آداب مرشد

اَدَّبَنِيْ رَبـِّيْ فَاَحْسَنَ تَاْدِيْبِـيْ
یعنی مجھے میرے رب نے ادب سکھایا اور بہت اچھا ادب سکھایا۔

آداب مرشد

جس میں عقلی و نقلی دلائل سے مرشد کی ضرورت اور اس کے آداب سے بحث کی گئی۔
جامع :محمد عبد الغفور عابدی

مرشد کی ضرورت

دنیا کی ہر چیز جو ہم دیتے ہیں اس کے دو حصے ہیں
(1)ظاہر (2) باطن

ظاہری حصص کے علم سے صرف ظواہرہی پر عبور ہوتا ہے باطن پر نظرنہیں پڑتی اور جب تک باطنی حصہ پر عبور نہ ہو قدرت کی مخفی حکمتوں کا انکشاف نہیں ہو سکتا ۔ ہر شخص مناظر قدرت اور نظام عالم کو دیکھتا ہے لیکن کتنے ایسے ہیں جو ان مناظر و مظاہر کی پوشیدہ طاقوں کا پتہ لگاتے ہیں ہم کبھی کبھی بجلی کوندتے اور بادل گرجتے دیکھتے ہیں۔ لیکن ہم میں سے کتنے لوگوں نے ان کے حقائق اور مخفی آثار سے روشنی حاصل کی ہے۔ مشاہیر میں سے چند ہی ایسے لوگ نکلتے ہیں جو ان منازل تک پہنچتے ہیں ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ (یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے). ہرشخص ہر ساعت اپنی قوتوں کو( اپنے جذبات کے تحت )کام میں لاتا ہے لیکن کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان لوگوں میں سے کتنے علم الفن والقوی پر بحت کر کے دلائل لانے کے قابل ہیں اور کتنے ایسے ہیں جو فلسفہ دماغی (مینٹل فلاسفی) کے ماہرین کروڑوں میں سے چند ہی ایسے نکلیں گے اور ہم میں سے تو بہت کم باطن بین ہیں۔
اہل مذاہب اور اہل فلسفہ دونوں بالاتفاق اس امر کو مانتے ہیں کہ انسانی ہستی دو حصے ہیں۔
(1)جسمانی (2) روحانی ۔ اور دونوں حصص کی تعلیمی کیفیات جدا گانہ حیثیت رکھتی ہیں جس طرح ہمیں اپنی ظاہری تربیت کی ضرورت ہے اسی طرح تزکہ روحانی کی بھی حاجت ہے ۔
ہم اپنے اعضا کا ظاہری طور پراندازہ لگاتے ہیں لیکن باطنی جذبات کی نسبت ماہر فن کی مد د کے بغیر کچھ نہیں کہہ سکتے ایک فہیم ا ور ذکی انسان یہ کہہ سکتا ہے کہ انسان کی اندرونی مشین ان مختلف رنگوں میں کام کرتی ہے لیکن ایک ماہر علم الفن والقوی یا ماہرسایئکالوجی (نفسیات )کی طرح تفصیل اور دلیل کے ساتھ انسان کی اندرونی قوتوں جذبوں پر روشنی نہیں ڈال سکتا ۔
اخلاق حسنی اور اخلاق جلالی ہمیں تہذیب النفس کی تعلیم تودے سکتی ہیں لیکن ان سے تزکیہ نفس کا روحانی سبق ہم کو استاد کے بغیر نہیں مل سکتا ۔ حواس خمسہ ظاہری کی صحت اور اصلاح کی ضرورت ہے تو کیا اسی طرح حواس باطنی کے صحت کی حاجت نہیں ؟ اگر نفسانی اور جسمانی شعبہ میں ہمیں کسی ماہرو استادکی ضر ورت پیش آتی ہے تو کیا روحانی شعبہ میں کسی ماہر کی ضرورت نہیں۔
علمی مراحل کے لئے ہم اُستاد اور ابتدائی قواعد کی تلاش میں رہتے ہیں مگر روحانیت کے نصاب کے مطالعہ کی پروا بھی نہیں کرتے چشم انصاف سے دیکھیں تو ثابت ہو جائیگا کہ ہم کسی صورت میں مرشد اور ر ہبر کے بغیرعلم باطنی پر عبور حاصل نہیں سکتے۔
ایک زنگ آلود برتن کی قلعی کرنے کے واسطے ایک قلعی گر کی ضرورت پڑتی ہے اور ہم اسے بازاروں میں تلاش کرتے ہیں لیکن افسوس دل کے صاف کرنے کی واسطے کسی کاریگر کی ضرورت خیال نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ وہ خود بخود صاف ہو جائیگا۔ سخت غلطی ہے جو آج کل عالمگیر ہے میں ایسے لوگوں سے سوال کرتا ہوں کہ کیا اُن کا کوئی کام بغیر شیخ کی مد دکے پورا ہوا کرتا ہے اورکیا روزمرہ کے چھوٹے چھوٹےکاموں میں خارجی امداد کی ضرورت نہیں ہوتی ۔
افلاطون جسں پایہ کا حکیم تھا۔ دنیا جانتی ہے لیکن جب اس نے دیکھا کہ بغیراستاد کے چارہ نہیں تو ارسطو کی شاگردی قبول کرلی علی ہذالقیاس کل فلسفیوں اور نامورحکیموں کایہی حال رہا ہے کہ ہر ایک کو دوسرے کامل کا دروازہ دیکھنا پڑا ہے ۔
دور حاضرہ کے مایہ ناز ایجادات ٹیلیگراف فوٹو گرافی الیکٹر سٹی۔ جیسے فنون دیکھنے کے واسطے ایک ہوشیار کاریگر اور استاد کی تلاش لزومات سے ہے ریاضی کے واسطے ایک مستند ریاضی دان کی شاگردی لازمی لیکن علوم باطنی کے رشد و ہدایات کیلئے مرشد کی ضرورت نہیں۔
جس طرح مادی قوت ہے ایک روحانی قوت بھی ہے روحانی سلسلہ کے و اسطے بھی مادی سلسلے کی طرح آداب وقیود و قوانین کی ضرورت ہے جس طرح بتدریج انسان کاجسم نشو نما پاتا ہے اسی طرح روح بھی نشو و نما پاتی ہے اور اس کے واسطے بھی ایک منتہائے کمال کی ضرورت ہے جب ہر خلقت دو حصے ظاہر اور باطن رکھتی ہے تو دونوں حصوں کے کوائف اور خصوصیات جدا گاہ حیثیت رکھتے ہیں اور دونوں عارف اور حامل بھی جدا گا نہ ہیں اور خصوصیت ہم رنگ میں دیکھتے ہیں ۔
سیاسی قوانین کم و بیش ساری رعایا پڑھتی ہے اور عدالتوں میں بھی پڑھے جاتے ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ قانونی نکات سے قانون دان ہی اچھی طرح واقف ہوتے ہیں اور ان کی شروح اور تعبیرات مستند اور مقبول عام ہوتی ہیں بخلاف اس کے عام لوگ قو انین سیاسیہ کےالفاظ سے تو واقف ہوجاتے ہیں مگران کی تہہ تک نہیں پہنچتے۔
اکثر دیکھاگیاہے کہ اک شخص بظاہراپنے بدن پرکوئی غدود نہیں رکھتا مگرا سکے درد کی تکلیف سے ہمیشہ بے قرار رہتا ہے ڈاکٹر کو دکھاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اندرون جسم کو غدود ہے ۔
یہی حال مرشد کا ہے وہ مریدوں کی اندرونی حسن وقبح سے واقف ہوتا ہے اور تزکیہ نفس کی تعلیم دیتا ہے اور رفتہ رفتہ ان امور و اسرار سے واقف کراتا ہے جس سے اندرونی قوتوں اور جذبوں کی قدر و قیمت کا پتہ لگتا ہے۔
اسلام نے رہبانیت کو خارج کیا ہے مگر اس سے منع نہیں کیا کہ ہم روحانیات میں کسی پیر کامل کے وسیلہ سے ترقی نہ کریں اور وہ راستہ طے نہ کریں جو روحانی منزل کے سفر میں پیش آتے ہیں حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا محترم ارشاد من عرف نفسہ فقد صدیوں سے اثر پذیر ہے کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ بغیر کسی روحانی ڈاکٹر کے کوئی اور بھی نفس کی حقیقت سے آگاہ کر سکتا ہے ہم تو بغیر ڈاکٹر کی مدد کے اپنے ایک ادنی عضو کی تشریح بھی نہیں کر سکتےچہ جایئکہ نفس کی حقیقت پر بغیر کسی روحانی طبیب کے عبور کر جائیں۔
اس دور فلسفہ میں جب ہم ہر بات میں کسی رہبر کے متلاشی رہتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم روحانیت کے رہنماؤں کی ضرورت سے انکار کریں ۔بیعت کی فلاسفی اور طلب رشد کی حکمت سے انکار کرنا ان واقعات سے منکر ہونا ہے جو 1400 سال سے اس رنگ میں اسلامی جماعتوں میں ظہور پذیر ہو رہے ہیں کیا صوفیاء کرام علماء کی فہرست میں داخل نہیں ہیں کیا علماء کرام نے مشائخین کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی اور ان کی عظمت کو تسلیم نہیں کیا۔
اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس میں ایسے نفوس مقدسہ کم و بیش ہر زمانہ میں موجود رہے یہ زمانہ بھی ایسے نفوس مقدسہ سے خالی نہیں ہو سکتا گو تزکیہ اخلاق کے احکام شریعت میں مذکور ہیں لیکن محض احکام کے جاننے سے تزکیہ اخلاق نہیں ہوتا علماء ظاہر اخلاق کی حقیقت و ماہیت سے بخوبی واقف ہوتے ہیں لیکن خود ان کے اخلاق پاک نہیں ہوتے یہ مرتبہ مجاہدات اور فنائے نفس سے حاصل ہوتا ہے اور اسی کا نام طریقت یا تصوف ہے۔
جس طرح علوم ظاہری کے سیکھنے کا ایک خاص طریقہ مقرر ہے جس کے بغیر وہ علوم حاصل نہیں ہو سکتے اسی طرح اس علم کا بھی ایک خاص طریقہ ہے جب تک اس طریقہ کا تجربہ نہ کیا جائے اس کے انکار کرنے کی وجہ نہیں سینکڑوں بزرگ جن کے فضل و کمال سے کوئی انکار نہیں کر سکتا نہایت وثوق اور اذعان سے اس بات کی شہادت دے رہے ہیں کہ علم باطن بھی ایک علم ہے تو ان کی شہادت پر کیوں نہ اعتبار کیا جائے سینکڑوں ایسے علماء گزرے ہیں جن کو علم باطن سے قطعا انکار تھا لیکن جب وہ اس کوچے میں آئے اور خود ان پر وہ حالت طاری ہوئی تو وہ سب سے زیادہ اس کے معترف بن گئے ۔
حضرت موسی علیہ السلام جیسے اولو العزم پیغمبر کو بھی روحانیات میں خضر علیہ السلام کی رہبری حاصل کرنی پڑی صحیح بخاری میں ہے حضرت موسی علیہ السلام ایک مرتبہ بنی اسرائیل کے ایک بڑے بہت بڑے مجمع میں کھڑے ہوئے وعظ فرما رہے تھے کہ کسی شخص نے سوال کیا کہ اے موسی علیہ السلام کوئی شخص دنیا میں تم سے زیادہ عالم بھی ہے موسی علیہ السلام نے زمانہ حال کے ارباب ظاہر کی طرح نفی میں جواب دیا خدا تعالی کو حضرت موسی علیہ السلام کا یہ دعوی ہمہ دانی نہایت شاق گزرا وحی آئی کہ
اے موسی ہمارا ایک بندہ اور بھی ہے جو تم سے زیادہ عالم ہے تم اس کے پاس جاؤ حضرت موسی کو جب حضرت خضر علیہ السلام کا حال معلوم ہوا تو آپ کو ان سے ملنے کا بے حد اشتیاق ہوا چنانچہ اس کا ذکر قرآن پاک میں یوں آیا ۔
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا
موسی علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا کہ میں برابر چلتا رہوں گا یہاں تک کہ دو دریاؤں کے ملنے جگہ پہنچ جاؤں اور( اگر وہاں پہنچ گیا تو خضر علیہ السلام سے ملاقات ہو جائے گی) یا نہ پہنچا اس طرح ایک مدت دراز تک چلتا رہوں گا ۔
دیکھو موسی علیہ السلام باوجود علم و فضل کہ خضر علیہ السلام کی طلب میں مجمع البحرین تک کا سفر گوارا فرما رہے ہیں واقعی علم ہونے کے بعد بھی ہم کو ایک خضر منش بزرگ کی بڑی ضرورت ہے تاکہ اس کی صحبت میں رہ کر اس کا علم حاصل کیا جائے جیسا کہ اس آیت سے مستنبط ہوتا ہے اب رہا یہ کہ اس علم کا کیا ثبوت ہے سو اس سوال کا حل اس آیت میں موجود ہے۔
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَاۤ اٰتَیْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا
موسی علیہ السلام اور ان کے خادم دونوں نے جب بندوں میں سے ایک بندہ کو پایا جسے ہم نے اپنے پاس سے رحمت عطا کی تھی اور اسے اپنے پاس کا علم سکھایا اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ خضر علیہ السلام کو ایک ایسا علم دیا گیا ہے جس کو خدا اپنے پاس کی رحمت فرماتا ہے رہی یہ بات کہ اس علم کا کیا نام ہے سو اس کے لیے یہ آیت پیش کی جا سکتی ہے ۔
قَالَ لَهٗ مُوْسٰى هَلْ اَتَّبِعُكَ عَلٰۤى اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا
موسی علیہ السلام نے خضر سے کہا کیا میں اس امید پر آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں کہ آپ مجھے اس میں سے کچھ سکھا دیں جو آپ کو رشد سکھایا گیا ہے یہ آیت صاف طور پر بتا رہی ہے کہ اس علم کا نام عربی میں رشد ہے اور اسی مناسبت سے اس کے عالم یا معلم کو مرشد کہا جاتا ہے۔
قران شریف میں دوسری جگہ مرشد کا لفظ ولی کی نسبت صفت کے ساتھ بہترین معنوں میں آیا ہے خدا فرماتا ہے
مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِوَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا
جسے اللہ ہدایت کرے وہی ہدایت یافتہ ہے اور جسے وہ گمراہ کرے( اے نبی )تم ہرگز اس کا کوئی دوست اور ہدایت کرنے والا نہ پاؤ گے ۔
آیت بالا پر غور کرنے سے یہ اچھی طرح واضح ہو سکتا ہے کہ ہم کو مرشد کی کہاں تک ضرورت ہے اور نیز یہ آیت خاص طور پر بتا رہی ہے کہ بغیر مرشد کی رفاقت کے آدمی گمراہ ہو جاتا ہے۔
صوفیاء کرام نے اسی بنا پر کہا ہے کہ ‌من ‌لَا ‌شيخ ‌لَهُ فشيخه الشَّيْطَان(جس کا کوئی رہبر نہیں ہوتا اس کا رہبر شیطان ہوتا ہے)بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ خضر کو علم وغیرہ کچھ بھی نہیں دیا گیا تھا صرف دو تین باتیں معلوم کرا دی گئی تھیں یہ محض ان لوگوں کی مجرد رائے ہے ہم کو دیکھنا یہ ہے کہ اس بارے میں حدیث نبوی کیا کہتی ہے اور حدیث بھی وہ صحیح بخاری کی جسے اصح الکتاب بعد کتاب اللہ کہا جاتا ہے اس میں رسول کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کا قول صاف طور پر مرقوم ہے کہ جب موسی علیہ السلام نے خضر علیہ السلام سے علم سیکھنے کی درخواست کی تو خضر نے فرمایا موسی خدا نے تم کو ایک علم دیا ہے اور ایک مجھے عنایت فرمایا ہے جو علم تمہیں حاصل ہے وہ مجھے میسر نہیں اور جو مجھے نصیب ہے وہ تم کو نہیں دیا گیا اس حدیث سے صاف طور پر عیاں ہو رہا ہے کہ یہ ایک علیحدہ علم ہے جو موسی علیہ السلام کو اس سے پہلے نہیں دیا گیا تھا رہا یہ کہ یہ علم کیسا ہے اور کیونکر حاصل کیا جاتا ہے اور اس علم سے کیا کیا باتیں ظہور میں آتی ہیں اس کے لیے طوالت چاہیئے بالفعل اس کے مختصر فوائد آپ قرآن ہی میں دیکھیں کہ خضر علیہ السلام نے موسی علیہ السلام کو اپنے ہمراہ لے کر کیا کیا کام کیے عملی طور پر علم رشد کا فائدہ پیش کر دیا کہیں تو کشتی توڑ دی اور فرمایا کہ ایک ظالم بادشاہ اس طرف آرہا تھا جو نئی کشتیوں کو اپنے کام میں مفت جبرا ًلیتا تھا حالانکہ کشتی ابھی اس کے ملک کو نہیں پہنچی تھی کہ پہلے سے اسے معلوم کر لیا اور کہیں ایک لڑکے کو مار ڈالا اور فرمایا کہ اس کے ماں باپ نیک بخت اور ایماندار تھے اور اس کی وجہ سے ان پر کفر کا خوف تھا حالانکہ وہ لڑکا نابالغ تھا اس کی آئندہ چل کر جو باتیں ہونے والی تھیں وہ ابھی سے معلوم کر لیں اور کہیں گرتی ہوئی دیوار بغیر اسباب ظاہری کے سیدھی کر دی حالانکہ دیوار ابھی نہیں گری تھی گرنے سے پہلے جان لیا کہ وہ بہت جلد گر جانے والی ہے اور جو مخفی دفینہ اس کے نیچے موجود تھا اسے بھی معلوم کر لیا اور یہ بھی جان لیا کہ یہ مال یتیموں کا ہے جو ان کے ماں باپ نے ان کے لیے رکھ چھوڑا ہے اور یہ بھی معلوم کر لیا کہ دیوار گرنے کے بعد یہ مال دوسرے کے قبضہ میں چلا جائے گا اور یہ حقدار محروم رہیں گے۔
بہرحال خضر نے کسی جگہ وقعات آئندہ کو معلوم کر لیا اس کو غیب سے تعبیر کیاجا سکتا ہے اور بغیر اسباب ظاہری کے گرتی ہوئی دیوار بنا دی جس کو خرق عادت کہا جاتا ہے اور خرق عادت نبی سے ہو تو معجزہ اور ولی سے ہو تو کرامت اور جو کافر سے ہو تو استدراج کہا جاتا ہے اور نیز مخفی دفینہ کو دیکھ لیا جس کو مکاشفہ کہتے ہیں پس یہ وہ ساری باتیں جو خضر علیہ السلام نے علم رشد کے ذریعے سے حضرت موسی علیہ السلام کے سامنے عملی طور پر ظاہر کر دی اور دوسرے الفاظ میں یہ بات بھی ثابت ہو گئی یہ بغیر اس علم کے ایسی باتیں حاصل بھی نہیں ہو سکتی اسی علم میں رشد کو ہمارے زمانے میں طریقت یا تصوف یا سلوک سے نامزد کیا گیا ہے ۔
اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ علم خضر علیہ السلام کو ہوا اور حضرت موسی علیہ السلام کو بھی ان کے ذریعے نصیب ہوا مگر کیا ہمارے سید المرسلینﷺ کو نہ ہوا اور کیا اس لیے کہ آپ کی امت جو خیر الانام ہے اور آپ کے علماء جو بنی اسرائیل کے انبیاء کی مثیل ہیں محروم رہیں حاشا وکلّا ایسا تو ہرگز نہیں ہو سکتا تمام مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ جو باتیں تمام انبیاء علیہم السلام کو فردا ًفردا ًعطا ہوئی تھیں وہ تمام وکمال آپ کو ملی اسی واسطے آپ کے ورثا علماء ہیں جو ایسی باتیں حاصل کر کے دنیا کی عبرت کے لیے انبیاء سابقین کی طرح حیرت انگیز معاملے ظاہر کرتے ہیں اب ہم اس کے ثبوت میں چند احادیث پیش کرتے ہیں۔
ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دو علم یاد کیے( یعنی سیکھے) ایک وہ علم ہے جس کو میں نے ہر خاص وعام کو بتایا اور دوسرا علم وہ ہے اگر میں اس کو ظاہر کر دوں تو (بوجہ افشا ئےراز )میری گردن اڑا دی جائے ۔
اس حدیث سے دو امر مستنبط ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت ﷺ سے دو قسم کے احادیث پائے تھے جن میں بعض علوم ظاہر کے متعلق تھے اور بعض کا تعلق علم باطنی سے تھا
یا یہ کہ جو احادیث سنے تھے ہر حدیث میں دو معنی ظاہر وباطن کے پائے تھے یہ دونوں صورتیں صحیح ہو سکتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ جن احادیث کا تعلق احکام ظاہر سے تھا اس کی عام طور پر اشاعت کی اور جو احادیث اسرار باطن سے متعلق تھیں یا عام فہم نہ تھے اس کے معنی و مطالب خواص ہی تک محدود رکھے۔
بعض لوگوں نے علم ثانی سے علم باطنی مراد لینے میں دو وجہ سے اختلاف کیا ہے پہلا یہ کہ علم ثانی سے علم باطنی مراد لی جائے تو اس سے حضرت ابوہریرہ کی تخصیص پائی جائے گی اور لازم آئے گا کہ دوسرے صحابہ اس علم سے بے بہرہ تھے حالانکہ یہ صحیح نہیں دوسرے یہ کہ باوجود علم دین کے پوشیدہ کرنے کی مذمت وارد ہونے کے حضرت ابو ہریرہ نے اس علم کو کس طرح پوشیدہ رکھا یہ اعتراضات الفاظ حدیث پر غور کرنے سے خود بخود مرتفع ہو جاتے ہیں کیونکہ آپ نے یہی کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے دو ظرف علم کے لیے یعنی دو قسم کے احادیث کو سنا یا جن احادیث کو پایا اس کے دو معنی مجھے بتائے گئے ایک کی میں نے عام طور پر اشاعت کی اور دوسرے کو خواص تک محدود رکھا پس اس سے آپ پر علم باطنی کا حصر لازم نہیں آتا اور ظاہر ہے کہ کسی بات کو عوام پر ظاہر نہ کرنا خواص سے چھپانے کی دلیل نہیں ہو سکتی البتہ یہ دوسرا علم جس کو اشارہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کر رہے ہیں وہ علم باطنی ہے ۔
حسن بصری فرماتے ہیں کہ علم دو ہیں ایک علم تو دل میں ہے اور یہی علم نفع دیتا ہے اور دوسرا علم زبان پر ہے اور یہ اللہ جل شانہ کے ہاں حجت ہے دارمی۔
ملا علی قاری اس روایت کی یوں تشریح فرماتے ہیں کہ اول علم کو علم باطن کہتے ہیں اور دوسرے علم کو علم ظاہر لیکن علم باطن اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک ظاہر کی اصلاح نہ کی جائے اور علم ظاہر مکمل نہیں ہوتا جب تک باطن کی اصلاح نہ ہو۔
اَلإِحْسَانُ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ، كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنَّكَ إِنْ لَا تَرَاهُ، فَإِنَّهُ يَرَاكَ
ایمان اور اسلام کے بعد نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد فرمانا ہے کہ احسان یہ ہے کہ اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو اگر تم اسے نہیں دیکھتے تو وہ تمہیں دیکھ ہی رہا ہے اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ علاوہ عقائد ضروریہ اور اعمال ظاہرہ کوئی اور چیز بھی ہے جس کا نام احسان آیا ہے اور پھر اس کی حقیقت بیان کرنے سے معلوم ہوا کہ یہی وہ طریق باطن ہے جس کو علماء باطن نے دنیا کے سامنے پیش کیا کیونکہ بغیر اس طریقے ایسی حضوری ہرگز میسر نہیں آ سکتی چنانچہ اس بارہ میں سینکڑوں معتبر آدمیوں کی شہادت موجود ہے جس کے غلط ہونے کا عقل کو احتمال نہیں ہو سکتا کہ ہم کو اہل باطن کے پاس بیٹھنے سے ایک نئی حالت اپنے باطن میں عقائد فقہ کے علاوہ محسوس ہوتی ہے جو پہلے نہ تھی اور اس حالت کا یہ اثر ہے کہ اطاعت الہی کی رغبت اور معاصی سے نفرت ہو جاتی ہے اور عقائد اسلامیہ روز افزوں پختہ ہو جاتے ہیں یہ اور اس جیسی بہترین باتیں ایسی ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ طریق باطن بھی کوئی چیز ہے الغرض جب تک پیر کامل کی ہم نشینی اختیار نہ کی جائے علوم باطنی کا کشف نہیں ہو سکتا ارباب ظاہر اس کیفیت کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
اس علم کے فوائد میں یہ بھی ہے کہ امراض باطنی مثل کبر و انانیت وغیرہ جو دل میں پیدا ہو جاتے ہیں اس کا ازالہ ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے باطنی مشاغل ایسے ہیں کہ اگر ان کو جاری رکھا جائے تو اس کی جگہ یہ لے لیتے ہیں اور اعلی یہ ہے کہ طالب پر خدا کی ذات کا یقین کامل ہو جاتا ہے اور اسے علم کے ذریعہ جو حیرت انگیز مشاہدے ہوتے ہیں وہ اس کو یقین کامل پر مجبور کر دیتے ہیں بشرطیکہ وہ انصاف کو زیر نظر رکھے یہ امر مسلمہ ہے کہ اسلام ایک مکمل مذہب ہے اس میں ہر قسم کی تعلیم کو ہونا ضروری ہے منجملہ اس کے ایک تعلیم یہ روحانی بھی ہے جس کو ہم نے پیش کر دیا اور اس کے فوائد بھی بتا دیئے گئے ہیں اس کے بعد میں جہاں تک خیال کرتا ہوں ہم کو نہ مسمریزم سیکھنے کی ضرورت اور نہ ہپنٹائزم و فری مشن لاج میں شریک ہونے کی حاجت ہے روحانی تعلیم کا اسلام نے جس انداز میں اہتمام کیا ہے وہ ہر طرح سے طالب کو بے پرواہ کرنے کے لیے کافی ہےاگر خدانخواستہ یہ علم اسلام میں نہ ہوتا تو کل خدا کے سامنے مسلمانوں کو یہ کہنے کا موقع حاصل تھا کہ اسلام میں روحانی تعلیم موجود نہ تھی اس لیے ہم نے مسمریزم و فری مشن لاج وغیرہ میں شرکت کی تھی۔
اب جب کہ اسلام میں روحانی تعلیم موجود ہے تو مسلمانوں کو اس کے حصول کی جانب بہت جلد متوجہ ہو جانا چاہیئے اس پر بھی کوئی مسلمان اس تعلیم کو چھوڑ کر غیر اسلامی تعلیمات سے فائدہ اٹھانے لگے تو یہ اس کی سمجھ ہے جو اس کو گمراہی پر چلانا چاہتی ہے میرے خیال میں مسلمانوں کا اس علم سے بے بہرہ ہونے کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے زمانہ کے بعض خشک مولویوں نے اس علم کا سرے سے انکار کر دیا ہے اور بعض تو صاف الفاظ میں برملا یہ کہنے لگے ہیں کہ یہ اسلامی تعلیم ہرگز نہیں ہے پیری مریدی محض ایک ڈھکوسلہ ہے افسوس ان حضرات نے قرآن و حدیث میں غور نہیں فرمایا اور غور کرتے ہی کیا اسباب نہ دارد ایسے حضرات کا غور کرنا نہ کرنا یکساں ہے ۔
اگر ظاہر بین علماء اس کی قدر کرتے تو وہ لوگ جو روحانیت کی تڑپ اپنے اندر رکھتے ہیں مسمریزم وغیرہ میں ہرگز قدم نہ رکھتے ہماری غفلت کا سبب ہے کہ اس تعلیم سے مسلمان روگردان ہو کر غیر اسلامی تعلیمات میں شریک ہو رہے ہیں یہ ظاہر ہے کہ فری مشن وغیرہ کے حالات کسی پر ظاہر نہیں کیے جا سکتے نہ معلوم اس صورت میں وہاں مسلمانوں کو کس قسم کے شرک اور بدعت کی تعلیم دی جاتی ہے۔
بہرحال میں ان علماء کرام کی خدمت میں دست بدستہ عرض کرتا ہوں کہ وہ براہ کرم میرے معروضہ پر ٹھنڈے دل سے غور کریں اگر کسی وجہ سے اس علم کو حاصل نہ کر سکیں تو خیر مگر کم سے کم اس کی نفی بھی نہ کریں اور اپنے حلقہ اثر میں اس کی اشاعت کریں کہ ایک علم اسلام میں ایسا بھی ہے جو مسمریزم وغیرہ سے بے پرواہ کر سکتا ہے۔

مرشد کے آداب

کردم از عقل سوالے کہ بگو ایمان چیست
عقل در گوش دلم گفت کہ ایمان ادب است
میں نے عقل سے سوال کیا کہ تو یہ بتا کہ “ایمان” کیا ہے؟ عقل نے میرے دل کے کانوں میں کہا ایمان ادب کا نام ہے۔
(1)مرشد کے ساتھ احسان کرنا چاہیئے ۔
(2)اس کی بات پر اف تک نہ کریں اگرچہ وہ تلخ ہی کیوں نہ ہو۔
(3) شیخ کو جھڑکے نہیں
(4)مرشد کے ساتھ بعجز وا نکسار پیش آئے ۔
(5)تعظیم کے ساتھ گفتگو کریں الفاظ کریمانہ ہوں ۔
(6)شیخ کے حق میں دعائے خیر کرے۔
خدا فرماتا ہے
وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًااِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا
اور ماں باپ کے ساتھ سلوک کرو اگر وہ تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں( ماں ہو یا باپ) ان کو اف تک نہ کہو اور نہ جھڑ کو اور ان سے تعظیم کے ساتھ بات چیت کرو اور ان کے آگے عاجزی سے اپنے بازوں کو ڈالے رکھو اور خدا سے یہ کہو کہ اے میرے پروردگار ان پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے مجھے چھوٹی سی عمر میں پالا پوسا ہے ۔
اگرچہ کہ اس آیت میں ماں باپ کے آداب بتائے گئے ہیں اور ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ ادب کرے لیکن استاد اور مرشد بھی بجائے ماں باپ کے ہیں ثبوت کے لیے یہ احادیث کافی ہے
چنانچہ ترمذی کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے انس رضی اللہ تعالی عنہ کو بیٹا فرمایا حالانکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ آپ کے بیٹے نہ تھے پس ثابت ہوا کہ شاگرد بھی بیٹے کی حیثیت رکھتا ہے اس وجہ سے استاد کو باپ کہا جاتا ہے۔
(مَا أُصَلِّي صَلَاةًإلَّا وَأَنَا أَدْعُو فِيهَا لِلشَّافِعِيِّ امام احمد حنبل فرماتے ہیں کہ میں 30 برس سے اپنے استاد امام شافعی کے واسطے ہر نماز میں درود کے بعد اپنے والدین کے ساتھ دعا کرتا ہوں)
(7) مرشد کے بازو میں برابر ہو کر نہ کھڑے ہو نہ اس کے برابر ہو کر چلے نہ بازو میں بیٹھے نماز کی صف میں بازو رہنا جائز ہےآنحضرت ﷺ ایک دفعہ اکیلے نماز پڑھ رہے تھے ابن عباس نے پیچھے کھڑے ہو کر اقتدا کر لی آنحضرت انہیں اپنے سیدھی جانب برابر کھڑے کرتے تھے اور وہ پیچھے ہٹتے تھے نماز سے فارغ ہو کر آپ نے پوچھا کہ کیوں میرے بازو سے ہٹتا گیا ابن عباس نے عرض کی کہ حضور کیا میں آپ کے برابر کھڑا ہونے کے قابل ہوں آنحضرت ان کے اس ادب سے خوش ہوئے اور دعا دی کہ خدا تمہیں اس کی جزا دے۔
گو حسب تصریحات بعض محدثین اس روایت میں کسی قدر ضعف ہے لیکن دوسرے احادیث کے مطالعہ سے یہ ضعف کی شکایتیں باقی نہیں رہتی ہیں کیونکہ حضرت صدیق اکبر نے جب عین نماز میں یہ معلوم کیا کہ آنحضرت ﷺ تشریف لا رہے ہیں تو محراب سے پیچھے ہٹ آئے حالانکہ حضرت نے ان کو اتمام نماز کا حکم دیا تھا اس کو پورا نہ کیا جب نماز میں اس طرح ادب کو ملحوظ رکھا تو غیر نماز میں کس قدر ادب ہونا چاہیئے۔
اس روایت سے صوفیہ کے ایک اور بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک بعض مواقع میں امتثال امر پر ادب کو ترجیح دی جاتی ہے۔
(8) مرشد کی تعظیم کے لیے جس وقت وہ آئے سر وقد کھڑا ہو جانا چاہیئے۔
سعدبن معاذ جب آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے انصار سے فرمایا کہ تم اپنے سردار کے لیے کھڑے ہو جاؤ سردار دو قسم کے ہوا کرتے ہیں ایک دنیاوی جیسے بادشاہ حاکم وغیرہ دوسرے علماء و صلحاء، مرشد و استاد آنحضرت نے اپنے لیے کھڑے ہونے کی جو ممانعت فرمائی ہے وہ آپ کے کمال انکسار پر محمول ہے اس وجہ سے صرف انکسار کا مسنون ہونا ثابت ہوتا ہے لیکن یہ عدم جواز کی دلیل نہیں ہو سکتی اکابر محدثین کا طرز عمل بھی اس بات کا مؤید ہے چنانچہ امام یحیی عصر کی نماز کے بعد مسجد کے ستون سے تحیہ لگا کر بیٹھتے اور امام احمد اور یحیی بن معین اور علی بن المدنی اور عمر بن علی نمازمغرب تک ان کی خدمت میں کھڑے رہتے اور حدیث اخذ کرتے تھے اور وہ ان لوگوں میں سے کسی کو بیٹھنے کی اجازت نہ دیتے تھے کسی شخص نے امام احمد سے پوچھا آپ کھڑے کیوں رہتے ہیں بیٹھ کیوں نہیں جاتے فرمایا کہ اورعلماء کی تعظیم کا ہم کو حکم ملا ہے
(9) مرشد کی آواز سے اپنی آواز اونچی نہ کرے خدا تعالی فرماتا ہے
لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ
تم اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے اونچی نہ کرو گو یہ آیت آنحضرت ﷺ کےآداب میں آئی ہے مگر اس میں ہمارے لیے بھی تعلیم ہے مرشد استاد بھی آپ ہی کےنائب ہیں اس لیے ہم کو چاہیئے کہ ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ادب کریں آئمہ حدیث نے بھی ایسا ہی ادب کیا دیکھو امام عبدالرحمن بن عمر کی مجلس میں ایک شخص ہنسا تو آپ نے دریافت فرمایا کہ کون ہے لوگوں نے عرض کیا فلاں ہے آپ اس شخص سے ناراض ہو گئے اور فرمایا علم طلب کرتا ہے اور ہنستا ہے ایک مہینہ تک حدیث بیان نہ کروں گا
امام مالک کے شاگرد ان کی نہایت درجہ تعظیم کیا کرتے تھے ان کی محفل میں بہت پست آواز سے بات کرتے تھے اگر احیاناً کبھی کسی کی آواز بلند ہو جاتی تو اس شخص کو محفل سے باہر کر دیتے تھے۔
(10)اپنے شیخ کو نہایت تعظیم و احترام کے ساتھ خطاب کرے مثلا یا سیدی یا مولائی یا اس جیسے اور الفاظ ۔
صحابہ کا معمول تھا کہ آنحضرت کو نام سے پکارتے تو خدا نے ان کو ادب دینے کے واسطے یہ ایت نازل فرمائی
لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا
یعنی پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کو ان کے نام اور کنیت سے نہ پکارا کرو جیسا کہ باہم ایک دوسرے کو پکارا کرتے ہو بلکہ یا رسول اللہ یا نبی اللہ کہہ کر پکارو ۔
علمائے سلف نے اپنے استادوں کو مخاطب بنانے کے لیے یہی الفاظ وضع فرمائے ہیں
(11) مرشد کے ساتھ اس طرح چلّا کر بات نہ کرے جیسے آپس میں ایک دوسرے کیا کرتے ہیں۔ خدا فرماتا ہے
وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ
ایسی آواز سے بات نہ کرو جو تم میں ایک دوسرے سے کیا کرتے ہیں
میں اس جگہ اس بات پر ضرور توجہ دلاؤں گا کہ دنیا کے حاکموں کے ساتھ نہایت عاجزی کے ساتھ گفتگو کی جاتی ہے جہاں تک ہو سکتا ہے آواز پست کی جاتی ہے وہ محض اس خیال سے کہ کہیں ہماری اونچی آواز سے اس کو تکلیف نہ پہنچے مگر استاد و مرشد کے ساتھ پکار پکار کر بات کرنے میں کوتاہی نہیں کی جاتی گویا ان کو باتوں کا آلہ مشق بنا رکھا ہے یہ ہماری دینداری کا ایک نمونہ ہے ۔
(12)مرشد کے سامنے اپنی آواز بالکل دبی رکھے اور اس سے بالکل آہستہ ہم کلام ہو خدا تعالی نے فرمایا
اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰى
بے شک جو لوگ رسول کے حضور میں اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پرہیزگاری کے لیے جانچ لیا ہے ۔
اس آیت سے ان لوگوں کی تعریف فرمائی گئی جنہوں نے رسول کریم کا ایسا ادب کیا ہے چونکہ مرشد اور استاد رسول کریم کے سچے جانشین ہوا کرتے ہیں ہم کو اس آیت سے سبق لینا چاہیئے کہ ہم بھی ایسا ہی ادب کریں ۔
امام شافعی فرماتے ہیں کہ امام مالک کےپاس میں کتاب کے ورق ایسے الٹتا ہوں کہ ورقوں کی آواز ان کے کانوں میں نہ پہنچے ۔
(13)مرشد یا استاد کی منزل گاہ پر جانے کا اتفاق ہو تو چیخیں مار مار کر نہ پکارے جیسا کہ دوسروں کو پکارا جاتا ہے بلکہ نرم اور ہلکی آواز سے پکارے یا کسی اندر جانے والی کے ذریعے سے اطلاع کر دیں یا دروازہ کھٹکائے یا ایسے وقت جائے جب کہ وہ باہر نکلتا ہو۔
خدا تعالیٰ فرماتا ہے
اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں بہت سے بے عقل ہیں کیا اچھا ہوتا کہ یہ لوگ آپ کے باہر نکلنے تک صبر کرتے اور خدا کو غفور اور رحیم پاتے ۔
غور فرمائیے اس میں اکثر پکارنے والوں کو بے عقل فرمایا گیا پس ایسی بے ادبی کی حرکت نہ کرنی چاہیئے اسی بنا پر صحابہ کرام نے بھی اپنے استادوں کے ساتھ ایسا ادب کیا چنانچہ حضرت ابن عباس زید بن ثابت کے دروازہ پر ان کے بیدار ہونے تک بیٹھے رہتے کیونکہ وہ ان کے استاد تھے لوگ کہتے ہیں اے رسول کے چچا زاد بھائی ہم بیدار کر دیں فرماتے نہیں وہ خود بیدار ہو جائیں گے اور کبھی بہت دیر تک دروازہ پر کھڑے رہنے کا اتفاق ہوا ہے اور دوسری جگہ انہی سے منقول ہے کہ میں اپنے طالب علمی کے زمانے میں حدیث حاصل کرنے کے واسطے دروازہ پر کھڑا رہتا اور اپنے آنے کی ان تک خبر نہ کرتا یہاں تک کہ کثرت انتظار میں چادر سر کے نیچے رکھ کر سو جاتا ۔
اس ادب میں آئمہ حدیث نے بھی صحابہ کے نقش قدم پر چلنے کی مثال قائم فرمائی ہے چنانچہ امام زہری فرماتے ہیں کہ میں عروہ کے پاس جاتا ان کے دروازہ پر کھڑا رہتا اندر جا سکتا تھا لیکن ان کے اجلال کے خیال سے توقف کرتا اذن مل جانے تک باہر ہی ٹھہرا رہتا ۔
حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ میں نے سفیان بن عیینہ سے کہا کہ جو لوگ دور دور سے آپ کے پاس علم سیکھنے کے لیے آتے ہیں آپ ان پر غصہ نہ ہوا کیجئے ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کے پاس آنا جانا موقوف کر دیں فرمایا اگر وہ میرے پاس نہ آیا کریں گے تو احمق ہیں اپنا نفع حاصل کرنے سے رہ جائیں گے۔
(14)مرشد کی خدمت میں حاضر ہونے کا اتفاق ہو تو اسے نہایت ادب و احترام کے ساتھ السلام علیکم کہے اگر اس کے ساتھ رحمۃ اللہ وبرکاتہ مزید کرے تو اچھی بات اور اگر مرشد پہلے سلام کرے تو وعلیکم السلام کے ساتھ جواب ادا کرے سلام کے بعد مصافحہ کرے ہاتھ کو بوسہ دے قدم چومے ۔
ابو امامہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے ہاں سب سے بڑھ کر اسی کی عزت ہے جو پہلے السلام علیکم کہتا ہے (مشکوۃ)
اور ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور السلام علیکم کہہ کر بیٹھ گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس کو دس نیکیوں کا ثواب حاصل ہوا اتنے میں دوسرا شخص پہنچا اس نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا آپ نے فرمایا اسے 20 نیکیوں کا ثواب مل گیا پھر تیسرا شخص آیا اس نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا حضور نے فرمایا اس سے 30 نیکیوں کا ثواب ملے گا(مشکوۃ)
حدیث شریف میں آیا ہے فرمایاآپ نے مصافحہ کرنے سے دل صاف ہو جاتا ہے اور گناہ معاف ہو جاتے ہیں (مالک ، بیہقی)
ذراع صحابی فرماتے ہیں کہ عبدالقیس کی جماعت جب وہاں حضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ کے ہاتھ اور پیر کو بوسے دئیے در مختار میں لکھا ہے اگر کوئی شخص کسی عالم سے یہ التماس کرے کہ آپ اپنا پیر دراز کریں تاکہ میں اس کو بوسہ دوں تو عالم پر لازم ہے کہ وہ اپنا پیر لمبا کرے اور بوسہ لینے دے۔
امام مسلم جب امام بخاری کے پاس آتے تو فرماتے کہ آپ اپنا پاؤں پھیلائیں تاکہ میں بوسہ دوں۔(مقدمہ اشعۃ اللمعات)
(15) مرشد کو وضو کرائے اور وضو کے لیے پانی لائے اور ضرورت پر طہارت کے لیے بھی پانی رکھے اسامہ بن زید صحابی فرماتے ہیں جب آنحضرت ﷺ عرفہ سے باہر نکلے تو راستے میں قضائے حاجت کے لیے اتر پڑے فراغت کے بعد آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈالنے لگا اور آپ وضو کرنے لگے(بخاری)
حضرت عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ انحضرت ﷺ بیت الخلاء میں داخل ہونے کو تھے میں پانی رکھ کر علیحدہ ہو گیا آپ نے پوچھا پانی کس نے رکھا میں نے عرض کیا حضور میں نے رکھا ہے آپ نے میرے لیے یہ دعا دی ‌اللَّهُمَّ ‌فَقِّهْهُ فِي الدِّينِ اللہ اسے دین میں سمجھ دے۔
ابو درداء نے کہا کہ تم میں رسول اللہ ﷺ نعلین اور وضو کا پانی اور تکیہ رکھنے والا نہیں ہے ان باتوں کی خدمت حضرت عبداللہ بن مسعود کو تھی ابو درداءنے اسی وجہ سے ان کی طرف اس روایت میں اشارہ فرمایا ہے جس سے واضح ہوگا کہ یہ امور بھی آداب میں داخل ہیں۔
ہر قل بادشاہ نے کہا تھا کہ وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ ‌لَغَسَلْتُ ‌قَدَمَيْهِ اگر میں آنحضرت ﷺکے پاس ہوتا تو آپ کے قدم دھوتا ۔
(16)مرشد کی طلبی پر فورا حاضر ہو جانا چاہیئے
ایک صحابی آنحضرت کی یاد فرمانے پر فورا اپنے گھر سے نکل پڑے اور ان کے بالوں سے اس وقت پانی کی بوندیں ٹپک رہی تھیں ۔(بخاری)
مرید کو چاہیئے کہ جب اس کا شیخ یاد کرے تو فورا اس کی خدمت میں حاضر ہونے کی کوشش کرے اور بغیرضرورت عذر نہ کرے۔
(17) شیخ کی موجودگی میں امامت نہ کرے اور نہ اس کی مسند پر بیٹھے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کوئی آدمی دوسرے کی حکومت میں امامت نہ کرے اور نہ اس کے مکان میں اس کی بے اجازت اس کی گدی پر جا بیٹھے (مسلم)
آج دنیا میں بھی یہی قاعدہ جاری ہے کہ کوئی شخص بغیر حکومت ملنے کے حکومت نہیں کر سکتا اور نہ کوئی شخص حاکم کی مسند پر بیٹھ سکتا ہے اور نہ کوئی احکام دے سکتا ہے اگر آج عہدہ داروں کے سوا ہر شخص فیصلہ کرنے لگے تو انتظام میں بہت ساری خرابیاں پیدا ہو جائیں علی ھذا اگر کوئی شخص حاکم کی کرسی پر جا بیٹھے تو حاکم کی وقعت جاتی رہے گی اور جو کام حاکم سے نکلتا ہے اس میں خرابیاں پیدا ہو جائیں گی پس اسلام نے کیا اچھا ادب سکھایا کہ کوئی شخص بغیر حکومت ملنے کی حکومت نہ کرے نہ حاکم کے اجلاس پر بیٹھے یہی حال مرشد کا بھی ہے کہ وہ بھی اپنے علم کا حاکم ہے کوئی شخص بغیر خلافت کے مرشدی نہ کرے اور نہ اس کی مسند پر جا بیٹھے۔
(18) مرشد کی بغیر اجازت نہ بیٹھے ایک شخص قوم ثقیف سےآنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے فرمایا اے ثقیف انصار کا ایک شخص مجھ سے سوال کر چکا ہے تو بیٹھ جا اس کو جواب دینے کے بعد تیری حاجت پوری کروں گا ۔
دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جو شخص اس بات کو دوست رکھے کہ لوگ اس کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوں اور وہ خود بیٹھا رہے تو اسے کہہ دو کہ دوزخ میں اپنی جگہ بنا لے ۔(ابوداؤد)
(19) مرشد کے آنے کی خبر ہو جائے تو مرید پر لازم ہے کہ اس کے استقبال کے لیے جائے آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ معراج کی رات مجھے کوئی ایسا نبی نہیں ملا جو میرے استقبال کے لیے چل کرنہ آیا ہو اور مجھے سلام نہ کیا ہو مگر صرف ایک نبی جن کے بابت مجھے جبرائیل نے خبر دی کہ یہ نوح علیہ السلام ہیں اور یہ بہ سبب مُسن اور طویل عمر ہونے کی مجھ پر بزرگی رکھتے ہیں اور ان کو شیخ المرسلین کہا جاتا ہے پس مجھے کہا گیا کہ میں ان کے پاس جا کر سلام کروں ۔(ذکرہ النسفی)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بزرگوں کے لیے استقبال کو جانا چاہیئے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اہل علم کو بڈھے بڑوں کی تعظیم و توقیر کرنی چاہیئے
(20)مرشد کے آگے نہ بیڑی نہ سگریٹ حقہ وغیرہ پیئے
آ نحضرت فرماتے ہیں کہ تم کچی پیاز اور لہسن نہ کھایا کرو اور کھا کر مسجد میں نہ جایا کرو اس کی بدبو سے فرشتوں کو تکلیف ہوتی ہے اس حدیث میں پیاز لہسن کھانے سے اس لیے منع فرمایا گیا کہ اس میں بدبو ہوتی ہے اور یہی بات تمباکو میں بھی ہے اس کا بھی استعمال اسی وجہ سے ناجائز قرار پاتا ہے اور ارشاد ہوا کہ بدبو سے فرشتوں کو تکلیف نہ دی جائے جیسے فرشتے خدا کے مقرب ہیں ایسے شیخ بھی خدا کا مقرب ہوتا ہے اس کو بھی ایسی باتوں سے تکلیف نہ دی جائے۔
(21) مرشد اگر غیر سید یا قریشی یا اس کا نسب ادنی وغیرہ ہو تو اس کے ساتھ بھی ادب کرنا چاہیئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم پر اپنے حاکم کی تابعداری لازم ہے اگرچہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو امام زین العابدین رضی اللہ عنہ جب مسجد میں جاتے تو زید بن اسلم کے پاس ضرور جاتے لوگوں نے عرض کیا آپ امام ہیں اور امام زادے ہیں اور زید غلام اور غلام زادہ ہیں آپ اس کے پاس نہ جائیے فرمایا (‌إِنَّهُ ‌يَنْبَغِي ‌لِلْعِلْمِ أَنْ يُتْبَعَ حَيْثُ كَانَ)جہاں علم ہو اس کی معیت کی جاتی ہے گویا طلب علم میں نسب کی جانچ پڑتال لازمی نہیں
(بندہٴ عشق شدی ترک نسب کن جامی کہ دریں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست
اے جامی، تو بندہِ عشق بن جا یعنی تو مسلکِ عشق و محبت اختیار کر لے اور حسب و نسب سے آزاد ہوجا کیونکہ راہ عشق و محبت میں “فلاں ابن فلاں”کی کوئی حیثیت نہی ہے۔)
اور مشہور مقولہ ہے
ولی ۔عالم۔ حکیم۔ حاکم کی شرافت کو نسب کی احتیاج نہیں۔
میں اس جگہ اس شبہ کو دور کر دینا چاہتا ہوں کہ حضرت امام علیہ السلام کا زید بن اسلم کے پاس تشریف لے جانا اس لیے نہ تھا کہ آپ کو زید کے علم کی ضرورت تھی بلکہ آپ کی غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ لوگوں کی نظر میں علم کی و قعت قائم کی جائے ۔
(22)جب کوئی سائل مرشد سے پوچھنے لگے تو چاہیئے کہ خاموش بیٹھا رہے شیخ کے آگے فتوی نہ دیے خدا تعالی فرماتا ہے
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ
اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کے سامنے کسی کام میں پیش قدمی نہ کرو۔
بعض مفسرین نے اس آیت کے نزول کا یہ سبب بتایا ہے کہ جب کوئی سائل آنحضرت سے مسئلہ پوچھتا تو کچھ لوگ مجلس کے بیٹھنے والے جواب دینے سے پہلے ہی فتوی دے دیا کرتے تھے اس لیے خدا نے ان کو ادب دینے کے واسطے اس سبقت سے منع فرمایا ہے حدیث شریف میں آیا ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے چھوٹے بیٹے نے گفتگو میں مسابقت کرنی چاہی تو آنحضرت ﷺ نے اس کو ٹوک دیا اور فرمایا الْكُبْرَ ‌الْكُبْرَ یعنی پہلے بڑے کو بولنے دو آئمہ اہل حدیث سے بھی یہی آداب مروی ہیں ۔
امام عطا فرماتے ہیں کہ میں کسی وقت کوئی حدیث کسی سے سنتا ہوں تو اس وقت اپنے آپ کو ایسا بنا لیتا ہوں کہ گویا کچھ جانتا ہی نہیں حالانکہ اس حدیث کو میں اس شخص کے پیدا ہونے سے پہلے سے جانتا ہوں دیکھو بزرگان سلف شیخ کی حضوری میں سائل کا جواب دینا تو درکنار خود شیخ سے بھی کوئی بات دہرانا برا سمجھتے ہیں۔
چنانچہ سعید بن جبیر حدیث بیان کرتے تھے کہ ان کے ایک شاگرد نے کوئی مطلب دوسرے بار کھلوانا چاہا رنجیدہ ہو کر فرمایا دودھ ہر وقت دوہا نہیں جاتا ۔
امام زہری فرماتے ہیں کہ کہی ہوئی بات کا دہرانہ بڑے پتھر کے بوجھ سے زیادہ بھاری ہے بعض اگلے بزرگ ایسا فائدہ حاصل کرنے والے کو جھڑک دیا کرتے تھے۔
(23)شیخ کے آگے دو زانوں مؤدب بیٹھے ۔
جبریل علیہ السلام جب آنحضرت کی خدمت میں دین کے مسئلے پوچھنے حاضر ہوئے تو دو زانو ہو کر بیٹھے تھے (مشکوۃ)
مشہور واقعہ ہے کہ مہدی خلیفہ عباسی جو اپنے وقت کا بادشاہ تھا اس کے فرزند نے تحیہ لگا کر امام شریک سے کوئی مسئلہ پوچھا تو انہوں نے کچھ بھی التفات نہ کی اور یہ غصہ میں آگیا اور کہا کہ خلیفہ یعنی بادشاہ کی اولاد کو آپ حقیر جانتے ہیں فرمایا علم خدا کے نزدیک بہت بزرگ ہے اسے میں کیسے ضائع کروں خلیفہ یہ سن کر مؤدب بیٹھ گیا اس پر امام صاحب نے فرمایا علم یوں ہی طلب کیا جاتا ہے ۔
امام وکیع کی مجلس میں لوگ ایسے خاموش بیٹھے رہتے ہیں گویا نماز میں ہیں امام صاحب کسی سے کوئی خلاف بات دیکھتے تو مجلس سے اٹھ کر چلے جاتے
(24)مرشد کے حکم کی تعمیل کرے اور کسی امر میں اس کی نافرمانی نہ کرے خدا فرماتا ہے
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ
خدا کی اطاعت کرو اور رسول کی بھی اطاعت کرو اور تم میں جو اولی الامر میں ان کی بھی تابعداری کرو۔
اُولِی الْاَمْرِ حاکم کو کہتے ہیں حاکم دنیا تو سب کو معلوم ہے لیکن دینی حاکم علماء و صلحا ہیں جیسا کہ اس بارے میں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی تفسیر میں روایت کی ہے پس استاد مرشد بھی اس میں داخل ہیں لہذا ان سب کی تابعداری بھی ہم پر لازم ہے قرآن شریف میں بھی یہ مذکور ہے کہ جب موسی علیہ السلام خضر سے ملے اور علم رشد سیکھنے کی ان سے درخواست کی تو خضر علیہ السلام نے فرمایا
اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا
تم میرے ہمراہ رہ کر صبر نہ کر سکو گے۔
موسی علیہ السلام نے جواب دیا
سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ صَابِرًا وَّ لَاۤ اَعْصِیْ لَكَ اَمْرًا
خدا نے چاہا تو آپ مجھ کو صابر پائیں گے اور میں کسی امر میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔
اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مرشد کی نافرمانی کسی امر میں بھی نہ کی جائے
(25)مرشد کے کسی بات پر اعتراض نہ کریں گو وہ بظاہر خلاف ہی کیوں نہ معلوم ہوتی ہو ۔
قران شریف میں مذکور ہے کہ خضر علیہ السلام نے کئی کام ایسے کیے جو موسی علیہ السلام کو بظاہر خلاف شرع معلوم ہوتے تھے اس لیے وہ ہر دفعہ ان پر اعتراض کرتے رہے باوجود کہ خضر و موسی علیہما السلام کو ان کا وہ وعدہ یاد دلاتے تھے جس میں اعتراض نہ کرنے اور صبر کرنے کا یقین دلایا گیا تھا بالاخر جب موسی علیہ السلام صبر نہ کر سکے یعنی ان پر برابر اعتراض کرتے رہے تو خضر نے موسی علیہما السلام کو یہ کہہ کر اپنے پاس سے علیحدہ کر دیا هٰذَا فِرَاقُ بَیْنِیْ وَ بَیْنِكَ
طالب کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنے شیخ پر اعتراض نہ کرے کیونکہ اعتراض ہی جدائی کا باعث ہو جاتا ہے ۔
اس وقت تک صبر کرے کہ حقیقت حال خود اس کے روبرو اس کا شیخ بیان کر دے کیونکہ یہ بھی مرشد کے فرائض میں اس لیے داخل ہے کہ مغالطہ نہ ہو جائے خضر علیہ السلام نے آخر ساری حقیقت بیان کر دی موسی علیہ السلام کو تشفی فرما دی تھی صحیح بخاری میں ہے کہ رسول خدا فرماتے ہیں کہ اگر موسی و خضر کے ساتھ رہ کر صبر کرتے اور ان سے کچھ بھی نہ پوچھتے تو آگے چل کر خدا خود ان سے یہ ساری حقیقت بیان کر دیتا ۔
اس حدیث میں بھی شیخ پر اعتراض نہ کرنے کی ترغیب اور پھر آئندہ چل کر یہی باتیں خدا کے ذریعے معلوم ہو جانے کی امید دلائی گئی ہے۔
(26) مرشد کی طرف سے اپنے دل میں کسی قسم کا کینہ نہ رکھنا چاہیئے اور جو بشریت سے دل میں کوئی بات آبھی جائے تو اس کو دور کر دیا جائے خدا تعالی نے قرآن شریف میں ہم کو اس دعا کی تعلیم دی ہے
قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
اے پروردگار مسلمانوں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ نہ رکھ۔
آنحضرت ﷺ نے انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اے میرے چھوٹے بیٹے کوئی رات یا کوئی دن تجھ پر ایسا نہ گزرے کہ اس میں کسی مسلمان کی طرف سے تیرے دل میں حسد و بغض کی آگ بھڑک رہی ہو یہ میری سنت ہے جو شخص میری سنت پر عمل کرے گا خدا اس کو میرے ساتھ جنت میں رکھے گا (مشکوۃ)
کسی نے کیا اچھا کہا
کفر است در طریقت ماکینہ داشتن آئین ماست سینہ چو آئینہ داشتن
ہماری طریقت میں کینہ رکھنا کفر ہے اور دل کو آئینے کی طرح (صاف و شفاف) رکھنا ہی ہمارا آئین ہے۔
جب یہ بات عام کے لیے ناجائز ہے تو اپنے شیخ کے لیے کیسے جائز ہو سکے گی حضرت غوث الاعظم فرماتے ہیں کہ اپنے شیخ کی طرف سے دل میں کوئی خطرہ آ جائے تو اس کو فورا نکال دے اور اس کے دفعیہ کے لیے یہ دعا پڑھ لیا کرے ۔
وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
اور ہمارے دل میں ایمان والوں کیلئے کوئی کینہ نہ رکھ، اے ہمارے رب! بیشک تو نہایت مہربان، بہت رحمت والا ہے۔
(27) مرشد کی نسبت مرید یہ خیال رکھے کہ میری ہدایت کے لیے دنیا میں اس سے بہتر اور کوئی مرشد نہیں مل سکتا۔
اگرچہ یہ بات بظاہر آیت کے خلاف ہے
وَ فَوْقَ كُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ
اور ہر علم والے کے اوپر ایک علم والا ہے۔
مگر اس میں بڑی مصلحت ہے کیونکہ جب تک طالب ایسا خیال نہ کرے گا اس کا اعتقاد برابر نہ رہے گا اور اس کی کوئی بات نہ مانے گا اور ہم نے اوپر تصفیہ کر دیا ہے کہ گو بعض باتیں بظاہر خلاف معلوم ہوتی ہیں مگر دراصل اس میں کوئی خلاف نہیں ہوتا اس لیے یہ بات وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اور نیک اعمال کئے کے موافق پڑ جاتی ہے کیونکہ جب عمل صالح کا حکم ہوا ہے تو جس کی بدولت عمل صالح پیدا ہوتے ہوں اس کو بھی اختیار کرنے کا حکم بھی نکلتا ہے اور حدیث میں ہے
لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ
تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہو گا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے۔
اس حدیث میں حضور انور ﷺنے ایسی محبت کی ترغیب دلائی ہے جس کا پلہ ساری محبتوں سے بھاری ہو اور یہ ظاہر ہے کہ آنحضرت کی ایسی محبت ایمان میں کمال پیدا کرنے کے لیے ضرور ی ہے کیونکہ آنحضرتﷺ کے ساتھ مبتدی کو ایسی محبت کا پیدا کرنا بغیر آپ کے دیکھے ہوئے دشوار تھا اس لیے صوفیاء نے مرشد کو آپﷺ کا برزخ(واسطہ ) قرار دے کر محبت کا پہلا زینہ تجویز کیا ہے تاکہ آپ سے بھاری اور وزن دار محبت پیدا ہونے میں آسانی ہو۔
(28) مرشد کا دل آزردہ کرنا بہت برا ہے ۔
ہم نے اوپر ظاہر کر دیا ہے کہ مرشد بنص قرانی ولی ہے تو ولی کی عداوت خدا کی عداوت ہے اس کا مقابلہ خدا کا مقابلہ ہے آزردہ کرنے کی مختلف ذرائع ہیں ان میں چند ذرائع نمونتا یہاں پیش کرتا ہوں
جو بات ناپسند ہوتی ہے اس پر دلیری کرنا۔
اس کے حکم کے خلاف کرنا ۔
اس کے ہوتے ہوئے دوسرے مرشد کے پاس بھاگے بھاگے پھرنا۔
دوسرے مرشدوں کی مبالغہ کے ساتھ تعریف کرنا وغیرہ
حدیث میں خدا کا فرمان یوں مذکور ہے
مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ اٰذَنْتُهُ بِالحَرْبِ
جو میرے ولی سے عداوت کرے میں اس کو لڑائی کی اطلاع دیتا ہوں یعنی یہ وہ شخص ہے جس سے خدا لڑنے کے لیے چیلنج دیتا ہے (29)مرشد کے پاس زیادہ دیر تک بیٹھنا نہیں چاہیئے بلا اجازت مرشد کے گھر میں نہ جائے مرشد کو اپنی گزر بسر کا ذریعہ نہ بنائے خدا تعالی فرماتے ہیں
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُ وَ لٰـكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ۔
اے ایمان والو نبی کے گھروں میں بھی اجازت نہ جایا کرو اور وہاں کھانے پکنے کا انتظار بھی نہ کرو مگر جب تم کو بلایا جائے تو جاؤ اور جب کھا چکو تو وہاں سے چل نکلو باتوں میں جی لگائے بیٹھے نہ رہو کیونکہ نبی کو ان باتوں سے ایذا ہوتی ہے اور وہ تم سے شرم کرتے ہیں اور خدا حق بات سے شرم نہیں کرتا۔
یہ آیہ پاک بھی ہم کو بطور خاص اس بات پر متوجہ کرتی ہے کہ شیخ جو نبی کا نائب ہوتا ہے کے ساتھ ہم کو ایسا ہی ادب کرنا چاہیئے بخلاف اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ بلا ضرورت مرشد کے گھر پر جاتے ہیں اور مہینوں اس کے گھر پڑے رہتے ہیں اور خواہ مخواہ ادھر ادھر کے قصے چھیڑ کر اس کو اپنے سامنے بٹھائے رکھتے ہیں یہ سب امور آداب کے منافی ہیں طالب علم کو اس کی احتیاط رکھنی چاہیئے ۔
(30)مرشد کے حلقہ میں بیٹھے ہوئے ادھر ادھر نہ دیکھا کرے بلکہ ادب سے سر تک نہ اٹھائے عبداللہ بن بریدہ رضی عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم لوگ آنحضرت ﷺ کی خدمت مبارک میں حاضر رہتے تو عظمت کے لحاظ سے کوئی شخص حضرت کی طرف سر نہ اٹھاتا روایت کیا حاکم نے اور کہا یہ حدیث صحیح ہے۔
صحابہ و آئمہ حدیث نے بھی اپنے اپنے شیوخ کا ایسا ہی ادب کیا چنانچہ عبدالرحمن بن قرط کہتے ہیں ایک دفعہ مسجد میں گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگ حلقہ باندھ کر بیٹھے ہیں اور ایسے سر جھکائے ہوئے ہیں کہ گویا ان کی گردنوں پر سر ہی نہیں اور ایک بزرگ حدیث بیان کر رہے ہیں غور سے دیکھا تو وہ حذیفہ تھے۔
(31) مرشد کے پاس ناپاک حالت میں نہیں جانا چاہیئے ۔
صحابہ کرام کا معمول تھا کہ جب آنحضرت ﷺ کی خدمت مبارک میں حاضر ہوتے تو دربار نبوت کے ادب و عظمت کے لحاظ سے خاص طور پر پاک کپڑے زیب تن کر لیتے اور بغیر طہارت کے آپ کی خدمت میں حاضر ہونا اور آپ سے مصافحہ کرنا گوارا نہ کرتے چنانچہ مدینہ کے کسی راستہ میں آنحضرت ﷺ سے حضرت ابوہریرہ کا سامنا ہو گیا ان کو نہانے کی ضرورت تھی گوارا نہ ہوا کہ اس حالت میں آپ کے سامنےآئیں آپ کو دیکھ کر کترا گئے اور غسل کر کے خدمت اقدس میں حاضر ہوئے آپ نے دیکھا تو فرمایا ابوہریرہ کہاں تھے؟ بولے کہ میں ناپاک تھا اس لیے آپ کے پاس حاضر ہونا نہیں پسند کیا ناپاکی تو ایک بڑی بات ہے لیکن حضرات صوفیا نے اپنے شیوخ کی خدمت میں بے وضو جانا بھی سوء ادبی سمجھا ۔
(32)مرشد اگر راستہ میں پیدل مل جائے اور ہم سواری میں ہوں تو آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنی چاہیئے ایک بار ایک صحابی گدھے پر سوار ہو کر جا رہے تھے راستہ میں آنحضرت ﷺ کو پیدل دیکھا کہ جا رہےہیں فرط ادب سے پیچھے ہٹ گیا اور آگے بڑھ کرآپ کو سنوار کرانا چاہے لیکن آپ نے فرمایا تم آگے بیٹھنے کے زیادہ مستحق ہو البتہ اگر تمہاری اجازت ہو تو میں آگے بیٹھ سکتا ہوں
حضرات صوفیاء کرام نے بھی اپنے اپنے شیوخ کا ایسا ہی ادب کیا چنانچہ متاخرین صوفیا میں حضرت مسکین شاہ صاحب نقشبندی ایک مشہور باخدا بزرگ گزرے ہیں ان کے حالات میں لکھا ہے کہ ایک دن شاہ صاحب کے ایک مرید گھوڑے پر سوار ہو کر جا رہے تھے راستے میں شاہ صاحب کو پیدل جاتے ہوئے دیکھ لیا تو گھوڑے سے اتر پڑے اور آگے بڑھ کر عرض کی کہ سوار ہو لیجیے شاہ صاحب نے فرمایا کہ میاں یہ عرب کا گدھا نہیں ہے کہ میں اورتو ایک ساتھ سوار ہو جائیں اونٹ یا خچر ہوتا تو اور بات تھی باوصف اس انکاری جواب کے وہ گھوڑے پر سوار نہ ہوئے پیدل ہی چلتے رہے ۔
کیا عہد حاضر میں اس کی مثال ملے گی حاشا وکلا ہرگز نہیں اب اس عزت و ادب کے مستحق حاکم دنیا ہے ان کے سامنے سواری میں ہو کر گزرنا سو ءادبی سمجھا جاتا ہے کیا اس مادیت و دہریت کے زمانے میں ہمارا تعلیم یافتہ روشن خیال طبقہ ان اسلامی آداب کی ضرورت سے انکار کرے گا جو اس رسالہ میں جمع کیے گئے ہیں۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں