آداب شیخ (باب ہفتم)

 آداب شیخ کے عنوان سے  باب  ہفتم میں  حکمت نمبر66 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
  شیخ کے آداب :۔ آٹھ ہیں۔ چار ظاہری۔ اور باطنی۔ چار ظاہری آداب یہ ہیں :۔
پہلا ادب:۔ اس کے حکم کی تعمیل کرنی ۔ اگر چہ اس کے سامنے اس کے خلاف ظاہر ہو۔ اور اس کے منع سے پر ہیز کرنا۔ اگر چہ اس میں اس کی موت ہو۔ کیونکہ شیخ کی غلطی مرید کے درست سے بہتر ہے۔
دوسرا ادب:۔ اس کے سامنے بیٹھنے میں سکون اور وقار کا لحاظ رکھنا۔ پس ۔ نہ اس کے سامنے ہنسے۔ نہ اس کی آواز پر اپنی آواز بلند کرے ۔ اور جب تک اس کی اجازت نہ ہو بات نہ کرے۔ یا کسی قرینہ سے اس کی اجازت معلوم ہو ۔ جیسا کہ مذاکرہ پست و نرم اور آہستہ آواز کے ساتھ ۔ نہ اس کے ساتھ کھانا کھائے ۔ نہ اس کے سامنے کھائے ۔ نہ اس کے ساتھ سوئے ۔ نہ اس کے قریب سوئے ۔ ہمارے شیخ الشیوخ سیدی علی رضی اللہ عنہ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے شیخ کے ساتھ مرید کے آداب یہ ہیں نہ اس کے ساتھ کھائے ان اس کے ساتھ سوئے نہ اس کے سامنے ہنسے نہ اس کے بستر میں سوئے ، نہ اس کے بیٹھنے کی جگہ پر بیٹھے ۔ اور شیخ کی مجلس میں ایک بات بھی نہ کرے۔ اور شیخ کے بارے میں بات کرنا سب سے بڑی ہے ادبی ہے ۔ اور جو چیز بھی ان اوصاف کے مشابہ ہو۔ وہ شیخ کی عدم تعظیم اور تحقیر کی طرف لے جاتی ہے اور یہ کھلا ہوا گھاٹا ہے۔ اور بخشش کے بعد چھن جانے اور سامنا ہونے کے بعد بھگانے سے میں اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں ۔ بزرگوں نے فرمایا ہے:۔ تم اپنے عمل کو نمک بناؤ۔ اور اپنے ادب کو آٹا ۔ اور شاعر نے فرمایاہے۔
أَدَبُ الْعَبْدِ تَذَلُّلٌ وَالْعَبْدُ لَا يَدَعَ الأدب
بندے کا ادب عاجزی ہے۔ اور بندہ ادب کو نہیں چھوڑتا ہے۔
فَإِذَا تَكامَلَ ذُلّهُ نَالَ الْمَوَدَّةَ وَاقْتَرَبْ
جب اس کی عاجزی مکمل ہو جاتی ہے تو وہ دوستی کو پالیتا ہے اور قریب ہو جاتا ہے۔
تیسرا ادب اس کی خدمت گزاری کی طرف حتی الامکان اپنی جان ، اور مال ، اور قول سے سبقت میں جلدی کرنا ہے۔ کیونکہ اللہ والوں کی خدمت، اللہ تعالیٰ کے وصال کا سبب ہے۔
سیدی عبداللہ ھبطی زجلی رضی اللہ عنہ نے سلوک سے متعلق اپنے ایک نظم میں فرمایا ہے:۔
إِنَّ الْخَدِيمَ ظَنَّهُ جَمِيلٌ دَلَّ عَلَى فَلَاحِهِ دَلِيلٌ
خادم کا بہتر گمان اس کی کامیابی کی بڑی دلیل ہے
أَهَّلَ نَفْسَهُ لِخِدْمَةِ الرِّجَالِ لِكَى يَنَالَ مِنْ حَبِيبِهِ الوِصَالَ
اس نے اپنے نفس کو اہل اللہ کی خدمت کے لئے آمادہ کیا تا کہ اپنے دوست کا وصال حاصل کرے۔
ذل الْمَحِب في طلبِ الْقُرْبِ عَزَّ عَزِيزُ عِنْدَ اهْلِ الْحُبْ
قرب کی طلب میں محبت کرنے والے کی ذات۔ ایسی عزت ہے جو محبت والوں کے نزدیک محبوب ہے۔
اتى بُيُوتَ الْقُرْبِ مِنْ أَبْوَابِهَا فَتِحَتْ لَهُ إِذَابِا سْرِهَا
وہ قرب کے گھروں میں اس کے دروازوں سے آیا۔ تو اس کے لئے دروازے کھول دیئے گئے ۔اب وہ ہر دروازہ اس سے داخل ہو سکتا ہے
طُوبَى لَهُ بُشْرَى لَهُ اسْتَفَادَ وَنَالَ خَيْرَ قُرْبَةٍ وَسَادَ
اس کے لئے بہتری اور خوشخبری ہے جس نے فائدہ حاصل کیا۔ اور قرب کی بھلائی پائی اورسردار ہوا۔ پھر فرمایا:
مَقَامَكَ أعْرِفْ أَيُّهَا الْخَدِيمُ فَإِنَّهُ مُفْخِمٌ عَظِيمٌ
اے خادم تو اپنے مقام کو پہچان۔ کیونکہ وہ بہت بلند اور عظیم الشان ہے
امُسَيْتَ لِلْمَخْدُومِ فِي جَوَارِهِ مُشَارِكًا كَذَاِكَ فِي أَسْرَارِهِ
تو مخدوم کے لئے اس کا پڑوسی ہو گیا۔ اور اس طرح اس کے اسرار میں تو شریک ہو گیا۔
لَا تَغْتبَطُ سِوَى مَقَامِكَ الرَّفِيعِ فَالْخَيْرُ كُلَّةَ لِدَيْكَ جَمِيعُ
اپنے بلند مقام کے سوا کچھ آرزو نہ کر۔ کیونکہ ساری بھلائی تیرے پاس جمع ہے۔
چوتھا ادب:۔ اس کی مجلس میں ہمیشہ حاضر رہنا۔ اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو بار بار پہنچنا ۔ اس لئے کہ اس کے پاس بارہا پہنچنے کے اندازے سے وصول قریب ہوتا ہے۔ کیونکہ شیخ کی مدد نہر یا رہٹ کی طرح جاری رہتی ہے۔ تو جب نہر ، یا رہٹ سے غافل ہوتا ہے۔ تو اس میں سوراخ ہو جاتا ہے۔ اور پانی اس کی طرف سے منقطع ہو کر دوسری طرف بہہ جاتا ہے۔ نیز بار بار پہنچنا محبت کے زیادہ ہونے کی دلیل ہے۔ اور محبت کی زیادتی کے مطابق ہی پینا ہوتا ہے۔ اور اس حقیقت کے بارے میں ہمارے شیخ الشیوخ حضرت مجذوب رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔
لا مَحَبَّةَ إِلَّا بِأصُولٍ – وَلَا وُصُولَ إِلَّا غَالِى
وَلَا شَرَابٌ إِلَّا مَخْتُومُ – وَلَا مَقَامَ إِلَّا عَالِى
محبت اصول کے ساتھ ہے پہنچنا بھاری ہے۔ شراب مہر لگی ہوئی ہے۔ اور مقام بلند ہے ۔
اور ہمارے شیخ الشیوخ سیدی علی الجمل رضی اللہ نے اپنی کتاب میں فرمایا : ۔ تم کو معلوم ہونا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے طالب کو عارف باللہ کی صحبت سے زیادہ کوئی شے قریب نہیں کرتی ہے۔ اگر اس کو پا جائے ۔ پھر فرمایا:۔ عارف باللہ کی صحبت :۔ عزلت سے افضل ہے۔ اور عزلت :۔ غافل عوام کی صحبت سے افضل ہے۔ اور غافل عوام کی صحبت :۔ جاہل فقیر کی صحبت سے افضل ہے۔ جس طرح عارف باللہ ایک نظر یا ایک لفظ سے مرید کواللہ تعالیٰ سے ملا دیتا ہے۔ اسی طرح جاہل باللہ فقیر ایک نظر یا ایک لفظ سے اکثر مرید کو اللہ تعالیٰ سے دور کر دیتا ہے اور اس سے زیادہ بھی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سیدی مجذوب پر رحمت نازل کرے انہوں نے فرمایا ہے:۔ غیر صالح: کی صحبت ذلیل کرتی ہے اگر چہ صاف ہو۔
چار باطنی آداب یہ ہیں ۔
اول:۔ اس کے کمال کا اعتقاد رکھنا اور یہ کہ وہ شیخ ہونے اور تربیت دینے کا اہل ہے ۔ اس وجہ سے کہ وہ شریعت و حقیقت اور جذب وسلوک کا جامع ہے اور یہ کہ وہ نبی ﷺ کےقدم پر ہے۔
دوم:۔ اس کی تعظیم کرنا۔ اور اس کی عزت وحرمت کا لحاظ رکھنا ۔ وہ غا ئب ہو ۔ یا حاضر ۔ اور اس کی محبت کی تربیت اپنے قلب میں کرنا ہے اور یہ اس کے صدق کی دلیل ہے۔ اور صدق کے مطابق ہی حقیقت تک رسائی ہوتی ہے۔ پس جس شخص کو صدق حاصل نہیں ہے۔ اس کو سیر بھی حاصل نہیں ہوتی ہے۔ اگر چہ وہ شیخ کے ساتھ ہزار سال رہے۔
سوم: اپنے عقل اور مرتبہ، اور علم وعمل سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہے۔ مگر جو کچھ اس پر اس کے شیخ کی طرف سے وارد ہو۔ جیسا کہ ہمارے شیخ طریقت حضرت شاذلی رضی اللہ عنہ نے اپنے شیخ سے ملاقات کے وقت کیا۔ تو ان کے طریقے میں یہ ان کی سنت ہے۔ پس اس طریقہ ، شاذلیہ میں جو شخص بھی اپنے شیخ کے پاس آئے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ شیخ کے پاس پہنچنے سے پہلے اپنے علم و عمل سے غسل کرلے۔ تاکہ اس کی کامل مدد کی دریا سے پاک وصاف پانی حاصل کرے۔
چہارم: اس کے پاس سے اس کے غیر (دوسرے شیخ ) کی طرف انتقال کے وقت ہے۔ اور یہ ان کے نزدیک کل بری چیزوں سے برا ہے۔ اور یہ ارادت کے بیج کو خراب کرنے کا سبب ہے۔ پس ارادت کا درخت اپنی اصل کی خرابی کی بناء پر خراب ہو جاتا ہے۔ اور یہ سب تربیت کے شیخ کے ساتھ ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ لیکن اہل ظاہر شیخ کے پاس سے اہل باطن شیخ کی طرف ، اگر مل جائے ، منتقل ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور کسی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ واللہ اعلم ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں