اخلاص کے راز
حکمت نمبر10
اخلاص کے راز کے عنوان سے باب اول میں حکمت نمبر10 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
چونکہ کل اعمال میں جن کا بیان ان کے اثر کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اخلاص شرط ہے۔ لہذا مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اس کا بیان فرمایا :
10) الأَعْمالُ صُوَرٌ قَائَمةٌ، وَأَرْواحُها وُجودُ سِرِّ الإِخْلاصِ فِيها.
اعمال ، قائم ہونے والی صورتیں ہیں اور ان میں اخلاص کے سر ( راز ) کا موجود ہونا ، ان کی ارواح ہیں۔
اخلاص بغیر صدق کے مکمل نہیں
یہاں اعمال کا معنی جسم یا قلب کی حرکت ہے۔ اور روح ، وہ کمال جو اعمال میں معتبر ہے۔ اور اخلاص، اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے قلب کو ہر خیال اور تعلق سے خالی کرنا ہے۔ اور اخلاص کا سر، اس کا خلاصہ اور مغز ہے اور وہ صدق ہے۔ اور صدق سے مراد اختیار اور قوت سے علیحدہ ہو جاتا ہے۔ اور اخلاص بغیر صدق کے مکمل نہیں ہوتا ہے۔ اگر چہ اس کے بغیر بھی درست ہے۔ اس لئے کہ اخلاص ریاء اور شرک خفی کا مٹ جانا ہے۔ اور اخلاص کا سریعنی صدق عجب ( خود بینی ) اور نفس کے دیکھنے کا ختم ہو جانا ہے۔ کیونکہ ریا ءعمل کی درستی کو نقصان پہنچاتی ہے۔ (ریا ءکے ساتھ عمل درست نہیں ہوتا ہے ) اور خود بینی اس کے کمال کو نقصان پہنچاتی ہے۔ (یعنی عمل تو درست ہو جاتا ہے مگر مکمل نہیں ہوتا ہے )۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں۔ کل اعمال صورت اور جسم ہیں ۔ اور ان کی روح ، ان میں اخلاص کا موجود ہوتا ہے۔ لہذا جس طرح بغیر روح کے صورت اور جسم ہیں ۔ بلکہ مردہ و نا کا رہ ہو جاتا ہے اسی طرح جسمانی و قلبی اعمال ان میں اخلاص کے بغیر قائم نہیں رہتے ہیں۔ بلکہ وہ صرف صورتیں اور شکلیں رہ جاتی ہیں۔ جن کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
وَمَا أُمِرُو إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ
ان لوگوں کو صرف یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت مخلص ہو کر دین کو (یعنی تمام قلبی اعمال وافعال کو ) اس کے لئے خالص کر کے ہرشے کی طرف توجہ منقطع کر کے کریں۔
حضرت نبی کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے روایت کر کے فرمایا:
يَقُولُ: أَنَا أَغْنَى الشَّرَكَاءِ ، مَنْ أَشْرَكَ مَعِى غَيْرِي، تَرَكْتُهُ وَ شَرِيكَہ
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں شریکوں سے بے نیاز ہوں۔ جس شخص نے میرے ساتھ میرے سوا کسی شے کو شریک کیا۔ تو میں نے اس کو اور اس کے شریک کو چھوڑ دیا
اور حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے:
إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى امتي الشرْكُ الْخَفِيُّ ، وَ هُوَ الریا سب سے خوفناک شے جس سے میں اپنی امت کے لئے ڈرتا ہوں ، شرک خفی ہے اور وہ ریاءہے
اور ایک دوسری روایت میں ہے:۔ اتقوا هذا الشَّرُكَ الْخَفِيُّ ، فَإِنَّهُ يَدبُّ دَ بیب النمل، قيل: وما الشرك الخفی ؟قال : الرياء
اس شرک خفی سے بچو۔ کیونکہ یہ چیونٹی کے رہنے کی طرح رہتا ہے دریافت کیا گیا: شرک خفی کیا ہے؟ آنحضرت ﷺنے فرمایا: ریا ءہے۔
اور ایک حدیث میں ہے جو حضرت نبی کریم ﷺ تک مسلسل ہے: إِنَّهُ سُئِلَ عَنِ الْإِخْلَاصِ ، فَقَالَ حَتَّى أَسأَلَ جِبْرِيلَ، فَلَمَّا سَالَهُ، قَالَ حَتَّى أَسأَلَ رَبِّ الْعِزَّةِ، فَلَمَّا سَالَہُ، قَالَ لَهُ هُوَ سِر مِنْ أَسْرَارِى أَوْدِعُهُ قَلْبَ مَنْ أَحْبَبْتُ مِنْ عِبَادِي، لَا يَطَّلِعُ عَلَيْهِ مَلَكَ فَيَكْتُبُهُ ، وَلَا شَيْطَانٌ فَيُفْسِدَة
حضرت رسول اکرم ﷺ سے اخلاص کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: میں اس کے بارے میں اس وقت تک کچھ نہیں کہہ سکتا جب تک میں حضرت جبرائیل سے نہ دریافت کرلوں ۔ پس جب آپ عﷺ نے جبرائیل سے دریافت فرمایا۔ تو حضرت جبرائیل نے کہا: میں اس وقت تک کچھ نہیں کہہ سکتا ہوں۔ جب تک میں اللہ تعالیٰ سے دریافت نہ کرلوں ۔ پس جب حضرت جبرائیل نے اللہ رب العزت سے دریافت کیا۔ تو اللہ رب العزت نے فرمایا ۔ اخلاص میرے رازوں میں سے ایک راز ہے ۔ میں اپنے بندوں میں سے جس سے محبت کرتا ہوں ۔ اس کے قلب میں امانت کے طور پر اس کو رکھتا ہوں۔ فرشتہ کو بھی اس کی خبر نہیں ہوتی ہے ۔ کہ وہ اس کو لکھے۔اور شیطان بھی اس سے آگاہ نہیں ہوتا ہے کہ وہ اس کو خراب کرے ۔
بعض عارفین نے فرمایا ہے:۔ یہی احسان کا مقام ہے۔ اس حدیث شریف کے مطابق :۔
أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَانَّكَ تَرَاهُ
یہ کہ تو اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اس کو دیکھ رہا ہے
اخلاص کے تین درجے ہیں
پہلا درجہ عوام کا اخلاص دوسرا درجہ خواص کا اخلاص تیسرا درجہ خواص الخواص کا اخلاص
پہلا درجہ
عوام کا اخلاص : وہ دنیا و آخرت کے فوائد کی تلاش کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے معاملے سے مخلوق کو نکال دینا ہے۔ جیسے بدن اور مال کی حفاظت اور روزی کی ترقی ، اور حور و قصور وغیرہ ۔
دوسرا درجہ
خواص کا اخلاص وہ دنیاوی فوائد کو ترک کر کے آخرت کے فوائد کی تلاش ہے۔
تیسرا درجہ
خواص الخواص کا اخلاص وہ دنیا و آخرت کے کل فوائد کو ترک کر دیتا ہے۔ پس ان کی عبادت عبودیت (بندگی) میں ثابت رہنا، اور ربوبیت کے وظائف کے ساتھ قائم رہنا، اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور دیدار کا شوق ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن فارض نے فرمایا ہے۔
لَيْسَ سُوَالِى مِنَ الْجَنَانِ نَعِيمًا غَيْرَ إِنِّي أُحِبُّهَا لَا رَاكَا
جنت کے لئے میرا سوال اس کی کسی نعمت کے لئے نہیں ہے۔ بلکہ میں جنت کو صرف اس لئے چاہتا ہوں کہ وہاں میں تیرے دیدار کا شرف حاصل کروں گا
اور ایک دوسرے عارف نے فرمایا:
كُلُّهُمْ يَعْبُدُونَ مِنْ خَوْفِ نَارٍ وَيَرَونَ النَّجَاةَ حَظَا جَزِيلاً
سب لوگ آتش دوزخ کے خوف سے عبادت کرتے ہیں ۔ اور دوزخ سے نجات پا جانے ہی کو بہت بڑی نعمت سمجھتے ہیں۔
أَوْ بِأَنْ يَسْكُنُوا الْجِنَانَ فَيَضُحُوا فِي رِيَاضِ وَيَشْرَبُوا السَّلْسَبِيلاً
یا اس لئے عبادت کرتے ہیں کہ وہ جنت میں رہیں ۔ تاکہ باغ میں میوے کھا ئیں ۔ اور نہرسلسبیل کا پانی پئیں ۔
ليْسَ لِي فِي الْجِنَانِ وَالنَّارِ رَايُ أَنَا لَا ابْتَغِي بِحُبِي بَدِيلاً
جنت اور دوزخ کے بارے میں میری کوئی رائے نہیں ہے۔ میں اپنی محبت کا کوئی بدلہ نہیں چاہتا ہوں
حضرت شیخ ابو طالب رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔مخلصین کے نزدیک اخلاص مخلوق کو اللہ تعالیٰ کے معاملے سے نکال دینا ہے۔ اور سب سے پہلی مخلوق نفس ہے۔ اورمحبین کے نزدیک اخلاص، یہ ہے کہ وہ نفس کے لئے کوئی عمل نہ کریں۔ ورنہ بدلہ پانے کا خیال یا نفس کے فائدے کی خواہش پیدا ہوگی۔ اور موحدین کے نزدیک اخلاص یہ ہے کہ افعال میں حقوق کی طرف دیکھنا ختم ہو جائے۔ اور احوال میں حقوق کی طرف آرام وسکون کا ہو جائے ۔
بعض عارفین نے فرمایا ہے تو اپنا عمل اخلاص پیدا کر کے درست کر اور اپنا اخلاص اختیار و قوت سے علیحدہ ہو کر درست کر ۔
اور بعض عارفین نے فرمایا ہے۔ کسی شخص میں اخلاص ثابت نہیں ہوتا ہے جب تک وہ آدمیوں کی نظر سے نہ گر جائے اور اس کی نظر سے سب آدمی نہ گر جا ئیں ۔ اور ایک دوسرے عارف نے فرمایا ہے بندہ جب مخلوق کی نگاہ سے گرے گا تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اس کا مرتبہ بلند ہو گا۔ اور مخلوق کا لحاظ اور انتظار کرنے کی حالت کے ساتھ جب مخلوق کی نگاہ میں اس کا مرتبہ بلند ہوگا تو وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ سے گرے گا۔ اور میں نے اپنے شیخ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: بندہ جب لوگوں سے امید کرتا اور ان سے ڈرتا ہے تو اس کا اخلاص ہرگز ثابت نہیں ہوتا ہے۔
نیز فرمایا: اللہ تعالیٰ سے امید رکھنا مخلوق سے امید رکھنے کے ساتھ بھی جمع نہیں ہو سکتا ہے۔ اس لئے کہ یہ محال ہے کہ اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ کرے اور اس کے ساتھ مخلوق کا بھی مشاہدہ کرے۔
حاصل یہ ہے کہ نفس کی گرفت سے نکلنا، اور ریا ءکی باریکیوں سے نجات حاصل کرنا شیخ کامل کے بغیر قطعا ناممکن ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔