ارشاد الطالبین
بسم الله الرحمن الرحیم الحمد لله رب العلمين لا مو جود الاهو والصلاة على رسوله سيدنا محمد لامقصود الأهو
سب تعریف اللہ کے لئے ہے جو رب ہے سارے جہاں کا نہیں ہے کوئی موجود سوائے اس کے اور درود ہو اس کے رسول سید نا محمد ﷺ پر نہیں ہے کوئی مقصود سوائے ان کے۔
اللہ تعالی تک پہنچنے کی تین قسمیں
تم جانو کہ اللہ تعالی تک پہنچنے کی تین قسمیں ہیں
وصول الی اللہ کی پہلی قسم یہ ہے کہ افعال ذمیمہ سے نکل آوے یعنی برے کاموں سے پاک ہو جائے اور یہی تزکیہ نفس ہے.
وصول الی اللہ کی دوسری قسم یہ ہے کہ اللہ کے سوا تمام چیزں سے منقطع ہو جائے اور یہی تصفیہ قلب (یعنی دل کی صفائی) ہے ۔
وصول الی اللہ کی تیسری قسم یہ ہے کہ اپنی صفات سے نکل جائے اور یہیں روح کی تجلی ہے۔
طالب حق کے لئے ضروری ہے کہ اپنی صفتوں میں اس حد تک نکل جائے کہ اس کی بقاء اللہ تعالیٰ کی صفتوں کے ساتھ قائم ہو جائے۔
اے عزیز :طالب کو چاہئے کہ اپنی صفتوں سے فنا ہو جائے تاکہ اللہ تعالی کی صفتوں کے ساتھ باقی رہے اور خودی کے درخت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے، تا کہ واجب والوجود کی تجلیات کے کل مناظر کا مشاہدہ اپنی ذات میں کرے، جیسا کہ اللہ تعالی نے نے فرمایا هُوَ ٱلۡأَوَّلُ وَٱلۡأٓخِرُ وَٱلظَّٰهِرُ وَٱلۡبَاطِنُ یعنی اول بھی وہی ہے آخر بھی وہی ، ظاہر بھی وہی ہے اور باطن بھی وہی ہے۔
اے عزیز! طالب کو چاہئے کہ فنا کی کشتی میں بیٹھے تا کہ بقا کے ساحل پر پہنچے اور یہ جان لے کہ کشتی فنا اور ساحل بقا کیا ہے۔ لا الہ کشتی فنا ہے اور الا للہ ساحل بقا ہے۔ وہ ساری چیزیں جو نظر آتی ہیں اور جو معلوم کی جاتی ہیں تحت الثری (زمین کا سب سے نیچے کا طبقہ)سے علوئے اعلیٰ (انتہائی بلندی)تک مع اپنی ذات کے لا کی کشتی فنا میں رکھ کر دریائےہویت(ذات پروردگار) کی سیر کرے، یہاں تک کہ اللہ اللہ کے اثبات میں غوطہ لگائے اور بقا تک پہنچ جائے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے شَهِدَ ٱللَّهُ أَنَّهُۥ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ اللہ نے گواہی دی کہ سوائے اس کے کوئی اللہ نہیں)۔
اس علم کا قاعدہ یہ ہے کہ جب لا الہ آئے تو تمام موجودات کو لا کے دائرہ میں کھینچے اور جب الاھو پر پہنچے تو تصورات ربوبیت کے بوستان شوق میں اپنے دل کو لے جائے۔ محبت کا پھل چنے، اپنی روح کو وحدانیت کے انوار کا مشاہدہ کرائے ، اپنے سر کو الوہیت کے اسرار میں مستغرق کر دے۔ اخلاص کا تاج سر پر رکھے، حضوری کا پٹکا کمر میں باندھے، عبودیت کے گھوڑے پر سوار ہو جائے ، عبادت اور تقویٰ کا کوڑا ہاتھ میں لے لے، وحدت اور وحدانیت کے میدان میں گھوڑے کو دوڑا دے تا کہ مقام احدیت تک پہنچ جائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ قُلۡ هُوَ ٱللَّهُ أَحَدٌکہہ دیجئے کہ وہ اللہ ایک ہے)۔
اے عزیز :طالب کو چاہئے کہ آب تو حید سے اپنے دل کی پرورش کرے، اپنی روح کو اللہ تعالی کے انوار سے منور کرے۔ اس کے بعد صانع مطلق کی تجلیات کے دریا میں غوطہ لگائے تا کہ الانسان سری ونصفی دانا سره انسان میرا راز اور میری صفت ہے اور میں اس کا راز ہوں ) کا گوہر نایاب ہاتھ آئے ۔ اس لئے کہ روح کو جان کہتے ہیں اس میں ایک شہر ہے ، اس کو جاناں کہتے ہیں اور وہ مقام محبوب کے انوار کا ہے بلکہ عین محبوب ہے۔ چنانچہ حدیث قدی ہے کہ:
ان في جسد ابن آدم لمضفة وفي المصفحة قلب وفي القلب فؤاد وفي الفواد الضمير سروفی السرانا۔ انسان کے بدن میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے، لوتھڑے میں قلب ہے، قلب میں فواد ہے، فواد میں ضمیر ہے سر ہے اور ست میں میں ہوں”۔
اے عزیز :طالب کو چاہئے کہ وہ اپنی انانیت کے شہر پر حملہ کر دے، غارت کر دے، جلا دے اور جڑ سے اکھاڑ دے تا کہ انانیت معبود کے شہر تک پہنچ جائے ۔ اس لئے کہ شہر انانیت (خودی)کوشہر نفسانی کہتے ہیں اور شہر انانیت معبود کو شہر روحانی کہتے ہیں اور شہر روحانی کو شہر معانی کہتے ہیں۔ (یعنی طالب کی اپنی انانیت اور خودی اس کی نفسانیت ہے اور معبود کی انانیت عالم روحانی ہے اور عالم روحانی کو عالم معانی کہتے ہیں) طالب کو چاہئے کہ روحانی شہر کو آباد کرے تا کہ نفس اور شیطان کی قید سے آزادی اور چھٹکارا مل جائے ۔ تزکیہ نفس حاصل ہو، دوئی کی نجاست قلب اور جسم سے زائل کر دے یگانگی کی پوشاک پہنے اور محبت و دوستی کے محل میں داخل ہوتا کہ محبوب کا محرم راز واسرار ہو جائے، جیسا کہ اللہ تعالی نے کلام قدسی میں فرمایا ہے الإنسان سري وأنا سره ( انسان میرا راز ہے اور میں اس کا راز ہوں )محبت کی شراب پئے اور ہمیشہ حق تعالی کے مشاہدہ کے شکر کے ذوق میں ڈوبار ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے۔ فَأَيۡنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجۡهُ ٱللَّهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ وَٰسِعٌ عَلِيم جدھرتم دیکھوا دھراللہ کا چہرہ ہے، بے شک اللہ بہت بڑا جاننے والا ہے )۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ما رأيت شيئا إلا رايت الله فیہ وما رایت شیئا الا لله فلیس فی الدارین غیر اللہ فلیس فی الدارین غیرہ۔
(میں نے کوئی چیز نہیں دیکھی مگر اس میں اللہ کو دیکھا اور میں نے اللہ کے سوا کچھ نہیں دیکھا، دونوں جہاں میں کچھ نہیں ہے، سوائے اللہ کے، اور نہیں ہے دونوں جہاں میں سوائے اللہ کے ) اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَشَدُّ حُبّٗا لِّلَّهِ اور جو لوگ ایمان لائے، اللہ کی محبت میں سخت ہیں)۔
اے عزیز:طالب کو چاہئے اپنے قالب کی عمارت کو اللہ کی معیت پر تصور کرے، اقوال، افعال، احوال، حرکات وسکنات میں ، کھانے، پینے، سونے اور جاگنے میں یعنی ہر حال میں اللہ کے ساتھ ہو۔ جیسا کہ اس نے خود فرمایا ہے۔ وَهُوَ مَعَكُمۡ أَيۡنَ مَا كُنتُمۡۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعۡمَلُونَ بَصِيرٞ (اوروه تمہارے ساتھ ہے تم جہاں کہیں ہو اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ دیکھ رہا ہے )
اور حدیث قدسی ہے:
نم عبدي لاكنوم العوام نم عبدی کنوم العروس یا عبدی ما تصنع بغیری وانت مخوف تجربی و تصنع بی و تنعم لی وتانس لی وانا خیر لک من کل سوائی۔
(اے میرے بندے تو سولیکن عوام کی طرح نہ سو، اے میرے بندے تو دلہن کی طرح سوء اے میرے بندے کیا تو بسر کرتا ہے میرے غیر کے ساتھ ، حالانکہ تو ہمیشہ خوف زدہ رہتا ہے، مجھ سے کام رکھ اور میرا انعام حاصل کر، اور مجھ سے مانوس رہ، اس لئے کہ میں تیرے لئے بہتر ہوں اپنے ہر ما سوا سے ) ۔
پس چاہئے کہ اقوال، افعال اور احوال میں فاعل حقیقی پر قائم رہے اور ہر حال میں اس سے مدد طلب کرے، اور یہ یقین رکھے کہ … لا فاعل فی الوجود الاللہ (اللہ کے سوا کسی فاعل کا وجود ہی نہیں ) اور قرب الہی کے دریا سے ہمیشہ انسیت رکھے، جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَنَحۡنُ أَقۡرَبُ إِلَيۡهِ مِنۡ حَبۡلِ ٱلۡوَرِيدِ وَنَحۡنُ أَقۡرَبُ إِلَيۡهِ مِنكُمۡ وَلَٰكِن لَّا تُبۡصِرُونَ ہم اس کی رگ گردن سے زیادہ قریب ہیں اور ہم تم سے بہت قریب ہیں مگر تم نہیں دیکھتے )
اے عزیز ! طالب کو چاہئے کہ صبح وشام اپنی زبان کو اللہ کے ذکر میں مشغول رکھے اور اپنے دل میں اللہ کے ذکر کے سوا کسی چیز کا گذر ہونے نہ دے اور ہر حرکت و سکنات اللہ ہی کے لئے ہو۔
خواهم که بیخ صحبت اغتیار بر کنم در باغ دل رہا نہ کنم جز نهال دوست
از دل بد ر کنم غم دنیا و آخرت یا خانہ جائے رخت بود یا خیال دوست
میں چاہتا ہوں کہ غیروں کی محبت کی جڑیں اکھاڑ دوں، دل کے باغ میں درخت محبوب کے علاوہ کسی چیز کو رہنے نہ دوں، دل سے دنیا اور آخرت کا غم نکال دوں، خانہ دل میں اسباب رہے یا صرف خیال دوست )
اللہ کے ذکر میں ایسا مستغرق ہو کہ اپنے آپ سے فانی ہو جائے جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا: يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱذۡكُرُواْ ٱللَّهَ ذِكۡرٗا كَثِيرٗا وَسَبِّحُوهُ بُكۡرَةٗ وَأَصِيلًا (اے ایمان والو! اللہ کاذکر بہت زیادہ کرو، صبح و شام اس کی تسبیح کرو)
اے عزیز :طالب کو یہ جاننا چاہئے کہ یا دحق کی تین قسمیں ہیں
، زبان سے یا دل سے یا سر سے ( یاد کرے ) طالب کو چاہئے کہ اپنے تمام اعضاء کو ہر وقت اللہ کے ذکر میں مشغول رکھے، اپنے دل کو اللہ تعالیٰ کی طلب اور احاطہ میں مستغرق رکھے ، اپنی روح کو اللہ تعالیٰ کی تجلیات کے تصور سے روشن کرے اور اپنے سر (راز) کو مذکور کے ساتھ ملا دے تا کہ اپنے اعضاء اور تمام منظورات کے ذکر کو سنے اور ہر رونگٹا زبان ہو جائے اور تمام اشیاء کے ساتھ ذاکر ہو جائے ۔ عنایت الہی سے ذاکر جب اس مقام پر پہنچتا ہے تو وہ خود اللہ تعالیٰ کے ذکر میں فانی ہو جاتا ہے اور بجائے ذاکر وہی مذکور رہ جاتا ہے۔
من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی تا کس نه گوید بعد از میں من دیگرم تو دیگری
میں تو ہوا تو میں ہوا، میں جسم ہوا ، تو جان ہوا کوئی پھر یہ نہ کہےمیں دوسرا ہوں تو دوسرا ہے )
اے عزیز:! طالب کو جاننا چاہئے کہ طالب کس کو کہتے ہیں، طالب اس کو کہتے ہیں جو ان تین مقامات سے مستغنی ہو۔
پہلا مقام یہ ہے کہ الطالب ھو المستغنى عن الدنیا ومافیھا۔ طالب دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے مستغنی ہو جائے ۔
دوسرا مقام یہ ہے کہ الطالب ھو المستغنی عن الدنيا والاخره یعنی طالب علم دنیا اور آخرت دونوں سے بے پرواہ ہو جائے۔
اور تیسر امقام یہ ہے کہ الطالب ھو المستغنی عن ذاتہ یعنی طالب اپنی ذات سے بھی بے نیاز ہو جائے ۔
جیسا کہ سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا الدنیا حرام علی الا خره والا خره حرام علی اھل الدنیا و ھماحرامان علی اھل اللہ تعالی (یعنی دنیا حرام ہے اہل آخرت پر، اور اہل دنیا پرآخرت حرام ہے، اور یہ دونوں حرام ہیں اللہ والوں پر )
اور اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا کہ وَمَن كَانَ يُرِيدُ حَرۡثَ ٱلدُّنۡيَا نُؤۡتِهِۦ مِنۡهَا وَمَا لَهُۥ فِي ٱلۡأٓخِرَةِ مِن نَّصِيبٍ ( جو دنیا کی کھیتی ( نفع ) کا ارادہ کرتا ہے ، ہم اس کو دیتے ہیں مگر آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں )
بیت گر طالب مائی مطلب ہیچ مرادے کز یافتن ماست ترا جملہ مرادے
اگر تو ہم کو چاہتا ہے اور میرا طالب ہے تو اپنی کوئی مرادمت مانگ، اس لئے کہ ہم کو پالینا ہی تیری ساری مراد ہے۔
واذ ابلغ الطالب طلب الحقيقة فهو المطلوب
جب طالب حقیقت کی طلب میں انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو خود مطلوب بن جاتا ہے۔
مشاہدہ کیا ہے
اے عزیز:طالب کو چاہئے کہ اپنے دل کو نور معرفت سے روشن کرے، اپنی بینائی کو حق کے مشاہدہ میں خرچ کرے اور ہمیشہ حق تعالی کے مشاہدہ میں رہے، اور یہ جاننا چاہئے کہ مشاہدہ کیا ہے. المشاهدة رؤية المحبوب فے الحجاب الدقيق وھو المخلوقات کلھا (مشاہدہ بار یک پردہ میں محبوب کا دیدار ہے اور ہار یک پردہ کل مخلوقات ہے ) اور اللہ تعالی نے فرمایا وَكَانَ ٱللَّهُ بِكُلِّ شَيۡءٖ مُّحِيطٗا ( اور اللہ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے ) اور پھر ایسا ہی قول اللہ تعالی کا ہے۔ … وَمَا تَشَآءُونَ إِلَّآ أَن يَشَآءَ ٱللَّهُ رَبُّ ٱلۡعَٰلَمِينَ اور وہ کچھ نہیں چاہتے ہیں ،مگر جو اللہ رب العالمین چاہتا ہے )۔
اے عزیز! طالب کو چاہئے کہ ہمیشہ زہد وتقویٰ اور قناعت میں رہے، اے عزیز تم جانو کہ زہد، تقویٰ اور قناعت کیا ہے الز ھد ھو الترک الدنیا ( زہد دنیا کا ترک کرنا ہے ) جیسا کہ سرور کائنات محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ترک الدنیا ر اس كل عبادة وحب الدنيا ر اس کل خطیة والتقوی ھوالترک ماسوی اللہ والقناعت ھو الخرج عن صفاته ( دنیا کا چھوڑنا ہی ہر عبادت کی جڑ ہے، اور دنیا کی محبت ہر گناہ کی جڑ ہے، اللہ کے سوا تمام چیزوں کو چھوڑ دینا تقویٰ ہے اور اپنی صفات سے نکل آنا قناعت ہے)۔ چنانچہ حدیث قدسی ہے:
من قنع بنا عن غیرنا ؛کنا لہ ومالنا
(جس نے میرے غیر سے علیحدہ ہو کر مجھ پر قناعت کی بنیاد رکھی میں اس کا ہو گیا) اور یہ بھی مشہور ہے کہ من لہ المولی فلہ الکل جس کا مولی ہو گیا اس کا سب ہو گیا )
آنانکہ ہر دو کون بیک جونمی خرند ایشاں دمے زصحبت غیرے کجا رسد
جن کی نظر میں دونوں جہاں کی قیمت جَو برابر بھی نہیں ہے وہ غیر حق کی محبت کا دم کیونکر بھر سکتے ہیں
اے عزیز:طالب کو چاہئے کہ موجودات کے علم میں اپنے کو دانا اوربینا بنائے اور اپنے دل میں کسی چیز کا گذر نہ ہونے دے، کسی چیز کے وجود کوموجود نہ جانے ۔ واجب الوجود کے سوا کسی کا وجود نہیں۔ اس لئے کہ تمام مخلوقات واجب الوجود کی تجلیات سے روشن ہیں اور سب اسی سے قائم ہیں۔
اے عزیز:طالب کو جاننا چاہئے کہ موجود تین ہیں اور بعض چار کہتے ہیں ۔ واجب الوجود ممکن الوجود، جائز الوجود ممتنع الوجود واجب الوجود حق تعالٰی ہے اس لئے کہ اس کی ابتداء اور انتہا نہیں ہے، ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ کل منظورات کو جائز الوجود کہتے ہیں اس لئے کہ اس کی ابتداء وانتہاء ہے اور کل معلومات کو ممکن الوجود کہتے ہیں اس لئے کہ وہ تمام عالم میں ہیں اور شریک خدا کو ممتنع الوجود کہتے ہیں اس لئے کہ حق تعالی کا کوئی شریک اور مثل نہیں ہے۔
اے عزیز ! طالب کو چاہئے کہ اپنے اوقات کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ گزارے ہر دم اور ہر سانس کو یاد حق میں صرف کرے۔ بیت:
انفاس پاس دار اگر مرد عاقلے کا نر اخراج ملک دو عالم بود بہا
پاس انفاس(ذکر خفی جس کی کثرت سے ہر سانس سے ’اللہ‘ کا لفظ جاری ہو جاتا ہے) کی مشق رکھے، اگر عقل والا ہے، کیونکہ اس کی قیمت دونوں جہاں کے خراج کے برابر ہے
اے عزیز:طالب کو چاہئے کہ اپنے ہفت اندام (سات اعضائے بدن،ایک رگ کا نام جو سر، سینہ، پشت، دست وپا تک خون پہچاتی ہے)کو اپنے معبود کی طلب میں بے قرار ر کھے اور دنیا کو اپنے دل میں تلخ کرے، اور اپنی زبان کو غیر کی گفتگو سے پاک رکھے، اپنی روح کو غیر کی محبت سے صاف رکھے اور حق کے ساتھ انسیت رکھے نا کہ مقام محبوبیت میں پہنچے، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے:
فَٱذۡكُرُونِيٓ أَذۡكُرۡكُمۡ ( تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا
اے عزیز:طالب کو جاننا چاہئے کہ جو موجود اصلی ہے کبھی معدوم نہ ہو گا اور جو معدوم اصلی ہے وہ ہرگز موجود نہ ہوگا الموجود موجود دائم لافناء لہ ابدا و المعدوم معدوم دائم لا بقاء لہ ابدا
یعنی جو موجود ہے وہ ہمیشہ موجود ہے اس کو کبھی فنانہیں اور جو معدوم ہے ہمیشہ کے لئے معدوم ہے اس کے لئے بقا نہیں۔
اے عزیز:طالب کو جاننا چاہئے کہ فنا کیا ہے. الفناء ھوالخروج عن ذاتہ حتی یو جدلا فاعل الوجود الا اللہ فاذ ابلغ الطالب طلب الحقيقة في هذه المنزلة فلایبقی الاھو (فنا اپنی ذات سے نکل جانا ہے یہاں تک کہ وہ اس میں معنی تک پہنچ جائے کہ خدا کے سوا کوئی وجود کا فاعل نہیں ہے جب طلب حقیقت کا طالب اس منزل پر پہنچ گیا تو سوائے اس کے کچھ باقی نہ رہا۔
اے عزیز:طالب کو چاہئے کہ وہ خود کومخلوق ، منظور معلوم مرزوق اور مامور سمجھے اور احکم الحاکمین کی مشیت کے حکم پر خوش اور راضی رہے اور اپنی ارادت کو اللہ تعالی کی ارادت اور مرضی کے سپرد کرے اس لئے کہ اللہ کا حکم اور امر مخلوق کے لئے مختلف ہے۔ اس کی قسمت میں کبھی خوشی کبھی حزن، کبھی مرض ، کبھی صحت کبھی تنگی اور کبھی فراخی ہوتی ہے۔ ہر چیز کو ہمیشہ اللہ تعالٰی کی جانب سے سمجھنا چاہئے اور اللہ تعالی کی جانب سے جو کچھ پہنچے اس کو جان سے قبول کرنے ہر حال میں قانع رہے بلکہ خوش رہے یہاں تک کہ اللہ تعالٰی کی محبت اور اس کی قربت حاصل ہو جائے ۔ صابروں اور شاکروں کے درجہ پر پہنچے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے: إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلصَّٰبِرِينَ وَٱللَّهُ يُحِبُّ ٱلصَّٰبِرِينَ ٱعۡمَلُوٓاْ ءَالَ دَاوُۥدَ شُكۡرٗاۚ وَقَلِيلٞ مِّنۡ عِبَادِيَ ٱلشَّكُورُ لَئِن شَكَرۡتُمۡ لَأَزِيدَنَّكُمۡۖ ۔
بے شک اللہ تعالٰی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، اور بے شک اللہ صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور اے آل داؤد ہمارے بندوں میں سے شکر کرنے والے کم لوگ ہیں اگر تم نے شکر کیا البتہ ہم تم کو بڑھائیں گے۔
شکر کے معنی کو اس سے سمجھنا چاہئے کہ تمام نعمتوںکو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق صرف کرے۔ سید جلال الدین علوی کے مکتوب میں لکھا ہے کہ اگر انسان ارادت کو اللہ کی جانب سے سمجھے تو شکر کا مقام ہے وَإِن يَمۡسَسۡكَ ٱللَّهُ بِضُرّٖ فَلَا كَاشِفَ لَهُۥٓ إِلَّا هُوَۖ اگر خدا کی طرف سے کچھ نقصان پہنچا تو اس نقصان کو اللہ کے سوا کوئی دور کرنے والا نہیں ہے۔
اے عزیز:ا جب طالب عنایت الہی سے اللہ تعالی کے جلال و جمال تک پہنچ جاتا ہے تو اس کی آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں اس لئے کہ جلال اس جمال سے مرکب ہے۔ طالب کو چاہئے کہ اپنے کو اللہ تعالی کے جلال کے حوالے کر دے اور اللہ تعالی کے جمال سے منسلک ہو جائے اس کے بعد اللہ تعالی کے فضل سے طالب کے دل پر آفتاب جلالت تاباں ہوگا اس وقت ہر وہ چیز جو غیر اللہ ہے جل جائے گی تصفیہ قلب حاصل ہوگا اور اللہ تعالی کی مدد سے اس عالم کا عکس نظر آنے لگا۔
عشقت به تنم آمدا کنواں چہ کم جان را زیرا که نمی شاید یک ملک دو سلطان را
مجھ کو تیرا عشق ہو گیا، اب میں جان کو کیا کروں ، ایک ملک دوبادشاہ کی حکومت گوارا نہیں کر سکتا
اے عزیز:! طالب کو جاننا چاہئے کہ کھانے پینے کی تین قسمیں ہیں۔
اوّل: “اکل شریعت دوم: اکل طریقت اور سوم : “اکل حقیقت ہے۔
اکل شریعت یہ ہے کہ کھانے والا، روزی دینے والے کی یاد میں کھائے اور اللہ تعالٰی کی عبادت میں زندگی گزارے۔ اکل طریقت یہ ہے کہ کھانے والا اپنی ذات سے کھانے پینے کی حالت میں اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ کرے کیونکہ کسی چیز کے وجود کا امکان اللہ تعالٰی کی ذات سے علیحدہ نہیں۔ اکل حقیقت یہ ہے کہ کھانے والا اور جو چیز کھائی جارہی ہے سب ایک ہی ہے جیسا کہ سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا …. انامن نور الله، والخلق کلھم من نوری … میں اللہ تعالیٰ کے نور سے ہوں اور جملہ مخلوقات میرے نور سے ہے۔
رقصاں شواے قراضه چواصل اصل کافی جویائے ہر چہ ہستی میداں کہ عین آنی
(اے جواہر ریزے خوشی کے مارے ناچ کہ تیری اصلیت اصل کان کی پیدوار ہے اور تو جس چیز کو تلاش کرتا ہے، سمجھ لے کہ تو وہی ہے )۔
اذا ابلغ الطالب طلب الحقيقة فهو المطلوب وفي هذه المنزلة لا موجود الأحو ( جب طالب حقیقت کی طلب میں انتہاء کو پہنچ جاتا ہے تو وہ خود مطلوب بن جاتا ہے اور اس منزل پر پہنچنے کے بعد سوائے اس کے کسی کاوجود باقی نہیں رہتا )۔
اے عزیز:طالب کو چاہئے کہ کلمہ لا الہ الا اللہ میں اپنے کو خدا کے ساتھ اس طرح مشغول رکھے کہ اپنے سے فانی ہو جائے ، جب مقام فنا میں پہنچ جائے گا تو الا اللہ کی بقا حاصل ہوگی۔ ارادت غیبی کو اپنے مرتبہ کے مطابق ظاہر کرے اور اپنے محبوب و مطلوب کو اپنی ذات میں دیکھے۔ چنانچہ اس سے پہلے کہا جا چکا ہے کہ انا من نور اللہ والخلق کلھم من نوری وَفِيٓ أَنفُسِكُمۡۚ أَفَلَا تُبۡصِرُونَ ( میں خدا کے نور سے ہوں اور جملہ مخلوقات میرے نور سے اور ہم تمہارے اندر ہیں اور تم دیکھتے نہیں)
اے عزیز! جب تم نے اللہ کے فضل اور انتہائی مہربانی سے اس دولت کو حاصل کر لیا تو تمہارے سامنے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہ سکتی اذا حصلت علم لا الہ الا الله رایت المحبوب فی ذاتہ واذ ابلغ الطالب بفضل اللہ فی هذه المنزلة لاموجود الاھو… جب تم نے لا الہ الا اللہ کاعلم حاصل کر لیا تو محبوب کو اپنی ذات میں دیکھ لیا اور جب طالب اللہ کے فضل سے اس مرتبہ پر پہنچ گیا تو اللہ کے سوا کسی کو موجود نہیں پاتا )
مومن کی پانچ علامتیں
اے عزیز! تم جانو کہ مومن کس کو کہتے ہیں ۔ المومن لخمس علامات، اولها مرض دائماً وثانيها حزن دائماً وثالثها مظلوم دائماً ورابعها بسط اليدين دائما وخا مسھاذكر الموت على الحياة دائماً (مومن کی پانچ علامتیں ہیں۔ پہلی علامت یہ ہے کہ ہمیشہ کسی مرض میں مبتلا ر ہے ۔ دوسری علامت یہ ہے کہ ہمیشہ حزن کی کیفیت میں رہے۔ تیسری علامت یہ ہے کہ ہمیشہ مظلوم ہو۔ چوتھی علامت یہ ہے کہ اس کا ہاتھ ہمیشہ کھلا ہو یعنی سخی ہو اور پانچویں علامت یہ ہے کہ ہمیشہ زندگی بھر موت کو یاد کرتار ہے) چنانچہ کلام قدسی ہے : لو علم الانسان منزلة عندی بعد الموت یقول فی لمحۃ ولحظة يارب امتنی امتنی اگر انسان کو اس کا علم ہو جائے کہ مرنے کے بعد اس کا مقام میرے نزدیک کیا ہے تو وہ ہر لمحہ اور ہر لحظہ یہی کہے کہ اے رب مجھ کو بلا لے مجھ کو بلالے)
اور یہ بھی کلام قدسی ہے کہ علی المومن ترک الدنیا واجب وحب المولیٰ فرض ( مومن کیلئے دنیا کا ترک واجب ہے اور اللہ کی محبت فرض ہے )۔
اے عزیز! طالب کی ہمت جس وقت غیر اللہ سے منقطع ہو جاتی ہے ، اس وقت اللہ کے ساتھ ایسی وابستگی ہوتی ہے کہ وہ عبداللہ ہو جاتا ہے۔ مومن اس کو کہتے ہیں جس کے ہاتھ اور زبان سے کسی مخلوق کو ناحق تکلیف نہ پہنچے اور حدیث نبوی پر عمل کرے، جیسا کہ اس حدیث شریف میں ہے: التَّعْظِيمُ لِأَمْرِ اللَّهِ، وَالشَّفَقَةُ عَلَى خَلْقِ اللَّهِ اللہ کے احکام کی تعظیم کرنی چاہئے اور اللہ کی مخلوق پر شفقت)
کلام قدسی ہے: بعض عبدی من عبادی من عمل بخوف جھنم و تمتع الجنۃ (میرے بندوں میں سے بعض بندے وہ ہیں جو جہنم کے خوف اور جنت کے شوق میں عبادت کرتے ہیں)
اے عزیز ! طالب کو چاہئے کہ ان سارے کاموں سے جن کو اللہ کی طرف سے منع کیا گیا ہے اس حد تک پر ہیز کرے کہ کسی وقت بھی کوئی قول کوئی عمل اور کوئی حال اللہ کی مرضی کے خلاف صادر نہ ہو اور اللہ کی طرف سے جن کاموں کا حکم دیا گیا ہے اس میں پوری کوشش کے ساتھ لگا ر ہے۔ نماز، روزہ اور وظائف میں ہمیشہ مشغول رہے تا کہ عارفوں کی معراج حاصل ہو جائے ۔ جیسا کہ سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: الصلوة معراج المومنین ( نماز مومن کی معراج ہے)
اے عزیز! طالب کو اس کی واقفیت ہونی چاہئے کہ کون سی نماز مومن کی معراج ہے۔ مومن کو چاہئے کہ دنیا سے وضو کرے۔ عقبی سے غسل کرے۔ اپنے نفس کی قربانی دے اور دریائے فنا میں غوطہ لگائے تا کہ بقا تک پہنچ جائے اس وقت نماز مومن کی معراج ہوگی۔ تکبیر تحریمہ پہلی تکبیر کو کہتے ہیں۔ تحریمہ کے معنی اللہ کے سوا تمام چیزوں کو اپنے اوپر حرام کرنا اے عزیز! طالب کو جاننا چاہئے کہ مومن کے شغل کی تین نوعیت ہے: پہلی عبادت، دوسری عبودیت اور تیسری عبودت۔ عبادت کیا ہے، جس کے عوض میں حور و قصور اور بہشت کی نعمتیں ملیں ، وہ عبادت ہے۔ عبودیت کیا ہے؟ جس کے عوض میں قرب درجات حاصل ہوں،وہ عبودیت ہے۔
عبودت کیا ہے؟ جس کا معاوضہ اللہ تعالٰی کی ذات ہو، وہ عبودت ہے۔
مومن کو چاہئے کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی ذات کا طالب ہو اور محبت کیا ہے؟ اپنی ارادت سے فارغ ہو جانا محبت ہے تا کہ اللہ تعالی کی عنایت اور اس کے فضل سے اللہ کی ذات تک پہنچ جائے ۔
گر مراد خویش خواهی ترک وصل ما بگیر گر مرا خواہی رہا کن آرزوئے خویش را
اگر تم اپنا مقصود چاہتے ہیں تو میرے وصل کا خیال چھوڑ دو اور اگر مجھ کو چاہتے ہو تو اپنی آرزو کو ترک کر دو ۔
اس باب میں یہ حدیث قدسی ہے لکل فداء جزاء وفداء ذاتک ذاتی ( ہر قربانی کا بدلہ ہے اور تیری ذات کی قربانی کا بدلہ میری ذات ہے )
یعنی ہر چیز کا معاوضہ ہے اور تیری ذات کا معاوضہ میری ذات ہے جب تک بندہ اپنی ذات کو فنا نہیں کرتا ذات الہی کا حصول ناممکن ہے جیسا کہ اس جملہ میں حکم ہورہا ہے … دع نفسک و تعال اپنے نفس کو چھوڑ دے اور چلا آ ۔
اے عزیز: طالب کو جاننا چاہئے کہ مراقبہ کی چند قسمیں ہیں ۔ پہلا مراقبہ یہ ہے کہ مومن کو منظور حق ہونا چاہئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: أَلَمۡ يَعۡلَم بِأَنَّ ٱللَّهَ يَرَىٰ ( کیا اس نے نہیں جانا کہ اللہ تعالی دیکھ رہا ہے ) فیہ اشارة الى المراقبة الی اللہ و تعلیم الجبرئیل علیہ السلام اذا قال النبی علیہ السلام بجبرئیل اخبرني عن الاحسان فقال الاحسان ان تعبد اللہ کا نک تراہ فان لم یکن تراہ فانہ براک ھو البصیر العلیم علی کل حال ظاهر او باطنا انه يعلم الجهر و مایخفی سراو جھرا۔ (اس آیات میں اللہ تعالی کی طرف مراقبہ کا اشارہ ہے وہ تعلیم ہے جبرئیل علیہ السلام کی جب سر در کائنات حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے جبرئیل علیہ السلام سے فرمایا کہ مجھ کو خبر دیجئے کہ احسان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کی عبادت اس طرح کی جائے کہ آپ ﷺسے دیکھ رہے ہیں اگر آپ اسے نہیں دیکھ رہے ہیں تو خیال رہے کہ وہ آپ کو دیکھ رہا ہے۔ اللہ تعالی دیکھنے والا جاننے والا ہے ہر حال میں ظاہر ہو یا باطن وہ ظاہر اور پوشیدہ تمام باتوں کو جانتا ہے۔ بندہ کے حرکات ، سکنات ، احوال ، اقوال اور افعال کو اللہ تعالی دیکھتا ہے جیسا کہ خود اللہ رب العزت نے فرمایا: إِنَّ ٱللَّهَ بَصِيرُۢ بِٱلۡعِبَادِ ( بیشک اللہ دیکھتا ہے بندوں کو ) .
دوسرا مراقبہ وَهُوَ ٱللَّهُ فِي ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَفِي ٱلۡأَرۡضِ ہے (یعنی وہی اللہ ہے آسمان اور زمین میں ) سماوات سے دل مراد ہے اور ارض سے قالب یعنی ظاہر و باطن میں خدا ہے ۔
اے عزیز:تم جانو کہ بندہ کے قلب ، قالب ارادت ، قدرت اور علم میں اللہ تعالی محیط ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَكَانَ ٱللَّهُ بِكُلِّ شَيۡءٖ مُّحِيطٗا بیشک اللہ تعالی تمام چیزوں پر محیط ہے
اے عزیز:طالب کو اپنے حکم امر اور ارادہ سے نکل جانا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے مقام تسلیم و تسکین عطا فرمائے… اعلم ان القرآن يوصل العاشق الى المعشوق حتی بری المعشوق من القرآن ( قرآن عاشق کو معشوق سے ملاتا ہے یہاں تک کہ قرآن سے معشوق کو دیکھ لیتا ہے )
اے عزیز: تم جانو کہ قرآن خدا کا کلام ہے اور یہ کتاب سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی تا کہ اس پر عمل کیا جائے آپ نے اس کے ذریعے رسالت کی تبلیغ کی، اللہ تعالیٰ نے محبوب بارگاہ بنالیا، دونوں جہاں کا مقصود بنا لیا عزت کا تاج سر پر رکھا اور ان کے لیے یہ فرمان آیا لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفْلَاكَ ( اگر آپ نہ ہوتے تو ہم نہیں پیدا کرتے آسمانوں کو ) اور لولاک لما ظھرت سر الر بوبیۃ (اگر آپ نہ ہوتے تو ہم نہیں ظاہر کرتے ربوبیت کے اسرار کو ) تم یہ جانو کہ اللہ تعالی کی رضا اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی اتباع قرآن میں ہے۔ قرآن ہادی ہے ہدایت قرآن میں ہے ۔ آج جس نے خود کو قرآن سے آراستہ روشن اور منور نہیں کیا اور اپنے کو اللہ تبارک و تعالی کے لائق نہیں بنایا وہ نا بیناہے اس کا دل سیاہ ہے اور وہ ظالم ہے جو قرآن کو پڑھتا ہے سنتا ہے اور اس کے بعد بھلا دیتا ہے اس کے حق میں دوزخ کی وعید ہے: کہ وَمَنۡ أَعۡرَضَ عَن ذِكۡرِي فَإِنَّ لَهُۥ مَعِيشَةٗ ضَنكٗا وَنَحۡشُرُهُۥ يَوۡمَ ٱلۡقِيَٰمَةِ أَعۡمَىٰ ١٢٤ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرۡتَنِيٓ أَعۡمَىٰ وَقَدۡ كُنتُ بَصِيرٗا قَالَ كَذَٰلِكَ أَتَتۡكَ ءَايَٰتُنَا فَنَسِيتَهَاۖ وَكَذَٰلِكَ ٱلۡيَوۡمَ تُنسَىٰ
جس نے اعراض کیا میرے ذکر سے اس کی گزران تنگ ہو جائے گی اور قیامت کے دن ہم اس کو اندھا اٹھا ئیں گے ، وہ کہے گا اے پر وردگار مجھ کو کیوں اندھا اٹھایا میں تو دیکھنے والا تھا ۔ کہا یوں ہی پہنچی تھیں تجھ کو ہماری آیتیں اور تو نے ان کو بھلا دیا۔ اسی طرح آج تجھ کو بھلا دیں گے)
اے عزیز! طالب کو چاہئے کہ ہمیشہ اللہ تبارک و تعالٰی کے ذکر میں مشغول رہے غیر اللہ کو دل سے نکال دے خلوت اور عزلت مخلوق سے الگ ہو جائے تا کہ ذکر میں استقامت حاصل ہو، نفسانی اور شیطانی خطرات سے چھٹکارا پائے اور دنیوی زندگی کی خواہشوں سے پر ہیز کرے تا کہ اللہ تعالٰی کے ذکر کی لذتیں حاصل ہوں اور اللہ تعالی کی معرفت نصیب ہو۔
اے عزیزا طالب کو جاننا چاہئے کہ ذکر کیا ہے ؟ ملازمت الذکر هو الخروج عن ذکری ماسوی الله (غیر اللہ یعنی اللہ کے سوا تمام چیزوں کے ذکر سے نکل جانا اللہ کے ذکر میں لگے رہنا ہے ) جیسا کہ اللہ تبارک و تعالٰی نے فرمایا وَٱذۡكُر رَّبَّكَ إِذَا نَسِيتَ ( یاد کر اپنے رب کو جب تو بھلا دے اللہ کے سوا سب کو )
اے عزیز:ا تم جانو کہ تو یہ کیا ہے؟ ھو الخروج الی اللہ الی امر الله تعالی و والخروج من ذنوب کلھا اذنب تو بہ اللہ تعالی اور اس کے حکم کی طرف نکلنا ہے اور تمام گناہوں کو چھوڑ دینا ہے۔
اذ اقلت ما اذ نبت قالت محبۃ و جودک ذنب لا يقاس بھا ذنب
جب میں نے کہا میرا کیا گناہ ہے تو محبت نے کہا تیرا و جو د ہی ایسا گناہ ہے جو قیاس نہیں کیا جاسکتا ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ تُوبُوٓاْ إِلَى ٱللَّهِ تَوۡبَةٗ نَّصُوحًا اے ایمان والو تو یہ کرو اللہ کی طرف خالص تو بہ ۔
فرمان خداوندی ہے کہ فَقُلۡتُ ٱسۡتَغۡفِرُواْ رَبَّكُمۡ إِنَّهُۥ كَانَ غَفَّارٗا ( میں نے کہا تم لوگ اپنے پروردگار سے معافی چاہو بیشک وہ بخشنے والا ہے ) اور فرمان نبوی ہے : التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ ( گناہ سے تو بہ کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جس نے گناہ کیا ہی نہیں ) ۔
طالب کو چاہئے کہ گذشتہ گناہوں سے توبہ کی پوری شرائط کے ساتھ تو بہ کرے، گناہوں سے پر ہیز کرے اپنے ہفت اندام کو گناہوں کی آلائش سے پاک رکھے اور ہفت اندام کی نگہبانی و پاسبانی میں لگار ہے جب اللہ تعالٰی کی عنایت سے استقامت حاصل ہو گئی تو اقوال، افعال اور احوال سے جو کچھ صادر ہو گا وہ حسنات ہوگا۔
اے عزیز: تو بہ کی تین قسمیں ہیں ایک تو یہ دوسری انابت اور تیسری ادیت
تم جانو کہ تو بہ کیا ہے؟ اپنے بدن کو دنیوی لذتوں اور گناہوں کی آلائش سے پاک رکھے، اپنی زبان کو غیر اللہ کی باتوں سے پاک رکھے اپنے دل کو خواہشات نفسانی سے صاف رکھے تا کہ اللہ تعالی کی عنایت سے تمام تقصیرات گذشتہ اور تمام گناہ صغیرہ و کبیرہ دھل جائیں اللہ تعالی کی بندگی اور اس کی نیکیوں کی طرف راہ پائے ، مقام علین کی طرف پرواز کرے اور سیروا الی اللہ (اللہ کی طرف سیر کرو) کی نعمت نصیب ہو جائے تم سمجھ لو کہ یہی تو یہ ہے۔
ا نا بت کیا ہے؟
اے عزیز:تم جانتے ہوا نا بت کیا ہے؟ طالب کو چاہئے کہ غائب سے حضوری میں آئے اور ہر حال میں ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی اپنے کو اللہ تعالیٰ کا منظور ، مقدور ، مامور اور مرزوق سمجھے تب خود بینی سے نجات حاصل کی اور مقام فنا میں پہنچا۔ جب طالب مقام فنا میں پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے طالب کے دل میں علم الیقین کا مشاہدہ کراتا ہے ایسی صورت میں طالب اپنی ذات میں اور ان تمام چیزوں میں جو نظر آتی ہیں اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ کرتا ہے اسی کو انا بت کہتے ہیں۔
اے عزیز: تم کو معلوم ہے کہ ادیت کیا ہے؟ طالب کو چاہئے کہ اپنے کو گم کر کے اللہ تعالی میں مل جائے اور جو مرتبہ و مقام اس کو حاصل ہو اس سے گذر جائے۔ اس پر نظر نہ کرے اور بلند تر مرتبہ کا طلب گار رہے تا کہ وہ کسی مقام پر رکے نہیں ۔ سرور کائنات محمد رسول اللہ ﷺ کو ہر روز ستر بار درجہ کی ترقی ہوتی تھی اور سلطان الانبیا سیر سے رکتے نہیں تھے ۔ ہمیشہ بلند سے بلند مقام کی طلب کرتے رہے، اسی طرح طالب کو چاہیے کہ جو مقام اس کو حاصل ہو اس پر قائم نہ رہے اور اسی پر قناعت نہ کرے بلکہ آگے بڑھتا جائے۔ اللہ تعالیٰ کمال ہمت عطا فرمائے تا کہ ذات الہی تک رسائی ہو جائے ۔ یہی ادیت ہے۔
اے عزیز: تم جانتے ہو مجاہدہ کیا ہے؟ المجاہدہ ہوا الغذاء من النفس و الشیطان (نفس اور شیطان سے جہاد کرنا یہی مجاہدہ ہے) طالب کو رات دن اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرنا چاہئے ۔ اور نفس کی کوئی آرزو پوری نہ ہونے دے اس کو نا مراد کر دے تا کہ شیطان کو اس پر دسترس نہ ہو شیطان کو مردود سمجھے نفس کی قید اور شیطان کے وسوسہ سے چھٹکارا پا جائے اللہ تعالیٰ اس پر اخلاص کا دروازہ کھول دے اور اللہ کے ساتھ حضوری نصیب ہو جائے۔ بعضوں نے کہا ہے…. المجاهدة قلة الاكل والشرب والقول والنوم …. کم کھانا کم پینا، کم بولنا او کم سونا مجاہدہ ہے )
اے عزیز: طالب کو غنا اور فقر کی تعریف جاننی چاہئے. الغناء ہو الانقطاع الطمع عن غير الله والفقر ھوالمستغنى عن الله ھوالتجريد والتفر يدعن غیر اللہ ای الخروج منها کما ھو الخروج بالموت والفقر الحقیقی ہوالا رشد الی اللہ (اللہ کے سوا جتنی چیزیں ہیں ان کی لالچ سے دور رہنے کا نام غنا ہے اور فقر اللہ سے مستغنی ہونے کا نام ہے غیر اللہ سے الگ ہو جانا یہی تجرید(ماسوی اللہ سے علیحدگی) و تفرید ( گوشہ نشینی)ہے یعنی اس سے اس طرح نکلنا ہے جیسے موت سے نکلنا ہے اور فقر حقیقی اللہ کی طرف راستہ دکھاتا ہے)
اے عزیز:طالب تمہیں معلوم کہ شب معراج میں جبرئیل علیہ السلام نے سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سے کہا۔ اے اللہ کے رسول میرا مقام اس سے آگے نہیں ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے فقر کو رہبر بنایا۔ یہاں تک کہ مقام قَابَ قَوۡسَيۡنِ أَوۡ أَدۡنَىٰ… تک پہنچا دیا رسول خدا ﷺ نے فرمایا الفقر فخری (فقر میر افخر ہے) رسالہ غوشیہ میں مرقوم ہے کہ اللہ کی جانب سے الہام ہوا یا غوث الاعظم قل لا صحابک و احبابک من اراد منکم صحبتی فعلیه با ختیار الفقر (اے غوث الاعظم اپنے اصحاب و احباب سے کہہ دیجئے کہ جو میرا قرب چاہتے ہیں ان پر لازم ہے کو وہ فقر اختیار کریں)۔
اے عزیز:تم جانتے ہو فقر کیا ہے یہ آشتی در آشتی اور نیاز میں نیاز ہے۔ کمال نیاز کمال بے نیازی میں ہے اور کمال بے نیازی کمال نیاز میں ہے۔
اے عزیز:تم سمجھو کہ آشتی در آشتی کیا ہے۔ طالب کو چاہئے کہ جو درد، رنج ، مصیبت اور بلا اس کو پہنچے سب کو اللہ کی جانب سے سمجھے، دل و جان سے قبول کرے اور خوش رہے تا کہ اللہ کا قرب حاصل ہو۔ یہی آشتی در آشتی ہے۔
اے عزیز! تم جانتے ہو کہ کمال بے نیازی میں کمال نیاز کیا ہے۔
طالب کو چاہئے کہ اپنے نیاز اور مراد ( یعنی اپنی آرزو اور تمنا ) کو مخلوق سےوابستہ نہ کرے تاکہ بندہ کی تمنا و آرزو اللہ تعالی پوری فرمائے۔ کمال بے نیازی میں کمال نیاز یہی ہے۔
اے عزیز:کمال بے نیازی کمال نیاز میں ہے اس کو بھی سمجھ لو۔ یہ مقام حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہے ۔ جس وقت نمرود نے ان کو منجنیق میں رکھ کر آگ میں ڈالا جبریل علیہ السلام کو حکم خداوندی ہوا کہ اے جبرئیل ابراہیم کے پاس جاؤ۔ وہ آئے اور کہا یا ابراهیم ھل لک حاجتہ … اے ابراہیم کوئی حاجت ہے؟ حضرت ابراہیم نے جواب دیا اما الیک فلا۔ حاجت ہے لیکن تم سے نہیں۔ جبرئیل علیہ السلام نے پھر کہا۔ خدا سے طلب کیجئے ۔ حضرت ابراہیم نے فرمایا حسبی من سوالی علمہ بحالی میری حاجت اللہ تعالیٰ پر ظاہر ہے اور اس کو میرے حال کی خبر ہے اس لئے کہ وہ دانا اور بینا ہے۔ اس کے بعد آگ کو حکم ہوا۔ يَٰنَارُ كُونِي بَرۡدٗا وَسَلَٰمًا عَلَىٰٓ إِبۡرَٰهِيمَ (اے آگ ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا ابراہیم پر )
بعضوں نے کہا ہے کہ…. جس وقت حضرت ابراہیم کے چاروں طرف آگ شعلہ زن تھی اس وقت ان کی زبان پر یہی آخری کلمہ تھا حسبی الله نعم الوکیل نعم المولى ونعم النصیر (کافی ہے مجھے اللہ جو بہتر وکیل ہے، اچھا مولی ہے اور بہتر مددگار ہے ) کمال نیاز میں کمال بے نیازی یہی ہے.
اے عزیز:تم کو معلوم ہونا چاہئے کہ مومن کون ہے؟ مومن کے تین درجے ہیں، جیسا کہ سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا المومن ملوک الجنة والمؤمن انیس الرحمن ايضا المومن خواص الرحمن مومن کے مرتبہ اول المومن ملوک الجنة سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے دنیوی لذت، شہرت اور زندگی کو اپنے دل پر تلخ کر لیا ہو بہشت ایسے ہی لوگوں کی آرزو کرتی ہے، المومن ملوک الجنة یہی ہے۔
مومن کے مرتہ دوم المؤمن انیس الرحمن سے وہ لوگ مراد ہیں جن کی زبان اللہ تعالیٰ کے ذکر میں لگی ہو، ان کے ہفت اندام اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری میں مشغول ہوں اور ان کے دل میں اللہ تعالی کی محبت ہو، المؤمن انیس الرحمن یہی ہے۔
المومن خواص الرحمن ان کو کہتے ہیں جن کا جسم جسم والوں کے ساتھ ، روح روح والوں کے ساتھ اور ان کا سر (راز ) اللہ تعالیٰ کے ساتھ دریائے وحدت میں مسرور ہو ۔ المومن خواص الرحمن یہی ہے ۔
المومن خواص الرحمن کی دوسری تو جہیہ اس طرح بھی کی گئی ہے کہ اس کا جسم اور دل ظاہری طور پر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی پیروی میں مشغول ہو اس کی روح تحصیل کمالات میں ہو یعنی دریائے وحدت میں مستغرق رہے اور اس کا سر ( راز ) ذات والی کے مشاہدہ سے خوش ہو۔
اے عزیز:اس کا نام اتباع رسول ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا: الشَّرِيعَةَ أَقْوَالِي، وَالطَّرِيقَةَ أَفْعَالِي، وَالْحَقِيقَةَ أَحْوَالِي… (میر اقول شریعت ہے، میرا عمل طریقت ہے اور میرا حال حقیقت ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب