے۔ تو وہ اس کو اپنی قرار گاہ بنا لیتا ہے۔ ) اقول جو زوال و زبول (ڈھلنا‘ غروب ہونا گھٹنا اتر جانا پژمردگی) کی دلیل ہے اس کو مشاہدہ کے بعد کہا۔ ہاں ہاں یہ وہ تمثیل ہے جو تمثل و تشکل میں عین وصف ہے کو رکھتے ہوئے بھی تغیر و تبدیل رکھتی ہے۔ عاقل کامل (بہترین سمجھدار ) بالغ فاضل بزرگ پہنچا ہوا) متغیر (بدلنے والے کچھ سے کچھ ہو جانے والے کو) کو اپنی ٹھہرنے کی جگہ نہیں بناتا۔ کیونکہ متغیر کو قرار ہی نہیں وہ ایک طرح سے نہیں رہتا۔ مصرعہ :
اہل تمیز خانہ نکردند بر پلے
(سمجھ دار پل پر گھر نہیں بناتے )
اہل صفا و وفا (صوفی اور عاشق ) اس سے بالکل دل نہیں لگاتے۔ اس کو دل نہیں دے دیتے۔ لا يتجلى في صورة مرتین (ایک صورت میں دوبارہ جلوہ نہیں کرتا ) اس کی دلیل ہے۔ اس کی بے ثباتی بے قراری کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ پہلے تو فی احسن صورة (اچھی صورت میں) کہا۔ اس کے بعد پھر امرد شاب قطط (نوجوان گھنگھریالے بال والا جس کا ابھی سبزه آغاز نہ ہوا ہو) کسی نے فی صورۃ امی (میری ماں کی صورت میں ) خلیل اللہ علیہ السلام کے لئے صورت ہیئت شکل ، تمثل سے گزر جانا ( نکل جانا ) ضروری تھا اس لئے آپ نے لا احب افلین (میں میں ڈھلنے ڈھلنے والے کو دوست نہیں رکھتا) کہہ دیا یعنی میں اس کو دوست نہیں رکھتا جس کے جمال میں گھٹاؤ اور پژمردگی ہو۔ میں اس کو نہیں چاہتا جس میں وفا ثبات نہ ہو ( دوستی کا پورا کرنا، قرار و قیام نہ ہو) میں اس کو نہیں چاہتا جو میرے ساتھ نہ رہے۔ ان کو ان کی بلند ہمت دید سے بود میں لے گئی اور گم کردیا دیکھنے سے ہونے میں لے جا کر ہونے میں محو کر دیا ) ایک روشنی بلوغ ( ایک نور رسائی پہنچ) دکھلائی دی تو تحقیق سے جان لیا کہ یہی جائے پناہ اور ٹھہرنے کی جگہ ہے اس سے آگے راستہ نہیں۔ اس سے بہتر امن کی جگہ ٹھہرنے کا مقام اور کوئی نہیں۔ فلما رای القمر بازغا قال هذا ربی جب چاند کو دیکھا کہ وہ روشنی ہے کہا یہ میرا پروردگار ہے ) دل کی گہرائیوں سے غور کے ساتھ سنو بود میں اتہام بود بود تھا ( ہونے میں ہونے کی تہمت تھی) اس بقیہ کے لئے کوئی بقیہ نہیں (اس بچے کھچے کا کوئی بچا کھچا نہیں) اگر ہے تو بود سے بود بود تک ہونے سے ہونے کے ہونے تک شہود وجود تک وجود کے وجود تک اگر طلوع افول نزول کو سمجھ جائیں تو مطلب حاصل کرنے مقصد پالینے کی منزل میں آجاتے ہیں۔ بلکہ ہو جاتے ہیں۔ اس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام مطلع ہوئے تھے۔ وہ شبلی علیہ الرحمتہ تو نہ تھے کہ شبلی کی طرح محبوب کی پناہ میں آکر کچھ کہتے ۔ آپ نے لئن لم يهدني ربي لا كونن من القوم الضالین (اگر میرا پروردگار میری راہبری نہ کرتا تو میں قوم گمراہ میں سے ہوتا ) اس لئے کہ آپ پر طلوع ( نکلنے ) میں ہی ایک مطلع تجلی کیا ( نکلنے کی جگہ دکھلائی دی) کیونکہ ہر حق کی (ہوتے کی) ایک حقیقت ( ہو تا پن) ہوا کرتی ہے۔ فلما راى الشمس بازغه قال هذا ربي هذا اكبر فلما افلت ( جب دیکھا آفتاب چمکتا ہوا کہا کہ میرا رب ہے یہ بہت بڑا ہے جب ڈھل گیا) وہم و فہم ( گمان سمجھ ) کا یہاں دخل نہیں۔ مثال و نظیر (ایسے ویسے) کی گنجائش نہیں تخیل و تمثل کے لئے گمان کا محل نہیں ۔ شیطان فرشتہ نبی ولی کے لئے راستہ نہیں۔
تدبیر کی جائے تو کیا کی جائے اگر کچھ تدبیر ہو سکتی ہے تو یہی کہ تقید ( قید میں آ جانا پابند ہو جانا )تمکن ( ٹھہر جانا ٹھکانے سے ہو جانا ) اقرار ( مان لینا) عجز و انکسار کیسا تھ سر نیچا کئے ہوئے رہنا پڑتا ہے اور اس پر منحصر ہوتا کہ انی وجهت وجهی (میں منہ کرتا ہوں ایسے کی طرف) یہ کیا ہے یہی کہتا ہے کہ تو تو ہے۔ جیسا کہ ہے ہے۔ ہم بھی اعتقاد رکھتے ہیں اور اس قدر کہتے ہیں کہ تو ہے۔ جب تجھ کو تیری صفت سے یاد کرتے ہیں تو اس کے سوا کیا کہیں کہ فاطر السموت والارض پیدا کرنے والا آسمانوں اور زمین کا ) نتیجہ یہ کہ خود اس قدر ضرور جانتے ہیں کہ مشرک نہیں ہیں۔ یہی کہ دید سے بود میں آئے ہیں اور بود سے بود بود میں آ کر وہاں سے بھی گزر چکے ہیں۔ صرف صرف (چھنے ہوئے کے چھنے ہوئے) کو پہنچ گئے ہیں۔ منصورعلیہ الرحمتہ فرماتے ہیں کہ پاک و منزہ جانتا ہوں تجھ کو اس یکتائی سے یکتائی کرنے والوں کے جو تجھ کو یکتائی سے یاد کرتے ہیں۔ کیا خوب اشارہ کیا ہے ملحد حکیم یہ خبر دیتا ہے کہ الدخول في الكفر الحقيقي والخروج عن الاسلام المجازي (داخل ہونا کفر حقیقی میں اور نکل آنا اسلام ظاہری سے وان لا تلتفت الا بما كان وراء الشحوص الثلة (التفات نہ کرنا ناسوت ملکوت جبروت کی طرف) وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم دائم الحزن والبكاء (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ فکر اور رونے میں رہا کرتے تھے) لا اله الا الله ( نہیں بندگی کے لائق مگر اللہ ) جب کہ اس کی یافت ہوئی نہ دریافت ہوئی ۔ تو رونے چلانے رنج و غم کے سوائے اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ عاجز آ جانے کےسوا اور کیا چارہ ہے۔
فیض قدیم کی نسبت اس کے ساتھ ایسی ہوتی ہے جیسے کہ شبنم کی ہوا کے ساتھ اور ہزار ہا سمندر کے جو مقابل ہو اس کے جیسی ۔ تم اس بے وقوف راہ کو۔ اس عالم جاہل کو اس بوڑھے دودھ پینے والے بچہ کو۔ اس عارف نادان کو ۔ اس مرشد گمراہ کو اس پیشوائے پس افتادہ کو کیا کہو گے جو یہ کہتا ہے کہ اس کا سلوک پورا ہو گیا۔ خوب سمجھ لو کہ یہ ایک بے نتیجہ بات ہے اس نے یہ نہ جانا کہ گرگانی رحمتہ اللہ علیہ کے قول میں کھلی بات صاف روشن معنی موجود ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ وهو بعيد في السلوك غير واصل وہ سلوک میں دور ہے اور ملا ہوا نہیں ہے) سارے درجات پر فائز ہوئے ۔ سب مقاصد کو پہنچنے کے باوجود بھی اس کا سلوک پورا نہیں ہوا۔ اس کے سر سے طلب نہیں گئی ۔ اس کی آرزو کم نہ ہوئی۔ یہ کہتے ہیں کہ مجنوں لیلیٰ کی طلب میں جب مصیبتیں مشکلیں رنج و تکلیف اٹھایا سب کچھ کرنے کے بعد اپنی مراد کو پہنچ گیا ہوا ہوس پوری کرنے کے بعد بھی اس کا جذب دب نہیں گیا۔ عشق ٹھنڈا نہ ہوا۔ طلب کم نہ ہوئی ۔ لیلی سے ملنے کی خواہش لیلیٰ کی طلب اس کے دل سے نہ گئی۔ اللهم انت في عماء واحمد حبيبك فی وله (اے ہمارے پروردگار تو ابر میں ہے احمد مصطفی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تیرے حبیب اس میں تیرے ساتھ ) بات یہ ہے کہ جس ، عقل، طبع، دل، روح کو اس دنیا کی خبر نہیں کہ وہ کیا ہے۔ اس کو کسی طرح سے بھی کوئی احساس نہیں کر سکتا۔ ہاں اگر احساس کر سکتی ہے تو روح اعظم ہے جس کو ہم فیض قدیم کہتے ہیں۔ جس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک لگاؤ ہے۔ اس کے شعور کے لحاظ سے ہر ایک اپنی نسبت کی مناسبت سے قربت (نزدیکی جنسیت (ایک قسم کے ہونا) نصیبہ (مراد ) میراث (ترکہ) پاتا ہے اور محفوظ ( خوش مزے لیتا رہتا ہے۔ حتی کہ جسم اور چھونے کی قوت بھی ذوق پاتی ہے یہ بھی جان لو کہ علم الیقین ( بلا کسی شک و شبہ کے جاننا) اور عین الیقین (آنکھوں سے دیکھ کر بلا کسی شک و شبہ کے جاننا) یہ علم دیکھنے کے بعد آتا ہے۔ اس لئے کہنے سننے میں بھی آتا ہے۔ وہ کیا یہی کہ ثابت کرنا نفی کرتا۔ عین الیقین مراد ہے ہونے سے حق الیقین ہو کر جاننا) ہوتا ہے ہونے میں۔ اس سے آگے جو مراتب ہیں وہ کہنے سننے میں نہیں آ سکتے اس لئے اس کا اشارہ بھی نہ آیا۔ البتہ سچ وہی ہے جس کے بارے میں جو کچھ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غور و فکر کرو اللہ کی صفات میں اور غور وفکر نہ کرو اللہ کی ذات میں۔ قرآن شریف میں ہے کہ اللہ ڈراتا ہے تم کو اپنے نفس سے یہ بھی اس کا اشارہ ہے کہ ذات میں غور و فکر کا محل و موقع ہی نہیں ۔ کسی بزرگ نے کیا اچھی بات کہی کہ مکون ( دنیا کا بنانے والا) کہنے سننے میں نہیں آتا۔ کہنے سننے میں آنے کے لائق ہی نہیں اس مبتداء کو خبر پر ٹھہرا دیں تو بات سچی اور بحث مناسبت ہو جاتی ہے کیونکہ یہ حدیث شریف کے لحاظ سے بھی ٹھیک ہے کہ اذا ذكر الله في سكتو ( جب اللہ کا ذکر آ جائے تو خاموش ہو جاؤ۔
الحمد لله لله رب ال العلمين تمت الرساله
سب تعریف اللہ ہی کے لئے جو سارے جہاں کا پالنے والا ہے۔ ختم ہوا رسالہ


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں