ارشاد السالکین
بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ
سب تعریف اللہ کے لئے ہے جو سارے جہاں کا رب ہے اور اس کے سوا کوئی موجود نہیں۔ اور درود حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر جن کے سوا کوئی مقصود نہیں۔
جمال الہی کی حقیقت
اس عالم میں سے کوئی عالم بھی ظاہر اور پیدا نہیں تھا ۔ کان اللہ ولم یکن منہ شیئی (اللہ تھا اور اس کے ساتھ کچھ نہ تھا)
جب اس کی خواہش ہوئی کہ خود کو ظاہر اور پیدا کرے اور اس کی ذات میں جو صفتیں ہیں ان کو آشکار افرمائے تو اپنے نور کو اس عالم ظاہر کا روپ بخشا اور اپنی ذات کو خلق کا لباس پہنایا۔
چو اظهار گشتن همی خواستم صفتهای خود را خود آراستم
جب میں نے اپنی ذات کو ظاہر کرنا چاہا تو اپنی صفات کو خود آراستہ کیا
بہر صورت نمودم ذات خود را گہے بر شکل آدم گاہ حوا
ہر صورت میں اپنی ذات کو دکھا دیا کبھی آدم کی شکل میں اور کبھی حوا کی صورت میں ۔
اب یہ بھی سمجھ لو کہ وہی نور مذکور جو پو شیدہ تھا جب عالم لاہوت (ذات الہی کا عالم)سے عالم جبروت(صفات الہیہ کے عظمت و جلال کا عالم) میں آیا تو کسوت(پوشاک) جبروتی پہنا اور اپنا نام روح رکھا جب عالم جبروت سے عالم ملکوت(عالم فرشتگان و ارواح) میں آیا تو کسوت ملکوتی پہنا اور اپنا نام قلب رکھا جب عالم ملکوت سے عالم ناسوت(عالم اجسام) میں آیا تو کسو ت نا سوتی پہنا اور اپنا نام قالب و جسم رکھا۔ اسی عالم کو ملک ظاہر کہتے ہیں:
وجود ندارد کسے جز خدا ہموں بوده باشد همیشه بجا
خدا کے سوا کسی کا وجود نہیں۔ ہمیشہ اور ہر جگہ وہی ہے۔
بہر سو نظر کن جمالش عیاں کسے نیست جزوے حقیقت بداں
جس طرف دیکھو اس کا جمال نمایاں ہے اور اس کے سوا کوئی نہیں ہے یہ بھی حقیقت ہے۔
عالم کثیف
جاننا چاہئے کہ ملک خاک و باد، آب و آتش انہیں چاروں عناصر سے عبارت ہے اور ان سب کی اصل نور ہے۔ جب نور نزول کر کے عالم کثیف میں آتا ہے نار ہو جاتا ہے اور جب نار کثیف ہوتا ہے بادہو جاتا ہے اگر متحرک ہو تو باد ہے ورنہ ہوا ہے ۔ اور باد کثیف ہونے کے بعد آب ہو جاتا ہے اور جب آب ہوتا ہے خاک ہو جاتا ہے۔ یہ سب ایک وجود ہے (یعنی سب کا وجود ایک ہی ہے ) اور ایک ہی نور کی مختلف صورتیں ہیں ۔ جیسے نیشکر (گنا) جو لطیف لطیف ہے۔ کبھی راب بن گیا کبھی شکر ہو گیا اور کبھی قندا در اسی طرح کی دوسری چیزوں کی صورت میں بدل گیا۔ یہ سب اسی نیشکر سے ہیں اور اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھو تو تمام شیرینیاں اپنی مختلف صورتوں اور اور الگ الگ ذائقہ کے باوجود عین وہی نیشکر ہیں۔ نیشکر کے علاوہ کوئی دوسری چیزیں نہیں ۔
از جمال صبغته الله عالمی پور نورگشت ہر کجا بینی تو نورے اور مصوری شود
اللہ کی رنگینی کے جمال سے سارا جہاں منور ہے، جدھر تم دیکھو اس کا نور نظر آتا ہے۔
انت من نور الله والخلق کلھم من نوری میں اللہ کے نور سے ہوں اور ساری مخلوق میرے نور سے ہے۔
اس سے تم کو یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ سب ایک ہی وجود ہے اور ایک ہی نور سے یہ صورتیں جلوہ گر ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک وجود کے سوا دوسرا وجود حضور نہیں ہے ۔ اور اللہ تعالی کے وجود کے سوا کوئی دوسرا وجود نہیں ۔
ہر چہ بینی یار هست اغیار نیست غیر او جزو هم و جز پندار نیست
جو کچھ تم دیکھتے ہو وہی دوست ہے غیر نہیں ہے اور اس کے سوا جو کچھ ہے وہ و ہم اور پندار ہے ۔
از جمال هو معکم جلوه هاست لیک ہر کس لائق دیدار نیست
ھو معکم کے جمال کی جلوہ آرائی ہے لیکن ہر شخص اس دیدار کے لائق نہیں ہے۔
یہ سب جو تم غیر دیکھتے ہو اور غیر کہتے ہو یہ غیر اعتباری غیر ہے حقیقی نہیں ہے اس لئے کہ غیر حقیقی محال ہے۔ اگر اس غیر کو حقیقی کہیں اور حقیقی سمجھیں تو دو وجود لازم آئے گا جب تک وجود اول ختم نہ ہو جائے اور اس کی انتہانہ ہو جائے وجود دوم کا تصور ممکن نہیں اور اس کے وجود کی کوئی انتہاء نہیں۔
سوال : ( یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ) یہ سب وجود حق تعالیٰ کیسے ہو جائے گا اس لئے کہ اللہ تعالٰی کی نہ کوئی صورت ہے نہ شکل ہے اور نہ رنگ ہے۔ جو چیزیں عالم ظاہر میں پائی جاتی ہیں اللہ تعالی کے وجود میں ان میں سے ایک بھی نہیں ہے۔ اور حق تعالی کا وجود ان چیزوں سے پاک ہے۔
جواب : ( اس سوال کا جواب اس مثال سے سمجھو ) کلام نفسی وہ ہے جس میں نہ حرف ہو نہ آواز ہو نہ ترکیب ہو اور نہ تقطیع ۔ لیکن یہ سب چیزیں اس قرآن و مصحف میں موجود ہیں ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ قرآن کلام الہی میں ہے تو کفر ہے، اگر کوئی یہ کہے کہ قرآن اس ترکیب اور تعلیم کے ساتھ ظاہر نہیں ہوا ہے تو ایسا کہنے والا بھی کافر ہو جائے گا اس لیے کہ قرآن اسی ترکیب اور نظم کے ساتھ وجود میں آیا ہے ۔ اس حال سے اس مسئلہ کو سمجھنا چاہئے ۔ اگر کوئی عالم ظاہر کے وجود کا منکر ہے کہ اس کا وجود نہیں تو یہ کہنے والا ہی کافرہوگا۔
در کائنات ہر چہ بصورت مقید است از مخزن وجود بدیں شکل آمده است
کا ئنات میں جعلی چیزیں ظاہری شکل وصورت کے ساتھ نمودارہوئیں وہ سب اسی خزانہ وجود سے اس شکل میں آئی ہیں ۔
بحر قدم چوموج بر آرد زبطن خویش آن را حدوث خواندن در شرع احمداست
جب ہر قدم اپنے بہن سے موجزن ہو تو شرع احمدی میں اس موچ کا نام حدوث پڑا۔
در معرفت مقام ندیدم ورائے ایں کایں صورت و معانی یکذات واحد است
اس صورت و معانی میں ہی ایک ذات واحد ہے، معرفت میں اس کے سوا کوئی دوسرا مقام مجھے نظر نہیں آیا
وجود ظاہر کے انکار سے کفر لازم آتا ہے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہی کہ الظاھر اور الباطن اللہ تعالی کے نام ہیں۔ الظاھر کے معنی ہستی کا اظہار ہے، اور الباطن کے معنی چگونی(مثال) کی پنہانی ہے۔ ظاہر سے عالم کا وجود مراد ہے۔ ظاہرعین باطن ہے وہی باطن اس شکل وصورت میں ظاہر ہوا جب تک باطن تھا کوئی شکل وصورت نہیں تھی۔ جو عالم ظاہر کے وجود کا منکر ہو اس نے اللہ تعالیٰ کے اسماء ظاہر کا بھی یقیناً انکار کیا اور جو اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے کسی ایک اسم کا بھی انکار کرتا ہے وہ کافر ہو جاتا ہے۔ اور یہ سمجھ لو کہ الظاہر و الباطن اللہ تعالی کے نام ہیں۔ اللہ تعالی کی ذات کے لئے نہ تشبیہ ہے اور نہ تنزیہ بلکہ اجمالی طور پر دونوں صفات سے متصف ہے۔ اور یہ بھی سمجھ لو کہ عالم ظاہر سے اللہ تعالی کی تمثیل پیش کرنے سے اس کی ذات میں کوئی تغیر اور تعدد لازم نہیں آتا ۔ جس طرح کلام نفسی آواز و حروف کی کثرت کے ساتھ ظاہر ہوا ہے، لیکن کلام نفسی میں ( آواز و حروف کی اس کثرت کے باوجود ) کوئی تغیر نہیں ۔ اگر کوئی اپنا مقصود (یعنی دل کی بات) ظاہر کرنا چاہے تو جب تک آواز اور حروف کی شکل میں ظاہر نہیں کرے گا مقصود حاصل نہیں ہوگا۔ آواز اور حروف کے اظہار سے اس کے دل میں ( جو مقصد ہے اس میں ) کوئی تغیر لازم نہیں آتا ۔ اسی طرح اللہ تعالی کا اس عالم ظاہر کی تمثیل میں ظاہر ہونے سے اس کی ذات اور اس کی صفات میں کوئی تغیر لازم نہیں آتا .. ھوالان کما کان لا یتغیر فی ذاتہ وصفاتہ بحدوث الاکوان …. وہ اب بھی ویسا ہی جیسا پہلے تھا۔ کائنات کے حدوث (تخلیق) سے اس کی ذات اور صفات میں کوئی تغیر نہیں ہوتا )
ایک دوسری مثال سے بھی اس کو سمجھو کہ جبرئیل علیہ السلام حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں کبھی دحیہ کلبی کی شکل میں آئے اور کبھی اعرابی کی صورت میں ۔ یہ جبرئیل کی صورت نہیں تھی اس لئے کہ وہ روحانی ہیں اور وہ دیکھے نہیں جاسکتے۔ لیکن جبرئیل علیہ السلام اس تمثیل ( یعنی اس شکل وصورت میں ) آتے تھے ۔ اگر کوئی کہے کہ یہ جبرئیل نہیں ہیں تو گویا وہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے پاس جبرئیل علیہ السلام کے آنے کا انکار کرتا ہے اور اس کا انکار کرنے والا ) کا فر ہے۔ اس مقام میں عاریت (ادھار)کا مقصود یہی ہے کہ ایک سے زیادہ کا وجود نہیں ہے اور وہی وجود اس شکل وصورت میں نہاں سے ظاہر میں آیا ہے۔
اے زحسنت پر تو در چہرہ ہر دلبرے عشق تو در ہر دلے شوق تو در ہر سرے
اے وہ ذات کہ تیرے ہی حسن کا پر تو ہر معشوق کے چہرہ میں ہے، تیرا ہی عشق ہر دل میں ہے اور تیرا ہی شوق ہر سر میں ہے )
عاریت از حسن تو در هر سری بنهاده اند نیست جز توہیچ در عالم بمعنی دلبرے
ہر ستر میں تیرے ہی حسن کی کشش ہے اور تیرے سوا دنیا میں کوئی معشوق نہیں
اس رسالہ ارشاد السالکین میں توحید کا سارا بیان وضاحت اور صراحت کے ساتھ لکھ دیا گیا ہے۔ اگر تم کو رغبت ہو تو تمھارے لئے یہی ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے معافی چاہتا ہوں ، ان تمام چیزوں سے جن کو وہ نا پسند فرمائے ۔ ایمان لایا میں اللہ پر اور ان تمام چیزوں پر جو اس کی جانب سے آئیں اور ایمان لایا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر ۔۔