اسرار العارفين و سير الطالبين
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ اَمَّا بَعْدُ فقراء کے گھرویران ہو گئے ہیں اوران کے شہروں کی بنیادیں ہل گئی ہیں۔ فقراء رحلت کرگئے ۔ا وربھلائے جا چکے ہیں اب تونقال اور بہروپئے بہت پیدا ہو گئے ہیں جوغیبت اور جھوٹ، دنیا کی طلب اور فریب ونفاق ، بغض و کدورت اور خیانت و کینہ ،حسد و تکبراور غصہ وحرص ریاکاری اوردشمنی وعداوت مال و دولت کی خواہش اورسلاطین و امراء کی صحبت اورحرام خوری میں مشغول ہیں اور یہ وہ مشاغل ہیں کہ جن سے دل حقیقی مردہ ہوجاتا ہے۔
ایسے اشخاص کی تو شہادت بھی قابل قبول نہیں ہوتی توپھران کی پیروی کرنا اوران سے خلف(خلافت) و تبلیغ کی سند حاصل کر ناکس طرح جائز اور روا ہو سکتے ہیں؟ ۔
لہذا میں نے چاہا کہ ایک کتاب میں سالکین اور فقراء اور عارفین کے علم کی باتیں تحریرکردوں (تاکہ لوگ اس سے رشد و ہدایت پا سکیں اور صحیح تعلیمات زیاد سے زیادہ اشخاص تک پہنچ سکیں) پس اس خواہش کے تحت میں نے یہ کتاب تصنیف کرنے کا عزم کرلیا اورقلم کوجننش دی ۔
میں اس کتاب کا نام اسرار العارفین وسیرالطالبین رکھتا ہوں اور خداوندکریم سے اس کتاب کو مکمل کرنے کی توفیق کا سوالی ہوں جس طرح کہ اس سے اپنے فضل کرم اس کتاب کا موضوع اور نام عطا کیا ہےاورمدد نہیں ملتی مگر صرف اللہ تعالی کی طرف سے اور وہی کل باتوں پرقادر ہے اور اس بات پربھی کہ وہ اس کتاب کو حسب پسند بناکرقبول فرمائے ۔
(شیخ الشیوخ )ابو حفص شہاب الدین عمر سہروردی
سیر ۃ نمبر1:۔ قرب خدا کا راستہ
بندے کو اس وقت تک حق تعالی کا قرب اور تقدس (اخلاص)حاصل نہیں ہوتا جب تک وہ مخلوق سے دوری اختیارنہیں کرتاکیونکہ لوگوں کا قرب بندے کواللہ تعالی کے ذکر و عبادت اور اطاعت سے نیزکل کائنات پر اللہ جل جلالہ کی بادشاہت واختیار اور قدرت اورملکوت کے بارے میں غورو فکر سے باز رکھتا ہے۔
پس خداوندکریم کاقرب حاصل کرنے کیلئے بجزاس کے اورکوئی صورت نہیں ہے کہ مخلوق سے دوری اختیار کی جائے جس طرح کہ سلطان کا قرب غیر سلطان سے الگ ہوئے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا اسی طرح بندے کو مولی کا قرب غیرمولی سے دوری اور علیحدگی اختیار کئے بغیر صحیح طور پر ممکن نہیں ہے۔
سیر ۃ نمبر2:۔صفات شیخ
شیخ وہ ہوتا ہے جس کی ذات تقدس(اخلاص) حاصل کر چکی ہوجسکی غیر پسندیدہ صفات فناوصفات حمیدہ بقا پا چکی ہوں ۔
کسی شخص کوا گربعض کرا متیں میسر آبھی جائیں تو بھی وہ اس وقت تک مسندمشیخت (بزرگی)پر متمکن ہونے کا اہل نہیں جب تک اس میں وہ صلاحیت نہ پیدا ہوجا ئے جس سے کہ کاملین دوسروں کی رہنمائی کرتے ہیں ایسا شخص تو خوداس بات کا محتاج ہے کہ اسکی اصلاح و تربیت کی جائے اور مرشد کامل اس کو معرفت و طریقت سکھائے ۔
حضرت شیخ ابوالغیث یمنی رحمۃ اللہ علیہ نے ایساہی ارشاد فرمایا ہے ۔
سیر ۃ نمبر3:۔طریق فقراء
جس نےصوف اورجبہ پہنا اس نے لذیذ اور مرغن غذا نہ کھائی۔ وہ بادشاہوں سے اور اہل دنیا سے میل جول نہیں رکھتا جس نے ایسا نہیں کیا اس نےنبیوں اوراہل سلوک کے لباس کا حق ادا نہیں کیا بلکہ اس میں خیانت اختیار کی ۔
سیر ۃ نمبر4:۔تاثیر صحبت
فقیرکے لئے بادشاہوں اور سلاطین سے میل جول حلال نہیں ہے کیونکہ ان کی صحبت سے فقیر کا دل مردہ ہوجاتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ سے روایت ہے کہ بادشاہوں کی صحبت فتنہ ہوتی ہے اور ان کا کھانا فقیروں کے لئے ایک ایسازہرقاتل ہوتا ہے جس کا کوئی تریاق نہیں۔
آنحضرت ﷺ کا ہی ارشادگرامی ہے کہ علم سے معرفت میسر آتی ہے اور ظالم کا چہرہ دیکھنے سے قلب سیاہ ہو جاتا ہے اورمعرفت حاصل نہیں ہوتی۔
روایت ہے کہ حضرت ابوالحسن نوری رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ جس طرح ایک بدکارتاثیر صحبت سے نیکو کاربن جاتا ہے اسی طرح نیکو کار بھی بد کاروں کی صحبت سے بدکار بن جاتا ہے اور جو بھی اس مسئلے کا انکار کرتا ہے وہ جھوٹا گمراہ اور بے ایمان ہے کہ حدیث شریف کا انکار کرتا ہے ۔ کیونکہ حضرت رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے- الصُّحبة مؤثّرة (صحبت اثر کرتی ہے)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ارشادفرمایا ہے کہ صالحین کی صحبت اہل عالم کے لئےنو راور رحمت ہے۔
سیر ۃ نمبر5:۔دائمی ذکر اللہ
سالک کوچا ہے کہ وہ ذکراللہ میں کثرت سے مشغول رہے تا آنکہ اس کے جسم کے بالوں میں سے ہر ایک بال زبان بن جائے (یعنی ہرایک بال بھی ذکر اللہ میں مشغول ہوجائے)
سیر ۃ نمبر6:۔ثمرہ بیعت و ریاضت
ارادت کاثمرہ ہے کہ ایک طالب ہدایت بیعت کے بعد ریاضت نفس اور راہ سلوک پر گامزن ہوکر خود کو اہل دنیا،امیروں، بادشاہوں اورہوائے نفس سے دور رکھتا ہے ۔
سیر ۃ نمبر7:۔ فضولیات سے پرہیز
مبتدی مرید کو چاہئیے کہ وہ تمام فضول باتوں مثلا فضول نظر فضول کام فضول کھانے پینے اور جملہ صغیرہ وکبیرہ گناہوں سےبچتار ہے۔
سیر ۃ نمبر8:۔قلت کلام
روایت ہے کہ حضرت ابو بکرشبلی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا ۔ طالب مولا اورخصوصا مرید کوچا ہئیے کہ وہ بغیرحاحبت کلام نہ کرے۔
سیر ۃ نمبر9:۔ شکر و منت شیخ
جب مر یدخلوت اور عزلت سے فارغ ہوکرباہر نکلے تو اپنے شیخ محترم کےقدم مبارک پرشکرومنت کے طریق پر اپنا سر رکھ دے (کیونکہ حضرت شیخ کے قدموں کی برکت سے ہی اس کویہ سعادت ملی کہ اس نے وہ خلوت وعزلت مکمل کر لی اورفیوض و برکات عالیہ سے بہرہ ور ہوا)
بعض فقہا نے کہا ہے کہ ایسے فعل سے کافر ہو جاتا ہے لیکن ان فقہا میں سے اکثر اس تکفیر کے بعد اس بات کے قائل ہو گئے کہ یہ فعل یعنی( سجدہ شکر) تحیت یعنی دعا وسلام ہے نہ کہ عبادت کیوں کہ شیخ مرید کو گمراہ کرنے والا نہیں ہوتا ۔
نوٹ:۔ اس نکتہ کی وضاحت کے لئے کہ شیخ کامل کی توجہ اگرشامل حال نہ ہو تومنتہی مرید بھی فیوض و برکات عالیہ سے بے بہرہ رہتا ہے۔ ایک مستند اقتباس ملاحظہ ہوحضرت عبد الرحمن جامی رحمۃ اللہ علیہ نفحات الانس میں ناقل ہیں شیخ نجم الدین کبری ولی تراش رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب فاتح الجمال میں رقم طراز ہیں جب میں شیخ عماریاسر رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچا اوران کے حکم سے خلوت میں بیٹھا تومیری طبعیت میں یہ گمان گذراکہ میں نے علوم ظاہری بھی پڑھے ہیں لہذا جب مجھے غیبی فتوحات حاصل ہوں گی تو میں منبر پر چڑھ کر ان کو طالبان حق کو سناؤں گا۔ چنانچہ جب میں اس نیت سے خلوت میں آیا تو خلوت کا پورا ہونا میسر نہ ہوا تب میں باہرنکل آیا حضرت شیخ نے مجھ سے ارشاد فرمایا پہلے دل کی نیت درست کرپھر خلوت کر نیز آپنے اپنے نورباطن کا پرتومیرے دل پرچمکا تو میں نے اپنی کتابوں کو وقف کر دیا اور کپڑے فقرا کو دیدیئے ۔ صرف ایک جبہ جوکہ پہنا ہوا تھا وہ رہنے دیا اور دل میں کہا کہ یہ خلوت خانہ میری قبر ہے اور کفن کے اس جبہ کو دوبارہ باہرآ ناممکن نہیں ہوگا نیز میں نے قصد کیا کہ اگر باہر نکلنے کی خو اہش غالب ہونےلگی تومیں اس جبہ کو ہی پھاڑدوں گا تاکہ ستر باقی نہ رہے اورحیا باہر نکلنے سے مانع ہوجائے اسی لمحہ حضرت شیخ نے میری جانب دیکھا اور ارشاد فرمایا اب آکے تو نے اپنی نیت درست کر لی ہے پس جب میں خلوت میں بیٹھا تو وہ پوری ہوگئی اور حضرت شیخ کی توجہ کی برکت سے فتوحات کے دروازے مجھ پر کھل گئے۔ )
سیر ۃ نمبر10:۔ اصل طریقت
درویشی در اصل دنیا سے پرہیز کر نے کا ہی نام ہے جیساکہ حضرت رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا ہے۔ حُبُّ الدُّنْيَا رَأْسُ كُلِّ خَطِيئَةٍوفتنة وبلية دنیا کی محبت تمام خطاؤں اور فتنوں اور بلاؤں کی جڑ ہے)
سیر ۃ نمبر11:۔ذکر ومراقبہ
جو مرید کہ درویش طبع ہوتا ہے وہ بقدر حاجت حصول روزی کر کے ذکر الہی میں مشغول ہوجاتا ہے۔ وہ لوگوں میں بیٹھنا پسند نہیں کرتا اور مراقب ہوجاتا ہے۔ مراقبہ کے معنی مغیبات جیسے عالم ملکوت وغیرہ میں نظرکرنا ہے اور بعض حضرات کا قول ہے کہ مراقبہ ہرلمحہ و ہرلحظہ غیب کے ملاحظہ کے لئے روحانی سیر ہے۔
سیر ۃ نمبر12:۔خلوت کا ثمرہ
خلوت لوگوں سے میل جول کا ترک کرنا ہے خواہ درویش بظاہران کے درمیان ہی رہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ خلوت اس بات کا نام ہے کہ دل ذکراللہ کے سوا باقی تمام اذکار سے خالی ہوجائے اوربعض نے اس بارے میں فرمایا ہے کہ ذکر سے انس پیدا ہو جائے تویہی مراقبہ ہے۔
خلوت کی مدت چالیس یوم ہے جیساکہ حضرت رسول اللہ ﷺکا ارشادگرامی ہے۔
مَنْ أَخْلَصَ لِلَّهِ الْعِبَادَةَ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ظَهَرَتْ يَنَابِيعُ الْحِكْمَةِ مِنْ قَلْبِهِ عَلَى لِسَانِهِ
جوکوئی چالیس دن تک اللہ کی طرف خلوص دل سے متوجہ رہے توحکمت کے چشمے اس کے دل سے پھوٹ کر اس کی زبان پر آجاتے ہیں ۔
سیر ۃ نمبر 13:۔عزلت
عزلت یہ ہے کہ تو اہل زمانہ سے دور ہوجائے ، طمع و نفس کی برائیوں اور اس کی شہوتوں کو ترک کر کے پرہیزگاری اختیارکرلے۔
سیر ۃ نمبر 14:۔قلب مرده
اہل دنیا اور مالدارلوگوں کی صحبت سے قلب مردہ ہوجاتا ہے نعوذ باللہ منہا( اللہ پاک اس سے اپنی پناہ میں رکھے) اور جب مومن کا قلب مر جاتا ہے تو وہ سنگ وخشت بن جاتا ہے پس پھردہ جو چاہتا ہے کہنے لگ جاتا ہے (یعنی فضول اور لایعنی باتیں کہنے لگتا ہے )
سیر ۃ نمبر 15:۔طلب د نیاوطلب حق برعکس فعل ہیں
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ کرم اللہ وجہ سےروایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا جب تم کسی کو دیکھو کہ و ہ لوگوں میں میل جول رکھتا ہے اور دنیا کا طالب ہے اور خدا کی طلب بھی کرتا ہے تو جان لو کہ وہ زندیق اور مردود ہے اور دنیا کےچوروں میں سے ایک چور ہے۔
سیر ۃ نمبر 16:۔طالب خدا
حضرت ابویزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ آپنے ارشادفرمایا:۔ طالب دنیا طالب خدانہیں ہوتا اور اہل سلوک اس طریق طلب خدامیں سالکوں سے پیار و محبت رکھتے ہیں نہ کہ ا ہل دنیا سے۔
سیر ۃ نمبر 17:۔اتباع سنت
جو شیخ کہ مذہب اہل سنت و جماعت کے قانون پر نہ ہو اور اسکی حرکات و سکنات کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ ﷺ کے موافق نہ ہوں تو وہ دین کے چوروں اور ڈاکوؤں میں سے ہے۔
سیر ۃ نمبر 18:۔ فقراء کا مالداری کا معیار
حضرت علی کرم اللہ وجہ سے روایت ہےکہ آپنے ارشاد فرمایا کہ لوگوں میں بدترین اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا وہ شخص ہوتا ہے جو دنیا کا غم کھاتا ہو۔ پوچھا گیا کہ دنیا دارکون ہوتا ہے؟
اپنے ارشاد فرمایا :۔جوبھی ایک شبانہ روز کی قوت (خوراک) سے زیادہ طلب کرے وہ مالدار ہے نہ کہ فقیر یہی وجہ ہے کہ حضرت ام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے ہر اس شخص پر صدقہ فطر واجب قراردیا ہے جس کے پاس ایک دن رات کی قوت (خوراک) سے زیادہ ہو۔
سیر ۃ نمبر 19:۔ اقسام قلب
حضرت علی کرم اللہ وجہ سے روایت ہے کہ اپنے ارشاد فرمایا ۔ قل تین قسم کے ہوتے ہیں۔ قلب سلیم ،قلب منیب اورقلب شہید
قلب سلیم وہ ہے کہ اس میں معرفت خدا کے سوا کچھ اور نہ ہو۔
قلب منیب وہ ہے جو مخلوق کو دیکھ کر خالق کی طرف راجع ہوتا ہے ۔
قلب شہید وہ ہے کہ اللہ تعالی وتقدس کوہر چیز میں مشاہدہ کرتا ہے ۔
سیر ۃ نمبر 20:۔شیخ عارف و دانا ہوتا ہے ۔
شیخ کو لازم ہے کہ مرید کے احوال سے عارف ودانا ہو تاکہ وہ حسب حال مرید کونصیحت اوراس کی رہنمائی کر سکے اور جو ایسا نہیں ہے تو وہ گمراہ ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنیوالا ہے۔
سیر ۃ نمبر 21:۔ دنیا مردار ہے
مرید کو یہ امر زیب نہیں دیتا کہ اس کے قلب میں ذرہ بھر بھی حب دنیا باقی ہوکیوں کہ دنیا مردار ہے پس اس کا ایک ذرہ بھی خون کے قطر کی مانند ہے کہ جب وہ پانی میں گرجائے تو تمام پانی فاسد و نا پاک ہو جاتا ہے ۔
سیر ۃ نمبر 22:۔زہر قاتل
مشائخ طریقت نے ارشادفرمایا ہے کہ دولتمندوں کی صحبت فقیر کے لئے ایسا زہرقاتل ہے کہ جس کی کوئی دوانہیں حاصل کلام یہ ہے کہ اہل دنیا سے ہر ممکن طریقے پر پرہیز لازم ہے کیونکہ دنیاکی محبت نے لوگوں کے دلوں میں گھر بنا لیا ہے (پس ان کی صحبت سے ضررعظیم پہنچے گا)
سیر ۃ نمبر 23:۔مشائخ کرام کا معیار
حضرت ذوالنون مصری رحمتہ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ آپنے ارشاد فرمایا:۔
جس نے بھی ایک رات اس طرح گزار لی کہ اس کے دل میں کسی مسلمان کی طرف سے کینہ و کدورت قائم رہا تو اس کا نام فقراء کے دیوان سے مٹادیاجاتا ہے بعض محققین کا ارشادہے کہ ان کے مذہب میں کدورت اس بات کا نام ہے کہ بے احترام کسی مسلمان بھائی کا نام لیا جائے ۔
سیر ۃ نمبر 24:۔ خاص نکتہ
اے طالب صادق جان لوکہ جب تم خودکو دنیا میں پڑا ہوا دیکھو اورتم دنیاوی جاه ورفعت اور قدرومنزلت کے دلداہ ہوجاؤ اور لوگوں کے لطف وکرم کے اسیر ہوجاؤ تو تم کو اپنے نفس کی اس حالت پر روناچا ہیئے کیو نکہ فقر تو در حقیقت حب دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا نام ہے ۔
سیر ۃ نمبر 25:۔ فقیر اور مالدار
تمام مذاہب میں در ویش کے لئے اہل دنیا سے اختلاط کرنا اور بادشاہوں اور سلطانوں کے دروازے پر جانا حلال نہیں ہے حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی ارشاد فرمایا ہے۔
وہ بدترین در ویش ہے کہ جو کہ مالدار کے دروازے پر آتا ہے اورنیک ترین دولتمند وہ ہے جو درویش کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے ۔
روایت ہے کہ عراق کا بادشاہ تین سال تک مریض رہا۔ اس نے حضرت شیخ سہل بن عبد اللہ تستری رحمتہ اللہ علیہ کو بہ عجز وانکسارطلب کیا تاکہ وہ اس کے لئے دعا کریں اور اس پر اپنی شفقت اور شفاء کی نظرمبذول فرمائیں چنانچہ ان کی شفقت کی نظر اور دعا کی برکت سے بادشاہ نے شفا پائی حضرت شیخ سہل بن عبداللہ تستری رحمتہ اللہ علیہ جب اپنی قیام گاہ پر واپس تشریف لائے تو تین سال تک عزلت نشین رہے۔(گو یا آپنے بادشاہ سے صرف ایک ملاقات کرنے کا یہ کفار اداکیا۔ حالانکہ یہ ملاقات بھی اپنے کسی مقصد کے لئے نہیں کی تھی بلکہ صرف بادشاہ کی شفا یابی کی دعا اور اور نظر کرم کے لئے تھی)
سیر ۃ نمبر 26:۔ نجات کا راستہ
جو شخص کہ ہمیشہ دنیا میں مشغول رہتا ہے وہ ہمیشہ ہی حق سبحانہ وتعالی سے دور رہتا ہے کیونکہ دنیا میں مشغول ہوجانا ایک بہت بڑا حجاب ہے اور اہل دنیا سے نجات پانے کا راستہ یہی ہے کہ اللہ تعالے کے ذکر وعبارت کو اختیار کیا جائے ۔
سیر ۃ نمبر 27:۔ سالکین و عارفین کا پہلا قدم
سالکون اور عارفوں کی راہ میں پہلا قدم ہی یہ ہے کہ علائق دنیا سے بالکل قطع تعلق کرلیا جائے جبسیاکہ حضرت رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا ہے :۔
طالب الدنيا لا يكون طالب المولى طالب دنیامولا کریم کاطالب نہیں ہوسکتا۔
اکثر اہل سلوک سے منقول ہے کہ اگر انہیں کس کو کبھی کوئی مہم یا کوئی اور عظیم پیش آتا تووہ گدڑی یا کملی پہن لیتے اور گردن یا پاؤں میں یا سر پرزنجیرڈ ال کر حق سبحانہ و تعالی کے حضور مناجبات کرتے جو فورا قبول ہوتی اور یہ امرجان لو کہ زنجیر یارسی گلے یا پاؤں میں ڈالنا ایک مستحسن فعل ہے اور حضرت داؤدعلی نبینا وعلیہ الصلواۃ والسلام کی سنت ہے مراد انتہائی درجہ تواضع و انکسار، محتاجی انتہائی تنظیم اور رقت قلب کے سوا اور کچھ نہیں
مندرجہ بالا بیان کی تائید میں یہ ہے کہ بعض تابعین رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے کسی نے روایت کی ہے کہ میں نے امیرالمومنین حضرت عمر بن الخطاب رضی تعالی عنہ کو دیکھا کہ ان کی پشت مبارک پر دُرّوں کے نشانات تھے۔ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گیا اور بیان کیا کہ میں نے حضرت امیر المومنین کو دیکھا کہ ان کی پشت مبارک پر دُرّوں کے نشانات ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں ارشاد فرمایا:۔
سبحان اللہ! وہ کون ہے جو حضرت امیرالمومنین درہ مار سکے ۔ حضرت روزانہ خلوت میں جاتے ہیں اور اس وقت اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہیں اورجمعہ کی رات کو حضرت دُرّہ لے کر اپنے نفس مارتے اور فرماتے کہ تو نے ایسا کیا اور تو نے ویسا کیا۔
والحمد للہ على الاختتام وعلى رسولہ الصلوة والسلام