کشکول کلیمی حضرت قطب العالم شاہ کلیم اللہ جہان آبادی

کشکول کلیمی حضرت قطب العالم شاہ کلیم اللہ جہان آبادی

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَى سَيِّدُ الْمُرْسَلِينَ مُحَمَّدٍ وَ اٰلِهٖ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ
یہ ایک کشکول ہے ۔ اس میں ایسے لقمے ہیں جو لطیفہ ربانی کی غذا ہیں اور جن سے نفس ناطقہ تقویت حاصل کرتا ہے، جو مجازی اسلام کے پیکر میں ایمان حقیقی کی روح پھونک دیتے ہیں جو مردہ طبیعتوں کو حیات جاودانی سے ہمکنار کرتے ہیں اور ہوائے نفسانی کے مریضوں کو شفا ئے رحمانی کے سر چشمہ تک پہنچاتے ہیں۔ یہ محض کتاب کے خشک اوراق نہیں ہیں بلکہ انواع و اقسام کے اذکار و افکار سے بھرے پُرے طبق ہیں ۔ ان لقموں کو راقم سطور کلیم اللہ نے ارباب نعمت اور اہل کرم کے دروازوں سے بھیک مانگ کر ان لوگوں کی خاطر جمع کیا ہے جن کی بھوک (یعنی طلب) اتنی سچی ہے کہ اس میں کذب کا شائبہ تک نہیں ۔ اس کشکول کے ہر لقمے میں وہ مزہ ہے جو ایک خاص قسم کی بھوک رکھنے والوں کے لیے مخصوص ہے اور ان کے سوا کوئی دوسرا اس کا اہل نہیں۔ ہر پارہ نان سے جہاں بعض لوگوں کا ذوق لذت اندوز ہوگا وہاں بعض کو سوائے بے مزگی کے اور کچھ حاصل نہ ہو گا ۔ غرضیکہ یہ رنگارنگ نوالے اس مرد قلندر کا حصہ ہیں جس نے ذوق طریقت کے ذریعے حقیقت کو (جو مقصود اصلی ہے) پالیا ہے۔ جو ہر طرح کی روکھی پھیکی یا چکنی چپڑی پر راضی ہے تا کہ ہر طاب کو اس کی استعداد کے لحاظ سے حصہ پہنچائے اور ہر صاحب ذوق کو اس کے حوصلہ کے
مطابق یہ نعمت چکھائے. قبل ازیں میں نے” شہرستان شہود“ کے عریاں تن باسیوں کی خاطر ایک مرقع تیار کیا تھا تا کہ وہ اپنے جسموں کو لباس تقوی سے آراستہ کریں ۔ آج جب کہ ماہ ذی قعدہ 1101ھ کا آغاز ہے بعض مخلص دوستوں کے اصرار پر میں نے یہ مانگے کے ٹکڑے اس کشکول میں جمع کئے ہیں تاکہ اہل ذوق وشوق ان سے بہرہ ور ہوں اور دعائے خیر سے اس ناچیز کی امداد فرمائیں۔
نَسْأَلُ اللَّهُ أَن لَا نَسْأَلُ مِنْهُ إِلَّا إِيَّاهُ بِعِزِّمَنِ اجْتَبَاهُ لِأَوَّلِيَّةِ التَّنَزَّلَاتِ وَاصْطَفَاهُ.
اللہ تعالیٰ سے ہمارا یہی سوال ہے کہ ہم اس سے اس کے سوا اور کچھ نہ مانگیں۔ اور ہم اس ذات گرامی کو اپنا وسیلہ بناتے ہیں، جسے اللہ تعالیٰ نے تنزلات میں سب سے پہلے تنزل کے لئے چنا اور جو اس کے پسندیدہ ہیں۔

مقدمہ

اے طالب حق ! اللہ تعالے تجھے عارفوں کے مدارج اعلیٰ پر فائز فرمائے ، اس بات کو جان لے کہ وجود مطلق، پیشتر اس سے کہ وہ وجود ظلی وکونی کے تعین میں ظاہر ہو، مخفی تھا۔ یعنی اس بے نشاں کا کوئی نشان نہ تھا۔ پھر اس محبت کے تقاضے سے جو اسے اپنے آپ سے ہے، وجود مطلق نے اس صرافت و بے نشانی سے نکل کر مراتب الہی و کیانی میں تنزل فرمایا اور ہرمتعین میں اس تعین کی قید کے اعتبار سے عاشق اور رفع تعین کے اعتبار سے معشوق کہلایا۔ اب ہر تعین کا کمال اسی میں ہے کہ وہ اطلاق کی طرف رجوع کرے اور جس بے رنگی سے باہر آیا تھا پھر اسی میں لوٹ جائے۔ ہماری گفتگو کا موضوع بالخصوص حضرت انسان ہے جو ذات و صفات کا مظہر جامع ہے اور” حمل امانت” . کے باعث جملہ تعینات میں ممتاز ہے ۔ انسان کا کمال اس میں ہے کہ وہ فنا فی اللہ کی سرحد پر پہنچ کر بقا بالله کے ساتھ باقی ہو جائے۔سیرا ول سے مراد سیرالی اللہ اور سیر ثانی سے مرادسیر فی اللہ ہے ۔ انتہائے کمال سیر اول میں ہے،سیر ثانی میں نہیں۔

لقمہ

وصل سے مراد ماسوی اللہ سے قطع تعلق کر لینا اور جملہ مخلوقات سے توجہ ہٹا کر بیرنگی یا اطلاق میں فنا ہو جانا ہے ۔ اس کا پیش خیمہ بیخودی اور جملہ حواس سے غیبت ہے۔ یہ حالت موت سے مشابہت رکھتی ہے ۔ فرق اتنا ہے کہ موت میں حضور نہیں ہے ۔ اور اس میں سوائے حضور کے اور کچھ نہیں جب سالک اس جگہ پہنچتا ہے تو ولایت اس کے لئے مسلم ہو جاتی ہے اگر چہ یہ حالت اس کو ایک ساعت کے لئے ہی میسر ہو۔ پھر اگر سالک کو صحو (یعنی حالت ہوش) میں لے گئے تو وہ صاحب تمکین کہلائے گا ۔ حالت صحوکبھی تو جلد ہی نصیب ہو جاتی ہے اور کبھی دیر کے بعد ملتی ہے۔ اور اگر سالک اسی بیخودی یا سکر میں رہا تو اس کا شمار ارباب تلوین میں ہو گا۔
حاصل کلام یہ ہے کہ سلوک میں فقط ذات بیرنگ کے مشاہدہ میں فنا ہو جانا اگر سالک پیش نظر رہے تو اس کا اسلوک پورا ہوگا۔ اور اگر اس کی نگاہ ادھرادھربھٹکتی رہی اور وہ دوسرے تعینات کے کشف کے پیچھے لگ گیا تو صراط مستقیم سے دُور جا پڑے گا۔

لقمہ

کتب سلوک میں ہر مقام کے ایسے ایسے اوصاف اور خصوصیات درج ہیں کہ تم ان میں سے جس پر نگاہ ڈالو گے تمھارا جی چاہے گا کہ بس وہی ٹھہرے رہو۔ تم اپنی تمام ترہمت اس مقام کے حصول میں صرف کرنے پر آمادہ ہو جاؤ گے اور اسے حاصل کئے بنا تمہیں چین نہیں پڑے گا لیکن کہا جاتا ہے : طلب الکل فوت الکل ۔ چنانچہ تم اسی تذبذب میں گرفتار رہو گے کہ تمہارے پیش نظر کو نسا مقام ہے اور کس کی مشق کو مقدم رکھا جائے ۔ علاوہ ازیں ہر مقام کو اختیار کرنے اور دوسرے مقام کی خاطر ، اس کا ایثار کرنے میں جدا گانہ شان ہے۔ لیکن اس ناچیز کے نزدیک اولی یہ ہے کہ سالک، فرائض، سنن مؤکدہ اور سنن زوائد کی ادائیگی کے بعد پوری ہمت کے ساتھ (کلمہ توحید کی مداومت کرے اور ذکر و فکر اور انس کے مقام پر ثابت قدم رہے ۔ اسے چاہئیے کہ کچھ عرصہ کثرت نوافل، تلاوت قرآن پاک تسبیح ، اوراد د و ظائف اور اسی قسم کے دوسرے موارد ثواب کا ذخیرہ کرنے میں منہمک رہے ۔ اسے یہ بھی لازم ہے کہ ہر طرح کی عبارت آرائیوں اور اشارتوں سے کنارہ کش رہے اور اعمال خیر کی ظاہری تزئین سے دامن بچا کر رات دن اپنی ہستی موہوم کو مٹانے اور فنا کرنے میں کوشاں رہے۔ یہاں تک کہ عنائت از لی کی کشش اسے اس کی خودی میں سے نکال کر فنافی اللہ کی سر حد تک پہنچا دے اور پھر وہاں سے بقاء البقاء کی جانب لے جائے تب سالک (حق تعالی کی ذات کو دیکھے گا اوراس کی صفات ، آثار اور افعال کا نظارہ کرے گا۔
سالک کو لازم ہے کہ ہر وہ عمل جو اس کام میں اُس کو مدد دے، اختیار کرے اور جوبات حصول مقصد کی راہ میں اس کے سامنے رکاوٹ بنے، اس سے بچے ۔ ہر صاحب شغل کا یہی طریقہ ہے اور تمام سلاسل اس بات پر متفق ہیں۔ لہٰذا طالب وصل کو وہ شغل اختیار کرنا چاہئے جو اسے اس کی خودی سے نجات دلائے اور (جیسا کہ ہم او پر کہہ آئے ہیں ، اس باب میں ذکر و فکر سے بڑھ کر کوئی شے نہیں ہے۔ البتہ ذکر کی بعض قسموں کو بعض دوسری قسموں پر مقدم رکھنا ضروری ہے کیونکہ یہ ترتیب مشائخ کرام نے اسی طرح سے قائم فرمائی ہے ۔

لقمہ

ذکر و فکر کی جتنی بھی قسمیں ہیں مشائخ کرام نے ان کی مختلف انداز میں تعریف کی ہے۔ لیکن سب سے عمدہ قول شیخ ابو عبد الرحمن سلمی کا ہے ۔ فرماتے ہیں : ذکر کی چندقسمیں ہیں۔ ان میں سے ایک ذکر لسانی ہے جو ظاہر ہے۔ پھر ذکر قلبی ہے جو ہوا جس نفسانی اور وساوس شیطانی سے دل کو پاک کر لینا ہے تا کہ یاد الہی میں انہماک پیدا ہو۔ علاوہ ازیں ذکر سر ہے اور یہ اپنے باطن کو اس طرح پر کر لینا ہے کہ اگر کوئی خطرہ اندر گھسنا بھی چاہے تو راہ نہ پاسکے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ ذکر سر در اصل ذکر قلبی کا ثمرہ ہے۔ سر ایک لطیفہ ہے جو فوق قلب واقع ہے۔ دوام حضور سر کا مقتضا ہے قلب چونکہ ہر لحظہ منقلب ہوتا رہتا ہے اس لئے اس سے دوام حضور ممکن نہیں ۔
ان کے علاوہ ایک ” ذکر روح ، بھی ہے۔ یہ ذاکر کا اپنی صفت سے فنا ہو جانا ہے۔ جب ذاکر دیکھتا ہے کہ خود حق تعالیٰ اس کا ذکر کر رہا ہے تو نہ اس کا ذکر باقی رہتا ہے نہ حال اور نہ وصف کیونکہ اس نے اس بات کو جان لیا ہے کہ اس کے ذکر کرنے سے پیشتر اللہ تعالیٰ
اس کا ذکر کر رہا ہے۔
شیخ ابو عبد الرحمن سلمی آگے چل کر فرماتے ہیں کہ ذکر کی طرح فکر کی بھی متعد د قسمیں ہیں ۔ ان میں سے ایک سالک کا ان گناہوں اور معصیتوں پر جو اس سے سرزد ہوتی ہیں اور حقوق اللہ کی ادائیگی سے اپنے عجز پر غور و فکر کرنا ہے۔
فکر کی ایک اور قسم یہ ہے کہ سالک اس لطف و احسان پر غور کرے جو اللہ تعالی نے اس کے ساتھ کیا ہے اور یہ بھی دیکھے کہ اس نے ترک شکر کیا ہے یا یہ کہ اگر شکر ادا کیا بھی تو وہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کے مقابلہ میں کسی قدر ناقص اور ہیچ ہے ۔
پھر ایک قسم یہ ہے کہ سالک اس بات میں تفکر کرے کہ جو کچھ ازل سے ہو چکا ہے اب اس کا ظہور ہو رہا ہے جو کچھ ہونے والا ہے ، اس کو لکھ ڈالنے کے بعد قلم سوکھ چکا ہے۔ اب یا تو سعادت ہے یا شقاوت .
ایک اور قسم کا تفکر صنایع و بدایع ملکی وملکوتی میں غورو فکر کرنا ہے ۔ اس سے سالک کے دل پر حق تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کا غلبہ تازہ ہو جاتا ہے اور اسے وعده و وعید یاد آجاتے ہیں۔
اس کے بعد شیخ ابو عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ متفکر کا جلیس نفس ہے اور ذاکر کا جلیس حق تعالیٰ شانہ ہے۔ اسی بنا پر آئمہ نے ذکر کو فکر پر ترجیح دی ہے۔ذکر کو فکر پر جو ترجیح حاصل ہے اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ ذکر حق تعالی شانہ کی صفت ہے جب کہ فکر کا معاملہ ایسا نہیں ۔ لہٰذا جو صفت حق تعالیٰ کی ہے وہ لازما کامل ہے اور جو صفت اس کی نہیں وہ ناقص ہے۔ علاوہ ازیں ذاکر کا رجوع ذات حق تعالے کی طرف ہوتا ہے ۔ کیونکہ ذکر معرفت و محبت کا نتیجہ ہے ۔ اس کے بر عکس متفکر نفس، وقت اور حال ، قلت و کثرت ، زیادتی اور نقصان وغیرہ میں تفکر کرتا ہے اور اپنے محاسبہ نفس میں لگا رہتا ہے ۔ غرضیکہ ذکر فکر کا تابع ہے اور فکر ذکر کا لیکن ذکر فکر سے بہت زیادہ کامل، اعلیٰ اور اصفیٰ ہے۔ کیونکہ فکر توبہ کا پیش خیمہ ہے اور ذکر (حق تعالیٰ کے وصول کا مقدمہ ہے ۔
ارشاد باری ہے :
فَاذْكُرُونِي أَذْكُرُكُم (پس تم میرا ذکر کرو ، میں تمہارا ذکر کروں گا )
یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو ذکر سے موصوف فرمایا ہے فکر سے نہیں۔
لقمہ ذکر قلب، ذکر روح ، ذکر سر ، ذکرخفی
عارف ربانی شیخ عبد الكريم الجیلی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ ذکر قلب کے حاصل ہو جانے کی علامت یہ ہے کہ ذاکر اپنے ذکر کو ہر وقت یا کبھی کبھی اپنی قوت و استعداد کے مطابق، ہر شے سے یا بعض اشیا سے سنتا ہے ۔ ذکر روح کے حاصل ہونے کی نشانی یہ ہے کہ ذاکر جملہ اشیا ءسے مخصوص تسبیحات سنتا ہے اور سوائے حق تعالیٰ کے اور کسی کو فاعل نہیں دیکھتا۔
احمد بن غیلان مکی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ذکر قلب میں حضور حق اور حضور خلق دونوں برا بر ہیں۔
اور ذکر روح میں حضور خلق کی نسبت حضور حق غالب رہتا ہے۔ ذکر سر میں ذاکر کو سوائے حضور حق کے اور کوئی حضوری نہیں ہوتی اور ذکر خفی یہ ہے کہ وجود روح میں مخفی ہو جائے جس طرح کا ئنات سر میں مخفی ہو جاتی ہے ۔

لقمہ ذکر کا مقصود

ذکر نسیان کی ضدہے ہر وہ شے جو تمھیں تمھارے مقصود کی یاد دلائے اس کو وسیلہ بنانا یا اس کی طرف ملتفت ہونا عین عبادت ہے ۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ وہ شے کوئی اسم ہے یا کوئی ر سم یا فعل ہے وہ کوئی جسم رکھتی ہے یا مجر دہے یا ان سب کے علاوہ کچھ اور چیز ہے ۔ اس کے برعکس جس شے سے مقصود فراموش ہو جائے ، وہ چاہے کوئی اسم ہویا کچھ اور اس کا وسیلہ چاہنا یا اس کی طرف متوجہ ہونا محض گمراہی اور بطالت ہے ۔ تو معلوم ہوا کہ صوفی کےجملہ اقوال، افعال اور احوال عین ذکر ہیں بشرطیکہ ان سے یاد ، بیداری اور آگاہی حاصل ہو۔ اگر یہ نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں ہے
گر با تو بوم مجاز من جملہ نماز گربے تو بوم نماز من جملہ مجاز
اگر میں تیرے ساتھ ہوں تو میرا مجاز بھی سرا سر نماز ہے اور اگر میں تیرے بغیر ہوں تو میری نماز بھی تمام تر مجاز ہے ۔
بعض حضرات نے ذکر کی بہت سی قسمیں گنوائی ہیں۔ مثلاً ذکر لسان جو باآواز بلند بھی ہو سکتا ہے اور خاموشی کے ساتھ بھی۔ اس کے علاوہ ذکر قلب، ذکر روح ذکر خفی، ذکر اخفی اور اخفاء اخفی ہیں۔
ذکر لسان لفظی ہے یعنی اس میں حرفوں کی ہیت بعض حروف کی بعض پر تقدیم و تاخیراور ان کی حرکات و سکنات کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اگر ان الفاظ کو آواز کے ساتھ ادا کریں تو یہ جہر ہو گا، اور اگر بے آواز پڑھیں تو یہ خفیہ کہلائے گا۔
ذکر قلب صرف مطالعہ لفظ ہے۔ یا معنی اسم کا دل میں حاضر جانا یعنی کسی اسم کے حروف اور حرکات و سکنات کو بلا لحاظ تقدیم و تاخیر بیک مرتبہ دل میں لانا ۔ ذکر روح لفظ اسم کو بھول کر صرف مسمیٰ کو حاضر رکھتا ہے۔ اس میں ذکر کرنے والوں کو اپنے اپنے حالات کے مطابق فرق ہوتا ہے۔ یعنی بعض کو یہ کیفیت کبھی کبھار حاصل ہوتی ہے اور اکثر حاصل نہیں ہوتی ۔ یا اس کے برعکس بعض لوگوں کو یہ کیفیت اکثر حاصل ہوتی ہے لیکن کبھی کبھی نہیں بھی ہوتی پھر بعض ایسے ہیں جن کو یہ کیفیت دائمی طور پر میسر رہتی ہے لیکن وہ جانتے ہیں کہ ہم ذاکر ہیں ذکر میں مشغول ہیں جس کا ذکر کر رہے ہیں وہی ہمارا مقصود ہے جو ہماری چشم بصیرت کے سامنے حاضرہے۔ لیکن اس کیفیت میں بھی نقس موجود ہے۔ اعلیٰ اور انتہائی درجہ یہ ہے کہ ذکر کا اور ذاکر کا درمیان میں کوئی نشان ہی باقی نہ رہتے اور سوائے مذکور کے اور کچھ نہ ہو یہاں تک کہ ذکر کی لذت بھی جاتی رہے بلکہ اس لذت کا علم بھی نہ رہے ۔
ذکر اخفی اور اخفاء الاخفی کے مقامات بھی اس طرح ہیں۔ ان کے علاوہ جو باقی ذکر ہیں، ان کو انہی مذکورہ مراتب پر محمول کیا جاتا ہے

لقمہ

شیخ شرف الدین یحیی منیری قدس سرہ فرماتے ہیں کہ ذکر چار طرح کا ہے ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ زبان ذکر میں مشغول ہے لیکن دل غافل ہے۔ دوسری یہ کہ زبان کے ساتھ ساتھ دل بھی ذکر میں مشغول ہے تا ہم کبھی کبھی دل غافل ہو جاتا ہے جب کہ زبان بدستور
ذکر کرتی رہتی ہے۔ تیسری صورت میں زبان دل کے ساتھ اور دل زبان کے ساتھ پوری طرح موافق ہے لیکن کبھی کبھی دونوں غافل ہو جاتے ہیں اور چوتھی صورت یہ ہے کہ زبان غافل اور بے کار ہے لیکن دل ذاکر و حاضر ہے ۔ یہ مقامات کی انتہا ہے۔ اصل بات حضور اور آگاہی ہے اور یہی ذکر کی حقیقت ہے۔ یہی وہ مرتبہ ہے جہاں ذاکر اپنے دل کی آواز کو سنتا ہے اور سوائے اس کے اور کوئی دوسرا اس آواز کو نہیں سن سکتا ۔

لقمہ

بعض مشائخ نے فرمایا ہے کہ بلندی کے واسطے ذکر، متوسط کے واسطے تلاوت قرآن پاک اور منتہی کے واسطے نماز نفل ان کے مناسب حال ہیں۔ لیکن یہ فقیر عرض کرتا ہے کہ اس راہ میں طالب کے لئے اقرب و اوصل(یعنی سب سے بڑھ کر مطلوب سے قریب کرنے والا اور مقصود سے واصل کرنے والا) کے کام یہ ہے کہ وہ فقط ذکر خفی کو اپنے لئے لازم کرے اور اپنے دل کو نقش غیرسے پاک کرلے ، ماسوی سے توجہ ہٹا کر یکسوئی اختیار کرے۔ ہر وقت حضرت قدس کی حضوری اس کی موانست اور اس میں فنا ہونے کا عزم رکھے اپنے آپ کو اس کام میں ایسا مٹائے کہ اس کی ہستی کا نام ونشان بھی باقی نہ رہ ر ہے ۔ مجھے معلوم ہے کہ ایسا کرنے سے مالک کی بہت سی عبادات فوت ہو جائیں گی ۔ لیکن کچھ ہرج نہیں ہے کیونکہ یہ ایسا کام ہے جو ہر نقصان کی تلافی کر دے گا ۔
لقمہ آداب ذکر

لقمہ

اب ہم ذکر کے بعض آداب بیان کریں گے۔ کتاب “منہج السالك الى اشرف المسالك” میں جو آداب گنوائے گئے ہیں ان کی تعداد بیس ہے۔ ان میں سے پانچ ذکر شروع کرنے سے پہلے ملحوظ رکھے جاتے ہیں، بارہ وہ ہیں جن کی پا بندی دوران ذکر کرنی چاہئے اور تین ایسے ہیں کہ ذکر سے فارغ ہو کر جن کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ وہ آداب جو ذکر سے پہلے کے ہیں حسب ذیل ہیں :
تو بہ
اپنے قلب کو مطمئن رکھنا
طہارت
اپنے شیخ سے استمداد (یعنی مدد چاہنا )
یہ جاننا کہ شیخ سے استمداد، رسول اللہ ﷺ سے استمداد ہے اور آنحضرت ﷺ سے استمداد حق تعالی شانہ سے استمداد ہے ۔
دوران ذکر کے آداب کی تفصیل یہ ہے :
مربع یا دو زانو بیٹھنا ،
دونوں ہاتھ رانوں پر رکھنا ،
مجلس ذکر کو خوشبو دار کرنا ،
پاک و صاف لباس زیب تن کرنا ،
حجرہ میں تاریکی رکھنا،
دونوں آنکھوں کو ڈھانپنا ،
کانوں کے سوراخوں کو اچھی طرح سے بند کر لینا ،
صورت شیخ کودل میں حاضر رکھنا ( اور یہ سب سے ضروری شرط ہے ۔)
ظاہر و باطن میں صدق رکھنا ( صدق سے یہاں اپنے عمل کا عدم مبالغہ مراد ہے)
اخلاص رکھنا ( اخلاص سے مراد ریا ءسے پاک رہنا ہے )
کلمہ توحید کو اختیار کرنا یعنی اسے دوسرے اذکار پر ترجیح دینا ) .
کلمہ طیبہ کے معنی کو ہمہ وقت ذہن میں رکھنا کہ ہر موجود وہمی معدوم ہے اور موجود حقیقی جل شانہ کی طرف مراقب و متوجہ ہوتے وقت ہر موجود وہمی کی نفی ہو ۔( صورت شیخ کو حاضررکھنے کی طرح یہ شرط بھی نہایت ضروری اور بے حد کار آمد ہے)
ذکر کے بعد کے آداب یہ ہیں :
ذکر کے بعد کچھ دیر تک خاموشی اختیار کیے رکھنا ۔
سانس کو روکے رہنا، اورٹھنڈی اشیاء مثلا سرد پانی یا ہوا سے پر ہیز کرنا کیونکہ اس سے دل کی حرارت سرد ہونے کا اندیشہ ہے۔
صاحب “منہج ” نے ذکر کے چند فوائد بھی لکھے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ
کلمہ توحید کا ذکر حضرت اقدس میں انس کا موجب ہے۔ اگر اس ذکر کی کثرت کے باوجود انس میں کوئی اضافہ محسوس نہ ہو تو ذکر کرنے والے سے یقیناً بعض شرائط میں کوتاہی ہوتی ہے۔ اسے چاہیئے کہ احتیاط کرے اور از سر نو ذکر کو شروع کرے ۔ ابن عطاء اللہ شاذلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
کہ جب کوئی شخص لا اله الا الله محمد رسول اللہ کہتا ہے تو عرش عظیم میں حرکت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کلمہ “جبروت” سے ہے ، اس کی نسبت ملک سے ہےیہ ملکوت کی طرف صعود کرتا ہے اور حقائق عالم سے اس کا تعلق نہیں ہے۔
ایک فائدہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہر صبح طہارت کا ملہ کے ساتھ ایک ہزار بار اس کلمہ کو پڑھے تو اس پر اسباب رزق آسان ہو جائیں گے ۔ اس ناچیز کے نزدیک یہاں رزق کے معنی عام ترہیں یعنی یہ روحانی بھی ہوسکتا ہے اور جسمانی بھی۔ اگر کوئی شخص سوتے وقت یہ کلمہ ایک ہزار مرتبہ پڑھے تو اس کی روح عرش کے نیچے پہنچ کر اپنی قوت کے مطابق روزی پائے گی ۔ اگر کوئی شخص دو پہر کے وقت یہ کلمہ ایک ہزار بار پڑھے تو شیطان شکست خوردہ ہو کراس کے باطن سے نکل جاتا ہے ۔ جو شخص ہلال کو دیکھ کر با طہارت کاملہ اس کلمہ کو ہزار مرتبہ پڑھے، اللہ تعالی اسے تمام بیماریوں سے محفوظ رکھے گا۔
شہر میں داخل ہوتے ہوئے یا نکلتے وقت اگر کوئی شخص با طہارت یہ کلمہ ہزار مرتبہ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اسے تمام خطر ناک اور خوفناک چیزوں سے محفوظ رکھے گا ۔
جو شخص حضور قلب کے ساتھ ایک ہزار مرتبہ اسے پڑھ کر ظالم جبار کی طرف دم کرے . اللہ تعالی اس ظالم کو پامال اور نیست و نابود کر دے گا۔
اگر کوئی شخص اس کلمہ کو ایک ہزار بار بایں نیت پڑھے کہ اس پر غیب کی باتیں ظاہر ہوں تو اللہ تعالیٰ اس پر ملک و ملکوت کے پر دے کھول دے گا ۔ جو کوئی اس کلمہ کو ستر ہزار مرتبہ پڑھے، اللہ تعالیٰ اسے بلا حساب بہشت میں داخل فرمائے گا۔
لقمہ دل کا ذاکر ہونا

لقمہ

بعض عارف فرماتے ہیں کہ ذکرلسانی سے سالک ذکر قلب کو پہنچ جاتا ہے۔ لہذا جب زبان اور دل دونوں یکساں ہیں تو بلا شبہ ذکر به ترتیب کمال کو پہنچ جائے گا۔ اکثر سلاسل میں یہی ترتیب رکھی گئی ہے۔ مگر سلسلہ نقشبندیہ میں جذب باطن کے ساتھ ذکر قلبی پر اقتصاد کرتے ہیں۔ بلندیوں کا اسی ذکر سے آغاز کر وایا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ سے
اول ما آخر پر منتہی آخر ما حبیب تمنا تہی
ہمارا ” اولی مرمنتہی کا ” آخر ” ہے ۔ اور ہمارا ” آخر ” یہ ہے کہ تمنا کی جیب خالی ہو یعنی کوئی خواہش اور آرزو باقی نہ رہے
لیکن ظاہر ہے کہ دوسرے سلاسل کے منتہی لوگوں کو جو کچھ حاصل ہوتا ہے وہ اس سلسلے کے مبتدی کو حاصل نہیں ہوتا ۔ ہاں اس سلسلے میں تربیت کا طریقہ یہی ہے۔ لہذا دوسرے سلسلے کے منتہی، جو ذکر قلبی کے ساتھ مجذوب ہیں اور اس سلسلے کے بلندی جن کو ذکر قلبی کے ذریعہ جذب باطن حاصل ہوتا ہے ان دونوں میں فرق ہے ۔
لقمہ ذکر قلبی

لقمہ

بعض فقہاء ذکر قلبی کا انکار کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک ذکر فقط ذکر لسان ہے۔ یہ محض کج بحثی ہے کیونکہ ذکر، نسیان کا ضد ہے۔ اور یہ خاص طور پر قلب کی صفت ہے البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ ہر ایک – کے واسطے مخصوص احکام ہیں جو اسی پر مترتب ہوتے ہیں ۔
لقمہ حبس دم کے طریقے
بعض کے نزدیک حبس دم ذکر کے لیے بنیادی شے ہے بلکہ خطرات کو دور کرنے کے لئے یہ اصل الاصول کا درجہ رکھتا ہے چشتیہ کبرویہ شطاریہ اور قادریہ ان تمام سلاسل کے ہاں (ذکر کے لئے ، یہ ایک لازمی شرط ہے۔ نقشبندیہ نے اگر چہ اسے شرط قرار نہیں دیا تاہم وہ اس کی اہمیت کا انکار نہیں کرتے۔ البتہ سہروردیہ کے نزدیک حبس دم کا نہ ہونا شرط ہے حضرت بہاء الدین عمر اور حضرت زین الدین خوافی قدس سرہما کا یہی مسلک ہے۔ یہ دونوں حضرات سلسلہ سہروردیہ کے اکابر میں سے ہیں ۔
یہ ناچیز عرض کرتا ہے کہ یہاں دو صورتیں ہیں۔ پہلی حبس دم اور دوسری حصر دم پھر حبس دم بھی دو طرح کا ہے یعنی تخلیہ اور تملیہ تخلیہ میں سانس کو شکم کی طرف سے اور ناف اور اس کے اطراف کو پشت کی جانب کھینچتے ہیں اور سانس کو بعض کے نزدیک سینہ میں اور بعض کے نزدیک دماغ میں روکتے ہیں۔ اس کی حاجت نہیں کہ انگلیوں کو ناک کے پروں اور دونوں آنکھوں پر رکھا جائے یا دونوں کانوں میں ٹھونسا جائے جب کہ بعض لوگ احتیاطا ایسا کرتے ہیں اس کا اصلی طریقہ یہ ہے کہ کسی حوض میں غوطہ لگا کر یہ عمل کریں۔ یہ طریقہ خضر علیہ السلام نے حضرت عبدالخالق غجدوانی کو تعلیم کیا ہے اور یہ ایسا طریقہ ہے جس سے بڑے فائدے اور تاثیر کی امید ہے۔
رہا تملیہ تو اس میں سانس کو پیٹ کی طرف کھینچ کر پیٹ کو پھلا لیتے ہیں اور سانس کو روک لیتے ہیں۔ اس صورت میں نفخ شکم کے باعث ناف پشت سے بہت پرے ہٹ جاتی ہے لیکن اس کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ اس سے بہت زیادہ حرارت پیدا ہوتی ہے اور دوسرا یہ کہ کھانا بہت ہضم ہوتا ہے ۔
حصردم یہ ہے کہ سانس کو دونوں جانب (یعنی آمد ورفت ) سے منقطع کر دیا جاتا ہے یوں سمجھو کہ عام طور پر جتنا لمبا سانس لیا جاتا ہے اس سے قدرے کم مقدار میں سانس لیتے ہیں۔ اگر چہ یہ عمل بھی دل میں حرارت پیدا کرتا ہے تاہم حبس دم کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی حرارت اس سے زیادہ ہوتی ہے ۔
ان تمام باتوں کا تعلق دم مسافر سے ہے ۔ دم مقیم حرارت و برودت کے اوصاف سے پاک ہے ۔ اس کے بدلنے کی حاجت ہی نہیں ہوتی ۔ بلکہ وہ تو ایک جدا نہ ہونے والی شے ہے حبس دم ہو یا حصردم ، دم مقیم ہر حال میں برقرار رہتا ہے۔ اگر کوئی اس کو جان لے اور ہر ذکر کا معیار سمجھ لے تو وہ شخص دائم الذکر ہو جاتا ہےسلسلہ حضوری اس کے ساتھ پوری موافقت کرتا ہے ، وہ جتنا اس کی مدت کو بڑھانا چاہے گا اتنی ہی بڑھتی جائے گی۔ حبس دم کے ایام میں ترش اور زیادہ رطوبت والی غذاؤں سے پر ہیز لازم ہے شروع میں کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کانوں سے یا ناک سے یا پاخانے میں خون آنے لگتا ہے۔ لیکن اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ طالب کو چاہیئے کہ اپنے کام میں لگا رہے۔ یہ کیفیت جلد ہی رفع ہو جایا کرتی ہے۔ البتہ بہت گرم کھانے سے بچنا چاہئے کھانے کی گرمی یا طبعی ہوتی ہے یا عارضی(طبعی گرمی سے مراد کھانے کے اجزا کا بلحاظ تاثیر کسی نہ کسی درجہ میں گرم ہونا ہے۔ اس کی تصریح طب کی کتابوں میں موجود ہے۔ اور عارضی گرمی یہ ہے کہ جیسے ہی کھانا پک کر تیار ہو ، چو لہے پر سے اتارتے ہی اسے کھانا شروع کر دیا جائے اور اس کے ٹھنڈا ہونے کا بھی انتظار نہ کیا جائے ۔) دونوں صورتوں میں پر ہیز کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ کیونکہ اس سے مرض کے پیدا ہونے یا بڑھ جانے کا اندیشہ ہے ۔
علاوہ ازیں حبس دم کی مدت کا اندازہ کرنے کے لئے جو گنتی مقرر کی جائے اس کو یکلخت اتنا نہ بڑھا دینا چاہیئے کہ یہ عمل ہی دشوار ہو جائے اور اتنے طویل عرصے تک سانس کورو کنا شاق گزرنے لگے ۔ اس مدت کو آہستہ آہستہ اور بتدریج بڑھاتے رہنا چاہئے، نیز سانس کو چھوڑتے وقت اس بات کی احتیاط ضروری ہے کہ سانس دھیرے دھیرے اور ناک کی راہ سے خارج ہو۔ منہ کے راستے ہر گز نہ نکالنا چاہئے، اس سے دانتوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔
سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ حبس دم کرتے وقت نہ تو معدہ بالکل پر ہو اور نہ بالکل خالی، بلکہ متوسط حالت میں ہونا چاہئے۔ مگر یہ شرط صرف بلندیوں کے لئے ہے۔ جو شخص درجہ کمال کو پہنچ چکا ہوا اسے اختیار ہے کہ جب اور جس حالت میں چاہے ، سانس کو روک لے یاچھوڑ دے۔
مشائخ کرام نے یہ عمل اور حبس دم کے دوسرے طریقے جو گیوں سے اخذ کئے ہیں۔ جو لوگ اس کام کے اہل ہیں وہ اس پر نہایت عمدگی اور باقاعدگی کے ساتھ کار بند رہتے ہیں۔

لقمہ

بعض اہل معرفت فرماتے ہیں کہ جب انسان کا نفس تنقیہ باطن کر لیتا ہے اور محسوسات و مالوفات کی خواہش سے تہی ہو کر استغراق ذکر اور نعمت حضوری سے معمور ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں انسان کو روحانیات سے ایک نسبت یا ربط پیدا ہو جاتا ہے اور اس نسبت سے اس کا دل روشن ہو جاتا ہے۔ تب وہ اس نور سے ذات حق تعالیٰ کا مشاہدہ کرتا ہے اور احکام الہی سے اسے مرادات اُو تعالیٰ کی اطلاع ہو جاتی ہے۔ پھر وہ نور اس کی بصیرت سے اس کی بصارت میں بھی آجاتا ہے جس کے باعث وہ اپنے ظاہری اعضاء سے عوالم غیب کا ادراک کرنے لگتا ہے۔ (جب یہ ہو جائے ، تو اس وقت یہ شخص اپنے ظاہر و باطن دینی دونوں لحاظ )سے اس عالم سے نکل جاتا ہے۔
لقمہ حیرت ممدوحہ و مذمومہ
مقامات میں سب سے پہلا مقام تو بہ ہے اور سب سے آخری حیرت بعض حضرات نے رضا و تسلیم کو آخری مقام قرار دیا ہے اور اسے حیرت کی جگہ رکھا ہے ۔
حیرت دو قسم کی ہے :حیرت مذمومہ اور حیرت ممدوحہ ۔
اس کی تشریح یوں ہے کہ حق تعالیٰ کی ذات کا جمال و کمال حیرت کا تقاضا کرتا ہے نہ کہ شک کا کبھی کبھی حیرت اور شک میں اشتباہ ہو جاتا ہے یعنی معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ایک ہی شے ہیں، تو جاننا چاہئے کہ حیرت ذات شے کی معرفت اور ادراک سے پیدا ہوتی ہے اس کے برعکس شک جہل اور نا آشنائی کا نتیجہ ہے ۔حیرت حضور میں ہوتی ہے اور شک نیت میں متحیر آناً فاناً بلندی کی طرف صعود کرتا ہے اور کنہِ شے تک پہنچ جاتا ہے کیونکہ اسے اس کے ادراک کا شوق ہوتا ہے جب کہ متشکک اتنی ہی تیزی سے جہل کی پستی میں جا گرتا ہے کیونکہ اسے حقیقت شے معلوم کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔
کہتے ہیں کہ حیرت دو چیزوں سے مرکب ہے :جزء علمی یعنی ” وجود شے کا علم ، اورجزء جہلی یعنی کنہِ شے سے لا علمی ۔
مگر شک ان دونوں میں متذبذب ہے، یعنی شک میں نہ تو جزء علمی پایا جاتا ہے نہ جزءجہلی،
متشکک کا علم مشکوک الوجود ہے اور اس کا جہل مشکوک الثبوت وہ ہمیشہ نفی اور اثبات کے درمیان چکر کا ٹتارہتا ہے ۔ یہی وہ شک ہے جسے حیرت مذمومہ کا نام دیا گیا ہے ۔ اس کے بالمقابل جو کچھ ہے اسے حیرت ممدوحہ کہتے ہیں۔ حیرت مذمومہ عوام کا حصہ ہے ، جب کہ حیرت ممد وحہ خواص کا نصیب ہے ۔
لقمہ انوار

لقمہ

انوار جو ظا ہر ہوتے ہیں ان کا رنگ کبھی سفید ہوتا ہے، کبھی سبز کبھی عقیق جیسا اور سب سے آخر میں سیاہ ۔ یہ سیاہ نور جبروت کا نور ہے ۔ اگر نور داہنی طرف کندھے سے متصل ظاہر ہو تو وہ نور کا تب یمین یعنی داہنے کندھے والے کاتب کا ہے ۔ اگر کندھے سے متصل نہ ہو تو وہ شیخ کا نور ہے۔ اگر سامنے سے ظاہر ہو تو وہ نورحضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا ہے ۔ اگر نور بائیں جانب سے ظاہر ہو اور بائیں کندھے سے ملا ہوا ہو تو وہ کا تب یسار(با ئیں کندھے والے کاتب) کا نور ہے۔ اگر کندھے سے متصل نہ ہو تو یہ شیطان کا فریب ہے ۔
اسی طرح اگر بائیں جانب سے کوئی صورت ظاہر ہو تو وہ بھی شیطانی فریب ہے ۔ نور اگر اوپر یا پیچھے کی جانب سے ظاہر ہو تو سمجھ لو کہ یہ محافظ فرشتوں کا نور ہے۔ اگر نور بلا جہت کے ظاہر ہو اور اس سے خوف پیدا ہوا اور اس کے زائل ہو جانے کے بعد حضور باقی نہ رہے تو جان لو کہ یہ بھی شیطانی فریب ہے ۔ لیکن اگر ظہور نور کے وقت حضور حاصل رہے اور اس کے جانے کے بعد فراق اور اشتیاق
پیدا ہو تو یقینا یہ مطلوب کا نور ہے ۔ نور اگر سینہ یا ناف کے اوپر ظاہر ہو تو شیطانی فریب ہے اور اگر دل کے اوپر ظاہر ہو تو یہ صفائے قلب کے سبب سے ہے۔
بہر حال طالب صادق کو ان انوار میں سے کسی پر مطمئن یا نازاں نہ ہونا چاہیے ۔
لقمہ دوام مشاہده

لقمہ

اس بات میں اختلاف رائے ہے کہ عارف کے لیے مشاہدہ دائمی ہوتا ہے یا نہیں۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ یہ دائمی ہوتا ہے جب کہ دوسرا گروہ اس کے عدم دوام کا قائل ہے۔
ایک عارف فرماتے ہیں :
مشاهدة الْأَبْرَارِ بَيْنَ التَّجَلِي وَالْإِسْتَتَارِ نیکوں کا مشاہدہ تجلی اور پردہ کے درمیان ہے ۔
حق بات یہ ہے کہ جس وقت ربط قلب ، اور اتصال سر خوب محکم و تحقق ہو جاتا ہے تو وصول ہرگز زائل نہیں ہوتا ۔ ہاں انوار و مکاشفات کبھی ہوتے ہیں اور کبھی نہیں ہوتے ۔ اور یہی معنی ہیں صوفیہ کے اس قول کے کہ :
الوقت سيْفُ قَاطِعَ وَبَرْقٌ لَامِعُ وقت کاٹ کر رکھ دینے والی تلوار اور چمکنے والی بجلی ہے ۔
لقمہ نہایت عرفان

لقمہ

غیبت و بیخودی اور محویت و فنا میں ایسی حالت ہوتی ہے جو بیان میں نہیں آسکتی ۔ اس وقت سوائے حق تعالی شانہ کی احدیت اور وجود مطلق کے اور کچھ ہوتا ہی نہیں ۔ اگر کوئی کہے کہ او تعالی شانہ کا وجود مطلق تو احاطہ ادر اک میں آہی نہیں سکتا کیونکہ جو کچھ ادر اک میں آئے گا وہ حادث ہو گا۔ پھر جو صورت ذہن میں آتی ہے وہ عوالم ہی سے تعلق رکھتی ہے اورہر عالم حادث ہے ۔ حادث وجود مطلق نہیں ہو سکتا، کیونکہ وجود مطلق قدیم ہے ، اور قدیم ہمارے ادر اک میں نہیں آسکتا ، ہم کہیں گے کہ ہاں، اس نے ٹھیک کہا ہے مگر بات یہ ہے کہ حالت فنا میں سالک کو وه نسبت جو دونوں طرف یعنی منسوب اور منسوب الیہ کے اثبات کا تقاضا کرتی ہے فراموش ہوتی ہے اور وہ اس سے قطعاً غافل اور معطل ہوتا ہے۔ اسے ” فنائے فنا کہتے ہیں۔ یہاں عدم ادر اک ہے نہ کہ ادر اک عدم سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے :
الْعِجْزُ عَنْ دَرْكِ الْإِدْرَاكِ إِدْرَاک اور اک کا ادراک نہ ہونا ہی ادر اک ہے۔
اسی قول میں بھی یہی نکتہ بیان کیا گیا ہے ۔ اب اگر کوئی یہ پوچھے کہ حضرات صوفیہ کے اقوال میں جو اصطلاحات آتی ہیں۔ یعنی شہود ذات ، تجلی ذات ، محبت ذات اور معرفت ذات ان کے معنی کیا ہیں اور یہ امور کیونکر متحقق ہوتے ہیں ؟ تو ہم جواب دیں گے کہ عرفان کے نتائج میں یہ بات شامل ہے کہ ہر شے کو اس کے مرتبہ پر رکھا جائے اور ہر شے کا جو کچھ حق ہے اسے دیا جائے ۔ اب اس معاملے میں جس پر ہم گفتگو کر رہے ہیں ، دو امور ہیں :
ایک ذات بحتِ خالص و سادہ ، اور
دوسرے میں وہ سب کچھ آجاتا ہے جو ذات کے ماسوی ہے ۔
ان دونوں امور میں سے پہلے کا حق یہ ہے کہ اس کا اثبات کیا جائے اور دوسرے کا حق یہ کہ اس کی نفی کی جائے ۔ اول میں معرفت کا حق یہ ہے کہ اصلا پہچانا نہ جائے اور دوسرے میں معرفت کا حق یہ ہے کہ جیسا ہے ویسا پہچانا جائے۔ جو شخص اول میں معرفت کا قصد کرتا ہے اور دوسرے میں عدم معرفت کا ، وہ کام سے بہت دور ہے ۔ اس اثبات حق، حق اور اثبات باطل باطل ہی معرفت ہے۔ کسی شے کے عدم معرفت سے یہ تو لازم نہیں کہ در حقیقت وہ شے موجود ہی نہ ہو ۔ اس حق سبحانہ و تعالیٰ کی ذات مقدس مثبت ، محقق ، غیر معروفہ ، ہے ، لہذا شہود ذات کے معنی ہیں ورائے ذات امور سے غیبت ، تجلی ذات کے معنی ہیں کہ یہ امور بصیرت سے پوشیدہ ہو جائیں محبت ذات کے معنی ہیں کہ ان امور سے محبت منقطع ہو جائے اور معرفت ذات کے معنی ہیں کہ ان امور سے شناسائی نہ رہے ، اسی پر ان تمام معانی کو جن کی اضافت ذات کی طرف ہے ، قیاس کر لو۔ پس حق سبحانہ و تعالی کی معرفت صرف اس کے اسماء وصفات و افعال میں ہوتی ہے اور وہ بھی کنہ میں نہیں بلکہ اوپری سطح تک محدود ہے۔ کیونکہ ہرشے کی کنہ کی معرفت کا راستہ ہی بند ہے ، یہ اس لیے کہ ہر شے کی کنہ حقیقت حق ہے اور یہ اس لیے کہ او تعالی ہی ساری حقیقتوں کی حقیقت ہے اور حق جل شانہ کی حقیقت کسی انسان ، فرشتے یا جن کے ادراک میں نہیں آسکتی۔ پس معلوم ہوا کہ حقیقت تمام تر مدرک نہیں ہوتی۔ یہ مرتبہ نہایت عرفان کا
ہے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
أَوَّلُ الْعَوامِ آخر الخَوَاصِ وَبِدَايَةُ الْجَہالِ نِهَايَةُ الْعُلَمَاءِ
عوام کا اول خواص کا آخر ہے اور جہلا کی ابتدا علماء کی انتہا ہے۔
بہ بیں تفاوت ره از کجاست تابکجا
ذرا راستے کا فرق تو دیکھو کہ کہاں سے کہاں تک ہے ۔
لقمہ ہمت شیخ

لقمہ

یاد رہے کہ اشتغال و اذکار اور افکار کی یہ ساری ترتیب محض اصطلاحی ہے لیکن جس ترتیب کا تعلق “ہمت “سے ہے وہ کچھ اس دوڑ دھوپ پر موقوف نہیں ہے ۔ یہاں شیخ مریدہ کا تخلیہ شریعت کی نہج پر فرماتا ہے اور مرید، غائب ہو یا حاضر، اس کے حق میں شیخ کی امداد”ہمت” سے ہوتی ہے۔ شیخ کی ہمت سے ہی فیوضات کے دروازے مرید پر کھلتے ہیں اور یہ طریقہ بہت نادر ہے ۔ اکثر بوالہوس اس کے جو یا رہتے ہیں کیونکہ طریقت کے کام ان سے ہو نہیں سکتے اور اس راہ کی دشواریوں سے ان کا جی چھوٹ جاتا ہے لہٰذا انھیں اس طریقے کی آر زورہتی ہے۔
لقمہ ضرورت شیخ
کہا گیا ہے کہ من ليس له شیخ فشيخه الشيطان، یعنی جس کا شیخ نہیں ہے اس کا شیخ شیطان ہے ۔ اس قول کی رو سے ہر صاحب دل کے لیے ضروری ہے کہ شیخ کو تلاش کرے ۔ اب یہاں پر ایک مشکل در پیش آتی ہے یعنی چونکہ وہ خود مبتدی ہے اس لیے مصلح اور مفسد میں یا ولی اور غیر ولی میں امتیاز نہیں کر سکتا۔ یا تو وہ اچھوں پر قیاس کر کے مفسدوں کو مصلح سمجھ بیٹھے گا یا اس کے برعکس بروں پر قیاس کر کے مفسد جانے گا۔ دونوں صورتوں میں وہ غلطی پر ہو گا۔ پھر کیا کرنا چاہیے ؟ شیخ شرف الدین یحییٰ منیری قدس سرہ اس مشکل کا حل یوں بیان کرتے ہیں کہ عادت الہٰی اور سنت خداوندی اس طرح جاری ہے کہ کوئی زمانہ مشائخ و زہاد و عباد و اوتاد و اخیار و نجباء و نقباء و ابدال و اقطاب اور غوث اور تمام اہل اللہ اور اہل خدمات اور عاشقین و معشوقین سے خالی نہیں رہا ، نہ ہے اور رہے گا ۔ پس طالب صادق پر لازم ہے کہ جو مشائخ اس طریق پر چلتے ہیں اور اس بات میں مصروف ہیں ان کی خدمت میں پابندی کے ساتھ حاضر ہو اور ان کی مجالس میں بار بار جائے اور ہر بار اپنے دل کو ٹٹولے اور دیکھے کہ طرح طرح کے وسوسوں اور خطرات کا ہجوم جو اس کے دل پہ جما ہوا ہے ، وہ دور ہوا یا نہیں۔ آیا کسی مجلس میں اسے قلب کے انقلابات سے رہائی ملتی ہوئی محسوس ہوتی ہے یا وہی پہلی سی حیات ہے ۔ اگر طالب کو کچھ بھی خطرات و وساوس سے قلب کی رہائی محسوس ہو تو اسے چاہیے کہ جس بزرگ کے دروازے سے اسے یہ دولت ہاتھ لگی ہے اس کی صحبت اپنے اوپر لازم کرلے۔ کیونکہ اگر قلیل صحبت سے یہ نعمت میسر آئی ہے تو زیادہ (مستقل)صحبت سے تو بہت کچھ امید ہے۔ لیکن اگر اسے اپنی حالت میں کوئی تفاوت محسوس نہ ہو تو سمجھ لے کہ اس شیخ کے ہاں میرا نصیب نہیں ہے اور دل میں انکار لائے بغیر اپنی دواکسی دوسرے دروازے سے طلب کرے ۔
لقمہ شیخ کامل کے ملنے کی دعا
شیخ محی الدین ابو محمد عبد القادر الجیلی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ جو شخص آدھی رات کو اُٹھ کر وضو کرے اور دو رکعت نماز پڑھے اور جتنا ہو سکے ان دو رکعتوں میں قرآن پاک کی تلاوت کرے پھر بارگاہ الہی میں سربسجود ہو کر بڑی الحاح و زاری کے ساتھ استغا ثہ رے اور مندرجہ ذیل دعا پڑھے تو اللہ تعالی ضرور اس پر وصول کا دروازہ کھول دے گا اور اسے اپنے کسی ایسے ولی کے پاس پہنچا دے گا جو اس طالب کی رہنمائی کر کے اسے حق تعالی کی طرف پہنچادے۔ اس دعا کا بار ہا تجربہ کیا جا چکا ہے اور یہ حسب ذیل ہے :
يَا رَبِّ دُلَّنِي عَلَى عَبْدٍ مِنْ عِبَادِكَ الْمُقَرَّبِينَ حَتَّى يَدْلَنِي عَلَيْكَ وَيُعَلِّمَنِي طَرِيقَ الْوُصُولِ إِلَيْكَ .
اے پروردگار ! تو مجھے اپنے بندوں میں سے کسی ایسے بندے کی طرف میری رہنمائی فرما کہ وہ میری رہنمائی کرے تیری طرف اور تیرے وصول کی راہ مجھے بتائے ۔
سلسلہ شاذلیہ (قدس اسرار ہم کے متاخرین نے فرمایا ہے کہ جو شخص ہمیشہ حضور قلب کے ساتھ بلاناغہ درود شریف اور اسی طرح کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ پڑھتا ر ہے گا اسے ضرور شیخ کامل ملے گا ۔ شاذلیہ کا کہنا ہے کہ اس راہ میں ہمارے پیشوا امام حسین بن علی ہیں ۔

وصل اول

اذکار

اللہ تعالی تمہیں اس بات کی توفیق دے جو اسے پسند ہے اور جس سے وہ راضی ہے ، جان لو کہ جب کوئی طالب صادق شیخ کامل کی خدمت میں کسب طریقہ کے لئے حاضر ہوتا ہے تو شیخ کو چاہئیے کہ اُسے متواتر تین روزے رکھنے کا حکم دے . اگر ممکن ہو تو( طالب ) بالکل بھوکا روزے رکھے ورنہ تھوڑا سا کھا کر افطار کر لیا کرے اور ہر روز ایک ایک ہزار مرتبہ لا الہ الا اللہ استغفر اللہ اور درود پڑھے۔ تیسری شب جب وہ غسل کر کے شیخ کی خدمت میں حاضر ہو تو شیخ اسے سورہ فاتحہ، سورہ اخلاص، آمن الرسول استغفار اور شهد الله تا حکیم پڑھنے کو کہے جب وہ پڑھ چکے تو شیخ یوں کہے کہ ” تو نے بیعت کی مجھ ضعیف سے اور میرے شیخ سے اور میرے شیخ کے مشائخ سے اور رسول اللہ ﷺ سے اور حضرت رب العزت ہے ۔ اور تو نے عہد کیا کہ اپنے اعضا و جوارح کو شریعت کا پابند رکھے گا اور اپنے دل کو حق تعالی شانہ کی محبت کے لئے وقف کر دے گا ؟ اُس وقت شیخ اپنا ہاتھ مرید کے داہنے ہاتھ پر رکھے۔ یہ عمل
اس آیہ مبارکہ کے عین مطابق ہے :
يَدُ اللَّهَ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے ۔
جو لوگ اس وقت گرد و پیش بیٹھے ہوں ان کو چاہیئے کہ اس طالب کا دامن تھام لیں۔ اگر مجلس میں زیادہ ہجوم ہو تو جس شخص نے طالب کا دامن پکڑا ہو اس کا دامن دوسرا شخص پکڑے۔ پھر اس کا دامن تیسرا شخص اور اسی طرح جتنے لوگ وہاں موجود ہوں کرتے چلے جائیں۔
اب مرید کہے کہ میں نے بیعت کی اور عہد کیا ہے کہ شریعت کی راہ پر چلوں گا اور میں نے اپنا دل اللہ کی محبت میں دے دیا ہے۔ اس کے بعد شیخ اس مرید کو خرقہ پہنا دے اور کہے : ذالك لباس التقوى وذالك خير والعاقبة للمتقين پھر خلوت میں جو ذکر مرید کے مناسب حال ہو ، اس کو تلقین کرے اور اس کی خبر کسی دوسرے کونہ ہو۔
کسره : تعلیم کا طریقہ یہ ہے کہ ایک بار شیخ فرمائے اور مرید سنے ۔ پھر مرید کہے اور شیخ سنے ۔ اس طرح تین مرتبہ کرے اور حوالہ کر دے. یعنی شیخ کہے کہ جیسے مجھے اپنے پیران کبار سے پہنچا ہے ، میں نے تجھے پہنچا دیا۔ مرید قبول کرے، پھر شیخ اس مرید کو مندرجہ ذیل امور کا حکم دے:
ہر نماز کے بعد دس بار درود شریف اور دس بار سورہ اخلاص پڑھنا چھ رکعت نماز اوابین تین سلام کے ساتھ ادا کرنا ۔ اس کے بعد حفظ ایمان کی نیت سے دو رکعت پڑھنا ر اس کا طریقہ ہم نے اپنی کتاب “مرقع ” میں بیان کیا ہے )۔ سونے سے پیشتر سو مرتبہ لا الہ الا اللہ پڑھنا اور ان کے علاوہ اپنے سلسلہ کے مشائخ قدس اسرار ہم کے لئے فاتحہ پڑھتے رہنا۔
کسرہ :جاننا چاہیئے کہ اذکار کو مراقبا ت پرمقدم رکھنا چاہئے۔ بعض حضرات پہلے ہی دہلہ (دس پر مشتمل)میں مراقبہ کا حکم دیتے ہیں۔ اگر مرید کی استعداد اس بات کا تقاضہ کرتی ہو تو یہ بھی روا ہے ، بلکہ مرید جتنی محنت ، کرے اتنا ہی بہتر ہے۔ لیکن اولی ترین صورت یہ ہے کہ طالب کو سب سے پہلے ذکر کے ساتھہ رنگین کیا جائے اور اس کے اندر جوش و خروش پیدا کیا جائے ۔ اس کے بعد مراقبہ کی مدد سے اس کو بے رنگ بنایا جائے اور ہوش و خروش کی جگہ اس میں خاموشی اور سکون کی کیفیت پیدا کی جائے لیکن اذکار میں بہت تفاوت ہے۔ اگر شیخ کسی مرید کو دنیا کی طرف زیادہ متوجہ پائے تو اس کو سب سے پہلے نفی و اثبات کی تلقین کرے جس طالب میں عشق کی بُو باس ہوا اسے اسم جلالی یعنی اللہ کی تعلیم دے۔ اور جس کی طبیعت میں رقت ہو، دل میں دنیا سے بے تعلقی اور اطلاق کی طرف میلان ہو تو ایسے مرید کو ” هو ، کی تلقین کرنی چاہئیے۔ غرضیکہ ہر موقع اور محل کودیکھتا ضروری ہے کیونکہ ہرکسی کے لئے ایک جدا گانہ لائحہ عمل معین ہے جس کو انشا اللہ ہم اسی وصل میں تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے۔
ہمارے پیش نظر ان اوراق میں مراقبات واذکار کی پوری تعداد قلمبند کرنا نہیں ہے۔جیسا کہ بعض کتابوں میں یہ ہزاروں کی تعداد میں مندرج ہیں۔ ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ ان میں سے جن اذکار و مراقبات کو لب لباب یا مغز کی حیثیت حاصل ہے اور جنہیں صوفیائے عظام نے بطور خاص اختیار فرمایا ہے ، ان کو یہاں بیان کر دیا جائے ۔ ظاہر ہے کہ جو شخص ان مراتب علیا کا مالک ہو گا وہ جو کچھ ان سے نچلے درجے میں ہے اس کا بھی مالک ہو گا ۔

لقمہ

خلوت کے لئے کوئی تنگ اور تاریک جگہ منتخب کر کے وہاں مربع یعنی آلتی پالتی مار کر بیٹھے ۔ اس طرح بیٹھنا بدعت ہے اور یہ متکبروں کی نشست سمجھی جاتی ہے ۔ اگر چہ عام حالات میں اس کی ممانعت ہے تاہم ذکر میں اس طرح بیٹھنے کی اجازت ہے کیونکہ آنحضرت ﷺجب نماز فجر سے فارغ ہوتے تو اسی جگہ مربع تشریف فرما ہو کہ ذکر میں مشغول رہتے یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جاتا ۔
ذکر کے لئے بیٹھنے کا طریقہ یہ ہے کہ ، اپنی پشت کو بالکل سیدھا رکھے۔ آنکھیں بند اور دونوں ہاتھ زانوؤں پر ہوں۔ داہنے پاؤں کے انگوٹھے اور اس کے ساتھ والی انگلی سے اپنے بائیں پاؤں کی رگ کیماس (بائیں جانب ران کہ نیچے پنڈلی اور گھٹنے کے درمیان جو رگ ہوتی ہے اسے کیماس کی رگ بولتے ہیں وہ خطرات نفسانی یعنی شہوت پیدا کرتی ہے)کو زور سے پکڑے تاکہ قلب میں حرارت پیدا ہو۔ اس سے تصفیہ قلب ہوتا ہے۔ کیونکہ حرارت کے باعث وہ چربی جو دل کے گردا گرد ہوتی ہے اور جسے خناس کا مسکن کہا گیا ہے، پگھل جاتی ہے۔ تو وسو سے اور ہوا جس کم ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد یک دل و یک زبان ہو کر، جہر کے ساتھ یا آہستہ (جیسا بھی وقت یا طبیعیت کا تقاضا ہو) ذکر میں مشغول ہو اور اس بیت کی شرائط کو ملحوظ رکھے ۔
بزرخ وذات و صفات و مد و شد و تحت و فوق می نماید عاشقان را کل نفس ذوق و شوق
اس بیت کی شرائط کا ملحوظ رکھنا ذکر سہ پایہ ( شغل سہ پایہ “اﷲُ سَمِیْعٌ ” “اﷲُ بَصِیْرٌ” “اﷲُ عَلِیْمٌ” کا ذکر ہے)میں بھی ضروری ہے۔ لیکن وہاں اس کے معنی کچھ اور ہیں۔ یہاں جو کچھ مقصود ہے وہ حسب ذیل ہے :
برزخ سے مُراد صورت شیخ ہے ۔ ذات سے مراد سبحانہ و تعالیٰ کا وجود مطلق ہے صفات سے مراد سات ائمہ صفات یعنی حیات، علم، اراده ، قدرت سماعت ، بصارت اور کلام ہیں ۔ مد سے مراد یہ ہے کہ لا الہ کو کھینچ کر ادا کرے اور شد سے مراد الا اللہ کی تشدید ہے تحت سے مراد یہ ہے کہ لا کو بائیں زانو کے سرے سے شروع کر کے ” اللہ ” کواپنے کندھے تک لے جائے ۔ اس جگہ ( قدر ے رک کر ، اپنی سانس کو درست کرے، اب یہاں سے پوری قوت کے ساتھ فضائے دل پہ الا اللہ کی ضرب لگائے ، یہ فوق ہے ۔

لقمہ خطرات

خطرات چار قسم کے ہوتے ہیں :
1 – خطرہ شیطانی – جو تکبر غضب ، عداوت اور حسد وغیرہ کا موجب ہوتا ہے ۔
2- خطرہ نفسانی – جو خواہش طعام ، شہوت جماع ، حرص، ذخیرہ اندوری کی خواہش اور زیب و زینت کا موجب ہے ۔
3- خطرہ ملکی جو عبادات و طاعات اور دوسرے باعث ثواب امور کا موجب ہے ۔
4۔ خطرہ رحمانی – جو اخلاص و محبت اور شوق وغیرہ کا موجب ہے ۔
بائیں زانو کا سرا خطرہ شیطانی کے دفع کرنے کا مقام ہے کیونکہ بائیں جانب شیطان کی جائے قرار ہے ۔
د اہنے زانو کا سرا خطرہ نفسانی کو دفع کرنے کا مقام ہے۔ کیونکہ بہکانے میں شیطان اور نفس کے درمیان ہمیشہ شراکت کیلئے مقابلہ رہتا ہے
داہنا کندھا خطرہ ملکی کو دفع کرنے کا مقام ہے۔ کیونکہ یہ کا تب یمین ہے ۔
دل کی فضا خطرہ رحمانی کی مقدار گاہ اور اس کے نصب کرنے کا مقام ہے ۔
ان خطرات کی تفصیل کو ملحوظ خاطر رکھنے سے سالک کی طبیعت میں پریشانی اور حال میں پراگندگی پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ لہٰذا اسے امر کلی (جو ان سب کا جامع ہو) کی تلقین کرنا مناسب ہوگا۔ چنانچہ پہلے پہل اسے لا الہ الا اللہ تعلیم کریں۔ پھر لامعبود الا اللہ ۔ پھر لا مقصود الا الله – پھر لا مطلوب الا اللہ اور پھر لا موجود الا اللہ پڑھنے کو کہیں ۔ اس سے سارے خطرات رفع ہو جائیں گے ۔
اس ناچیز کی رائے میں سب سے پہلے لا موجود الا اللہ کی تلقین کرنا بہتر ہے کیونکہ سفر جتنا مختصر اور بوجھ جتنا کم ہو، اتنا ہی اچھا ہے ۔ اگر مریدعجمی ہو تو اس کی اپنی بولی میں (ذکر تلقین کریں۔

لقمہ ذکر دو ضربی

اس کی ایک ضرب لا الہ ہے جو داہنے کندھے پر اور دوسری الا اللہ ہے جو فضائے دل پر لگاتے ہیں۔ دونوں ضربیں پے درپے لگائی جاتی ہیں۔ تین یا پانچ یا سات یا نو بار لا الہ الا اللہ کہہ کہ ایک بار محمد رسول اللہ کہنا چاہئیے ۔ ذکر چہار ضربی کی نسبت اس ذکر میں چونکہ بساطت ہے اس وجہ سے اس ذکر میں تفرقہ کم ہے ۔
لقمہ ترتیب ذکر
نفی واثبات کے بعد اثبات اور اثبات کے بعد اسم ذات کہنا چاہئیے ۔ الا اللہ سے اللہ“ اور ”لا الہ الا اللہ” سے ” الا اللہ زیادہ کہنا چاہیئے ۔

لقمہ ذكر لقلقہ

اس ذکر میں کلمہ ”اللہ “ کو متصلاً بغیر فصل کے اور آہستگی کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ ذکر کرتے وقت منہ کو چاہے کھلا رکھے یا بند ، دونوں طرح درست ہے بعض اس میں حبس نفس کرتے ہیں اور بعض نہیں کرتے ۔
لقمہ ذکر سہ پایہ
یہ ذکر ابریق (ایک قسم کا ٹونٹی دار لوٹا جس کے پیندے کے نیچے تین پائے بنے ہوتے ہیں)سے سے مشابہہ ہے، ابریق میں تین پائے ہوتے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی ایک پایہ نہ ہو تو وہ قائم نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح اس ذکر کے تین ارکان ہیں یعنی :
ا – اسم ذات
ملاحظہ سبعہ صفات .
واسطہ – (جسے برزخ بھی کہتے ہیں)
اس ذکر کی سات شرائط ہیں۔ (جیسا کہ اس بیت سے ظاہر ہے) ۔
برزخ و ذات و صفات و شد و مد و تحت وفوق می نماید طالبان را کل نفس ذوق و شوق
یعنی یہ سات شرائط جن کا ذکر بیت کے مصرعہ اولیٰ میں ہے ، طالبوں کے اندر ہر دم ایک ذوق و شوق پیدا کرتی ہیں۔
برزخ سے مراد واسطہ ہے، جیساکہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں : ذات “ سے مراد اسم ذات ہے یعنی ” الله صفات سے امہات صفات یعنی علیم، سمیع ، بصیر مراد ہیں ” شد ، کا مطلب یہ ہے کہ لفظ ” اللہ کا تشدید پورے طور پر ادا کیا جائے اور مد ” کا معنی یہ ہے کہ اللہ کے الف کو خوب طول دے کر پڑھا جائے “تحت یہ ہے کہ ہمزہ ” اللہ ” کو پوری قوت کے ساتھ ناف کے نیچے سے شروع کر سے اور فوق سے مراد یہ ہے کہ ہمزہ اللہ کو دماغ میں لے جا کر ختم کرے ۔
چونکہ اس ذکر کو حبس دم کے بغیر نہیں کیا جاتا اس لئے بطور شرط بیت مذکورہ میں اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہمزہ “اللہ” کو پوری قوت کے ساتھ ناف کے نیچے سے کھینچے اور تمام سانس سینہ بھر کر روک لے۔ اور دل میں اللہ کہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سمیع کہے اور اس کے معنی کا تصور کرے۔ پھر اسی طرح دل میں اللہ کہے اور اس کے ساتھ بصیر کہے اور اس کے معنی کا تصور کرے، علی ہذالقیاس ” علیم کے ۔ اس کو عروج کہتے ہیں۔ اب اسی طریقے سے پہلے علیم پھر بصیر پھر سمیع کہے اس کو نزول ، کہا جاتا ہے۔ اب پھر سمیع ، پھر بصیر اور پھر علیم کہے۔ یہ عروج ثانی کہلاتا ہے ۔ اس میں را ز یہ ہے کہ سمیع کا احاطہ بصیر کے احاط سے کمتر ہے اور بصیر کا احاطہ علیم کے احاطہ سے کمتر ہے۔ سالک، آغاز حال میں عقل و شہادت کے مرتبہ میں ہوتا ہے ۔ یہ تمام مراتب میں تنگ ترین مرتبہ ہے، لہٰذا سمیع کو مقدم رکھے جب اس سے ترقی کر کے آگے بڑھا تو مرتبہ غیب میں پہنچا جو ایک وسیع تر مرتبہ ہے ۔ لہٰذا اب بصیر کو مقدم کرے ۔ جب یہاں سے بھی آگے مرتبہ غیب الغیب میں پہنچے جو پچھلے دونوں مراتب سے کہیں زیادہ وسیع ہے، تو اب علیم کا تصور رکھے اور پھر اس کے بعد واپس لوٹے ۔
ترتیب یاد رہے :
الله سميع اللہ بصیر اللہ علیم
اللہ علیم الله بصیر الله سمیع
الله سمیع الله بصیر اللہ علیم
یعنی یہ ایک ذکر ہے۔ اس میں دو عروج میں اور ان دونوں کے درمیان ایک نزول ہے۔حبس دم اتنا ہو کہ اس میں سالک اس ذکر کو دویا تین بار سے لے کر ڈھائی سو بارتک کر سکے تاکہ اس سے سالک کے باطن میں ایک حرارت پیدا ہو جس سے وہ باطنی دسومات (یعنی چیر بی ) جل جائیں جو وسوسہ انگیز خناس کا مسکن ہیں اور خطرات کی بندش ہو کر محویت غالب آجائے۔
تحت میں جہاں بہت سے فوائدہیں وہاں بے شمار تنگیاں بھی ہیں ۔ لیکن ذکر بغیر تحت کے ناقص رہ جاتا ہے ۔ لہٰذا اس کے بغیر چارہ نہیں۔ پھر بھی ذاکر کو چاہیے کہ خود کو زیادہ حرج میں ڈالے بغیر تحت“ کو کرتا رہے اور اللہ تعالیٰ سے اس کی حفاظت اور امان کا طلب گار رہے ۔ ذکر سہ پایہ کی تفصیل اس طرح ہے کہ مربع بیٹھ کر اپنے پاؤں کے انگوٹھے اور اس کے ساتھ والی انگلی سے بائیں پاؤں کی رگ کیماس کو خوب مضبوطی کے ساتھ پکڑے. ناف کو اندر کھینچ کر ذرا نیچے سے اوپر کی طرف اٹھائے ۔ دونوں آنکھوں کو بند رکھے اور شیخ کی صورت کو دل میں حاضر کرے ۔ اور اسم مبارک ” اللہ ” کو پوری شدت کے ساتھ ناف کے نیچے سے اوپر کی طرف کھینچے ” اللہ کے دوسرے لام کو بہت طول دے اور اس لفظ کے ساتھ سمیع ، پھر بصیر، پھر علیم کا ملاحظہ کرے ۔ مشائخ کی کتابوں میں اسے نزول کہا گیا ہے۔ لیکن فقیر کے نزدیک مختار وہی ہے جو او پر آچکا ہے اور اس کا سبب بھی بیان کیا جا چکا ہے۔ جب کوشش کرتے کرتے یہاں تک ہو جائے کہ ایک سانس میں ڈھائی سو بار اسم اللہ، تینوں دوسرے اسما کے ساتھ مذکورہ شرائط کے مطابق ادا
کرنے لگے تو ان تینوں صفات کے ساتھ پانچ اور صفات یعنی :
دائم – قائم – حاضر ناظر – شاہد بھی ملائے جب اس کا شمار بھی عروج و نزول کے ساتھ ایک سانس میں ڈھائی سو تک پہنچ جائے
اور سالک ان میں سے ہر ایک کے انوار سے بہرہ یاب ہونے لگے تو ان کے ساتھ سات اور صفات (جنہیں سات امام بھی کہتے ہیں، ملالے ۔ جب اس میں استقامت حاصل ہو جائے تواب صفات مرکبہ کا اضافہ کرتا چلا جائے ۔ مثلاً
اكرم الاكرمين، ارحم الراحمين، اجود الاجودين ذو الفضل العظيم و رب العرش العظيم
لقمہ سلسلہ شطاریہ میں ذکر کا طریقہ
سلسلہ شطاریہ کے دستور کے مطابق اسم ذات زبان سے یا دل میں کہے اور اسماء و صفات یعنی سمیع، بصیر، علیم کو خیال میں جمالے پھر برزخ شیخ کو نظر کے سامنے رکھ کر مد و شد کرے ، اس طرح کہ زیر ناف اس کا آغاز کر کے تالو تک پہنچائے۔ محاربہ صغیر میں ایک سانس میں ایک بار اور محاربہ کبیر ہوں ایک سانس میں سو بار یہ ذکر کیا کرے ۔ جب ان صفات کو شروع کرے۔ عروج و نزول کی رعایت کو ملحوظ رکھے محاربہ کبیر میں پوری قوت سے حبس دم کرے اور صورت شیخ کا تصور جما کر ذکر کرے یہاں تک کہ بیخود وبے ہوش ہو جائے ۔ وہ مقصود جو بہت بھوکا اور بیدار رہنے سے کہیں ہاتھ لگتا ہے ، اس ذکر سے تھوڑے عرصہ میں حاصل ہو جاتا ہے۔
لقمہ ذکر شش ضربی و چہار ضربی
اللہ کے اس ذکر کو شش ضربی اور چہار ضربی کہتے ہیں شش ضربی تو یہ ہے کہ ہر چھے جہت میں ایک ایک ضرب لگائے ، اور چہار ضربی یہ ہے کہ قبلہ رو بیٹھ کر اپنے آگے مصحف یا کسی بزرگ کی قبر رکھے ۔ پہلی ضرب بائیں جانب دوسری دائیں جانب، تیسری مصحف یا قبر پر اور چوتھی ضرب دل پر مارے ۔ اس سے ذکر میں استغراق حاصل ہوگا اور قرآن کے معانی یا اہل قبور کے احوال منکشف ہوں گے لیکن اس میں صورت شیخ کا تصور بہت ضروری ہے ور نہ کچھ فائدہ نہ ہوگا ۔
لقمہ ذکر حدّادی
کلمہ لاالہ کو مد اور تصور شیخ کے ساتھ بائیں جانب سے شروع کرے اور دونوں گھٹنوں کے کے بل کھڑا ہو جائے اور پھر کلمہ الا اللہ کو پوری قوت اور شدت کے ساتھ فضائے دل پر مارے اور بیٹھ جائے اس ذکر کو اس طرح کرے جیسے لوہار ہتھوڑے کو دونوں ہاتھوں میں لے کر پورے زور سے لوہے پر مارتا ہے ۔ اسی طرح کرتا جائے یہاں تک کہ ذوق ملنے لگے۔ یہ ذکر حضرت ابو حفص حداد علیہ الرحمہ سے منقول ہے اور اس میں مشقت بہت ہے۔
لقمہ پاس انفاس (ذکر لاالہ الااللہ)
کلمہ لا الہ “ کو سانس کے ساتھ باہر نکالے اور کلمہ الا اللہ کو سانس کے ساتھ اوپر کھینچے۔ پس سانس کی آمد ورفت کے ساتھ ذکر کرتا جائے اور بست و کشاد میں نظر ہمیشہ ناف پر رکھے۔ اتنا ذکر کرے کہ سوتے جاگتے ذاکر کا دم ذاکر ہو جائے ۔ اس ذکر سے ذاکر کی عمر دو گنی ہو جاتی ہے۔
لقمہ پاس انفاس (ذکر الله )
کبھی پاس انفاس لفظ ” اللہ کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ” اللہُ“ کی ہا کو پیش کے ساتھ ادا کرتے ہیں اس طرح کہ اس میں ” واؤ پیدا ہو جاتا ہے(ہُو )اور سانس کو کھینچتے وقت اللہ ” کو سانس کے ساتھ ادا کرتے ہیں ۔ گویا سانس دل کی زبان بن جاتی ہے اسی طرح جب سانس کو چھوڑتے ہیں تو (ہُو )کو سانس کے ساتھ کہتے ہیں ۔ پاس انفاس میں چاہیے ذکر اللہ کریں چاہے ذکر لا الہ الا الله ، دونوں برابر ہیں۔ اگر ذکر کرتے ہوئے نتھنوں سے آواز پیدا ہو تو اسے” ناک کا ارّہ “کہتے ہیں ۔ اس سے بہت شورش و سوزش اور دماغ میں حرارت و خشکی پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے ناک کو روغن بادام سے چپڑتے رہنا چاہتے اور سر پر اس کی مالش کرنی چاہئیے ۔ اس ذکر کو کمال تک پہنچانا ضروری ہے اور کمال یہ ہے کہ ذاکر کے شعور یا اختیار کےبغیر اس کا دم ذاکر رہے ۔
لقمہ ذکر سینہ بہ سینہ
کسی ایسے شخص کو جس کی لوح دل پر ابھی کسی ذکروفکر کا نقش نہ بنا ہو، پیرو مرشد اپنے رو بر دو گھٹنوں کے ساتھ گھٹنے ملا کر بٹھالے نشست کا انداز یہ ہو کہ مرید کی ٹھوڑی اس کے سینہ پرٹکی ہو، کمر اندر کی طرف خم ہو اور سینہ با ہر نکلا ہوا ہو اور دونوں آنکھیں بند ہوں۔ اب شیخ اس مرید کی سانس کی آمد و رفت کو دریافت کرے ۔ جب وہ اپنی سانس اندر کھینچے تو شیخ اپنی سانس کو اس کی سانس پر چھوڑ دے ۔ جب اس کی سانس باہر نکلے تو شیخ اپنی سانس اندر کھینچے۔ ایسا کرتے کرتے یہ یکا یک مرید میں ایک شورش پیدا ہوگی اور ذکر لا الہ الا اللہ یا ذکر اللہ ، ( ان میں سے جو بھی مقام مرشد کا غالب ہوا ) مرید کی زبان اور سانس سے جاری ہو گا ۔ لوگوں کو اس سے حیرت ہو گی۔ اس ذکر کا اس قدر غلبہ ہو گا کہ اس کی حرارت سے مرید کے ناک ، کان سے خون بہہ نکلے گا۔ اسے سینہ بہ سینہ کہتے ہیں کیونکہ اس کی تعلیم بلا واسطہ زبان ہوتی ہے۔ لیکن اگر مرید خود شاغل ہے اور بالخصوص مراقبہ کا شاغل جس میں حبس دم کیا جاتا ہے تو اس صورت میں پیر و مرشد کی یہ تدبیر کارگر نہ ہوگی کیونکہ اس نے حبس دم کر لیا ہے۔ بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کی بیخودی مرشد پر اس حد تک اثر انداز ہو جائے کہ وہ فکر تدبیر ہی سے معطل ہو جائے خود میرے ساتھ ایک مجلس میں ایسا واقعہ پیش آچکا ہے جس سے مجلس کی صورت ہی برعکس ہو گئی تھی ۔
لقمہ ذكر كشف الروح
کوئی روح ہو کسی جگہ ہو، اس ذکر سے وہ ضرور حاضر ہوگی۔ پہلے اکیس مرتبہ یا روح الروح کہے اور دل پر ضرب لگائے۔ پھر سر اٹھا کر ” یا روح ما شا اللہ“ کہے جب ذکر سے فارغ ہو تو مطلوب کی طرف متوجہ ہو ، خواب یا بیداری میں وہ روح حاضر ہو جائے گی۔ اگر یہ کلمات دو ہزار بار کہے تو بہت جلد مقصود ہاتھ آئے گا سید گیسو دراز علیہ الرحمہ نے حضرت خواجہ نصیر الدین محمود چراغ دہلی قدس سرہ سے یہ ذکر سیکھا ہے ۔
لقمہ اختصار ذکر کلمہ طیبہ
بعض لوگ کلمہ طیبہ کا اختصار کرتے ہیں اور :
” ھَ “ ”ھ ِ“ ” ھُ“
کہہ کر پہلی ضرب داہنی جانب ، دوسری بائیں جانب اور تیسری دل پر لگاتے ہیں۔
لقمہ ذكر كشف القبور
قبر کے پاس بیٹھ کر آسمان کی طرف منہ اٹھا کر اِکْشِفْ لِیْ يَا نُورُ “ کہے اور دل پر ضرب لگائے پھر اِکْشِفْ لِیْ ، کہہ کرمیت کے چہرے کے مقابل میں قبر پر ضرب لگائے اور کہے عَنْ حَالِهٖاس ذکر سے علانیہ یا خواب میں اس میت کا حال معلوم ہو جائے گا۔
لقمہ ذکر اجابت الدعوات
پہلے یا رب کہہ کر داہنی بغل پر ضرب لگائے، پھر یا رب کہہ کر بائیں بغل پرضرب لگائے، پھر یا رب ،، کہہ کر دل پر ضرب لگائے اور آخر میں کہے ” یا ربی ۔ اسی طرح کرتا جائے اس ذکر کو کثرت سے کرنا چاہیئے۔ جب ختم کرنے کا ارادہ ہو تو دونوں ہاتھ اٹھا کر “یا ربی “کہے اور ہا تھوں کو منہ پر پھیرے اور جو مقصود ہو اسے دل میں حاضر رکھے۔ یه ذکر شیخ الحقیقت شیخ محی الدین ابن عربی قدس سرہ سے منقول ہے ۔
لقمہ سلسلہ نقشبندیہ میں ذکر کا طریقہ
زبان کو تالو کے ساتھ چپکا کر حبس دم کرے اور کلمہ لا کو ناف سے شروع کر کے دماغ کی طرف لے جائے ۔ پھر کلمہ اللہ کے ساتھ داہنے کندھے کی طرف مائل ہو اور وہاں سے الا اللہ کہتے ہوئے بائیں طرف جائے اور فضائے دل پر ایسی قوی ضرب لگائے جس کا اثر پورے جسم میں ظاہر ہو۔ اگر اس ذکر کی شکل بنائی جائے تو وہ حسب ذیل ہو گی ؟
ناف سے دماغ پھر داہنا کندها اور پھر قلب یہ صورت کلمہ ، کی ہے ۔ لہذا اس ذکر کی صورت کی موافقت میں خود کو نیست اور حق کو
ثابت کرے اور زبان قلب سے کہے :
الهي انتَ مَقْصُودِي وَرِضَاكَ مَطْلُوبي
اے اللہ تو میرا مقصود ہے اور تیری رضا میر ا مطلوب ) اس نفی و اثبات میں سالک کے ظاہر میں کوئی حرکت محسوس نہیں ہونی چاہیئے حبس دم کے ساتھ یہ ذکر متواتر جاری رکھے جب حبس دم کو ختم کرنے لگے تو بزبان قلب محمدرسول اللہ کہے۔
اس ذکر کی تاثیر یہ ہے کہ ذاکر نفی سے خود منفی اور اثبات سے ثابت ہو جاتا ہے ، مگر ذکر کا شمار اکیس سے متجاوز ہو جائے اور اس کے باوجود سالک پر اس کا کوئی اثر مرتب نہ ہو اور محویت و بیخودی حاصل نہ ہو تو اسے چاہیئے کہ پھر سے شروع کرے ۔ یقیناً اس سے کسی شرط کی بجا آوری میں بھول ہو گئی ہے ورنہ یہ ذکر اپنا اثر دکھائے بغیر نہیں رہتا۔
لقمہ نفی اور اثبات
نفی اثبات دو ضربی یا چارضربی اس طرح شروع کرے کہ داہنی طرف نبی کریم ﷺ کا اور بائیں طرف اپنے شیخ کا اور دل کے سامنے حق تعالیٰ کا تصور کرے ۔
بعض کے نزدیک رو برو، ما بین الطرفین حضرت وجود مطلق کو تصور کرے ۔
لقمہ ذکر برائے دفع مرض
یا احد داہنی جانب ، یا صمد ، بائیں طرف اور یا وتر ،، دل پر کہے ۔
لقمہ ذکر اجابت الدعوات
عشاء کے بعد نفل سے فارغ ہو کر ستر بار ” یا وہاب ،، کہے ۔ اس سے دنیاوی حاجات پوری ہوں گی۔ اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے۔ ہر رکعت میں فاتحہ کے بعد گیارہ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے ۔
لقمہ چلتے پھرتے ذکر کرنا
اگر جلدی جلدی چلے تو ہر قدم پر الا الہ الا اللہ کہے۔ اگر آہستہ چلے تو دا ہنا قدم اٹھاتے وقت .. لا . اور بایاں قدم اٹھاتے وقت ” الہ ، کہے، پھر داہنے پر “الا ، اور بائیں پر اللہ کہے ۔ اگر متوسط رفتار سے چلے تو ہر قدم پر اللہ اللہ کہتا جائے ۔
لقمہ ذکر ناسوتی و ملکوتی و جبروتی ولا ہوتی
مجموعی کلمہ لا الہ الا اللہ ، ذکر ناسوتی ہے … الا اللہ ، ذکر ملکوتی ہے ۔ .. الله ، ذکر جبروتی ہے اور ” ہو ،، ذکر لاہوتی ہے ۔
لقمہ اذکار جو سینہ بسینہ ہم تک پہنچے ہیں
ہم یہاں چند اذکار درج کر رہے ہیں جو ہم تک سینہ بہ سینہ پہنچے ہیں۔ یہ اذکار مریدین کو ان کے اواخر حال میں، جب کہ وہ ریاضات و مجاہدات اور چلہ کشی کے مراحل سے گزر کر مکمل تصفیہ حاصل کر چکے ہوتے ہیں ، تلقین کئے جاتے ہیں۔ اب ہم ہر ذکر کی تفصیل بیان کریں گے۔
ذکر معیت جب مشاہدہ ذاتی صفاتی میں کمی ہو تواس صورت میں یا معی یامعی يا معي يا هو يا هو يا هو تعلیم کرتے ہیں ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ قعدہ نماز کی نشست اختیار کرے اس طرح کہ دونوں پاؤں سرین سے باہر نکلے رہیں اور سرین زمین پر رکھے۔ داہنے ہاتھ سے بایاں بازو اور بائیں ہاتھ سے داہنا بازو خوب زور سے پکڑے اور پانچ ضرب سے ان کلمات کو کہے۔ پہلی ضرب د اہنے قدم اور داہنے زانو کے درمیان اور دوسری آسمان کی طرف تیسری ضرب با ئیں قدم اور بائیں زانو کے درمیان چوتھی ضرب جگر پر اور پانچویں ضرب فضائے دل پر پوری قوت اور شدت کے ساتھ لگائے اور خیال کرے کہ ” ھو “ سے مراد احدیت مطلقہ ہے جس کا کوئی مثل نہیں ہے۔ اس ذکر کے دنوں میں دودھ کا استعمال رکھنا چاہیے ۔ اگر اس میں زعفران ملا لیاجائے تو اور بھی اچھا ہے ۔ عطریات کا بھی استعمال کثرت سے کرنا چاہیئے ۔ بعض اوقات اس ذکر کو صرف تین کلمات یعنی هُو هُو يَا مَعِي تک ہی محدود رکھتے ہیں ، اس کی نشست حسب سابق ہے فرق اتنا ہے کہ ھو۔ ھو کی ضرب آسمان کی طرف اوریا معی “ کی ضرب دل پر کرتے ہیں۔
ذکر کلیہ یہ ذکر اس طرح سے ہے: بك الكل ، منك الكل، اليك الكل، يأكل الكل
اور ایک جگہ ہم نے یوں بھی دیکھا ہے
اللهم انت الكل ومنك الكل ربك الكل ولك الكل واليك الكل وكل الکل.
اس ذکر سے ذات اور صفات کا مشاہدہ ہوتا ہے ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ آگے ایک ضرب پھر د اہنے ایک ضرب اور پھر آسمان کی طرف یا دل پر ایک ضرب ۔
ذکر احاطہ یہ ذکر اس طرح ہے : يا محيط ظهراً وبطنا
ذکر مشاہدہ کا باعث ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ ظہر اکہتے وقت آنکھیں کھولے اور بطناًکہتے وقت ان کو بند کرے ۔
ذکر محو الجہات اس طرح سے ہے :
انت فوقى – انت تحتى انت امامي انت خلفي – انت يميني انت شمالی انت في وانا مع الجهات فيك اينما تولوا فثم وجه الله . طریقہ اس کا یہ ہے کہ کھڑے ہو کر عرش کی طرف منہ کرے اور انت فوقی “کہے پھر زمین کی طرف دیکھے اور بیٹھ کر ” انت تحتی “ کہے پھر سامنے کو چہرہ کر کے ” انت امامی ، کہے پھر پیچھے پھر کہ ” انت خلفی “ کہے ، اسی طرح دائیں طرف ” انت یمینی “ اور بائیں طرف انت شمالی “ کہے پھرول پر ضرب لگا کر انت فی کہے اور اٹھ کر گھومتے ہوئے ” انا مع الجهات فیک اینماتولوا فثم وجہ اللہ کہے ۔
ذکر تجلی انانیت تہجد کی نمازسے فارغ ہوکرسومرتبہ انی انا لله لا الہ الا انا کہے۔
اس کا طریقہ یہ ہے کہ آسمان کی طرف سر اٹھا کر انی انا اللہ کہے پھر داہنی جانب سرکو پھیر کر لا الہ کہے اور پھر فضائے دل پر ضرب شدید لگا کر . الا انا کہے۔
ان پانچوں اذکار میں جو ہم نے اوپر درج کئے ہیں، تصور معانی اور تصور بر زخ شرط ہے۔
حضرت شیخ فرید الدین گنج شکر قدس سرہ العزیز نے پنجابی زبان میں ذکر تلقین فرمایاہے جو حسب ذیل ہے :
اُہوَل توں ( علویات کی طرف اشارہ)
اِہوَل توں (سفلیات کی طرف اشارہ)
تو ہیں توں (اطلاق کی طرف اشارہ)
مجلس ذکر جب ختم ہو تو تین باریوں کے و سبحان الله وبحمده ، سبحان الله العظيم اور اس کے بعد یہ دعا پڑھے :
اللهُمَّ إِنَّكَ قُلْتَ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرُكُمْ وَقَدْ اے اللہ تو نے فرمایا ہے کہ تم میرا ذکر کرو میں بھی تمہا را ذکر کروں گا اور میں نے ذَكَرْتُكَ عَلَى قَدَرِ قِلَتِ عِلْمِي وَعَقْلِي وَ فَهُمِي تیرا ذکر کیا ہے اپنے قلیل علم و عقل اور فہم کے مطابق ۔ فَاذْكُرْنِي عَلَى قَدَرِ سَعَةِ نَفْسِكَ وَفَضْلِكَ وَ پس تو بھی میرا ذکر فرما اپنے نفس کی اور اپنے فضل علم عِلْمِكَ وَ مَغْفِرَتِكَ . اللَّهُمَّ انْتُمْ مَسَامِعَ قُلُوبِنَا اور مغفرت کی وسعت کے مطابق ۔ اے الہ ! ہمارے دلوں کے کانوں کو بِذِكْراهَ يَا خَيْرُ الذَّاكِرِينَ اپنے ذکر کے لئے کھول دے ۔ اسے سب سے بہتر ذکر کرنے والے۔
وصل دوم
مراقبات
مراقبہ کا معنیٰ ہے اپنے دل کی اس طرح نگہبانی کرنا کہ اسمیں غیراللہ ہرگز نہ آنے پائے۔ یاد رکھو کہ دل کا وہ مرض جسے غیر حق کے ساتھہ مشغول ہونا کہا جاتا ہے ، اس کا باعث تین چیزیں ہیں :
حدیث نفس یہ خلوت ہو یا جلوت ہمیشہ قصد و اختیار سے دل میں آتی ہے ۔
خطرہ دل میں بغیر قصد و ارادہ کے آتا اور جاتا رہتا ہے ۔
نظر بہ غیر یعنی اشیائے متکثرہ کا علم
اس مرض کا اصل علاج یہ ہے کہ اپنے باطن کو مشغول حق رکھا جائے شغل باطنی کی کئی قسمیں ہیں۔
حدیث نفس کی بجائے اسم اعظم کو جو اسم ذات ہے قائم کرو۔ خطرہ کی جگہ اسمائے صفات امہات ( حیات ، علم ، اراده ، قدرت ، سماعت ، بصارت کلام – انھیں سبعہ صفات ، بھی کہتے ہیں )کو رکھو
دل کی نگاہ جمال مرشد پر جماؤ کہ اسی کو واسطہ ، رابطہ اور برزخ کہتے ہیں۔
لقمہ فناء
معنی مقدس کے ملاحظہ سے مراد یہ ہے کہ اسم ذات کو کسی عبارت کی قید کے بغیر یا بلا تخصیص کسی لغوی مفہوم کے، اپنے ذہن یا علم میں ملاحظہ کیا جائے اور قلب صنوبری کی جانب مکمل طور پر توجہ رہے۔ اس کام کے لئے ایک روشن ذہین اور پر کھنے والی طبیعت درکار ہے ۔ اگر (سالک کو ) یہ معنی مقدس ذہن نشین نہ ہوں تو اسے چاہئیے کہ وہ (معنی مقدس کو ایک نور خالص تصور کرے اور اپنے آپ کو اس نور میں معدوم اور منتشر خیال کرے۔ گویا نور کا ایک بحر بے کنار ہے اور وہ اس اور میں ایک قطرے کی مانند ہے ۔ یا اس معنی مقدس کو ظلمت خالص (یعنی اتھاہ تاریکی) اور اپنے آپ کو ایک مخصوص سایہ تصور کرے ۔ سایہ جب تاریکی میں آتا ہے تو وہ معدوم ہو جاتا ہے یعنی سائے اور تاریکی میں کوئی امتیاز باقی نہیں رہتا ۔
لقمہ لطیفہ قلبی
بعض عارفوں نے شغل کا طریقہ یہ بتایا ہے کہ مرید اپنے شیخ کی صورت کو اپنے خیال میں حاضر کرے یہاں تک کہ وہ حرارت اور کیفیت جو اہل شغل کے لئے مخصوص ہے ، اس کے اثرات مرید کے وجود میں ظاہر ہونے لگیں۔ اب اس کیفیت کے ساتھ جو مرید کو صورت شیخ کے تصور سے حاصل ہوئی ہے ، وہ اپنی حقیقت جامعہ انسانیہ کی طرف متوجہ ہو یعنی اپنی حقیقت جامعہ کو شیخ کی صورت بنا کر اسے اپنا شیخ تصور کرے ۔ لیکن یہ حقیقت جامعہ جسے اصطلاحاً قلب کہتے ہیں چونکہ اجسام میں حلول نہیں کر سکتی اس لئے اس کا حاضر کرنا ذرا دشوار کام ہے ۔ اس دشواری کا حل یہ ہے کہ مرید اپنے قلب صنوبری کی طرف جسے ، مضغہ ،، کہتے ہیں، متوجہ ہو۔ یہ توجہ ایسی ہونی چاہئیے کہ مرید کے جملہ حو اس یکسو ہو جائیں۔ کیونکہ قلب حقیقی کا قلب مجازی کے ساتھ ایک ایسا ارتباط ہے جو اعضاء کے ساتھ نہیں ہے۔ بلا شبہ اس حالت میں مرید پر غیبت اور بے خودی طاری ہو گی۔ اس غیبت و بیخودی کو ایک ایسی راہ مستقیم سمجھنا چاہیئے جس میں ذرا برابر کجی نہ ہو۔ سالک کو یہ تصور کرنا چاہیے کہ وہ اس راہ پر چلا جا رہا ہے۔ یہ راستہ غیر متناہی ہے۔
لقمہ خطرات سے نجات پانا
اگر کوئی خطرہ یا وسوسہ (سالک کے )پیچھے لگ جائے اور وہ اس سے گریزاں ہو تو دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ( اس دوڑ میں ) وہ خطرہ پیچھے رہ جائے گا اور سالک کا تعاقب چھوڑ دے گا۔ دوسری یہ کہ وہ اسے آدبوچے گا۔ اگر خطرہ سے پیچھا چھوٹ جائے تو ٹھیک ہے ورنہ اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے سالک کو چاہیئے کہ حقیقت جامعہ – جسے مرید نے صورت مرشد میں پا لیا ہے کی طرف متوجہ ہو اور کوشش کرے کہ یہ حالت تا دیر رہے ۔ اگر اس طریقہ سے خطرہ دور نہ ہو تو پھر دماغ کا تخلیہ کرے ، یعنی سانس کو زور کے ساتھ ناک کے راستے خارج کرے اور پھر اسی حقیقت جامعہ کی طرف متوجہ ہو۔ اب یہ کامیابی نہ ہو تو مندرجہ ذیل استغفار بکثرت کرے :
اسْتَغْفِرُ اللهَ اسْتَغْفِرُ اللهَ مِنْ جَمِيعِ مَا كَرَهُ اللهُ قَوْلًا وَفِعْلاً وَحَاضِراً وَ غَائِبًا وَسَامِعًا وَنَاظِرًا وَلَاحَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ له العلي العظيم
استغفار کرتے وقت مرید کے دل اور زبان میں پوری موافقت ہونی چاہیے ، اس سے بات نہ بنے تواسم یا فعال کا وظیفہ کرے ، وظیفہ کرتے وقت اس اسم مبارک کا مفہوم ذہن میں رہے ۔ وسو اس کو دفع کرنے میں یہ ایک خاصیت رکھتا ہے۔ اگر اب بھی منظرہ دور نہ ہو تو لا اله الا اللہ کے معنی میں غور کرنے یعنی لا موجود الا اللہ ۔ اس سے بھی خطرہ دور نہ ہو تو نہایت شد ومد کے ساتھ ، باواز بلند، الله کہہ کہ اپنے قلب صنوبری پر ضرب لگائے ۔
لقمہ مقام حیرت
حواس خمسہ ظاہری اور باطنی کے احاطہ ادراک میں جو کچھ آتا ہے وہ دو حالتوں سے خالی نہیں ہو سکتا ۔ یا وہ مطابق واقع ہے ، لہذا حق ہے۔ یا وہ مطابق واقع نہیں ، اس لئے باطل ہے ۔ جو حضرات وحدۃ الوجود کے قائل ہیں ان کے نزدیک یہ بات مسلم الثبوت ہے کہ
حق کی طرح باطل بھی اللہ تعالیٰ کے مظاہر میں سے ہے
چنانچہ شیخ ابو مدين مغربی علیہ الرحمہ، جو شیخ محی الدین عربی رحمہ اللہ علیہ کے پیر ومرشد تھے ، فرماتے ہیں :
لا تتنكر الباطل في الطواره فانه بعض طهوراته
واعطه منك بمقدارہ حتى توفى حق اثباته
باطل کا ، اس کے اطوار میں ، انکار نہ کرو کیونکہ وہ بھی اس کے بعض مظاہر میں سے ہےاور حتی المقدور اس کا حق ادا کرو یہاں تک کہ اس کے اثبات کا حق تم سے ادا ہو جائے
اور ان اشعار کے تتمہ میں حضرت موید الدین الجندی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
فالحق قد يظهر في صورته وينكر الجاهل في ذاته
حق کبھی اس کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ، اور جاہل اس کی ذات میں انکار کرتے ہیں ۔
لہذا کلیات اور جزئیات میں جو کچھ نفس کے ادر اک میں آئے اس میں وجود مطلق کا مطالعہ کرنا چاہیئے (اور جاننا چاہیئے کہ یہاں وجود مطلق ایک خاص شان کے ساتھ ظاہر ہوا ہے ۔ خطرات کے سد باب کا یہ سب سے عمدہ طریقہ ہے۔ اس سے بلا شبہ ایک ایسی کیفیت پیدا ہوتی ہے جس میں ماسوی ) غائب ہو جاتا ہے ۔ ایک خاص ذوقی حالت میسر آتی ہے ۔ اور مراتب کونی والہی کا ادراک ہونے لگتا ہے بہتر ہے کہ مطالعہ کی بھی نفی کروائی جائے اور اس کیفیت غیبیہ کو قائم کر لیا جائے اور نفس کو چھوڑ کر بیخودی و بے ہوشی کا دامن مضبوطی سے تھام لیا جائے ،کیونکہ اس راہ کے محققین کے نزدیک نیست سے باہر آنا کفر کے مترادف ہے اگرچہ اس کا مقصد حقائق پر غورو فکر یا علمی و عملی باریکیوں کا تدبر ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غیبت و بے نوری سالک کو اس وادی کی طرف لے جاتی ہے جس کا نام حیرت ہے ۔ اور حیرت آخری مقام ہے ۔
لقمہ مرتبہ جمع الجمع
سالک کو چاہیئے کہ دل کی آنکھ سے اپنی حقیقت کو ،جسے حقیقت جامعہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، دیکھے اور جملہ احوال وافعال میں اس حقیقت کو چشم دل کے سامنے رکھے تب وہ جملہ موجودات میں ، خواہ وہ حسنہ ہوں یا قبیح ، لطیف ہوں یا کثیف محسوس ہوں یا غیر محسوس، اپنی حقیقت جامعہ کو جاری وساری دیکھے گا۔ یہاں تک کہ اسے مشاہدہ حاصل ہو جائے گا کہ تمام عوالم اسی سے قائم ہیں اور وہ تمام موجودات میں سرائت کئے ہوئے ہے ۔ جتنے محسوسات و معقولات میں سب اس کے لئے آئینہ کی مانند ہوں گے جن میں وہ اپنی حقیقت جامعہ کا ملاحظہ کرے گا یا یوں کہو کہ سارے عالم بمنزلہ ایک جسم کے ہوں گے اور سالک اس جسم میں بمنزلہ روح کے ہو گا ۔ اس مرتبہ کو جمع الجمع رکھتے ہیں۔ جب یہ مراقبہ قوی ہو جائے تو جو کچھ تمام عوالم میں واقع ہو رہا ہے، خواہ وہ شادی ہو یا غمی، سالک ان سب واقعات سے آگاہ ہوگا ۔ کیونکہ روح کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے جسم کے رنج وراحت سے مطلع رہے ۔
طالب کو چاہیے کہ لالہ الا الله .. یا فقط اسم ” اللہ کی مکتوبی صورت کو کسی کا غذ پر لکھ کر اسے اپنی آنکھوں کے سامنے رکھے یا چشم باطن سے اپنی لوح خیال یا اپنے صفحۂ علم پر اس نقش کا مطالعہ کرے ۔ طالب کا بڑی پابندی کے ساتھ اس ہیئت (یعنی کلمہ کی صورت کتابی) کی طرف متوجہ رہنا چاہتے یہاں تک کہ اس پر غیبت طاری ہو جائے اور وہ ہئیت اسے مکمل طور پرفراموش ہو جائے بلکہ اس کے فراموش ہو جانے کا علم بھی اسے نہ رہے ۔
لقمہ بیخودی
کسی پتھر یا کلوخ یا قبر یا مصھف یا پھول کی طرف یا شیخ یا معشوق کےچہرے کی طرف ، یا کسی اور شے کی طرف اپنی آنکھوں کو اورنہ نگاہ کو اس طرح جماتے کہ پلک نہ جھکے اور اپنے قوائے باطنی کو بھی حقیقت مطلقہ غیر مکیّفہ(جو کیف وکم سے پاک ہے) کی طرف متوجہ کرے ، یہاں تک کہ خطرات کے راستے بند ہو جائیں اور غلبہ بیخودی (غیبت) کے آثار طاری ہونے لگیں اور طالب ہر چیز سے بے خبرہو جا ئے حتی کہ اس کو اپنی بے خبری کی بھی خبر نہ رہے۔یہ طریقہ سید نا حضرت ابراہیم بن ادہم قدس سرہ العزیز کی طرف منسوب ہے ۔
لقمہ اتم التوجهات(توجہ کی جتنی بھی صورتیں ہیں ان میں سے کامل ترین صورت ، پوری توجہ )
حضرت حق میں “توجہِ تام ” اور مراتب حضور میں سے کامل ترین مرتبہ کو بعض مشایخ کرام نے یوں بیان فرمایا ہے :
(اے طالب ! ) جب تیرے سارے قوائے ظاہری وباطنی ، جزوی وکلی اپنے اپنے تصرفات سے معطل ہو جائیں اور تیرا دل ہر علم اور ہر اعتقاد سے۔ بلکہ جملہ ما سوی سے ۔ خالی اور فارغ ہو جائے ، تب تو حق تعالی شانہ کی طرف متوجہ ہو جا ( اور اُسے اسی طرح جان) جیسا کہ وہ فی الواقع ہے یعنی اسے تنزیہہ یا تشبیہ میں مقید نہ کیجیو – بلکہ تیری یہ توجہ اجمالی اور ہیولانی ہونی چاہیے جو نیک و بد محسوس و غیر محسوس سبھی صورتوں کو تمام تر توحید ، عزیمت وجمعیت اور پورے اخلاص کے ساتھ قبول کرے ۔ تجھے اس حالت کو ہمیشہ قائم رکھنا چاہئیے ۔ اس ضمن میں کبھی پراگندہ خیالی یا ارادے کی کمزوری کا شکار نہ ہونا ۔ اس بات کا پختہ یقین رکھنا کہ حق تعالے کا کمال جملہ صفات کو محیط ہے، خواہ کسی صفت کی خوبیاں ہمارے ادر اک میں آئیں یا نہ آئیں۔ یہ بھی یقین کے ساتھ جان لو کہ عقل،فکر اور وہم میں سے کسی کو یہ طاقت نہیں کہ اس کے سرا پر دہ اسرار کے پاس بھی پھٹک سکے ۔ پس او تعالیٰ ویسا ہی ہے جیسا کہ وہ ہے ۔ وہ اگر چاہے تو صور عالم میں سے ہر صورت میں یا جملہ عالم کی تمام صورتوں میں ظاہر اور جلوہ گر ہو جائے اور اگر چاہے تو ان سب سے ۔ منزہ اور پاک رہے ۔
لقمہ
سالک کو مناسب ہے کہ وہ مراتب تجلیات کے مبدا سے لے کر منتہی تک (صرف، اپنے آپ کو ملاحظہ کرے بلکہ اس ملاحظہ کو ہمیشہ اپنا نصب العین بنائے۔ اسے فی الواقع ایک وجود مطلق کے سوا اور کچھ نظر نہ آنا چاہئے ۔ وجود مقید اور وجود حقیقی (اگر چہ بظاہر دو قسمیں ہیں لیکن) بحیثیت وجود وہ دونوں اقسام میں ایک ہی ہے ۔ اطلاق اور تقید تو محض نسبتیں یا اعتبارات ہیں۔ اس ملاحظہ کی مداومت سے بے حد ذوق پیدا ہوتا ہے ۔
لقمہ
دونوں آنکھیں بند کرے اور اپنے دل پر نظر جمائے اور اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر اور اپنے ساتھ جانے ۔
لقمہ
دونوں آنکھیں کھلی رکھے اور نگاہ کو اوپر یا سامنے جمائے۔ کوشش کرے کہ پلک جھپکنے نہ پائے ۔ اس شغل سے کچھ انوار ظاہر ہوتے ہیں۔ پلک سے ایک آگ بھڑکتی ہے جو سارے بدن میں پھیل جاتی ہے اور اس سے عشق پیدا ہوتا ہے ۔
لقمہ سلطان الاذکار
دونوں آنکھیں کھولے رہے اور نگاہ کو اپنی ناک پر اس طرح جمائے کہ دونوں آنکھوں کی سیا ہی غائب اور سفیدی ظاہر ہو جائے اور جمعیت خاطر حاصل ہو کر خطرات کی آمد یکسر بند ہو جائے اس شغل کو” مقام نصیرا” کہتے ہیں ۔ سالک کو اجازت ہے کہ وہ چاہے جلسہ نماز کی طرح بیٹھے، چاہے کتے کے بیٹھنے والی نشست اختیار کرے ۔ اور اگر نگاہ کو اپنی بھوؤں پر جمائے اور بدستور سابق اسی شغل کو پورا کرے تو اس سے بہت سے فوائد ظاہر ہوں گے ۔ اس شغل کا نام “مقام محمود ا” ہے ۔
لقمہ
جوگ میں چوراسی بیٹھکیں ( یا آسن )ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک کا ایک خاص فائدہ ہے ۔ لیکن شیخ بہاؤ الدین قادری قدس سرہ نے ان میں سے ایک بیٹھک جو سب کی جامع ہے اسے اختیار فرمایا ہے اور وہ یہ ہے :
مربع بیٹھے اور دونوں پاؤں اکٹھے کرے۔ بائیں پاؤں کی ایڑی خصیتین کے نیچے اور داہنا پاؤں اس کے پاس رکھے پھر مقعد رکھے ۔ سانس اوپر کھینچ کر ناف کو پشت کی طرف سمیٹے اور منہ کو بند کر کے زبان تالو کے ساتھ چپکا ئے۔ اس کے بعدوہم میں مشغول ہو یعنی اپنے باطن میں تفکر کرے کہ او ہی ہے ،، (دوران شعر دوران شغل ، بھنو کا ر ہے اور نیند کو ترک کر دے۔ اگر مسلسل تین دن تک بغیر کھائے اور بغیر سوئے اس شغل کو کر تا رہے تو ایسی بے ہوشی و بیخودی اس پر طاری ہو گی جس میں غیب کے پردے اس پر کھلنے لگیں گے اور اسے مکاشفہ حاصل ہونے لگے گا ۔ پھر یا تو وہ ہوش میں آجائے گا یا مجذوب و مدہوش رہ جائے گا۔ اگر پہلے تین دن میں یہ کیفیت حاصل نہ ہو تو اس سے متصل تین دن یہی شغل کرے۔ لیکن ہر تین دن کے بعدیعنی درمیانی وقفے میں کچھ کھا پی لیا کرے اور تھوڑی سی نیند بھی لے لیا کرے ورنہ سودائی ہونے کا اندیشہ ہے۔ بس اسی طرح کرتا چلا جائے۔
لقمہ
جلسہ نماز میں بیٹھے اور علیم، سمیع، بصیر کو اپنے شیخ کی صورت کے ساتھ ملاحظہ کرے ۔ ہر حال میں اس کا التزام رکھے۔ جب اس میں استقامت حاصل ہو جائے تو اسی طرح بیٹھے ہوتے اپنے چہرے کو دل کی جانب مائل کرے، آنکھوں کو بند کر کے چشم باطنی سے دل پر نگاہ کرے اور تصور کرے کہ اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے ، جب اس میں بھی استقامت حاصل ہو جائے تو اسی ہیئت میں بیٹھے لیکن اب اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھائے اور آنکھوں کو نیم باز کر کے یہ تصور کرے کہ میری روح بدن سے باہر نکل گئی ہے اور آسمانوں سے گذر کر حتی تعالی شانہ کے معائنہ (یعنی دیدار) میں مشغول ہے۔ اگر کوئی شخص اس پر استقامت پا جائے تو اس پر ایک سبز دھا گا ظاہر ہوگا جس کا ایک سرا ساتویں آسمان کے اوپر اور دوسرا سرا اس کے دل میں ہوگا۔ یہ فکر کا اعلیٰ درجہ ہے اور یہی وہ شغل ہے جسے مشائخ چھپاتے ہیں۔ اس مشغولیت میں ، واسطہ ،، (یعنی صورت شیخ کا ملاحظه)درست نہیں ہے ۔
حضرت شیخ نصیر الدین محمود چرا غ دہلی قدس سرہ العزیز نے ان اشغال کو حضرت سلطان جی نظام الدین (محبوب الہی) قدس سرہ سے نقل کیا ہے۔
لقمہ مراقبہ تجویز کرده حضرت گیسودراز
سالک کو چاہئے کہ ساکت رہے اور سوچے کہ میں نہیں ہوں، وہی ہے
من نیم، والله یاراں ، من نیم جان جانم ، سر سرم ، تن نیم
جب انہی معنی ہیں فکر کرے گا تو بحکم : جاء الحق وزهق الباطل انا انت (میں تو ہوں ) کی آواز اسے سنائی دے گی۔ یہ راستہ سب راستوں سے اقرب ہے۔
لقمہ ذکر الله
جو شخص مراقبہ اور اللہ کے ذکر میں مشغول رہے گا اس پر سارے عالم کی تجلی ہوگی حضرت سلطان العارفین لڑکپن سے لے کر وفات تک اس شغل کو فرماتے رہے ۔
لقمہ مراقبہ معراج العارفين
تمام موجودات کو متعدد آئینے فرض کرو۔ ان میں جو جو کمالات تمہیں دکھائی دیتے ہیں، یعنی تمہاری عقل یا تمہارے حواس خمسہ جن کو دریافت کرتے ہیں، ان سب کو حق تعالیٰ کے اسما و صفات کی صورتیں سمجھو۔ بلکہ سارے عالم کو ایک آیئنہ فرض کر کے اگر تم اس آئینے میں حق تعالیٰ کو اس کے تمام اسماء وصفات کے ساتھ دیکھو تو تم اہل مشاہدہ میں سے ہو جاؤ گے جیسے اول اول تم اہل مکاشفہ میں سے تھے (اور وہاں سے ترقی کر کے اہل مشاہدہ میں سے ہوئے ، تو اب یہاں سے آگے بڑھو۔ یوں ملاحظہ کر و کہ عالم کو دیکھو تو یہ جانو کہ تمہاری ذات جملہ کا ئنات کو محیط ہے۔ اور یہ سب کچھ خود تمہارے اندر مرتسم (نقش)ہے۔ لہذا تمہاری ذات ان سب کا آئینہ ہے۔ پہلے پہل تم دوسروں کے اندر حق تعالیٰ کا مشاہدہ کیا کرتے تھے، اب خود اپنے اندر اس کا مشاہدہ کرو ۔
پھر اس سے بھی آگے بڑھو اور ملاحظہ کروکہ ممکنات ، جیسا کہ وہ ہیں ، معدوم و غیر موجود ہیں۔ ان کو درمیان میں نہ لاؤ اور سب کو حق تعالیٰ کی تجلیات کی صورتیں سمجھو جو اسی سے قائم ہیں لہذا یہ سب کمال اور جمال حق تعالیٰ کا ہے اور اس کا مشاہدہ بھی حق تعالیٰ ہی میں کر رہے ہو ۔
پھر اس سے بھی برتر قدم رکھو اور اپنے وجود کو درمیان سے ہٹا دور مشاہدہ اور ادراک کرنیوالا صرف حق تعالیٰ کو جانو۔ پس وہی شاہد، اور وہی مشہود ہے ۔
لقمہ سلوک سلسلہ نقشبندیہ میں
سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں سلوک کی بنیاد تین طریقوں پر قائم ہے ۔ پہلا طریقہ توجہ اور مراقبہ کا ہے۔ اس سے مراد اس معنی بے چون و بے چگون اور بے شبہ و بے نمون کی طرف متوجہ ہونا ہے جو اسم مبارک ” اللہ ” سے مفہوم ہے ۔( لفظ اللہ سے جوذات مفہوم ہوتی ہے اور جس کا کوئی مانند و مثل اور مشابہ اور نظیر نہیں ہے)
دوسرا طریقہ رابطہ ہے۔ یعنی شیخ ، جو فانی فی اللہ اور باقی باللہ ہے، کی صورت کی طرف اس طرح متوجہ ہونا کہ غیبت اور بے خودی پیدا ہو اور یہ صورت جو ( مرید کی ) بہت اسفل ہے نظروں سے اوجھل ہو جاتے اور اس کی نگاہ شہود ذات کے بحر او حضور حق تعالی (کہ جہت اعلیٰ ہے ) پر پڑے ۔
تیسرا طریقہ لا الہ الا اللہ کا ذکر خفی ہے۔ یہ ذکر نفی و اثبات کا جامع ہے ۔
ان میں سے پہلا طریقہ سب سے بہتر اور اعلیٰ ہے۔ لیکن قبل اس سے کہ یہ سالک میں اپنا تصرف کرے ، اس کا حصول دشوار ہے ۔ دوسرا طریقہ یعنی رابطہ سب طریقوں سے اقرب ہےاور اس سے عجائب و غرائب ظہور میں آتے ہیں ۔ تیسرا طریقہ سب سے محکم ہے اور اس کی بنیادبڑی استواء ہے ۔
لقمہ آئینہ بینی
اکثر آئینہ دیکھا کرو اور اپنے خیال میں شیخ کی صورت کو قائم کرو ہمیشہ اسی پر نگاہ رکھویہاں تک کہ ( تمہاری اپنی شکل )حو اس سے غائب ہو جائے ۔
لقمہ کلمہ اللہ کا تصور
کلمہ ” اللہ ” کو سونے یا چاندی کے پانی سے لکھ کر ہمیشہ اسے دیکھا کرو اور یہ بھی کرو کہ لفظ ” اللہ ” کی صورت وہمی کا اپنے صفحۂ دل پر نقش بنا کر ہمیشہ اس کی طرف متوجہ رہو یہاں تک کہ حواس سے غیبت حاصل ہو جائے ۔
خاتمہ
اے طالب حق ! اللہ تعالیٰ تیرے اعمال کا خاتمہ بالخیر کرے ، جان لے کہ پچھلے ہر دو وصل میں ذکر اور فکر کے جو اقسام بیان کئے گئے ہیں ان میں سے کسی ایک کی مداومت تجھے مطلوب تک پہنچا دے گی۔ بغیر مداومت اور استغراق و انہماک کے اگر کوئی شخص وصل کے خواب دیکھنے لگے تو یہ اس کی حماقت کی دلیل ہے۔ کیونکہ تصوف عمل کرنے کی چیز ہے نہ کہنے کی، لہٰذا جتنی زیادہ مشق کرو گے اتنی ہی کامیابی ہوگی۔ حضرت ابو حفص حداد قدس سرہ فرماتے ہیں ،
تصوف پختہ ساختن وہمے بیش نیست، یعنی تصوف و ہم پکانے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
فی الواقع بات یہی ہے کہ جب یہ اوہام پک کر مغز جان تک پہنچ جائیں تو اس وقت خواص و عوام کو عجیب و غریب مشاہدات ہوتے ہیں جن سے صاحب مقام کو لذت ملتی ہے اور دیکھنے والوں کو حیرت ہوتی ہے۔ لیکن بعض نادان جنھیں چند اذ کار و مراقبات کا علم ہو جاتا ہے محض اسی بنا پہ اپنے آپ کو صوفی کہنے لگتے ہیں ۔ یہ تو اللہ تعالی کا بے پایاں علم ہے جو اُن کے گناہوں کو برداشت کئے جاتا ہے ورنہ یہ لوگ ہلاک ہونے ہیں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ بعض لوگ اس سے بھی کم تر ثابت ہوتے ہیں یعنی کچھ دیر برائے نام ہاتھ پاؤں مارتے ہیں اور جب انہیں اس میں کوئی لذت یا اثر محسوس نہیں ہوتا تو ان میں سے کچھ لوگ تو اس کام سے دستبردار ہو کر پھر سے دنیاوی دہندوں میں پھنس جاتے ہیں، اور جو کچھ کر چکے ہیں اسے بھی چھوڑ دیتے ہیں یا کچھ لوگ اتنے پر ہی اکتفا کر کے مکر و فریب کا جال بچھاتے ہیں اور اپنے آپ کو عارف سمجھ کہ ایک عالم کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ سب بے سود ہے۔ فاسد جگہ پر فاسد عمارت اٹھائی جائے تو اس سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو ایسے مراتب سے بچائے ۔ مرد وہ ہے جو اس راہ میں مردانہ وار قدم رکھے اور طریقت کا حق ادا کرے ۔ اور جب تک صاحب تاثیر نہ ہو جائے کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہونے دے، بس غافل کی تنبیہ کے لئے اتنا ہی بہت ہے ، آگے سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔
یہ خاتمہ ایک مخصوص طریقہ ذکر پر مشتمل ہے۔ یہ ایسے صاحب اجتہاد مرید و طالب کے لئے ہے جس کا ظاہر انواع واقسام کی صلاحیتوں سے آراستہ ہو چکا ہے۔ ہمیں قوی امید ہے کہ اگر وہ اس ترتیب کے مطابق چلتا رہا تو “فرق ” یا پرا گندگی کی پستی سے نکل کر جمع ، کی بلندی تک پہنچ جائے گا شغل کے ضمن میں ہم نے اس کے بعض فائدوں کا ذکر بھی کر دیا ہے ۔ توفیق اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے اور مطلوب تک پہنچانا اسی کا کام ہے۔ ہر گھڑی ، ہرآن اسی پر ہمارا تکیہ ہے ۔
لقمہ علم بسیط اور علم مرکب
علم دو طرح کا ہے : بسیط اور مرکب ، اگر معلوم ، ہر جہت اور ہر حیثیت سے واحد ہے تو لامحالہ اس کا علم بسیط (غیر مرکب )ہوگا اور اگر معلوم متعدد ہےلیکن اس کا ادراک اجماعی حیثیت میں ہو رہا ہے تو بھی یہ علم بسیط ہے ۔ ہاں اتنا فرق ضرور ہے کہ پہلا بسیط حقیقی ہے اور دوسرابسیط حکمی ۔
اگر معلوم ، واحد ہے لیکن کئی جہتوں اور حیثیتوں سے ادراک میں آرہا ہے یا ” متعدد “ ہے اور اس کا ادراک تفصیلی حیثیت میں ہو رہا ہے، تو بلا شبہ یہ علم مرکب ہے ۔ صوفیائے کرام کی ہمت عالی ہمیشہ اس اس بات پر کمربستہ رہتی کہ ہے علوم علوم مرکب کو درہم برہم کر کے ذات واجب الوجود کے علم بسیط تک پہنچیں ، اس طرح کہ ہمہ وقت یا اگر ایسا نہ ہو سکے تو پھر اکثر اوقات یہ جمعیت ان کو حاصل رہے اور جو تفرقہ ما سوی اللہ کے خیال سے دل میں پیدا ہوتا ہے اس سے گریزکر کے اسی جمعیت میں پناہ لیں۔ چنانچہ ماسوی کے فنا ہو جانے کو فنافی اللہ کہتے ہیں اور اس حضور سے بھی فنا ہو جانے کا نام ” فنائے فنا ہے۔
لقمہ
طالب کسی گوشہ تنہائی میں، پوری طہارت کے ساتھ ، قبلہ رو ہو کر بیٹھ جائے اور اپنی آنکھوں کو بند کر کے زبان کو اچھی طرح تالو کے ساتھ چپکا لے ۔ اب اپنے دل کی طرف متوجہ ہو کر سوچے کہ میرے سینے میں تو پارہ گوشت ہے (جسے دل کہتے ہیں، لفظ ” اللہ کہہ رہا ہے۔ لیکن مجھے سنائی نہیں دیتا ۔ اب اسے سننے کی کوشش کرے اور اپنی تمامتر ہمت اس پر مبذول کرے ۔ اللہ کی مدد شامل حال رہی تو تھوڑے ہی عرصے میں اسے ایک حرکت محسوس ہونے لگے گی اور اسے گمان ہو گا کہ یہ حرکت یا قلب کی ہے یا نفس کی یا پھر محض وسوسہ ہے۔ جب یہاں تک پہنچ جائے تو پہلے سے بھی زیادہ ہمت کے ساتھ کوشش کرے کہ یہ حرکت اور بھی واضح ہوتا کہ حرکت نفس یا وسو اس کا اشتباہ باقی نہ رہے اور طالب بالتحقیق جان لے کہ یہ حرکت مضغہ دل ہی کی ہے اور وہ اللہ، اللہ کہہ رہا ہے ۔
جب یہ سعادت حاصل ہو جائے تو اب طالب اپنی ہمت اس بات پر مرکوز رکھے کہ اگر چہ اس کی زبان خاموش رہے لیکن وہ خلوت و جلوت میں اپنے دل کی آواز کو سنے ۔
لقمہ ايضاً
یہ ایسی حالت ہے جس میں دل ذاکر ہو جاتا ہے ۔ یہ دولت ہر شاغل کو اس کے مرتبہ کے مطابق نصیب ہوتی ہے۔ بعض اسے بہت جلد پالیتے ہیں اور بعض کو بہت دیر سے ملتی ہے ۔ یا بعض کو ذرا سی توجہ سے حاصل ہو جاتی ہے جب کہ بعض کو اس کے حصول کی خاطر بہت زیادہ توجہ اور کوشش صرف کرنی پڑتی ہے۔ لیکن بہر حال طالب کو چاہئیے کہ دل برداشتہ اور مایوس نہ ہو ،کیونکہ ارشاد ہے :
وَ لَا تَایْــٴَـسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یَایْــٴَـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ یعنی خدا کی رحمت سے نا امید مت ہو کیونکہ اس کی رحمت سے نا امیدی کا فروں کا کام ہے
لقمہ حبس دم
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ سانس کی آمد و رفت کے باعث یہ حرکت (قلبی )ظاہر نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں سانس کو زیر ناف روکنا چاہیے ۔ اس سے دل کی کیفیت اس لگن کی سی ہو جاتی ہے جو ہوا کے تموج سے محفوظ ہو اور جس میں بھرا ہوا پانی بالکل ساکن رہے۔ جب تک حرکت قلب محسوس نہ ہونے لگے ، سانس کو روکنے کا عمل جاری رکھنا چاہیے ۔ تاہم حیس دم اتنا طویل نہ ہو کہ جس سے کسی مہلک مرض کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔ کیونکہ اس کا نقصان حبس دم نہ کرنے سے زیادہ ہے۔ بس اتنا کرنا چاہیے جتنا مقدور ہو۔ سانس کو آہستہ آہستہ چھوڑنا مناسب ہے اور اس موقع پر بھی حرکت قلب کا خیال رکھنا چاہئے ۔
لقمہ حرکت قلبی کی نگہداشت
جب حرکت قلب معلوم ہونے لگے اور ذکر قلب جاری ہو جائے تو اس کی اچھی طرح نگہداشت کرنا چاہیئے۔ کیونکہ یہ حرکت اتنی ضعیف ہوتی ہے کہ ذرا سی مزاحمت سے جاتی رہے گی اور پھر جتنی بھی کوشش کی جائے ہاتھ نہ آئے گی۔ بلکہ ایسی کوشش الٹا جمعیت اور حرکت کو کم کرنے کا باعث ہوگی لیکن سالک کو مایوس نہ ہونا چاہیئے۔ اسے چاہیئے کہ عجز و انکسار اور خشوع د خضوع کے ساتھ اپنی کھوئی ہوئی دولت کو طلب کرے۔ اکثر حالات میں حدیث نفس یا خطرہ یا اشیاء متکثرہ کا علم اس سررشتہ کے ہاتھ سے نکل جانے کا باعث ہوتا ہے ۔ ہم دوسرےوصل کی ابتداء میں اس کو بیان کر چکے ہیں اور یہ بات ظاہر ہے کہ آن واحد میں دل کا اصالتہ دو جانب متوجہ ہونا محال ہے ۔
لقمہ ايضاً
جب یہ جلیل القدر نعمت حاصل ہو جائے تو اسے حقیر اور معمولی شے نہ سمجھنا چاہئیے۔ بلکہ شب و روز اس نسبت کی پرداخت میں لگے رہنا چاہیے ، طالب انتہائی ضرورت کے وقت کسی دوسرے کام کی طرف متوجہ ہو، بکہ اگر نوافل، وظائف یا تلاوت قرآن وغیرہ اس میں مخل ہوں تو ان کو بھی ترک کر دے ، ہاں ، اگر یہ امور حفظ نسبت میں خلل انداز نہ ہوں تو پھر ان کے کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ بلکہ یہ بھی اس کام کے موید بن جائیں گے بس طالب کو چاہیے کہ ہمہ تن اس نسبت میں لگا رہے۔ آنکھ کو تھوڑا سا کھول کر اس (نسبت) کا احضار کیا کرے حتی کہ اسے یہ ملکہ حاصل ہو جائے کہ وہ آنکھیں کھول کر بھی قلب کی طرف متوجہ رہ سکے۔ اسی کا نام ” خلوت در انجمن ہے تائید الٰہی سے جب یہ نسبت قوی ہو جائے گی توپھر سالک اگر کبھی بھول بھی جائے تو ذرا سی توجہ سے اسے دوبارہ پالے گا بلکہ بازیافت پر یہ اور بھی زیادہ ہوگی اور بڑھتی ہی جائے گی ، کسی مانع یا رکاوٹ سے ہر گز زائل نہ ہوگی۔ اس مرتبہ میں طالب کو ذکر سے بڑی لذت اور جمعیت حاصل ہوگی ۔
لقمہ ذکر کا جملہ اعضائے بدن میں پھیل جانا
جب حرکت قلب، اس حال کو پہنچ جائے کہ زبان دل سے لفظ « اللہ کا ذکر سن کر ذرا سی تکلیف نہ ہو تو وہ حرکت جو قلب صنوبری سے ظاہر ہوئی تھی پورے بدن میں پھیل جائے گی ۔ اس کے پھیلنے کی صورت یہ ہے کہ پہلے طالب کے کسی ایک عضو بدن میں اس کا ظہور ہو گا۔ یعنی جس طرح مضغہ دل میں وہ حرکت محسوس ہوتی تھی بعینہ وہ حرکت اس عضو میں محسوس ہوگی۔ کبھی ہاتھ متحرک ہوگا اور کبھی پاؤں اور کبھی سر، حالانکہ طالب ان میں سے کسی عضو کو حرکت دینے کا قصد بھی نہ کرے گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ وہ حرکت عضو کی طرف ہرگز متوجہ نہ ہو کیونکہ ایسا کرنے سے دل غافل ہو جائے گا ۔ اس کی تمام تر توجہ بس دل پر مرکوز رہنی چاہئیے۔ اس کام میں دل ہی راس اور رئیس ہے اور جملہ اعضا اسکے تابع ہیں ۔
لقمہ ايضاً
جب ذکر کا نور پھیلنے لگے گا تو تھوڑے ہی عرصہ میں پورے بدن کا احاطہ کرلے گا ۔ سر سے لے کر پاؤں کے ناخن تک ہر عضو ذکر سے معمور ہو جائے گا ۔ تب سالک پر مختلف حالتیں طاری ہوں گی کبھی ہنس رہا ہے تو کبھی رو رہا ہے ۔ کبھی خوش ہے تو کبھی اداس ہے کبھی حیران ہے تو کبھی بریان ہے۔ لیکن کوئی بھی حالت ہو اس پر التفات نہ کرنا چاہئیے۔ بس ذکر سے کام رکھے کہ اہم ترین بات یہی ہے۔ تائید الہی شامل حال رہی تو پورے بدن سے بیک وقت لفظ اللہ کا ذکر سنائی دے گا اور جملہ اعضا دل کے ہمنوا ہوں گے۔ اس حالت میں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بعض اعضا میں غلبہ ذکر بڑھ جاتا ہے اور بعض میں کم رہتا ہے ۔ اور کبھی تمام اعضا میں مساوی ہوتا ہے۔ زیادہ لذت اسی صورت میں حاصل ہوتی ہے کہ تمام اعضا میں غلبہ ذکر مساوی ہو۔ اس کیفیت کو اصطلاح صوفیہ میں سلطان الذکر، کہا جاتا ہے ۔
لقمہ ذکر قلب کا سنائی دینا
ذکر قلب کا علم پہلے پہل قوت سامعہ کی مدد کے بغیر ہوتا ہے لیکن جب یہ ذکر قلب میں قرار پکڑا لیتا ہے تو اکثر لوگوں کو یہ کانوں سے بھی سنائی دینے لگتا ہے۔ اس مقام نہیں صاحب فطرت طالب پر واسطہ استماع خود بخود واضح ہو جاتا ہے ۔
لیکن عام طور پر جو یہ بات مشہور ہے کہ سالک سے دل کا ذکر دوسرا شخص بھی سن سکتا ہے غلط عوام ہے۔ لہٰذا جو لوگ اس بات کے قابل ہیں کہ سالک سے ذکر کی آواز کوئی دوسرا شخص سامعین اور ذاکرین کے تفاوت درجات کے مطابق ، دور سے یا قریب سے سن سکتا ہے غلطی پر ہیں ۔ شیخ شرف الدين يحي عليہ الرحمہ معدن المعانی میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوے فرماتے ہیں کہ ایک جماعت نے جو بعض اہل اکتساب سے اس قسم کی آواز کا سنائی دینا نقل کیا ہے تو ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ جب ذکر کو سینے سے کھینچتے ہیں تو ایک تخفیف سی آواز حلق سے پیدا ہوتی ہے جس سے سننے والے کو گمان ہوتا ہے کہ یہ آواز دل کی ہے ۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ہم نے اس قسم کی آواز نکلتے ہوئے دیکھی اور سنی ہے ۔ باقی اللہ ہی بہتر جانے والا ہے۔
لقمہ غلبہ ذوق
بعض اوقات کسی سر کے ظاہر ہونے سے سالک کو جو ایک خاص ذوق حاصل ہوتا ہے وہ سالک پر غالب آجاتا ہے ۔ یہ بات اس کی ترقی کے لئے مانع ہے۔ اگر اس کی باطنی حالت کو اس بات سے تشویش لاحق ہو تو سالک کو چاہئیے کہ ظاہری و باطنی آداب کو پوری طرح ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے شیخ کی طرف رجوع ہو۔ اگر شیخ اپنے مرید کے حال کو سمجھتا ہو اور اس کی مشکل کا حل جانتا ہو تو صراحتاً یا کنایتا بتادے اور نہیں تو اس بات کو موقوف رکھے کہ ابھی اس کے کشف کا وقت نہیں آیا ۔
لقمہ ذکر کا مقصود
ذکر کا مقصد مذکور میں فنا ہو جانا ہے ۔ لہٰذا محض زبان اور دل سے کلمہ جلالہ کے تلفظ پر اکتفا نہ کر لینا چاہیے۔ اگر چہ اس سے بھی کچھ نہ کچھ فائدہ توضرور حاصل ہو گا ۔ لیکن بے حضور مذکور گو ہر مقدور ہاتھ نہیں آتا۔ کیونکہ ذکر سے مقصود مذکور میں فنا ہونا ہے نہ کہ اسم مذکور ہیں ۔
لقمہ غلبہ ذکر
اس مرتبہ کے سالیکن جن جن عجیب و غریب حالات و واردات سے دوچار ہوتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ مخلوقات جو ذکر کرتے ہیں سالکین کو اس کا علم ہوتا ہے ۔ اگر چہ بتدریجاً ایسا ہوتا ہے۔ لیکن سالک کو اس پر رکنا نہ چاہئیے کیونکہ مقصود اس سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ اس جگہ ایک بہت باریک بات ہے جس کا خیال رکھنا اشد ضروری ہے ۔ اور وہ یہ کہ اس مرتبہ میں لوگ جب ذکر اللہ میں مشغول ہوتے ہیں تو ان کو جنگل، صحرا، درو دیوار پتھر کنکر یہاں تک کہ اپنے ہاتھ پاؤں ” اللہ اللہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔ در اصل اس کا سبب خود ذاکر پر اس کے ذکر کا غلبہ ہے ۔ یہ کیفیت ذکر کائنات کے سماع سے قطعاً الگ شے ہے۔ کیونکہ ہر مخلوق کا ایک مخصوص « ذکر حالی ، ہے ، جیسا کہ اکثر علماء کی یہی رائے ہے ، اگر چہ بعض ذکر مقالی کے بھی قائل ہیں ۔ لہٰذا ہر مخلوق کی تسبیح سے واقفیت اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب ان کے متغائر و متفاوت معانی کا پورا ادراک حاصل ہو۔ کائنات کا ہر فرد ایک مختلف ذکر کے ساتھہ ممتاز ہے اور ہر نوع ، ہر جنس کے لئے ایک معین ذکر ہے جس میں وہ مشغول ہے اور کیونکہ جملہ شیون کی اپنی اپنی خصوصیات ہیں جو مخصوص اذکار کی متقاضی ہیں۔ تاہم اگر سالک کو ذکر اللہ کی حالت میں دیوار کا ایک خاص ذکر ، دروازے کا ایک خاص ذکر مصلے کا ایک خاص ذکر . و علی ہذالقیاس – سنائی دے تو ہو سکتا ہے کہ یہ مخلوقات کا ذکر ہو جس پر وہ مطلع ہو رہا ہے۔ پھر بھی اس مرتبہ میں احتمال کی گنجائش ہے۔
لقمہ حرکت متصل
اس مرتبہ عالی اور رتبہ علیا کو پالینے کے بعد کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ قلب صنوبری کی طرف توجہ تام کی حالت میں دل اور شریانوں کے اندر ایک حرکت محسوس ہوتی ہے جو اپنی کیفیت میں سابقہ حرکت کی مانند نہیں ہوتی ۔ کیونکہ پہلی حرکت منفصل ہوتی ہے جب کہ یہ حرکت متصل ہوتی ہے ۔ مثلاً پہلی حرکت کلمہ ہو ، ہو کی پہیم تکرار سے مشابہت رکھتی ہے اور دوسری شرکت کلمہ ہو کو ایک ہی بار طویل مد کے ساتھ ادا کرنے کی مانند ہے ۔ یا پہلی حرکت کی مثال یوں سمجھو جیسے حجر ے سے پانی گرنے کی آواز کہ تھوڑا سا ایک جگہ سے دوسری جگہ پر گہرے اور دونوں جگہ کی آواز ایک دوسرے سے جدا لیکن پیہم سنی جائے اور دوسری حرکت کی مثال آبشار کی آواز ہے جو پانی کے یکلخت گرنے سے بغیر انقطاع کے پیدا ہوتی ہے۔ ایک اور مثال سنو پہلی حرکت ہتھوڑے سے نہائی پر متواتر اور پے در پے ضربیں لگانے سے پیدا ہونے والی آواز کی مانند ہے جب کہ دوسری حرکت اس آواز سے مشابہت رکھتی ہے جو کانسی کے برتن پر ایک بار ضرب لگانے سے پیدا ہوتی ہے اور تا دیر رہتی ہے قطع نظر اس سے کہ یہ آواز شروع میں بلند اور قوی ہوتی ہے پھر گھٹتے گھٹتے آخر آخر میں بہت مدہم رہ جاتی ہے ۔ اور حرکت ثانیہ ، حرکت اولی سے کہیں زیادہ لطیف ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ بڑی مشق کے بعد کہیں جا کر یہ محسوس ہوتی ہے ۔
جاننا چاہئیے کہ حرکت اولی جو منفصل ہے ، سالک اس کو کلمہ اللہ ، یا کلمہ حق یا کلمہ ” ہو یا ایسے ہی کسی اور کلمے پہ حمل کر سکتا ہے۔ چونکہ ان میں سے ہر کلمہ کی ایک صوتی شکل ہے جو ابتدا اور انتہا رکھتی ہے لہٰذا ایسی منقطع » آواز جس کے ہر جز و کا مبتدا اور منتہا متعین ہو ، اسے ان کلمات منقطعہ پر حمل کیا جاسکتا ہے لیکن حرکت ثانی ، جوایسی مستقل اور واحد (آواز) ہے جس کے نہ کسی مبتداء کا پتہ ہے نہ منتہا کا ، اسے کیونکہ ان کلمات منفصلہ پرحمل کیا جا سکتا ہے جو مبادی و نہایات پر مشتمل ہیں ؟ اس کا حل یہ ہے کہ ، اس کو ذکر کی بجائے مذکور پر حمل کریں یعنی اسم کی بجائے مسمی پر۔ برخلاف حرکت اولی کے جو کہ اسم پر محمول ہے اور مذکور مسمی اس میں ضمناً حاصل ہوتا ہے جب کہ حرکت ثانی میں مذکورومسمی اصالتاً معتبر ہے۔ بعض مشایخ کرام سے یہی سنا ہے ۔ اس مقام کو ذرا تفصیلاً بیان کر دیا جائے تو مناسب ہو گا ۔
اگر کوئی یہ کہے کہ مطلوب یا مذکور، ایسا مطلق ہے کہ اس کے وصف اطلاق کو ہم” قید” کے طور پر بھی یہاں نہیں بول سکتے (یعنی لا بشرط شے نہ بشرط لاشے )، اور سالک جو اس مقام میں حرکت ثانیہ کو جو علم محسوسات میں سے ہے محسوس کرتا ہے ، اس کو مقصود پر کس طرح حمل کر سکتا ہے؟ ہم جواب دیں گے کہ درست ہے ، مگر یہ بھی جان لوکہ جس میں کچھ بھی اطلاق ہے وہ مقصود سے قریب تر ہے بہ نسبت اس کے جس میں کچھ تقید ہے ۔ اور چونکہ حرکت ثانیہ میں نسبت حرکت اولی” کے زیادہ اطلاق ہے ، لہٰذا وہ مقصود کے ساتھ زیادہ مشابہہ ہے ۔ اور در حقیقت یہ دونوں حرکتیں عالم تنزلات سے ہیں اور اسماء وصفات کے مظاہر ہیں سلوک میں یہ راہ مقصود اس وقت دکھائی دیتی ہے جب سالک فنائے فنا اور بقائے بقا کی منزل میں قدم رکھتا ہے اور یہ اکثر ہوتا ہے ۔ اس سلسلے میں اپنا ایک واقعہ بطور تتمہ یہاں بیان کرتا ہوں۔
یہ اس فقیر کا ابتدائے حال کا زمانہ تھا، ایک دن صراط مستقیم کی طلب میں ایک بزرگ(ان بزرگ کا نام محمد صادق ہے ۔ آپ میاں پیر محمد ساون کے مرید اور خلیفہ تھے) کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ فقیر اس سے پہلے بھی شغل سے خالی نہ تھا بلکہ اس شغل نے ایک صورت اختیار کر لی تھی پھر بھی مجھے ایک تشنگی سی تھی ۔ یہ شغل جو میں کرتا تھا وہ فکر سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ بزرگ مجھے فرمانے لگے کہ تمہارے لیے مناسب شغل صوت سرمدی ہے جسے صورت لایزالی ، بھی کہتے ہیں۔ جوگ میں اس کا نام “انہد”(تو یہ لفظ در اصل وہ انحد ہے جو آن (ہندی کلمہ نفی) اور حد سے مل کر بنا ہے یعنی بے نہایت ۔ چونکہ یہ آواز ہے ابتداء و انتہا متحقق ہوتی ہے اس لیے یہ نام ہوا ۔
حضرت شاہ نیاز بریلوی فرماتے ہیں :
بشنوی یک کلام نا مقطوع اول و آخرش چوبے حد شد
از حدوث و فنا بود مرفوع زاں سیب نام او به ” انحد اشهر)
میں نے عرض کیا کہ وہ شغل مجھے بتلا دیجئے۔ فرمایا ، اپنے دو ہاتھوں کی انگشت شہادت سے دونوں کان اچھی طرح بند کر لو اور متوجہ رہو تمہیں ایک آواز سنائی دے گی جو پانی کے پیہم گرنے کی آواز سے ملتی ہوئی ہو گی۔ بس اس آواز پر اپنی توجہ کو مرکوز رکھو اور ایک لحظہ کے لیے بھی غافل نہ ہو جب اس میں استحکام پیدا ہو جائے تو انگلیوں کے دباؤ کو ذرا ڈھیلا کر کے آواز کی طرف متوجہ ہو ۔ دیکھنا یہ ہے کہ ماحول کے شور و غل کے باعث یہ آواز آنا بند نہ ہو۔ اسی طرح مشق کو بڑھاتے جاؤ یہاں تک کہ بغیر کان بند کئے آواز سنائی دینے لگے اور دنیا کا شور اس میں مزاحم نہ ہو بلکہ تمہارے لیے یہ آواز سب آوازوں پرغالب رہے ، اس وقت تم اپنے اندر ایک ایسا ذوق و شوق پاؤ گے جو زبان و قلم کے بیان سے باہر ہے۔ بعض لوگ گول مرچ کو روٹی میں لپیٹ کر کان کے سوراخ میں ٹھونس لیتے ہیں۔ مرچ کی حرارت سے یہ آواز اور بھی قوی ہو جاتی ہے ۔ کچھ لوگوں سے میں نے سنا ہے کہ وہ مرچ میں دھاگا باندھ لیتے ہیں۔ غالباً اس سے مقصود یہ ہے کہ مرچ کو باہر نکالنے میں سہولت رہے اور وہ کان کے اندر پھنس کر نہ رہ جائے۔ (اور بعض ) مرچ کو سرخ حریر میں لپیٹ کر کان میں رکھتے ہیں تاکہ اس کی حرارت زیادہ سے زیادہ ہو اور آواز میں قوت آجائے ۔ ایک سال کے بعد ان مرچوں میں یہ خاصیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ امراض چشم میں بہت مفید ہیں ۔ میں نے ان کے ارشاد کے مطابق ان کے سامنے اپنے کانوں کو انگلیوں سے بند کیا ۔ فی الواقع جیسا انھوں نے فرمایا تھا ویسی ہی آواز سنائی دی۔ چنانچہ کچھ عرصہ تک میں اس میں مشغول رہا۔ جو لطف میں نے اس میں پایا وہ قبل ازاں مجھے حاصل نہ ہوا تھا۔ با لاخر ، میں نے ان سے عرض کیا کہ مولینا، جس مقصود کی مجھے طلب ہے اس تک رسائی کب ہو گی ۔ یہ شوق (جو اس شغل سے حاصل ہوا ہے، بجا لیکن یہ اس مقصود کے برابر تو نہیں ہو سکتا۔ فرمایا کہ میاں میر لاہوری علیہ الرحمہ اور ان کے مریدین یہی شغل کیا کرتے تھے اور اسی سرمدی آواز کو حضرت حق ہی کہا کرتے تھے ۔ چونکہ میں طالب علم تھا اور کتب متداول پر نگاہ تھی اور ابھی میرا ابتدائے حال تھا ، اس لیے مجھے ان کی اس بات سے بہت کوفت ہوئی اور میں نے یہ شغل ہی ترک کر دیا۔ جب رسول اللہ ﷺ کے نور کی برکت سے مجھے مدینہ منوره جانا نصیب ہوا اور میں اپنے شیخ حضرت یحیی مدنی رضی اللہ عنہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو میں نے یہ قصہ بیان کیا ۔ آپ نے فرمایا کہ یہ شغل بہت مفید ہے اور اصحاب کرامت اور اہل استدراج کے درمیان مشترک ہے۔ اس میں یہ اثر ہے کہ پراگندہ خاطری کو دور کر کے جمعیت پیدا کرتا ہے اور ہر طرف سے یکسو کر دیتا ہے۔ یہی چیز طالب اور اس کے مقصود کے درمیان ایک ربط کی صورت بن جاتی ہے اور طالب میں بیخودی اور غیبت ، جو فناء الفنا کا مقدمہ اور پیش خیمہ ہے پیدا کرتی ہے ۔ اور جو کہا جاتا ہے کہ ” حق یہی ہے تو یہ قول اطلاق کے ساتھ ہو مشابہت اس میں مضمر ہے اسی کے اعتبار سے ہے ورنہ حق تعالیٰ کی شان تو یہ ہے کہ )
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
اطلاق و تقید میں اعتباری مشابہت کا ذکر ہم حرکت اولی و حرکت ثانیہ کے ضمن میں اوپر بیان کر چکے ہیں۔
لقمہ فنا الفناء
جب یہ حرکت ، بے حرکت متصل سے تعبیر کیا جاتا ہے ، سالک کو محسوس ہونے لگتی ہے تو بعض کے مزاج کی صفائی اور قوت حرکت کے باعث ان کے سارے بدن میں پھیل جاتی ہے اور بعض کے کسی ایک حصہ بدن تک محدود رہتی ہے ۔ بہر صورت اس کا ظہور مقصود کی طرف متوجہ ہونے کا باعث ہے۔ اگر مقصود کی طرف توجہ پیدا نہ ہو تو سالک کو چاہئے کہ ، بلا اعتبار اسم مضغہ قلب کی طرف توجہ کرے۔ اگر یہ دشوار ہو تو اسم کے ضمن میں توجہ کرے لیکن اس درجہ میں بلا اعتبار مسمی محض اسم کی طرف توجہ کرنے میں بڑا ضر ر ہے بلکہ یہ مر تبہ اس کے مقابلے میں کفر ہے۔ حسنات الابرار سیئات المقربین نیکوں کی نیکیاں مقربین کا گناہ ہیں ، اسی کا بیان ہے۔
مذکورہ شرکت متصل کا علم سالک کو ایسا ہونا چاہئے گویا یہ علم بھی ایک حرکت ہے جو اس حرکت متصل پر منطبق ہے کیونکہ علم ہی ایسی چیز ہے جو مقدار رکھتی ہے اور ہم یہ سارے حیلے اسی علم کی افزایش و ترقی کے لیے کرتے ہیں، اس لیے کہ ثواب و عتاب ، قرب و بعد . اور حضور و غیبت سب علم پر موقوف ہیں۔ چونکہ ہر دو حرکت کی اصل (یعنی جڑ بنیاد) دل ہے ، اس لیے جہاں تک ممکن ہو اس حرکت کے علم کا استفادہ کسی دوسرے عضو کی بجائے صرف دل سے کرنا چاہیئے کیونکہ دل کے علاوہ کسی اور عضو کی طرف متوجہ ہونا دیگر اعضا ئے بدنی کی طرف توجہ کا موجب ہے ۔ جب (سالک کا پورا بدن اس حرکت سے مشرف ہو جائے یعنی اس کا رواں رواں ذکر سے معمور ہو جائے ، تو اسے چاہئے کہ “مذکور” کو اس حرکت کل بدن پر منطبق کرے اور علم کو اس مذکور پرمنطبق کرے ۔ یہ تین چیزوں کا انطباق ہوا یعنی :
حرکت کل بدن
مذکورجو کلمہ اللہ کا معنی اور دراصل اس اسم کا مسمی ہے، اور
مذکور کا علم
ان تینوں کے انطباق کی مثال ایسی ہے جیسے : فاصلہ ، رفتار اور وقت کا انطباق ۔ (یہ علم ریاضی کا مسئلہ ہے، جو تم نے مسائل کمیت کے ضمن میں اعراض کی بحث میں پڑھا ہوگا ۔ اس مرتبہ میں غیبت و بیخودی کا ہجوم ہوتا ہے اور یہ فناء الفناء کی منزل ہے ۔
لقمہ علم مذکور ” بلاواسطہ پاره دل
جب ریاضت سے ( سالک ) اس درجہ تک پہنچ جائے کہ اسے اکثر اوقات میں اس حرکت کا علم حاصل رہنے لگے تو اب اسے اپنی ہمت اس بات پر صرف کرنی چاہئے کہ اسے یہ علم مضغہ یعنی پارہ دل کے واسطہ کے بغیر حاصل ہو، اور اس کی توجہ پارہ دل کی طرف مطلقاً نہ ہو۔ (اس کوشش کے نتیجہ میں سالک کو ترقی ہوگی اور مضغہ یا جملہ بدن کی حرکت سے اس کی توجہ منقطع ہو کر صرف ” مذکور ، کا علم باقی رہ جائے گا۔ دونوں طرف ۔ یا ایک طرف کے معدوم ہونے کی وجہ سے انطباق معدوم ہو جائے گا ۔ عدم الطرفین اس صورت میں ہوتا ہے کہ ہم علم و مذکور اور علم حرکت میں انطباق فرض کر لیں .
سالک کو یہ بھی چاہیئے کہ اس نسبت کی پرورش پوری ہمت کے ساتھ کرے اور اسے قلت سے کثرت اور پھر کثرت سے دوام تک پہنچائے ۔ سے دوام تک پہنچائے بعض اوقات ضعف نسبت حرکت ، اس نسبت کی نگہداشت نہیں ہو سکتی ۔ اگر صورت حال یہ ہو تو پھر اسی حرکت کو وسیلہ بنا کر متوجہ ہو اور اس میں تعطیل نہ ہونے دے ، اگر حرکت متصلہ کلیہ بدنیہ ،، سے غفلت ہو جائے تو اس کے بعد حرکت متصور کیہ قلبیہ کی طرف متوجہ ہو ۔ وہ بھی مفقود ہو جائے تو حرکت منفصلہ جزئیہ قلبیہ کی طرف متوجہ ہو۔ اور وہ بھی نہ رہے تو اگر ہوسکے تو سر پانی سے غسل کرے یا دو تین مرتبہ پوری قوت کے ساتھ سانس کو خارج کرے (یعنی تخلیہ کرے، یا اسم فعالی کو حضور قلب کے ساتھ اور معنی کوسمجھ کر چند بار دہرائے ۔ انشاء اللہ ایسا کرنے سے اس کی کھوئی ہوئی شے اسے مل جائے گی ۔

لقمہ حضور مذکور

جب (سالک پر عنایت الہی ہو اور ریاضت کے نتیجہ میں اکثر اوقات مذکور “ (یعنی حق تعالی شانہ کی حضوری اسےحرکت کلیہ بدنیہ کے بغیر ہی حاصل رہنے لگے تو اسے چاہیئے کہ ایک لمحہ کے لیے بھی وہ اس دولت عظیم سے غافل نہ ہو چاہے وہ افعال جوارح میں مشغول ہوا اور چاہے افعال قلب(چاہے اس کی مصروفیت جسمانی ہو چاہے قلبی) میں سے بالفاظ دیگر سالک کی حالت یہ ہو کہ : دست به کار و دل به یار
رباعی
سر رشته دولت اے برا در بکف آر ویں عمر گران مایه بہ غفلت بگذار
دایم، همه جا، با همه کس، در همه کار میدار نهفته چشم دل جانب یار
اے برادر ! دولت کی ڈوری کا سرا تھام لے ۔اور یہ عمر عزیز غفلت میں بسر نہ کر ۔ہر وقت ، ہر جگہ ، ہر ایک سے ساتھ ، ہر کام میں ،
پوشیدہ طور پر اپنے دل کی آنکھ کو دوست کی طرف متوجہ رکھ۔

لقمہ ذکر قلبی

مذکور کی طرف توجہ اگر بلا انطباق کے میسر آجائے تو اسے بہت بڑی دولت سمجھنا چاہئے کیونکہ اس مرتبے میں (سالک کو ) ذکر قلبی حاصل ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ جب تک ” حرکت ، درمیان میں موجود ہے ذکر قلبی کا حصول ممکن نہیں ہے ۔ دل ایک رحمانی لطیفہ ہے، بعض نے کہا ہے کہ وہ جسم ہے نہ جسمانی ، بعض نے اسے قوت درّاکہ (بہت زیادہ اور اک کرنے والی قوت)سے تعبیر کیا ہے۔ کچھ لوگ اسے ” مجرد ” قرار دیتے ہیں ، ایک گروہ کے نزدیک وہ ” بخار لطیف ہے ، کچھ اور لوگوں نے کہا کہ وہ ” عالم امر سے ہے ، ایک گروہ اسے عرض سمجھتا ہے تو دوسر اجو ہر قرار دیتا ہے۔ اور بعض اس باب میں سکوت اختیار کرتے ہیں۔ ہم نے اس کی تفصیل اپنی کتاب عشرہ کاملہ میں بیان کر دی ہے اور بتایا ہے کہ قلب ،نفس ،روح اور عقل کے اطلاقات کیا ہیں۔ نیز یہ کہ عالم عوارض میں جو شرکت اجرام و اجسام سے دیکھنے میں آتی ہے وہ دل سے منزلوں دور ہے ۔

لقمہ ظہور انوار

جب سالک کو ذکر قلبی حاصل ہو جاتا ہے تو اس پر انوار ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ یہ انوار اسے کبھی تو اپنے اندر دکھائی دیتے اور کبھی اپنے سے خارج میں ۔
سالک اپنے وجود میں جب ان انوار کو دیکھتا ہے تو یا اسے یہ اپنے دل میں نظر آتے ہیں یا سر ہیں ۔ یا پھر وہ انہیں اپنے داہنے یا بائیں ہاتھ میں دیکھتا ہے ۔ بہر حال یہ ساری صورتیں اچھی ہیں ۔کبھی کبھی یہ انوار سالک کے پورے بدن میں ظاہر ہوتے ہیں لیکن ایسا شاذ و نادر ہوتا ہے ۔
اور جب سالک کو یہ انوار اپنے وجود سے خارج میں نظر آتے ہیں تو کبھی یہ اس کی داہنی جانب سے ظاہر ہوتے ہیں اور کبھی بائیں جانب سے کبھی ان کا ظہور سر کی طرف سے ہوتا ہے اور کبھی بالکل سامنے ہے۔ یہ تمام صورتیں اچھی ہیں۔ ان کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے ۔حاصل کلام یہ ہے کہ سالک کے لئے اس مرتبہ میں رکنا اور اور انوار پر فریفتہ ہوناکوئی سود مند بات نہیں ہے جس سالک کو اس راہ کےطے کرتے کوئی انوار دکھائی نہ دیں اس کا سلوک ہر خطرے سے محفوظ ہے اور اس کے مقصود تک جلد پہنچنے کی امید ہے۔ اگرچہ اس دولت (یعنی انوار ) کا ظہور بھی ایک رحمت ہی ہے پھر بھی کوشش کرنا چاہئے کہ یہ علم بلا کیفیت اور بلاجہت پیدا ہوتا کہ علم اورمعلوم ( یعنی مطلوب )کے درمیان اطلاق اور عدم تقید کی نسبت جیسی ہونی چاہئے ویسی حاصل ہو۔ اس بات کو ذرا تفصیل سے بیان کرنا مناسب ہو گا جو یوں ہے کہ سالک اپنے قلب میں ایک نسبت پاتا ہے جس کی مثال ایک ڈوری کی سی ہے جو اس کے قلب سے نکل کر ذات مطلوب تک چلی گئی ہو لیکن وہاں پہنچ کر ختم ہو جائے، چونکہ وہ ذات (حق سبحانہ و تعالیٰ) اپنے اطلاق کی وجہ سے اس تعین سے پاک ہے کہ یہ ڈوری اس سے جڑ سکے ، ناچار( یہ ڈوری ) امر مطلق سے مربوط ہو کر اپنی ذات کی حد تک اس طرح غیر متعین ہو جاتی ہے کہ کیف وکم کا شائبہ تک اس میں نہیں رہتا ۔ جو سالک علوم عقلی سے بے بہرہ ہوتے ہیں وہ اس قسم کے تصور سے تذبذب میں پڑ جاتے ہیں۔ لیکن جو لوگ علوم کی باریکیوں سے آگاہ ہیں ان کو اس میں ذرا سی بھی پریشانی نہیں ہوتی ۔ ہاں بے مزگی کی بات اور ہے اور اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ کیونکہ ابتدائے حال میں سالک اس ڈوری کو امر مطلق کے ساتھ ہر جہت سے مربوط کرنے میں کوئی لذت محسوسی نہیں کرتا بلکہ وہ اس کام کو ایک طرح کی بیماری اور تضیع اوقات خیال کرتا ہے۔ بہر حال اسے چاہئیے کہ اپنے عشق کو اپنا مدد گار بنائے ، کمال شغف کی قوت کو بروئے کار لائے اور ان مراتب عالیہ کا خیال کرتے ہوئے جو اس بے مزگی کا ثمرہ یا انعام ہے وہ اپنے آپ کو اس کام کے لئے مستعد بنائے ایک باروہ ادھر لگ گیا اور اسکے وہم میں پختگی آ گئی تو پھر اسے معلوم ہو گا کہ اس میں کیا کیا کچھ ہے ۔
مشایخ علیہم الرحمہ اس مقام میں سالکوں کو زیادہ اوراد و وظائف اور کثرت نوافل بلکہ ہر اس شے سے جو اس نسبت کے منقطع ہو جانے کا باعث بن سکتی ہو ، منع فرماتے ہیں۔ بعض مشائخ جب یہ دیکھتے ہیں کہ مرید کے لئے ایسے امر مطلق کا حاصل کرنا دشوار ہے تو اسے ، بلا اعتبار تعین و تشخص ، سارے عالم کی طرف متوجہ ہو جانے کا حکم دیتے ہیں کیونکہ تعین وتشخص کے ہٹ جانے کے بعد صرف اطلاق ہیولانی باقی رہ جاتا ہے ۔
بعض سالک اس ذات مطلق کو نور کا لامتنا ہی سمندر اور اپنے آپ کو نور کا ایک قطرہ تصور کرتے ہیں قطرہ جو اس دریائے نور میں مل کر اپنی مستی کھو چکا ہے ۔
بعض اس ہست مطلق کو غیر متناہی ظلمت یعنی گھپ اندھیرا قرار دے کر خود کو اپنا سایہ سمجھتے ہیں جو اس اندھیری رات میں اس کے اندر گم ہو چکا ہے ۔
اور بعض اس کو زمین اور آسمان اور جملہ اشیاء کے درمیان ایک خلا تصور کرتے ہیں ۔و غیر ذالك .
یہ سب معقول کی محسوس کے ساتھ تمثیل ہے تا کہ کمزور عقل والے سمجھ لیں، ورنہ کہاں وہ ذات ارفع و اعلیٰ اور کہاں یہ تمثیلات ۔ دراصل یہ وہی بات ہے کہ جس کو جس سے عشق ہوتا ہے وہ اس کے ڈھنگ پرچلتا ہے مقصود ان سب کا یہ ہے کہ سالک کی ہستی موہوم فنا ہو جائے ۔
وہ ہستی موہوم جس نے سالک کی آنکھوں پر حجاب ڈال کر اسے وجود مطلق ، جو اس کی حقیقت ہے، کے مشاہدہ سے محروم کر رکھا ہے۔ بس اسی مقصد عالی کی خاطر یہ سب حیلے نکالے گئے ہیں۔ جب غلبہ حال سے سالک کو اپنے آپ کا علم نہ رہے اور غیر تو در کنار اپنے علم کا علم بھی نہ رہے تو فنا حاصل ہوئی، اور جب اس علم کا علم بھی باقی نہ ہے تو اس فنائے فنا کہیں گے۔ سالک جتنا اپنے آپ
سے گذرا اور بیخود ہوا اتنا ہی مطلوب سے واصل ہو است
آنقدر کز خویشتن رفتم در آغوش توام
حاصل کلام یہ ہے کہ سالک اپنے اندر ایک نسبت پاتا ہے مگر نہیں جانتا کہ اس نسبت کا دوسرا سرا کہاں ہے، کس کے ساتھ مربوط ہے۔ اب وہ اس سرے کو جس شے کے ساتھ بھی جوڑے گا لا محالہ اس نشے کا ایک «تعین ہوگا۔ اور حضرت مطلوب و مقصود جل شانہ یقیناً اس کے ماورا ہے۔ بلکہ سالک جس مرتبے میں بھی رکے مطلوب اس کے ماورا ہے، کیونکہ جو شے سالک کے احاطہ تصور میں آئے گی وہ بالضرور ایک ایسا متعین ہو گا جس کے تعین کو سالک کا ذہن محیط ہے۔ جو شے کسی قید اور تشخص کے ساتھ مقید و تشخص ہو وہ ہرگز مطلوب (جل شانہ نہیں ہو سکتی ۔ اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ مطلق کی کنہ تک کوئی نبی یا ولی نہیں پہنچ سکا ہے
عنقا شکار کس نشود ، دام باز چین این جا همیشه باد بدست است دام را
عنقا کسی کا شکار نہیں ہوتا، اپنا جال اٹھا لے ، یہاں جال کے ہاتھ سوائے ہوا کے اور کچھ نہیں آتا ۔
لہذا سالک یوں سمجھے کہ میں اس کی طرف متوجہ ہوں لیکن مجھے پتہ نہیں کہ میں کس سمت ، کسی جہت میں متوجہ ہوں۔ بالفاظ دیگر، وہ جانتا ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ کیا جانتا ہے۔ یہ فنا کا مرتبہ ہے ۔ اور اگر وہ جانتا ہے لیکن نہیں جانتا کہ کیا جانتا ہے اور نیز یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ جانتا بھی ہے تو یہ « فناءفنا” کا مرتبہ ہے جو “سیرالی اللہ” کا آخری مرتبہ ہے ۔ اس سے آگے “سیر فی اللہ شروع ہو جاتی ہے۔

لقمہ فنا کی دوقسمیں

فنا کی دوقسمیں ہیں۔ پہلی قسم اس صورت میں حاصل ہوتی ہے کہ سالک ” علم مرکب رکھتا ہوا اور دوسری قسم جب کہ سالک کا علم ” بسیط “ ہو جائے ۔
علم مرکب سے وہ ادراکی کیفیت مراد ہے جو سالک کے باطن میں پیدا ہوتی ہے اور جملہ ماسوی سے منقطع ہو کر صرف حضرت مقصود کی طرف متوجہ رہتی ہے۔ اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ جو بھی شے سالک کے ادراک میں آتی ہے وہ صفت غیریت کے ساتھ مدرک نہیں ہوتی بلکہ سالک اس میں عینیت کو ملاحظہ کرتا ہے، یہاں تک کہ شیون و تعینات کا لباس (جس میں وہ شے ملبوس ہے ) بھی سالک کے نزدیک کوئی خارجی وجود نہیں رکھتا اور سالک اپنے اس ادراک کو حقیقی اور مطابق واقع جانتا ہے۔ چنانچہ قائلین وحدۃ الوجود نے اس کی بہت وضاحت کی ہے ۔ یا پھر اس کا سبب سالک کی اپنے مقصود کی طرف انتہائی توجیہ مطلوب کا غایت ملاحظہ اور اپنے دوست کے ساتھ فرط محبت ہے۔ لہٰذا قوتِ عشق کی شدت کی بنا پر جو کچھ اُس کے ادراک میں آتا ہے وہ اسے مقصود و مطلوب اور دوست ہی دکھائی دیتا ہے اس کا بغیر نظر نہیں آتا ۔ اگر چہ دراصل ایسا نہیں ہے، بلکہ فی الواقع یہ متکثر و متغایر وجود ہی ہیں جو حضرت واجب الوجود کے وجود خاص سے ہیں، مگر انتہائی شغف کے باعث سالک کو ایسا نظر آتے ہیں۔ اور ” ہمہ اوست، مطابق واقع نہیں ہے بلکہ جھوٹ ہے ۔ چنانچہ قائلین وحدۃ الوجود نے خیال خام کو پکایا ہے ۔
کچھ بھی ہو، غیر کو اس کی غیریت کے لحاظ سے مٹا دینے پر ہر دو فریق متفق ہیں۔ لہٰذا سالک نے علوم متکثرہ سے گریز کر کے علم واحد میں پناہ لی ہے ، اور اس توحید کے ذریعہ تقرب الہی حاصل کیا ہے ۔ تاہم اتنا ضرور ہے کہ سالک کو ابھی علم ہے کہ وہ علم رکھتا ہے اور اسی بنا پر اس کا علم علم مرکب ، کہلاتا ہے یعنی سالک ایسا علم رکھتا ہے جس کی نسبت یا اضافت دوسرے علم کی طرف ہے ۔
تا در تو ز پندار تو هستی با قیست میدان بیقین که بت پرستی با قیست
جب تک تجھ میں اپنا پندار باقی ہے، یقینی طور پہ جان لے کہ ابھی تو بت پرستی میں مبتلا ہے۔
اب رہا علم بسیط تو اس سے مراد یہ ہے کہ سالک اپنی کیفیت ادر اکیہ کے ساتھ اپنے مقصود کی طرف اس طرح متوجہ ہو کہ جملہ ما سوی سے منقطع ہو جائےحتے کہ اسے یہ علم بھی باقی نہ رہے (کہ میں منقطع ہو چکا ہوں)۔ اس مقام پر کہا جاتا ہے کہ سالک کا علم بسیط ہو گیا ہے اور اسے فنائے حقیقی حاصل ہو گئی ہے ۔ یعنی نے علم مرکب کو فنا اور علم بسیط کو فنائے افنا بھی کہا ہے۔ یہ دونوں مراتب کسبی نہیں ہیں بلکہ وہبی ہیں اور ان کا فیضان حق تعالی شانہ کی بارگاہ سے ہوتا ہے۔ سالکین کا سلوک نہ اس میں کوئی تاثیر رکھتا ہے نہ کچھ دخل .
بجستجوے نیابد کسے مراد ،ولے کسے مراد بیابد که جستجو دارد
جستجو سے کوئی شخص مراد کو تو نہیں پاتا ، لیکن مراد اسی کو ملتی ہے جسے اس کی جستجو ہو ۔
یہ جذب و بے خودی اورغیبت کا انتہائی مرتبہ ہے اور کسی کسی سعادت مند کو نصیب ہوتا ہے ۔ اس کی کچھ نشانیاں ہیں، ہر مدعی اس کا دعویٰ نہیں کر سکتا ۔ سالک جب تک مرتبہ جذب و بے خودی کو نہ پالے ولایت کی صف میں داخل نہیں ہو سکتا ۔ اس جذب کے بغیر وہ زاہدوں، عابدوں اور اختیار و ابرار میں سے تو ہو سکتا ہے ” قرب وصول ، تک جسے ولایت بھی کہتے ہیں اس کی رسائی نہیں ہوتی ۔
جاننا چاہیئے کہ ولایت کے لئے جذبہ شرط ہے مگر اس کا دائمی ہونا شرط نہیں ہے۔ چنانچہ بعض لوگ ایسے ہیں جو برسوں جذب اور حالت سکر میں رہتے ہیں اور پھر اس کے بعد حالت صحو یا ہوش میں آجاتے ہیں۔ حضرت با یزید بسطامی علیہ الرحمہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ تیس سال تک اس مقام میں رہے۔ اور بعض ایسے ہیں جو صرف ایک ساعت کے لئے مجذوب رہے۔ جو مجذوبین اس مرتبے میں مقید ہو گئے اور جنہوں نے یہاں سے عروج نہ کیا اور صحو میں نہ آئے وہ اس وجہ سے مراتب کے لائق نہ رہے۔ لیکن وہ مشائخ عظام جو تخت گاہ ہوش کےپادشاہ اور انبیائے کرام کے خلیفہ و نائب ہیں ، اس دولت سے فائز المرام ہیں۔

لقمہ بقا بالله

بقا باللہ سے مراد مرتبہ جمع الجمع ہے جو حیرت کبری کا جالب ہے ۔ یہ حیرت کبری اکثر محققین کے نزدیک آخری مقام ہے اگر چہ بعض نے تسلیم و رضا کو آخری مقام قرار دیا ہے ۔ بقابا الله “رجوع الی البدائیت”( رجوع إلى البدایت کا مطلب ہے بدایت یا ابتدا کی طرف لوٹنا، اس مرتبہ کو مختلف ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے مثلاً بقا باللہ ، بقاء بعد فنا، جمع الجمع ، فرق بعد الجمع ، فرق ثانی،صحوثانی و غیرھم.اس مرتبہ کی تعریف کرتے ہوئے یوں کہا گیا ہے :النهايت رجوع الى البدائيت انتہا ء ا بتدا کی طرف لوٹنے کا نام ہے) کا نام ہے ۔ ” بدایت مرتبہ تفرقہ ہے جس میں اشیاء کا ادر اک ان کے تعینات کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ اس مرتبہ میں مبتدی کی نگاہ ، ظاہر کو نہ دیکھتے ہوتے بھی، مظاہر کی دید میں پابند ہوتی ہے اور غفلت تامہ اس کے شامل حال رہتی ہے۔ پھر سالک یہاں سے ترقی کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے تو اسے غیبت و بے خودی اور جذب کامل حاصل ہوتا ہے، قیود و تعینات رفع ہو جاتے ہیں اور ہر قسم کے تشخصات اور اضافتیں محو ہو جاتی ہیں۔ جب مالک اس مرتبہ کو پالیتا ہے تو اس کے بعد وہ پھر اعتبار تعینات اور طمس تشخصات و اضافات کی طرف لوٹتا ہے۔ لیکن اب وہ ان تعینات و غیرہ کو ابتدائے حال کی نگاہ سے نہیں دیکھتا بلکہ اب اس کی نظر دوسری ہوتی ہے۔ اگر چہ ان دونوں مراتب یعنی بدایت و نہایت ) میں ” اعتبار تعینات ایک قدر مشترک ہے اور اس لحاظ سے ان کو ایک دوسرے کا شریک کیا جاسکتا ہے ، تاہم ان دونوں میں بڑا جلی اور واضح فرق ہے اور وہ فرق یہ ہے کہ (مرتبہ ) اول میں سالک کے پیش نظر صرف امور متعینه و متشخصہ و مقیدہ“ ہوتے ہیں۔ اس کا دل انہی کی طرف متوجہ رہتا ہے اور یہی اس کا مطلوب و مقصود ہوتے ہیں۔ امر مطلق کے مطالعہ و ملاحظہ کا کہیں پتہ بھی نہیں ہوتا۔ لیکن (مرتبہ ) ثانی میں سالک کا مطلوب و مقصود صرف ذات مطلق ہوتی ہے۔ اس کا دل اس کے سوا اور کسی کی طرف متوجہ نہیں ہوتا ۔ اس مرتبہ میں سالک تعینات و تشخصات اور اعتبارات کو حق تعالی شانہ کے اسماء وصفات کے مظاہر کی حیثیت سے دیکھتا ہے چنانچہ وہ جس طرح مر تبہ اول میں جلال و جمال کے درمیان فرق کرتا تھا، اب مر تبہ ثانی میں بھی اسی طرح فرق کرتا ہے لیکن اب دوسری آنکھ سے اور کسی اور نگاہ ہے۔ مرتبہ ثانی میں بعض لوگ جب مخلوقات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو پہلے ذات مطلق کا ملاحظہ کرتے ہیں اور پھر اس کے نور سے تعینات و اضافات کو دیکھتے ہیں۔ اور بعض مشاہدہ اشیاء میں ذات مطلق کا مطالعہ کرتے ہیں، اور بعض لوگ وہ ہیں جومشاہدہ اشیا کے بعد ذات مطلق کا مشاہدہ کرتے ہیں چنانچہ
ان میں (بالترتیب ) ایک کہتا ہے :
مَا رَايْتُ شَيْئًا إِلَّا وَرَأَيْتُ اللهَ قَبْلَهُ میں نے جس شے کو بھی دیکھا اس سے پہلے خدا ہی کو دیکھا۔
اور دوسرا کہتا ہے :
مَا رَأَيْتُ شَيَا إِلَّا وَرَأَيْتُ اللهَ فِيهِ میں نے جس شے کو بھی دیکھا اللہ تعالیٰ ہی کو اس میں دیکھا۔
اور ایک اور یوں کہتا ہے :
ما رَأَيْتُ شَيْا إِلَّا وَرَأَيْتُ اللهِ بَعْدَهُ میں نے جس شے کو بھی دیکھا اس کے بعد خدا ہی کو دیکھا۔
غرضیکہ ہم لوگوں میں سے ہر ایک کا ایک مقام معین ہے ۔
عارف جب مقام آخر (یعنی مرتبہ بقا باللہ ) میں پہنچ جاتا ہے تو عوام الناس کے لئے اس میں اور دوسرے انسانوں میں فرق معلوم کرنا بہت دشوار ہوتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں اس حدیث قدسی کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے کہ :
اوْلِيَائِي تَحْتَ قَبَائِي لَا يَعْرِفُهُمْ غَيْرِي
میرے اولیا میری قبا کے نیچے پوشیدہ ہیں۔ ان کو میرے سوا کوئی نہیں پہچا نتا ۔
اسی مقام پر بعض عامیوں نے رسول اللہ ﷺ پر طعن کرتے ہوئے کہا تھا کہ : مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْكُلُ الطَّعَامَ وَ یَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِاس پیغمبر کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ۔
اسی مقام کی خبر دیتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ :
رِجَالٌ لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ – کچھ لوگ ایسے ہیں کہ تجارت اور خرید و فروخت انہیں ذکر الہی سے نہیں روکتی ۔ غرضیکہ اہل اللہ کو جو مرتبہ کمال کو پہنچے ہوتے ہوں ، پہچا ننا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا ظاہر دوسرے لوگوں کے ظاہر کی مانند ہوتا ہے ، بر خلاف ان کے مجذوب اور مجنون ہیں کہ ان کے اطوار چونکہ عام لوگوں سے یکسر مختلف ہوتے ہیں اس لئے عوام ان میں بڑی آسانی کے ساتھ امتیازکر لیتے ہیں اور ان سے بڑی عقیدت کے ساتھ پیش آتے ہیں ۔
اہل صحو میں سے جو حضرات “فرویت حقیقت” کے مقام میں ہوتے ہیں ان سے خوارق کا ظہوربہت کم ہوتا ہے کیونکہ ان کی توجہ ہمہ وقت ذات بحت وبے رنگ کی طرف مبذول رہتی ہے جب کے انفس و آفاق میں جو بھی تصرف کیا جائے گا وہ تاثیرات صفات سے آگاہ ہوگا۔ جو لوگ اس مقام یعنی مقام فردیت حقیقت سے جتنا فروتر ہوں گے اتنا ہی ان سے خوارق اور تصرفات کا ظہور ہوگا اس
مقام کی تفصیل احاطہ بیان سے باہر ہے۔ چنانچہ اس پر یہ آیہ کریمیہ شاہد ہے ۔
قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّیْ وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدً
کہہ دو کہ اگر سمندر میرے رب کے کلمات کو لکھنے کے لئے ) سیا ہی بن جائے تو میرے رب کے کلمات ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہو جائے گا اور اگر اتنی ہی سیاہی اور بھی لے آئیں تو وہ بھی نا کافی ہوگی ۔
برادر عزیر ! یہ چند سطریں جو میں نے لکھی ہیں اگر تم نے نگاہ دل سے ان کا مطالعہ کرلیا تو قوی امید ہے کہ ظاہر کار میں تم اپنے آپ کو بلا واسطہ شیخ پستی سے نکال کر بلندی کی طرف سے جاؤ گے۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ کام شیخ کی توجہ اور مدد کے بغیر نہ ہوسکے گا۔ کیونکہ اس راہ میں بے شمار ایسی خطر ناک اور دشوار گذار گھاٹیاں ہیں جن میں سے صرف شیخ کی امداد باطنی نکال کرلے جا سکتی ہے۔ کتابوں کا مطالعہ اس جگہ کچھ کام نہیں آتا۔ بعض خود بین اور خود پرست لوگوں کو تم دیکھو گے کہ وہ اس بات کے بہت مشتاق ہوتے ہیں کہ نہ وہ کسی شیخ سے بیعت ہوں اور نہ کسی خدارسیدہ کی صحبت کی پابندی اختیار کریں۔ بس ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ کسی کتاب کے ذریعہ ذکر و فکر اور دوسرے امور کی تکمیل کرلیں۔
لیکن یہ بعید از امکان بات ہے ۔
رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِا الْحَقِّ وَ أَنْتَ خَيْرُ الْفَاتِحِينَ
اسے ہمارے پروردگار ! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان سچا فیصلہ کر دے اور توہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ۔

قول کلی

اسے طلب گار حق ! اللہ تجھ پر اپنی راہ کھولے ، اس بات کو اچھی طرح سمجھ لے کہ اذکار و افکار اور مراقبات کی جتنی بھی قسمیں ہیں ان سب کا مقصود ایک ہے ، اور وہ ہے محویت وفنا ۔ ابتدائے فطرت میں لطیفہ ربانیہ عزیمت کی یکسوئی اور جمعیت کا حامل ہوتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے مخلوق سے رابطہ بڑھتا جاتا ہے اور تعلقات دنیوی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ،عزیمت کی وحدت کثرت غرائم میں بدلتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ جمعیت کی بجائے تفرقہ پیدا ہو جاتا ہے۔ صاحب انصاف کی ہمت کا تقاضا یہ ہے کہ پھر اسی وحدت و یکسوئی کی طرف متوجہ ہو اور لطیفہ ربانیہ میں جو پراگندگی اور انتشار پیدا ہو چکا ہے اسے توحید کے رابطہ سے درست کرے۔ اس مقصد کے حصول کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ اپنے علم کو بسیط کرے اور متفرق و منتشر را ہوں کو چھوڑ کر یکسوئی اختیار کرے یہاں تک کہ جملہ ذوات میں ذات حق، صفات میں صفات حق اور افعال میں افعال حق کو دیکھے، تب اس کی سمجھ میں راز آئے گا کہ وجودحق تمام مخلوقات کے وجودوں میں کیونکر ساری ہے ۔ جب یہ حالت حاصل ہو جائے گی تو وہ ایمان حقیقی اور کمال تقوی سے متصف ہو گا اور اس پر واضح ہو جائے گا کہ جنت کیا ہے اور دوزخ کیا ہے ، دنیا کیا ہے اور آخرت کیا ہے ، نفس کیا ہے شیطان کون ہے اور رحمان کون ہے ، ہادی کون ہے اور مضل کون ہے ۔ اگر چہ عارف کو ان باتوں کے دریافت کرنے سے غرض نہیں ہوتی تاہم بحکم شہود ، اس سے چارہ بھی تو نہیں ۔ در حقیقت اذکار و افکار اور مراقبات کے جتنے طریقے ہیں سب کی بنیاد عشق پہ ہے۔ عشق جس قدر بڑھا ہوا ہوگا اتنی ہی ان امر میں تاثیر ہوگی، جتنی عشق میں سستی ہوگی اتنی ہی ان کی تاثیر ہیں کمی ہوگی۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان امور کو پا بندی کے ساتھ کرتے رہنے سے محبت کی ٹوٹی ہوئی ڈوری پھر سے جڑ جاتی ہے اور یہ رشتہ محکم و استوار ہو جاتا ہے ۔ اذکار و افکار اور مراقبات کو حصول ثواب کی نیت سے ہرگز نہ کرنا چاہیے ۔ عاشق کی شان اس سے کہیں بلند ہے ۔
لقمہ اشعار جن میں توحید کا بیان ہو
جس طرح مذکورہ اذکار سے توحید کے معنی آشکار ہوتے ہیں، اسی طرح ہر زمانے میں ابیات و اشعار سے بھی ان معانی کا اظہار ہوتا ہے ۔ وصول الی اللہ کے ضمن میں ، اذکار کی طرح ، ابیات و استعار بھی نافع ہیں ۔ البتہ اتنا فرق ضرور ہے کہ عربی زبان کو چونکہ مظہر اتم ﷺ کے ساتھ ایک نسبت ہے اس لئے اس کی تاثیر زیادہ ہے ۔ اگرچہ ہر زبان کی نسبت حقیقت نبوی کے ساتھ یکساں ہے تاہم عربی کی نسبت قوی تر ہے ۔

لقمہ برزخ

مشایخ علیہم الرحمہ نے ( اذکار وغیرہ کے لئے ) جو جو برزخ مقرر کیا ہے اس سے مقصود پراگندگی کو دور کرنا اور متفرقات کو مجتمع کرنا ہے ۔ آدمی ہجوم خطرات اور تفرقہ حو اس کے باعث توحیدعلمی سے محروم رہ جاتا ہے۔ ایسے حالات میں یہ برزخ ہی ہے جو اسے جمعیت حو اس مہیا کرتا ہے بالخصوص اگر بر زخ ادب خواہ ہو تو اس (برزخ کی) وہمی یا تحقیقی صورت دیکھتے ہی سالک پراس کے حضور میں خشوع و خضوع طاری ہو جاتا ہے کیونکہ یہ اس کی شان ہے کہ وہ ادب کا تقاضا کرتا ہے اور یہ بات بے حد فائدہ مند ہے۔ اس سے یہ ہوتا ہے کہ سالک کے دل میں ان معانی کے واسطے جو اس برزخ میں ودیعت کئے گئے ہیں زبردست اشتیاق پیدا ہو جاتا ہے کیونکہ خیال کو جس شے کی طرف لگا دیا جائے وہ اسی کا رنگ ڈھنگ اختیار کر لیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خیال کی صفت” ہیولانی ” ہے اور اس میں صورت کو قبول کرنے کی بے حد صلاحیت ہوتی ہے۔ چنانچہ مولانا رومی مثنوی شریف میں فرماتے ہیں
اے برادر، تو ہمیں اندیشہٖ ما بقی ، تو استخوان و ریشہٖ
اسے بھائی، تو وہی کچھ ہے جو تو خیال کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہےوہ تو نہیں بلکہ محض ، ہڈیاں اور رگ و پٹھے ہیں ۔
گر گل است. اندیشہ تو گلشنی در بود خارے تو ہیمہ گلخنی
اگر تیرے خیال میں پھول بس رہا ہے تو تو گلشن ہے اور اگر کانٹا ہے تو پھر تو بھاڑکا ایندھن ہے ۔
برزخ مخلوق ہو سکتا ہے۔ کیونکہ برزخ کے معنی واسطہ کے ہیں، دل اور مقصود کے درمیان مقصود جو انتہائے لطافت اور تنزہ کے باعث احاطہ ادر اک میں نہیں آسکتا۔ لہٰذا اس کے جمال کو جس شے میں حاضر کیا جاتا ہے ۔ وہ بزرخ ہے۔ ذرے سے لے کر آفتاب تک اور عرش سےے کر فرش تک (ہر شے) اس کی جلوہ گاہ ہے ۔ اگر چشم بینا ہے تو جس چیز پر نگاہ ڈالو گے وہی نظرآئے گا ۔ البتہ برزخوں میں تفاوت ہے۔ مثلا شیخ جن معانی کا مورث ہے وہ بات ہی کچھ اور ہے جو کنکر پتھر کے برزخ سے پیدا نہیں ہو سکتی۔ ان چیزوں کا برزخ بالکل مختلف معنی کا مورث ہے۔
بر نرخ جس قدر لطیف اور عقلی ہو گا اتنا ہی بہتر کام بنے گا۔ اس کے برعکس برزخ جتنا کثیف اور مرئی صورت کا حامل ہو گا کام اتنا ہی زبون اور خراب ہوگا، مشائخ کرام ہر سالک کی استعداد کے مطابق اس کے لئے برزخ مقرر فرماتے ہیں ، اس ناچیز کی رائے میں سالک کی حالت کو اچھی طرح دیکھنا چاہیئے کہ اس کے نفس میں کونسی شے زیادہ وقعت رکھتی ہے اور کیا چیز اس کی نگاہ میں جمال کی حامل ہے۔ مثلاً ایک شخص کسی لڑکے پر عاشق ہے اور اس کی محبت میں والہ و شیدا ہے ۔ تو لا محالہ اس شخص کی نگاہ میں اس لڑکے کا جمال اپنے شیخ کے جمال سے بڑھ کر ہے ۔ اس لئے مناسب ہوگا کہ شیخ اس کے لئے اپنا برزخ تجویز نہ فرمائیں بلکہ اشغال و مراقبات میں اس لڑکے کا برزخ مقرر کریں کثرت اشغال سالک کو بتدریج اس بھنور سے بھی نکال لے گی اور تعلق صوری سے تعلق معنوی کی طرف لے جائے گی۔ ایک اور مثال ایسے شخص کی ہے جسے پھول اور چمن بہت پسند ہوں اور اس کی نگاہ میں ان سے بڑھ کر اور کوئی شے جمیل نہ ہو۔ اب ایسے شخص کے لئے شیخ اگر اپنے جمال کوبرزرخ مقرر کریں گے تو ان کا جمال وہ نتایج پیدا نہ کر سکے گا جو اس کی محبوب نے یعنی پھولوں اور پھلواریوں کے برزخ سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ البتہ ، جیسا کہ ہم نے پہلے کہا ہے ، اشغال کے باعث وہ بالآخر اس ورطہ سے نکل آئے گا۔ اسی طرح اوروں پر بھی قیاس کرلو ۔

لقمہ حرارت باطنی

حبس نفس، حصر نفس، ذکر دو ضربی ، چار ضربی شش ضربی اورذکر حدادی و غیره جو شدید حرکات پر مشتمل ہیں ، ان سب کا مقصد باطن میں حرارت پیدا کرنا ہے ۔ یہ حرارت عشق اور اشتیاق کو جنم دیتی ہے اس سے سالک میں ایک جوش و خروش پیدا ہوتا ہے اور اس کے دل میں محبت کی اگ بھڑک اٹھتی ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ نوجوانوں میں ذکر سے بہت جلد فایدہ ظاہر ہوتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ صوفی تیس برس کے بعد سرد ہو جاتا ہے ۔
البتہ بچپن میں ذکر کی تلقین نہیں کرتے کیونکہ ذکر کی حرارت جلا دیتی ہے۔ جب بلوغت کو پہنچ جائے تو پھر یہ تلقین روا ہے، جوانی کے ایام میں سالک جتنی محنت و مشقت کر سکتا ہے وہ بڑھاپے میں ممکن نہیں ہے۔ شہود اور کشف جو اوائل عمر میں ہو گا وہ آخری عمر میں نہیں ہو سکتا۔ شیخ نظام الدین نارنولی علیہ الرحمہ ایسے سرد خون صوفیوں کو تخم پنواڑ کھانے کو فرمایا کرتے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ نباتی دواؤں سے ان لوگوں کے اندر سوزش اور گرمی پیدا ہو ۔

لقمہ صوت سرمدی

گذشته اشغال داذ کار میں جو حرکت قلب ، صوتِ سرمدی اور توالی انفاس( یعنی سانسوں کی پیہم آمد و رفت) و غیرہ کو اختیار کیا گیا ہے ، اس میں یہ راز ہے کہ یہ تمام امور اس علم کو جو تقرب و تو اصل کا موجب ہے ، اپنی معیاریت(مراد شمولیت ۔ سونے،چاندی کے سکے یا زیورات وغیرہ بنانے میں ان دونوں قیمتی دہاتوں کے ساتھ ایک خاص مقدار میں کمتر درجے کی دہاتوں، مثلاً تا نبا وغیرہ کا شامل کرنا ضروری ہوتا ہے تا کہ مطلوبہ شے پائیدار ہو اور اس کی شکل وصورت قائم رہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو سونا یا چاندی اپنی طبعی نرمی کے باعث دستگارکی بنائی ہوئی صورت کو قائم نہیں رکھ سکتے۔ لہذا زیورات وغیرہ میں دو قسم کے اجزا ہوتے یعنی ایک جز قیمتی دھات (سونا یا چاندی) کا اور دوسرا جزو ملاوٹ کا ۔ اصطلاحاً انہی اجزا میں سے اول الذکر کو” عیار” اور موخرالذ کر کو “معیار” کہا جاتا ہے۔ گویا معیار بمنزلہ ایک ظرف یا برتن کے ہے جو عیار کو اپنے وجود کے ساتھ سنبھالتا یا محفوظ رکھتا ہے ۔ ایک کمتر دہات کی کسی قیمتی دہات کے ساتھ اس مقصد کے لئے شمولیت یا ملاوٹ اس کی معیاریت کہلاتی ہے ۔ مندرجہ بالا عبارت میں بھی یہی صورت حال ہے۔ یعنی حضرت مصنف علیہ الرحمہ نے اشتغال و اذکار کو عیار اور حرکت قلب وغیرہ کو معیار قرار دیا ہے) سے دائم الو قوع بنا دیتے ہیں چونکہ ان امور کا دوام اور اتصال ثابت ہے لہذا جس شے کا یہ معیار ہوں گے وہ شے بھی دائم الوقوع ہوگی ۔ ان امور دائمی کے علاوہ اگر چہ ان کے مثل اور امور بھی ہیں جن کومعیار بنایا جاسکتا ہے جیسے افلاک اور نجوم کی حرکت یا تجدد امثال(تعینات کی صورتوں کا جدید ہوتے رہنا، انسان پر ہر آن فنا و بقا کی کیفیات طاری ہوتے رہنا اور باوجود ان تغیرات کے اصل حقیقت وجود باقی رہنا) یا دریا سمندر کا پانی کہ یہ دائمی ہیں لیکن اس میں یہ بات ہے کہ یہ امور چونکہ آدمی کے جسم سے الگ اور خارج ہیں اس لئے اس کی توجہ سے بہت بعید ہیں ۔ ان کی طرف متوجہ ہونا ، آدمی کے اپنے اندر توجہ کرنے کے برابر نہیں ہو سکتا۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے (اور وہ یہ کہ آدمی کے اپنے اندر بھی تو تجدد امثال کا سلسلہ جاری ہے) یعنی ہرلمحہ اور ہرآن آدمی کا رنگ معدوم ہو جاتا ہے اور پھر اس کا مثل عدم سے وجود میں آجاتا ہے۔ یہ بھی دوام کے ساتھ ہو رہا ہے تو پھر اس تجد دامثال کو اس علم کا معیار کیوں نہیں بنایا جاتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ الوان یا رنگوں کا تعلق آنکھ سے ہے اور مراقبات ، بلکہ اذکار میں بھی، آنکھوں کو بند رکھنا نہ صرف سود مند بلکہ نہایت ضروری ہوتا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ تجدد( جو وجود انسانی میں واقع ہو رہا ہے ) بدیہی نہیں ، نظری ہے۔ کئی کمزور قسم کے مقدمات قائم کرنے کے بعد اگر ہم اس مطلب کو ثابت کرنے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو یہ محض ایک ظنی ثبوت ہوگا۔

لقمہ غلبہ شوق

وہ نغمہ آتشیں جو سالک کی نہاد (خصلت)میں خوابیدہ ہے ، فرط محبت سے بھڑک اٹھتا ہے شروع شروع میں گریہ وزاری اور بیقراری کا اظہار ہوتا ہے ، تند و تیز حرکات اس سے سرزد ہوتی ہیں اورآنکھ ، ناک اور منہ سے رطوبات جاری ہو جاتی ہیں۔ یہ درد کا عالم ہے یہ کثرت ذکر سے پیدا ہوتا ہے۔ لیکن جو لوگ مقام تحیر میں پہنچ جاتے ہیں وہ فراق سے نہیں روتے ۔ ان کا رونا تو و صال میں ہوتا ہے وصال میں وہ لوگ ان امور پر روتے ہیں جو ان سے چھوٹ گئے ہوں یا جن کا تعلق عشق کے معاملات سے ہو۔ دونوں میں ایک فرق یہ بتایا جاتا ہے کہ عین وصل میں رونے والوں کے آنسو میٹھے ہوتے ہیں جب کہ درد فراق سے رونے والوں کے آنسو نمکین اور تلخ ہوتے ہیں۔ یہ ( واصلین ) جب رقص کرتے ہیں تو ان کی حرکات بہت سبک ہوتی ہیں اور ان میں ایک ملائم اور موزونیت پائی جاتی ہے۔ یہ لوگ اکثر لحن کے وزن پر رقص کرتے ہیں ۔ اسے “نواطق روحانی“ کہا جاتا ہے ۔ یہ ان کے انشراح صدر اور خوش وقتی کی دلیل ہے۔ اگر چہ عوام اس قسم کے رقص کو معتبر نہیں گنتے اور سماع ہاجم سے انشراح حاصل کرتے ہیں لیکن خواص اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کی حرکت (یعنی رقص ) کا سر چشمہ کیا ہے یعنی یہ ” سجود قلب “ ہے ۔
مجلس میں جو شخص سب سے پہلے رقص کے لئے اٹھتا ہے اور جو کچھ وہ رقص میں کرتا ہے اس کی بنا یہ پھر مجلس کا جو بھی رنگ ہواس کی ذمہ داری اسی پر ہوتی ہے۔ اگر یہ خیر ہے تو اس کے ذمہ )خیر ہے اور اگر شر ہے تو شر ۔ سلطان المشایخ فرمایا کرتے تھے کہ اگر صوفی کی پیٹھ زمین پر لگ جائے تواسے چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو یا اپنے لباس کو قربان کر ڈالے ۔
امام قشیری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ یہ حرکت جس کسی سے بھی صادر ہو، خواہ وہ مبتدی ہو، متوسط ہو یا منتہی ، اس کے حال میں اس سے کچھ نہ کچھ نقصان ضرور آئے گا۔ لہٰذا جب تک ہجوم و غلبہ نہ ہو اپنی جگہ سے نہ ہلے اور یہاں تک ہو سکے ، ثابت و راسخ رہے ۔
الحمد لله که یہ رسالہ آخرماه ذی الحجہ 1101ھ میں اختتام کو پہنچا۔ اب میں نہایت خلوص اور صدق دل کے ساتھ بدرگاہ رب العالمین دعاکرتاہوں کہ اے میرے پروردگار تومیری ان ناچیز تصنیف کو مقبول خلائق بنااور کاہل الوجود اور بد نام کندہ ہاتھوں سے محفوظ ومعنون رکھ اور یہ میں مانگتاہوں تیرےحبیب پاک سید الابرار والہ الاطہار کی طفیل سے صلی اللہ علی رسول خیر خلقہ محمد وآلہ وبارک وسلم . آمین ! تمت بالخير –


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں