آداب سماع شیخ کلیم اللہ جہان آبادی چشتی
إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا
ترجمہ یوم تاسع از عشره کاملہ حضرت شیخ الاسلام والمسلمين المتخلق با خلاق الله والمتصف با وصاف اللہ فانی فی اللہ باقی باللہ حضرت شیخ کلیم اللہ جہان آبادی چشتی قدس سره العزيز
المسمى بہ
آداب سماع
1304هجری
مولفہ و مرتبہ سیدی سندی مخدوم و مکرم حضرت صاحبزاده سید محمد قاسم علی کلیمی از احفاد حضرت شیخ الاسلام قدس سره العزيز
بمطبع احمدی دہلی با ہتمام احمد حسن خان طبع گردید
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
حمد بے حد خاص اس خالق کو سزاوار ہے کہ جس نے جملہ کن فیکون سے گروہ گروہِ مخلوقات کو پیدا کر کے ہر ایک کو
كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُوْنَ سے مسرور کیا اور ہر ایک اہل ایمان کو یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِمِنْكُمْ پرمامور فرمایا اور نعت بے حد خاص اس اشرف الرسل کو لائق ہے۔ کہ جس نے اپنی تمام عمر عزیز کو ہدایت خلق میں صرف کر کے حضرات اہل بیت اطہار علیہ السلام کے حق میں أَلَا إِنَّ مَثَلَ أَهْلِ بَيْتِي فِيكُمْ مَثَلُ سَفِينَةِ نُوحٍ، مَنْ رَكِبَهَا نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا هَلَكَ اور جناب صحابہ ہدی رضی اللہ تعالے ورضوانہ اجمعین کے بارہ میں ۔ أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ اور علما اراہ نما کے مقدمہ میں عُلَمَاء أُمَّتِیْ کَأَنْبِیَاءِبَنِیْ إِسْرَائِیْل فرماکر امتیوں کومشکور فرمایا ۔ فاتبعوا وصلوا وسلموا عليه وعلى اله واصحابه اجمعین – اما بعد حمد و صلوۃ کے بعد عاجزہ تراب اقدام ہر درویش و ولی محمد قاسم علی کلیمی غفر له ذنبه خدمات اہل اللہ میں عرض پیرا ہے کہ اس زمانہ پر فتن اور روزگارسرپا محن میں بسبب بعد زمانہ ر سالت و قرب اوان قیامت آئینه اسلام غرا پر ہرطرف سے باران زنگ حوادث متقاطر ہے۔ اور علی الخصوص طائفہ صوفیہ با صفا تیر باران طعن و اعتراض اکثر اہل زمانہ کا نشانہ و آماجگاہ ہے اور بعض صاحبان نے جو اپنے کو اس قوم سے شمار کراتے ہیں بخلاف اپنے راہبران و مرشدان کے افراط و تفریط کو دخل دیکر اپنے ہمراہ تمام قوم کو بلکہ بزرگان ماضیہ کو ہی مطعون کرایا ہے اور خاص کر طریقہ مروجہ حال مجالس سماع کا طریقہ زمانہ ماضیہ سے بالکل خلاف ہو گیا ہے اور زیادہ تر یہ ہی سبب طعن اور موجب ریش خند کہ ومہ ہوتا ہے چنانچہ قبل ازین بارہا اس عاجز کے دل میں آیا کہ خدمات حضرت صوفیہ صافیہ میں گذارش کرے کہ اس طرف توجہ فرما کر زبان اہل طعن کو مقفل فرمایا جا دے مگر بپاس ادب ہمیشہ قاصر رہا لیکن اب کی دفعہ جو عرس حضرت سلطان المشايخ محبوب الہی قدس سره العزيز میں حسب دستور فیض اندوز ہوا اور مجلس سماع اور طریقہ وجد بعض حضرات مذ کور دیکھا تو نہایت قلق ہوا کیونکہ ان بناوٹی حالیوں کے وجد و حال کا انداز قابل افسوس تھا اور بجائے اسکے کہ عوام پر حال کا اثر ہو منکرین کو مہیج خندہ اور عوام کو منتج تکلیف اور خواص کوما یہ ندم تھا اور اور خصوصاً بعض حضرا ت کا حال توایسا پر ملال تھا جس کو بیان کرتے ہوئے شرم آتی ہے غرض کہ یہ عاجز ایسی تاسف و تحیرمیں تها کہ با مداد روح پاک حضرت سلطان المشائخ قدس سرہ العزیز اراده ہوا کہ ضرور کچھ نہ کچھ اس بارہ میں عرض کرنا چاہیئے بفحوائے کلام حضرت حافظ شیراز رحمۃ الله علیہ شعر
حافظ وظیفهٔ تو دعا گفتن است و بس در بَندِ آن مباش که نشنید یا شنید
خواہ کوئی مانے یا نہ مانے اپنا درد دل کہ غالبا فلاح دارین پر مبنی ہوگا ظاہر کیجئےما ہران تصوف پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ ہمارا طبقہ سماع اکابر کے طریقہ سماع سے بالکل بر خلاف ہے۔ نہ وہ مزا میر میں نہ وہ سماع نہ وہ شرایط میں نہ وہ آداب نہ وہ حال ووجد ہے نہ وہ اثر، حظ نفسانی و متابعت نفس امارہ کے لیئے نئے نئے ایجاد کر لیئے ہیں اگر کسی منصف مزاج سے کبھی کچھ سوال کیا تو کہہ دیا کہ ہم اپنی پیر کی سنت ادا کرتے ہیں سُبۡحٰنَكَ هٰذَا بُهۡتَانٌ عَظِيۡمٌ (سبحان اللہ، یہ تو ایک بہتان عظیم ہے)عزیز و بھلا پیران عظام پر کیون اتہام لیتے ہو اور ا ن کا نام نامی لیکر عوام کو کیوں ان سے بے اعتقاد کرتے ہو دیکھو عشرہ کاملہ کی نوین فصل میں حضرت شیخ العالمین شیخ کلیم اللہ جہان آبادی رحمتہ اللہ علیہ جو تمہارے پیرمستند ہیں کیا فرماتے ہیں اور ان کا طریقہ کیا تھا اور کیسا مؤثر اور تمہارا وطیرہ کیا ہے اور کیسابے اثر اگر تم افراط و تفریط کو بالائے طاق رکھ کے بغور انصاف دیکھو گے تو بیشک طریقہ ماضی حال میں بعد المشرقین پاؤ گے ۔
یہان حضرت شیخ العالمین قدس سرہ کے رسالہ عشرہ کاملہ کا ہی مختصر سابیان اسلئے کہ لوگ اسکی پوری پوری کیفیت سے واقف ہوجائیں کیا جائے تو بے محل نہ ہو گا ۔ اس رسالہ کو حضرت نے 1092 ہجر ی میں رمضان المبارک کے عشرہ آخرمیں حالت اعتکاف میں تالیف فرمایا ہے اور ان دس دن میں جو اللہ تعالے نے آپ پر منکشف کیا اسے اسمیں نہایت اختصار کے ساتھہ قلمبند فرما کر اس طرح تقسیم کیا ہے ۔ پہلا دن معرفت کے بیان میں۔ دوسرا توحید ذات باری تعا لے و تقدس میں ۔ تیسرا اسما و صفات عزو جل میں اور اسکے ضمن میں بعض شبہات کو بھی دور کیا ہے ۔ چوتها روح کےبیان میں پانچواں محبت کے بیان میں ۔ چھٹا ارکان خمسہ میں ۔ ساتو اں برائیو ں سے پاک وصاف ہونے میں ۔ آٹھو اں آراستگی فضائل میں ۔ نو ان سماع کے بیان میں ۔ دسواں نیکی کے طرف سبقت کر نے میں چونکہ اس رسالہ کی تحریر میں حضرت نے اپنے دس دن اعتکاف کے پورے کیئے تھے لہذا اس رسالہ کا نام عشرہ کا ملہ ر کھا۔ اب میں حضرات صوفیہ صافیہ کی خدمت میں عام طور سے اور حضرات صاحبزادگان آستانہا کی خدمت میں خاص طور سے بعد انکسار دست بستہ عرض کرتا ہوں کے آپ صاحبان اپنے مریدین و معتقدین و حاضرین کو کس وجہ سے عر سوں میں طریقہ متقدمیں پر عمل کرنیکا حکم نہیں دیتے اور انکوان کی حالت پر کیوں چھوڑ رکھا ہے اگر آپ صاحبان ہی ہمیں ادب نہ سکھائینگے تو پھر وہ کونسا ایسا ہمارا شفیق ہے جو اس کے مذلت سے ہمیں بچائے گا باعث افسوس سخت یہ امر ہے کہ عوام مہذب تو ایسےمصنوعی حال و وجد والوں پر منہ پهیر کر مسکراتی ہیں اور قوال رو در رو ہے ۔ ایسے حال کا مال یہ ہے کہ بجائے اسکے کہ یہ توفیق سبحانہ تعالے پیران عظام نے بجدب حقیقی منکرین کو صراط مستقیم ارادات پر کھینچا حضرات موصوف کی آشیر سے طالبان راہ ہدایت کے دلو ں سے مادہ طلب ہی ساقط ہوا جاتا ہے اور اس فرقہ ہی سے تنفر پیدا ہوتا جاتا ہے۔ بہ تعمق نظر ملاحظہ ہوکہ ہدایت کے عوض ضلالت کس کے سبب ہوئی اور عزت کےبدلے ذلت کس کو حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے شعر
چو از قومے یکے بےدانشی کرد نہ کِہ را منزلت ماند نہ مِہ را
بد نام کننده آنگونه می چند ا نہیں کا مصداق ہے ۔ ملاحظہ ہو کہ نہایت غور کی جگہ اور بڑے افسوس کا مقام ہے۔ کہ ایک زمانہ تو ایسا تھا کہ مولانا محمد فخر الدین رحمتہ اللہ علیہ اندرون آستانه حضرت سلطان المشايخ محبوب الہی قدس سره بپاس ادب تشریف نہیں لےجاتے تھے اور اب بعض بعض صاحب ارشاد حضور کے بست دری سے پشت لگا کر چار زانو بیٹھتے ہیں اور بجائے مرقبہ لیٹ کر مریدین سے یکی چپی کرواتے ہیں سے بہ بین تفاوت ره از کجاست تا کجا شعر
از خدا جوئیم توفیق ادب بے ادب محروم مد از فضل
ہم خدا سے ادب کی توفیق چاہتے ہیں بے ادب خدا کے فضل سے محروم رہا
باقی رہا علم ظاہری اس سے تواب اکثر فقرا ء کو اتنا ہی نداق نہیں کہ اگر کسی شیخ کا کوئی رسالہ اردو میں ترجمہ کیا ہوا انکولا کر دے تو اسے پڑھ سکیں اور نفس امارہ بھلا اتنی اجازت کب دیتا ہے کہ مریدین ہی سے کہیں کہ تم پڑھ کر سمجھا دو۔ ہیہات ہیہات کیا انقلاب ہے اور کیسا وقت آگیا ہے ایک وہ زمانہ تھا کہ پیران عظام عربی زبان میں با تامل کتابیں تصنیف فرماتے تھے اور ایک یہ وقت ہے کہ ان کا اردو ترجمہ پڑھنا بھی مشکل مگر ما شاء اللہ پیرہیں اگر چہ ایسے صاحبوں کو میرا کلام بفحوای الحق مرّ زہر سے زیادہ تلخ معلوم ہوگا مگر حس وقت به انصاف اس پر غور فرمائینگے تو بلاشبہ شہد سے زیاده شیرینی بخشےگا
گرچه تلخ است ولیکن بر شیرین دارد
اور عام طالبوں کو یہ بات بخوبی واضح رہے کہ کس وناکس کے ہا تھ پر ہاتھ دیکے دھو کے اور دنیا اور آخرت کے ٹوٹے میں نہ پڑیں جب تک کہ وہ علامتین جو کملانے اپنی کتابوں میں پیر کامل کی لکھی ہیں نہ دیکھ لیں تب تک بیعت نہ کریں اس باب میں حضرت مولانا ئے روم قدس سرہ کیا خوب فرما گئے ہیں
اے بسا ابلیس آدم روئی هست به پس بہر دستے نه باید داد دست
چونکہ حضرت امام حجت الاسلام ابو حامد امام محمد غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تصنیفات میں حدیث شریف طلب العلم فریضتہ علی کل مسلم و مسلمہ کے بیان میں تحریر فرمایا ہے کہ حصول علم اس شے کا کہ جس شئے میں آدمی مشغول ہونا چاہتے فرض ہے اور یہاں بیان سماع ووجد وغیرہ کا ہے لہذا اب میں رسالہ عشرہ کاملہ مذکور کی یوم تاسع کا ترجمہ (اس سبب سے کہ اکثر اہل سماع اسی خاندان کے خوان کے ریزہ چین میں اور یہ عاجز بھی حضرت کے ادنے غلامان میں سے ہے) کر کے پیش کش ناظرین کرتا ہوں اور اس قدر عرض کرتا ہوں کہ جن صاحبان کو شوق و طلب سماع وغیرہ ہے ان کو حسب فرموده امام حجت الاسلام پر عمل کرنا فرض ہے ۔ وباللہ التوفیق اللهم ارحم امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم واھديهم الى صراط المستقيم بحرمت طہ ویسین آمیں صلی اللہ علیہ يارب العالمين –
سماع اور وجد اور غلبہ
نواں دن سماع اور وجد اور غلبہ غیرہ کے بیان میں واضح ہو کہ خدائے تعالے نے پہلے ہی سے لوگوں کے سرائر میں شوق اور ضمائرمیں عشق ودیعت کر دیا ہوا ہے اور عادت الہی یوں جاری ہے کہ جب انسان ان دلفریب اچھی آوازوں کو سنتا جن میں ایک خاص قسم کی مقناطیسی کشش اور کہربائی جذب ہوتا ہے اور نیز اس آواز کو شوق و عشق اور روح سے ایک خاص طرح کی مناسبت ہوتی ہے تواس وقت اس کے شوق وعشق کو ایک ایسی زبردست تحریک ہوتی کی جس کے باعث وہ باطن سے ظاہر میں قدم رکھتے اور جوش اشتداد میں آجاتے ہیں جب یہ بات معلوم ہو گئی تو اب جاننا چاہیئے کہ ندب اورا باحت اور حرمت اس عشق پر دورہ کرتے ہیں یعنی یہ عشق کبھی مباح ہوتا ہے کبھی مستحب اور کبھی حرام اگر خالق کا عشق ہے تو نہایت مبارک اور مستحب ہے اور اگر کسی ایسی مخلوق کا عشق ہے جسکی طرف شارع علیہ الصلاة والسلام نے بشہوت دیکھنا حلال و مباح کر دیا ہے جیسے منکوحہ بیوی اور لونڈی تو یہ عشق مباح ہے اور اگر ایسی مخلوق کا عشق ہے جسکی طرف شارع علیہ الصلاة والسلام نے شہوت کی نظر کرنا حرام کر د یا ہے جیسے اجنبی و غیر مملوکہ عورت اور بے داڑھی مونچھ کے خوبصورت لڑکے تو یہ عشق حرام ہے ان دونوں قسموں کے عشق میں سماع حرام ہے بشرطیکہ یہ سما ع سامع کی شہوت کو برانگیختہ کرے اور رہ رہ کر ابھارے اورا کسائے لیکن جب سامع شہوت سے امن میں ہو تو کوئی مضائقہ کی بات نہیں اور جوشخص صرف نشاط کے لیے راگ سنتا ہو تو اسے حلال و مباح ہے لیکن جس شخص کا قلب ان تمام تمام باتوں سے خالی ہوا س کے حق میں را گ مکروہ ہے تحریمی مکروہ نہیں بلکہ تنزیہی کیونکہ ایسے شخص کے حق سماع عبث اور بے فائدہ فعل ہے اور جھانجھ داردف او ر طبل اور شاہین و غیره تمام و ہ آلات جو مزامیر او را وتار کے علاوہ ہیں سب کا بجانا اور سننا جائز ہے پھریہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ سماع کے وقت جو سعادت عالم بالا سے فا ئز ہوتی ہےا سکی تین قسمیں ہوتی ہیں انوار ایک احوال دو آثا رتین اوران تینوں میں سے ہر ایک چیز خدا تعالے کے تین عالم یعنی عالم ملکوت عالم جبروت عالم ملک سے پیدا ہوتی ہے اوران میں سے ہرایک ان تین موضعوں ارواح ،قلوب ،جوارح میں سے کسی موضع پر نزول کرتا ہے انوار عالم ملکوت سے پیدا ہو کر ارواح پر نزول کرتے ہیں اور احوال عالم حیرت سے علیحدہ ہوکرقلوب پر نازل ہوتے ہیں اور آثار عالم ملک سےپیداہو کر جوارح پر نزول کرتے ہیں پھر سماع کی دو قسمیں ہیں ایک ہاجم دوسری متکلف پہلی قسم کا سماع قلب میں ایک ایسی غیر معمولی تحریک اور بر انگیختی پیدا کرتا ہے جو بیا ن میں نہیں آ سکتی ۔سماع متکلف کی شان سے ہے کہ جب سننے والا اسے سنتا ہے تو اسکا دل خود بخود ایک بے اختیاری جوش کے ساتھ محبوب کی طرف بر انگیختہ ہوتایا مرشد و ہادی کی جانب یا جناب نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف طبعی میلان رکھتا یاحق سبحانہ کے تقدس اور پاکی کی تجلی کی طرف مائل ہوتا ہے۔ سماع کبھی کشف کا باعث وسبب بھی ہوتا ہے کیونکہ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ وہ حالت کا بدل دینے والا اور واقف کرنے والا اور صفائی بخش ہے۔
آداب سماع
سماع کے آداب مشہور روایت کے اعتبار سے تین ہیں اول تو یہ کہ نماز اور کھانے پینے اور کام کا ج و غیر کا وقت نہ ہو۔
دوسرے مکان شارع عام یا مکروہ آواز کی جگہ نہ ہو اور اس مکان میں کوئی ایسا سبب بھی کہ اس کی طرف دل لگے جیسے نقش و نگار بیل بوٹے وغیرہ نہ ہوں
تیسرے یہ کہ وہاں کوئی منکر سما ع جو ظاہر میں زاہد اور باطن میں متکبر و مغرور ہو جان جان کر جھوٹ موٹ حال کہنے والا یا دکھاوے کے لیے وجد کرنے والا موجود نہ ہو ۔
میں کہتا ہوں کہ سماع کی ان مذکورہ شروط کے ساتھ چند اور بھی ایسے حقوق ہیں جن کی رعایت سالک پر واجب وضروری ہے
اول یہ کہ محفل سماع میں جس قدر لوگ حاضر ہوں سب باوضو ہوں اور جب تک مجلس سماع قائم رکھی جائے حاضرین وضو ہی سے رہیں ۔
دوسری یہ کہ مجلس کے سماع کے جمنے سے پہلے سورہ فاتحہ اور تین بار سورہ اخلاص پڑھ کر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بکثرت درود پڑھنی چاہیئے
تیسرے یہ ہے کہ اس مجلس میں کوئی شخص نہ پالتی مار کر بیٹھے نہ چت لیٹے بلکہ جس طرح نماز کے قعدہ میں بیٹھا جاتا ہے اسی ہیئت پر بیٹھے ۔
چوتھے یہ کہ قوال اجرت کے طامع و حرص نہ ہوں بلکہ جو کچھ انہیں دیا جائے وہ اسے تفضل اور احسان سمجھیں ۔
پانچویں یہ کہ نہ کوئی کسی سے کلام کرے نہ دیدہ و دانستہ ہنسے بلکہ راگ گانے کے وقت اپنا سر نیچا جھکائے رکھے اور جو کچھ قوال کہہ رہا ہے اس کی طرف ہمہ تن مصروف ہو جائے اور دیگر جہات و جوانب کی طرف بہت کم متوجہ ہو ہاں یہ ضرور ہے کہ جب تک سماع کی مجلس گرم رہے قلب کی رعایتوں میں مشغول و مصروف رہے کھانسنے اور کھنکارنے اور جمائیاں لینے سے بچتا رہے پس اگر وجد غالب ہو اور بے اختیاری تحریک ظاہر ہو تو معذور ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات ضروری اور لابدی ہے کہ جب اختیار رجوع کرے اس مقام کی تفصیل یہ ہے کہ اختیار اور شعور دو متغایر مفہوم ہیں اور دونوں کو ملا کر اس جگہ چار صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں ایک دونوں کا عدم دوسرے دونوں کا وجود تیسرے اول کا وجود اور دوسرے کا عدم چوتھے اس کے برعکس یعنی اول کا عدم دوسرے کا وجود لیکن حالت سماع میں بھی چوتھی صورت یعنی اختیار کا عدم شعور اور عدم اور شعور کا وجود محمود اور پسندیدہ ہے کیونکہ یہ صورت پہلی صورت سے بہرحال اولی اور بہتر ہے اور باقی دونوں صورتیں متروک ہیں چوتھی صورت کے اولی اور انسب ہونے کی یہ وجہ ہے کہ صاحب وجد کی حالت بالکل ویسی ہوتی ہے جیسے نہایت غضبناک اور غصیلے شخص کی حالت عین غضب و غیظ میں ہوتی ہےغصیلہ آدمی غصہ کے وقت اپنے افعال کے آثار کو اچھی طرح سمجھتا اور ان کا شعور رکھتا ہے دیکھیئے جب کسی غضبناک آدمی کے غصہ کی آگ بڑی تیزی کے ساتھ بھڑک اٹھتی ہے تو وہ یا تو اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے یا اس کا منہ پیٹنے لگتا ہے یا لکڑی سے مارنے لگتا ہے یا قتل کر ڈالتا ہے اور اسے اس بات کا بخوبی علم وشعور ہوتا ہے کہ طلاق کی وجہ سے فرقت و جدائی واقع ہو جائے گی اور منہ پر طمانچہ مارنے سے عورت کو تنبیہ ہوگی اور ہاتھ سے مارنا لکڑی کی ضرب سے ادنی درجہ رکھتا ہے اسی طرح ضرب قتل کے اعتبار سے ادنی درجہ رکھتی ہے یہ سب کچھ ہوتا ہے لیکن وہ ان مراتب کے صدورمیں مسلوب الاختیار ہوا کرتا ہے علی ھذا القیاس صاحب وجد بھی حرکات و سکنات میں مسلوب الاختیار ہے گو قوال کے کلام کو سمجھنے کا شعور رکھتا اور کپڑوں کو پھاڑ چیر کر قوالوں کو دینے کا علم رکھتا ہے پس جو لوگ اس بات کے قائل ہو گئے ہیں کہ سماع کے وقت اختیار کے ساتھ شعور کا بھی صلب ہونا چاہئے وہ ٹھیک نہیں کہتے دیکھیے نشہ بازوں کی مجلسوں میں اسی نشہ باز کو لوگ ترجیح دیتے ہیں جو نشہ پیتا اور بے ہوش نہیں ہوتا بخلاف ان نشہ بازوں کے جو نشہ پی کر مد ہوش ہو جاتے ہیں انہیں لوگ کسی گنتی میں نہیں لاتے اور سالک کو اس شرم کے مارے وجد میں ہمیشہ مستغرق رہنا اور اس پر مداومت کرنا لائق نہیں کہ مبادا لوگ یوں کہنے لگے کہ اس شخص نے اپنے وجد کو قرب سے منقطع کر لیا اسی طرح اس خوف سے بتکلف وجد کرنا بھی لائق نہیں کہ اسے قاسی القلب اور سخت دل اور عدیم الرقۃ کہا جائے گا بلکہ سالک کو چاہیے کہ جب اپنے دل میں سما ع کی عدم حضوری پائے اور یہ معلوم کرے کہ میرا دل سما ع کی طرف متوجہ نہیں ہوتا تو فورا مجلس سماع سے نکل آئے اور اپنے بیش قیمت اور عزیز وقت کو ضائع اور برباد نہ کرے کیونکہ اس حالت کے بعد اسے راگ سننا محض حرام اور ناجائز ہے۔
چھٹے یہ کہ جب صوفی پر وجد غالب ہو اور وہ ایک بے اختیار رانہ جوش کے ساتھ کھڑا ہو جائے تو حاضرین مجلس کو بھی تعظیم و تکریم کے لیے کھڑا ہو جانا چاہیئے اور ان میں سے بعض لوگ صاحب وجد کی حفاظت کے درپے رہیں لیکن نہ اس حیثیت سے کہ اس کے اعضاء کو روک دیں اور ہاتھ پاؤں پکڑیں بلکہ انہیں بالکل ڈھیلا چھوڑ دیں ہاں اس بات میں زیادہ کوشش اور مبالغہ کریں کہ اس پر کوئی ایسا صدمہ نہ پہنچے جس سے اس کے اعضاء ٹوٹ جائیں یا انہیں کوئی آفت پہنچ جائے اور جب اس حالت میں سکون پیدا ہو جائے اور عالم بے ہوشی میں زمین پر گر پڑے تو مجلس سے ہٹا کر ایک کنارہ ڈال دیا جائے اور اس میں کوشش کی جائے کہ کہیں سے اس کا ستر نہ کھلے اور اگر وہ اس حالت میں کسی بیت یا رباعی یا مصرعے کی تکرار کا حکم کرے تو گو ان حاضرین مجلس کو جو عالم صحو میں ہیں مرغوب اور پسند نہ ہو لیکن پھر بھی اس کے حکم کو ہمیشہ پیش نظر رکھا جائے اور قوال کو مناسب ہے کہ اس مقام میں اس کے بتائے ہوئے مصرعے یا بیت کو بار بار مکرر سہ کرر گاتا رہے بلکہ اس کو لائق ہے کہ صاحب وجد کے حال کی ہر وقت متابعت کرتا رہے کہ کون سے لفظ اور مصرعے سے اس کے دل میں بر انگیختگی پیدا ہوئی ہے اور شوق بھڑکا ہے پس اسے لازم ہے کہ خود اس لفظ یا مصرعہ کی تکرار کرے اور اس کے حکم کا منتظر نہ رہے۔
ساتویں یہ کہ جب مجلس برخاست ہو تو سب حاضرین سورہ فاتحہ پڑھ کر تین بار سورہ اخلاص اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بکثرت درود پڑھیں یہ مجلس سماع کے آداب ہیں جنہیں میں نے مختصرا ًبیان کیا ہے جو شخص ان آ داب کو ترک کرے اور ان مجلسی حقوق کو نظر انداز کر دے وہ مرتکب لہو اور بدعتی ہے اور اس کا گناہ اس کے لیے نفع سے زیادہ ہے اب مشائخ رحمہ اللہ کی اس بارہ میں مختلف عبارات و اشارات ہیں ذوالنون مصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سما ع ایک ایسا وارد حق ہے جو دل کو حق کی جانب برانگیختہ کیا کرتا ہے تو جو شخص سماع کی طرف دل کے ساتھ متوجہ اور مائل ہوتا ہے وہ مرتبہ تحقیق کو پہنچ جاتا ہے اور جو نفس کے ساتھ اس کی طرف توجہ کرتا ہے وہ زندیق اور بے دین ہو جاتا ہے شبلی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ سماع کے ظاہرمیں فتنہ اور باطن میں عبرت ہے جو شخص اشارہ کو پہچانتا ہے اس کے لیے سماع عبرت حلال و جائز ہے اور جو شخص اس قدر لیاقت نہیں رکھتا وہ اپنے تئیں مبتلا فتنہ کرتا اور آفت و بلا کا سامنا کرتا ہے ابو علی رودباری رضی اللہ عنہ سے جب کسی نے سماع کی بابت دریافت کیا تو آپ نے اس کے جواب میں یوں فرمایا کہ کاش ہم برابر ہی چھوٹ جائیں اور اس کی وجہ سے ہم پر کوئی مواخذہ نہ کیا جائے بعض مشائخ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ سماع ان اسرار کی تنبیہ ہے جن میں بہت سے مغیبات مضمر ہوتے ہیں ابوالفضل رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ سما ع مضطرین کا توشہ سفر ہے تو جو شخص منزل مقصود تک پہنچ گیا وہ سماع سے مستغنی اور بے پروا ہو گیا جنید رضی اللہ عنہ اس بارہ میں اکثر یہ اشعار پڑھا کرتے تھے شعر
الوجد يطرب من في الوجد راحته والوجد عند وجود الحق مفقود
قد كان يطربني وجدى فاشغلني عن روية الوجد فی ما الوجد مقصود
یعنی وجدا س شخص کے لیے طرب بخش ہوتا ہے جس کو د جد میں راحت ملتی ہواور و جود حق کے وقت وجد گم ہو جاتا اکثر میرے وجد نے مجھے عیش و طرب بخشا لیکن اس کے ساتھ ہی اس چیز سے باز رکھا جو وجد سے مقصود مطلوب تھی۔
اور ہم تک یہ بات متواتر انقل ہوتی آئی ہےکہ بعض کبراء عارفین جیسے نوری اور دراج وغیر ہما سماع کی حالت میں انتقال کر گئے ۔
پھر اگر سماع غیر واصلین کے ساتھ مخصوص ہوتا تو اس مقام پر ان حضرات کا کیا حال ہونا چاہیے تھا سید محمد گیسو دراز کے ایک وزنی اور قیمتی قول سے معلوم ہوتا ہے کہ مبتدی اور منتہی دونوں کے لیے خوب چیز ہے کیونکہ آپ فرماتے ہیں کہ جس منتہی کے دل میں سماع تحریک نہیں پیدا کرتا وہ ایسا شخص ہے جسے اس کی انتہا کی آفت نے پا لیا ہے حالانکہ مطلوب غیر متناہی ہے اور اس کی تجلیات کی بھی کوئی انتہا نہیں ابو یزید بسطامی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
شربنا واهرقنا الجرعة بعد جرعة فما نفد الشراب وما رويت
ہم نے اس کی شراب گھونٹ لے لے کر پی اور اپنے ارد گرد بہائی نہ تو شراب ہی ختم ہوئی اور نہ ہماری ہی اس سے سیری ہوئی ۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام کی کوئی انتہا نہیں جنید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خدا کی رحمت فقیر پر تین مقام میں نازل ہوتی ہے ایک کھانے کے وقت کیونکہ وہ بغیر ضرورت اور حاجت کے کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا دوسرے بات کرنے کے وقت وجہ یہ کہ وہ ضرورت ہی کے وقت بات کیا کرتا ہے تیسرے سماع کے وقت کیونکہ وہ وجد ہی کی ضرورت سے راگ سننے کی طرف رغبت ظاہر کرتا ہے ابو عبداللہ نباجی کا قول ہے کہ سماع وہ ہے جو فکر کو بر انگیختہ کرے اور عبرت حاصل کرائے ورنہ اس کے علاوہ جو سماع ہے وہ فتنہ و فساد کی بھڑکتی ہوئی آگ ہے میں کہتا ہوں سما ع خدا کی سلگائی ہوئی آگ ہے جو دلوں پر چڑھی چلی جاتی ہے یہ بھی واضح رہے کہ کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس میں اس آگ کی تاثیر نہ ہو پس جس شخص میں ملاوٹ اور کھوٹا پن ہوتا ہے اس آگ میں جلنے سے اس کی کثافت دور ہو جاتی ہے اور وہ جید اور کھرا بن جاتا ہے اور جو خود جید اور کھرا ہوتا ہے اس میں جلنے سے ایک قسم کی زیادہ لطافت پیدا ہو جاتی ہے۔
وجد اور وجود کا بیان
واضح ہو کہ مشائخ رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ وجد کہتے ہیں اندوہ وملال کو اور وجود کے معنے پانے کی ہیں اور یہ دونوں ایسی حالتیں ہیں کہ سما ع سے پیدا ہوتی ہیں بعض لوگوں کو تو اس سے کرب و اضطراب حاصل ہوتا ہے اور بعض کو عیش و طرب پھر اول یعنی وجد جس طرح مراد کو گم کرنے اور مقصود کو فوت کرنے والا ہے یہ تو معدوم ہے اسی طرح ثانی یعنی وجود مراد و مقصد کو پانے والا ہے اور یہ دونوں حالتیں اگرچہ طالب کی صفت میں متغیر و متبدل ہو جاتی ہیں لیکن مطلوب میں کبھی تغیر واقع نہیں ہوتا پس نہایت اس چیز کی جو اول کی نسبت کہا جا سکتا ہے یہ ہے کہ وجود محبوب کی جانب سے تفضل اور احسان ہے محب کی طرف بعض حضرات صوفیا فرماتے ہیں کہ دل کو درد اور الم پہنچانے کا نام وجد ہے اور دل کوالم دو چیزوں سے پہنچتا ہے فرح اور طرب سے یا رنج و تعب سے پہلی صورت میں تو صاحب وجد کو کشف حجاب کی وجہ سے عین مشاہدہ میں سکون ہوتا ہے اور دوسری صورت میں مقاصد تک نہ پہنچنے کے سبب اس کے غلبہ شوق میں حرکت ہوتی ہے یہاں یہ بات بھی جاننے کے لائق ہے کہ سلطان علم وجد سے مرتبہ میں ارفع اور قدر و منزلت میں اعلی ہوا کرتا ہے کیونکہ جب سالک پر وجد کا غلبہ ہوتا ہے تو اس سے وہ خطاب اٹھ جاتا ہے جو ثواب و عذاب کا مدار علیہ ہے اس وقت یہ شخص ان لوگوں میں مل جاتا ہے جن سے شرعی تکلیف اٹھ جاتی ہیں اس صورت میں اس کا کم رتبہ ہونا ظاہر بات ہے بخلاف اس حالت کے جبکہ اس پر سلطان علم کا تسلط ہوتا ہے پھر سالک اس وقت میں مع اپنی اصلی حالت کے شرف تکلیف سے مشرف ہوتا ہے اور او مر و نواہی کے زیور کے ساتھ اراستہ و پیراستہ ہوتا ہے اور ان دونوں حالتوں میں جو فرق ہے اظہر من الشمس ہے
تواجد کا بیان
تکلف اور تصنع سے وجد لانا تواجد ہے اس حالت کے پیش آنے کی یہ وجہ ہے کہ جب خدائے تعالی کی نعمتیں اور اس کے شواہد سالک کے دل پر عارض ہوتے ہیں اور وہ اپنی امید اور وصول آرزو کو ملاحظہ کرتا ہے تو بہ تکلف وجد کرنے لگتا ہے نمود و ریا ءاور اپنی ہم عصروں میں قدر و منزلت ظاہر کرنے اور اصحاب عرفان کے ساتھ مشابہت پیدا کرنے کی غرض سے نہیں بلکہ خداوندی نعمتوں کے پیش آنے کی وجہ سے کیونکہ ریا ءوغیرہ کے لیے وجد کا اظہار کرنا نہ صرف ممنوع و محظور ہے بلکہ حرام محض ہے لیکن بعض مشائخ رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ جو چیز سالک کے باطن میں وجد کرتی ہے اس کا سالک کے ظاہر پر واضح ہونا تواجد ہے جو سالک قوی ہوتا ہے وہ اس وقت اپنی جگہ پر برقرار رہتا اور سکون پذیر ہوتا ہے اسی قسم کے لوگوں کے بارے میں خدا تعالی فرماتے ہیں
تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُهُمْ وَ قُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ
یعنی ذکر الہی کے اثر سے ان لوگوں کے جسموں پر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے پروردگار سے خائف وترساں رہتے ہیں پھر ان کی چمڑیاں اور دل ذکر الہی سے نرمی قبول کرتے اور اس طرف طبعی میلان رکھتے ہیں اور ہم نے اس مقام کو اپنے بعض خطوط میں نہایت توضیح و تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔
غلبہ کا بیان
غلبہ یہ ایک ایسی حالت ہے کہ جس میں سالک کو وہ چیز نظر آتی ہے جس کے ساتھ سبب کا ملاحظہ اور ادب کی رعایت محض ناممکن ہوتی ہے اسی لیے اکثر اوقات اس سے وہ باتیں ظہور میں آتی ہیں جن پر اس کا حال نہ پہچاننے والے نقطہ چین ہوتے اور سخت انکار سے پیش آتے ہیں لیکن جب سالک کا نفس سکون اختیار کرتا ہے تو وہ پھر اپنے نفس کی طرف رجوع کرتا ہے اور فورا اپنی حالت کو درست کر لیتا ہے اور غلبہ کا منشا اکثر اوقات یا تو خوف ہوا کرتا ہے یا ہیبت یا جلال وحیاء
رقص کا بیان
رقص ارد گرد گھومنے اور گردش کرنے ہاتھ نچانے گردن ہلانے اور اصول نغمات کے مطابق مقاطع پر پاؤں کو دھمکا دینے ٹھوکر لگانے کا نام رقص ہے اگرچہ شریعت اور طریقت میں اس کی کوئی اصل نہیں لیکن حالت وجد کے مسلط ہونے کے وقت کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دل خود بخود بر انگیختہ ہوتا ہے اور ہاتھ پاؤں مضطربانہ حرکت کرنے لگتے ہیں مگر یہ اصطلاح رقص نہیں ہے اور نہ اسے کوئی مذہب و طریقت رقص کہتا ہے جو لوگ اس حالت کا نام رقص کہتے ہیں ان کا شمار لاہین اور بےہودہ لوگوں میں کہا جاتا ہے
ولولہ کا بیان
جسے شہوت کی نظر سے دیکھنا حرام ٹھہرایا ہے جیسے اجنبی اور غیر مملوکہ عورتیں اور بیداڑھی مونچھ کے حسین و خوبصورت لڑکے ان کے حسن پر شیدا و فریفتہ ہونا ولہ ہے اور یہ تمام صوفیوں کے قول کے مطابق محض ممنوع اور حرام ہے یہی وجہ ہے کہ جب صوفیوں سے یہ قبیح اور ناشائستہ فعل ظہور میں آیا تو مشائخ رحمہم اللہ نے ان میں سخت نکتہ چینی اور طعنہ زنی کی اور اس بارے میں اس قدر حکایتیں اور نقلیں وارد ہوئی ہیں جو شمار میں نہیں آسکتیں میں کہتا ہوں کہ بعض صوفیوں سے جو اس فعل کا وقوع ہوا ہے وہ دو حال سے خالی نہیں ہے یا تو سلوک کے ابتدائی زمانہ میں واقع ہوا یا انتہائی زمانے میں جو سالک سے ولہ واقعہ ہوا ہے اس کی وجہ تو یہ ہے کہ مرشد کامل جو ایک نہایت تجربہ کار اور حاذق طبیب ہوا کرتا ہے اپنے مرید و معتقد کا ایسی چیز سے علاج کیا کرتا ہے جس میں خاطر خواہ نفع و بہبودی متصور ہوا کرتی ہیں اور یہ بات معلوم ہے کہ محبت ایک ایسا معنوی امر اور باطنی بات ہے جو محبوب کے پا لینے کی لذت سے پیدا ہوتا ہے اور یہ بھی کہ جو امور حواس ظاہرہ پر موقوف اور منحصر ہوتے ہیں وہ ان امور سے جو حواس باطنہ کے ساتھ ربط اور تعلق رکھتے ہیں ظہور میں اکثر اور اشد ہوا کرتے ہیں اور جب کہ خدا تعالی بلحاظ آیہ
لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُوَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَوَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ
آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں اور وہ تمام آنکھوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور وہی ہر باریک چیز کو جاننے والا، بڑا خبردار ہے۔
کسی کے پا لینے اور ملاقی ہونے سے پاک اور منزہ ہے تو جو لوگ اس کی محبت میں طامع اور حریص تھے ان کے دل اس حکم کے سنتے ہی ٹوٹ گئے اور ااثر قبول کرنے سے اعراض کرنے لگے باوجود یکہ وہ مبدا اول کے حجران وحرمان کی وجہ سے بڑے نازک اور خطرناک مقامات میں کود پڑنے کے لیے آمادہ ہوتے تھے کیونکہ یہ حکم انہیں خداوندی محبت سے باز رکھنے اور نفرت دلانے پر مدد کرتا ہے پس مرشد کامل جب مرید کا یہ حال دیکھتا ہے تو اسے عشق و محبت کرنے کا حکم کرتا ہے اور اگر عشق و محبت اختیاری امور نہیں ہے مگر پھر بھی کبھی تقلید تحقیق کے ساتھ مشابہت پیدا کر لیتی ہے اس صورت میں سالک پر انکسار، خشوع عاجزی خضوع طاری ہو جاتے اور غرور و تکبر رعونت تحیر مضمحل و ناپید ہو جاتے ہیں اور اس وقت وہ نکمی اور ناکارہ عادات سے بیزاری اور نفرت اختیار کر لیتا اور شائستہ اخلاق سے آراستہ پیراستہ ہو جاتا ہے غرضکہ اسی طرح مرشد کا مل اسے آہستہ آہستہ اعلی مقاصد اور ارفع مطلب کی طرف کھینچ لے جاتا ہے میرے استاد نے شیخ برہان پوری رضی اللہ تعالی عنہ سے دریافت کیا کہ حضرت مشائخ رحمہم اللہ کو کیا ہو گیا ہے کہ مریدوں کو ابتدائی زمانہ میں دعوات کا حکم کرتے اور انہیں ایسی باتوں کا حکم کر دیتے ہیں جو صوفیوں کے حال کے کسی طرح لائق و زیبا نہیں ہوتی فرمایا کہ جب شیوخ اپنے مریدوں اور معتقدوں میں جذب کی قوت نہیں دیکھتے تو انہیں ریاضت کا حکم کرتے ہیں تاکہ وہ مضمحل ہو کر جذب کا مادہ حاصل کر لیں غرض کے یہ اس ولہ کی وجہ سے بیان ہوئی جو ابتدائی زمانہ میں سالک سے واقع ہوتا رہا ہے اور وہ ولہ جو انتہائی درجہ میں واقع ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ صوفی جب اس بات کے لیے آمادہ اور تیار ہو جاتا ہے کہ خدا تعالی اس پر ذاتی یا صفاتی یا اسمائی تجلی کریں تو خدا تعالی بے داڑھی مونچھ کے خوبصورت لڑکوں اور عورتوں کی صورت میں اس پر تجلی کرتا ہے۔ لیکن یہ تجلی دیر پا نہیں ہوتی بلکہ کوندتی بجلی جیسی ہوتی ہے کہ طرفۃ العین سے بھی پہلے کوند کر اور اپنی تابانی دکھا کر غائب ہو جاتی ہے جب یہ صورت موحد کو نظر آتی ہے تو اسے ان صورتوں میں وہی لذت حاصل ہونے لگتی ہے جو اس وقت حاصل ہوئی تھی بعض کبراء جو صوفیوں میں کمال امتیاز کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں یوں فرماتے ہیں کہ مشرب تحقیق و توحید میں وہی شخص کامل ہوتا ہے جو مظاہر کون حسی میں اسی طرح آنکھ سے جمال مطلق کا مشاہدہ جس طرح بصیرت سے مظاہر روحانی معنوی میں اس کے جمال کو دیکھتا ہے کیونکہ حق تعالی کے جمال کے لیے دو اعتبار ہیں ایک اطلاق دوسرا تغیر پہلا اعتبار تو جمال ذاتی حقیقی ہے اور عارف اس جمالی مطلق کا فنا فی اللہ کے مرتبہ میں مشاہدہ کرتا ہے اور دوسرا اعتبار جمال تنزلی ہے جو مظاہر حسیہ ا ورروحانیہ میں نزول کرتا ہے اس مرتبہ میں عارف تو اس مقصد اس مقید جمال کو دیکھ کر بایں خیال اس کا والا و شیدا ہو جاتا ہے کہ یہ جمال حق تعالی ہی کا ہے جس نے مظہر حسی یا روحی کی طرف نزول فرمایا ہے لیکن غیر عارف اس جمال کو دیکھ کر باین حیثیت فریفتہ ہوتا ہے کہ یہ خوبصورتی اور جمال اسی مشاہد اور مرئی چیز کا ہے اور ان دونوں اعتباروں میں جو فرق ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ اور جب یہ ہے تو پہلے اعتبار کو عشق اور عبادت کہتے ہیں اور دوسرے کو فسق کو غباوت اب رہی یہ بات کہ جب بعض صوفیوں کے نزدیک ظاہری حسن و جمال پر فریفتہ ہونا اور جمال مقید سے دل بستگی حاصل کرنا جائز ہے تو پھر مشائخ ایسے لوگوں پر کیوں طعن کرتے اور انہیں مذمت و برائی کے ساتھ کس لیے یاد کرتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے لوگوں پر مشائخ کا طعن کرنا صرف محجوبین کی اصلاح حال کے لیے ہے تاکہ ان کے لیے یہ دستور نہ پڑ جائے اور عادت درزیہ میں داخل نہ ہو جائے اور جو راستہ واضح اور ظاہر ہے وہ ان سے مستور و مخفی نہ رہے اور حق بات یہ ہے کہ گو صور ظاہریہ پر شیفتہ ہونا اہل بصیرت کے لیے جائز اور مباح ہے لیکن اس پر ہمیشگی اور مداومت کرنا اورآخر عمر تک اسی میں منہمک رہنا اہل تصوف کے نزدیک ناپسندیدہ ہے کیونکہ یہ کمال نقصان ہے اس کے علاوہ اس بارے میں اہل کمال سے کوئی روایت بھی مروی نہیں ہے بلکہ اس بحضور سے نکلنا اور اس خطرناک مقام سے عبور کر جانا نہایت ضروری اور اہم بات ہے